"افسانوی مجموعہ "بے رنگ پیوند
"افسانوی مجموعہ "بے رنگ پیوند
Mar 16, 2018
دیدبان شمارہ -۷
"سلمی جیلانی کا افسانوی مجموعہ "بے رنگ پیوند"
نسترن احسن فتیحی
سلمی جیلانی اردو افسانے کا معتبر نام ہے اردو دنیا میں یہ شناخت مسلسل ریاضت اور غوروفکر کی دین ہے۔ سلمی جیلانی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز نظموں کے ترجمے سے کیا جس میں رومی اور بہت سے کنٹمپریری شاعر اور شاعرات شامل ہیں - وطن سے دور اپنی تہذیب اور اپنوں سے جو فاصلے بن گۓ تھے اس کا ازالہ انہوں نے اس طرح کیا اور وہ ادب سی گہرائی سے جڑتی چلی گئیں . ترجمے کے ساتھ ساتھ کچ نظمیں لخنے لگیں لیکن بہت جلد احساس ہوا کہ وہ افسانہ کے ذریعے زیادہ بہتر طریقے سے معاشرےکے مسائل کو سامنے لا سکتی ہیں اس طرح وہ افسانے کی طرف آگئیں ۔ ان کے افسانے ثالث (مونگیر ہندوستان)، فنون (پاکستان)، شاعر(ہندوستان)، ادبیکا (پاکستان)، اجراء (پاکستان) کے علاوہ کئ اہم ادبی جریدوں میں شايع ہوے ہیں۔ ترجمے اور غیر عروضی نظمیں وہ شروع سے کہتی رہی ہیں ..چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ "اُردو اَفسانے سے مجھے جو تعلقِ خاص ہے اس کا سبب اِس کے سوا اورکچھ نہیں ہے کہ میں اَپنے تخلیقی وجود کو اِس باکمال صنف سے ہم آہنگ پاتی ہوں یہ اسی تعلق کا فیضان ہے کہ میں اَفسانے کی تخلیقی فضا میں رہتے ہوئے زندگی کی تفہیم کے جتن کرتی رہتی ہوں۔"
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب انہوں نے افسانے لکھنے شروع کیے تو ان کی ان تحریروں کو وہ توجہ اور پزیرائی ملی جو شاید ہی ان کے کسی ہم عصر کے حصہ میں آئی ہوگی۔ اس تخلیقی سفر کے دوران ‘ان افسانوں کے موضوعات کی وسعت و تنوع اور اسلوب کی رنگا رنگی نے صف اوّل کے افسانہ نگار پیغام آفاقی اور مشرف عالم ذوقی کو متاثر کیا‘ وہیں ان کے معاصرین بھی ان کی تخلیقات سے صرف نظر نہ کر سکے۔ ان کے علاوہ ‘ فرخ ندیم ‘ نعیم بیگ جیسے بالغ النظر ادیب اور نقاد ان کے فن پر بات کرنے والوں میں شامل ہیں۔ پیغام آفاقی نے کہا کہ سلمی جیلانی کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر قدرت رکھتی ہیں۔ان کا مشاہدہ گہرا اور تیز ہے ‘ وہ زندگی کو کسی شاہراہ سے نہیں بلکہ اس کی پگڈنڈیوں سے گزر کر دیکھنے کی عادی ہیں۔ اس طرح کہ زندگی کا بھر پور ابلاغ ان کی کہانیوں سے ہوجاتا ہے۔ان کی کہانیوں میں عہد موجود کی معاشرتی ‘ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے نقوش بڑے واضح اور اتنے نمایاں ہیں کہ ان سے لمحہ رواں کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ نعيم بیگ کو ان کے یہاں بیان کی سادگی‘خلوص اور خیالات کی یک گونہ ندرت نے متوجہ کیا۔ ان کی کہانیاں عصری زندگی کے مصائب کا احاطہ کرتی ہیں۔
ان کی کہانی ” عشق پیچا ں“ اس کی روشن مثال ہے-"عشق پیچاں یعنی انگلش آئی وی کی ننھی سی کونپل کو سامنے لگے ہوئے پام کے درخت پر سر اٹھاتے دیکھا تو میں نے کیاریوں کی صفائی کرتے ہوئے ناگواری سے اسے کاٹنے کے لئے قینچی بڑھائی - "ہفتہ دو ہفتے تک نہ دیکھو تو خود رو پودوں سے سارا باغیچہ جنگل بن جاتا ہے اچھے پودوں کوتو بڑھنے نہیں دیتے، پچھلے سال جو درخت لگایے تھے وہ ابھی تک وہیں کے وہیں تھے اور یہ جھاڑیاں ہیں کہ ........" چبھتی ہوئی دھوپ میں ان پودوں کی دیکھ بھال اور بھی کھل رہی تھی لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا ایک تو مالی رکھنے کی سکت نہ تھی اور نہ ہی میری صفائی پسند طبیعت اس بات کی اجازت دیتی کہ گھر کے سامنے کا حصہ جھاڑ جھنکاڑ سے بھر جانے دوں --- اسی دوران، ننھے امرود کے پودے کے آس پاس لگی جھاڑیوں کو صاف کرنے میں مگن ہو گئی -- اس کی آبیاری میرے لئے بہت اہم تھی ،آخر اس کے پھل کے ذائقے سے اپنے وطن کی یادیں جو جڑی تھیں ،---- عشق پیچاں کی بیل کی طرف سے میرا دھیان ہٹ چکا تھا –"
ا س افسانے کی قرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عصری افسانہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بعض اہل دانش کے نزدیک معدوم ہو چکی ہے تو بعض اہل نظر اسے معاصرادبی منظر نامے پر ابھر نے والے سب سے زیادہ نمایاں اور متحرک تصویر تسلیم کرتے ہیں۔ سلمی جیلانی کا افسانہ” عشق پیچاں “ اردو کی چند تخلیقات میں سے ایک ہے جس میں ماحولیاتی مادریت کی بھر پورعکاسی ملتی ہے ۔ سلمی جیلانی نے اس افسانے میں کیا کیا ہنر دکھائے ہیں۔ فکر انگیز جملے ’ دلچسپ واقعات‘ سیدھی سا دی سی پچیدگیاں، ایجاز و اختصار، زبان کا برملا اوربے دریغ استعمال افسانے کو پر کشش بناتی ہے۔"ہفتہ دو ہفتے تک نہ دیکھو تو خود رو پودوں سے سارا باغیچہ جنگل بن جاتا ہے۔ اچھے پودوں کوتو بڑھنے نہیں دیتے، پچھلے سال جو درخت لگایے تھے وہ ابھی تک وہیں کے وہیں تھے اور یہ جھاڑیاں ہیں کہ ............ بھاگم بھاگ سامنے آکر جو دیکھا -پام کا درخت--- بمع عشق پیچاں کی بیل کے زمین پر اوندھا پڑا تھا تنا بیچ میں سے ٹوٹ چکا تھا صاف ظاہر تھا کہ بیل کا بوجھ نہ سہار سکا اور زمین پر آ رہا تھا.......اب انہیں کیا یاد دلاتی کہ گئے دنوں میں جب بڑے گملے میں لگی ہوئی رات کی رانی کو بچوں نے کرکٹ کی بال مار کر توڑ دیا تو اس رات وہ میرے خواب میں آی تھی ، پھر یہاں ہجرت کے وقت اسے اپنی دوست انیلہ کے گھر زمین میں لگوا آی تھی ، جیسے وہ ہمارا کوئی بچہ ہو جسے یہاںلانے کی اجازت نہ ملی ہو ، بعد میں اس کی خیر خبر بھی پوچھا کرتی تھی تو انیلہ کہتی " ہاں-- وہ تمہاری بیٹی رات کی رانی بھی ٹھیک ہے، چاندنی رات میں خوب خوشبو مہکاتی ہے تو تمہاری یاد بہت آتی ہے۔__________کوئی ایک ماہ بعد کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے پام کے ٹنڈ منڈ تنے پر نظر جماتے ہوئے میں نے سوچا "بے چارہ --- اس کی جڑیں اب بھی زمین چھوڑنے کو تیار نہیں--- اسے معلوم ہی نہیں کہ اس میں اب کبھی شاخیں نہیں پھوٹیں گی ، کیا درخت بھی خود کو دھوکہ دیتے ہیں؟ --- میں نے خود سے سوال کیا -- جواب--- --- اندر—بالکل خاموشی تھی -- ---ایک اور بم دھماکہ --- پاکستانی چینل پر خبر آ رہی تھی --میری کچھ سمجھ میں نہ آیا، سامنے میز پر پڑا ریموٹ اٹھا یا اور چینل بدل دیا "۔یہ اور اس طرح کی کہانیاں عہد موجود کا نوحہ ہیں۔
سلمی جیلانی کی کہانیوں کا مجموعہ سامنے آچکا ہے ۔ وہ مسلسل لکھ رہی ہیں اور ان کی کہانیاں ادبی جریدوں میں تواتر سے شائع ہو رہی ہیں۔”بے رنگ پیوند “ ان کے افسانوں کااولین مجموعہ ہے جو 2017میں شائع ہوا اور اس میں کل سترہ افسانے،تین مختصر افسانے، پانچ مایکرو فکشن، چھ نینو فکشن شامل ہیں ۔” عشق پیچاں “ ، ” چاند چھونے کی خواہش “ اور " تاریک راہوں میں" میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتی ہیں‘وہاں”لی شوی کی گلیوں میں “ اور” منجمد سسکیاں“ میں وہ ہمیں باطن کے شہر کی سیر کراتی اور غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتی ہیں۔ اپنے پہلے ہی مجموعے میں جہاں افسانہ نگار نے متنوع موضوعات اور اسالیب کو برتنے کی کوشش کی تھی‘وہاں بظاہرسادہ بیانیے کو توڑے بغیر متن کی ساخت کے اندر قدرے بڑے اور گہرے معنیاتی سلسلے کو رکھ دینے کا التزام بھی کیا تھا۔اس کی عمدہ مثال” باد فنا“ہے ۔ ” پندرہ منٹ کا تیوہار “ اور”بے رنگ پیوند" اس مجموعے کی بہترین کہانیاں ہیں۔ ان میں تیکنیک اور موضوع کی پیچیدگی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ کہانیا ں ہمیں افسانہ نگار کے اگلے سفر کی نوید دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کے مکالمات کا طریق کار اور بیانیہ کا بہاﺅ دونوں مختلف محسوس ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سلمی جیلانی کو استعاراتی تفاعل کا ہنر آتا ہے ۔وہ معنیاتی انسلاکات پر قدرت رکھتی ہیں اور علامتی مفاہیم کا فن بھی جانتی ہیں۔ اسی میں ان کی انفرادیت کا راز پوشیدہ ہے۔ ان کا تخلیقی سفر دراصل ایک ذہنی اور روحانی سفر ہے جو مختلف سمتوں میں پھیل کر خود اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے۔ چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ میں پورے افسانے کو اپنے اندر بننے دیتی ہوں ‘ پھر اس کو اس کی جزئیات سمیت کاغذ پر منتقل کرتی ہوں ۔ ان کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی ہے ‘ نئی معنیاتی وسعتیں اور نئے امکانات کے دریچے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔خود ان کے الفاظ میں حقیقت کلی ہو یا تخلیقیت کا بھید دونوں عقلِ محض کا علاقہ نہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی کہانیوں میں شعری عناصر فکشن کے متن میں منقلب ہوتے رہے ہیں ۔ بعد کے افسانوں میں علامتی تہ داری کے باوجود بیانیہ فکشن کے آہنگ کو لے کر چلتا ہے۔ ان کے افسانوں میں کہانی محض واقعہ کی سطح پر نہیں رہتی ‘علامت بن جاتی ہے ۔ افسانے کو علامت کا منصب عطاکرنے والے عناصر کا بیشتر حصہ سلمی جیلانی کے ہاں لوک داستانوں‘ اساطیر‘ مذہبی حکایات‘ مجموعی انسانی تجربے ‘گہری بصیرت اور مظاہر فطرت سے کشید ہوتاہے۔ سلمی جیلانی کے نظریہ ءفن کا اثر اُن کے تصور اسلوب پر بھی پڑا ہے۔ گبن اور فلابیر نے لکھنے والے کے لیے اسلوب کو اس کی شخصیت کا عکس قرار دیا سلمی جیلانی کہتی ہیں کہ بے شک تخلیقی عمل کا رِشتہ براہ راست ذَات کی دریافت کے ساتھ جڑا ہوا ہے مگر خیال رہے کہ دریافت شدہ ذات کا یہ رخ‘ زندگی کے ہنگاموں میں مصروف فرد کی مکمل شخصیت کوسامنے نہیں لاتابلکہ وہ اسی قدر روشن ہوپاتا ہے جتنا کہ وہ شخص خلوص سے اس کو دریافت کرتا ہے۔ سلمی جیلانی نے اپنے افسانوں میں زبان و بیان کے کئی تجربے کیے ہیں۔ مگر یہ تجربے مسلط نہیں کیے گئے بلکہ یہ سب کچھ کہانی کے بہاﺅ سے برآمد ہوتے رہے ہبں۔ ان کے یہاں کہانی کا تصور اپنی زبان اور ٹریٹمنٹ کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ سلمی جیلانی ایک ہی انداز اور ایک ہی اسلوب میں ہر موضوع کو نہیں برتتیں ‘بلکہ موضوع اور ماحول بدلنے سے نہ صرف زبان تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ جملوں کی ساخت بھی بدل جاتی ہے ۔ جن افسانوں میں انہوں نے مقامی طور ر بولی جانے والی زبان‘ اور اس کے مخصوص الفاظ‘اصطلاحات اور محاوروں سے کام لیا ہے وہاں وہ ایسی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو گئ ہیں جس کے بغیر یہ خاص کہانی حقیقی آب و رنگ سے محروم رہتی۔ ان کے افسانوں میں زبان کا استعمال کہانی کی جزئیات سے اس طرح پیوست رہتا ہے کہ قاری خود کو اس منظر نامے کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔"بے رنگ پیوند" کے افسانوں کے انتخاب اور ترتیب میں بھی ایک ہنر نظر آتا ہے۔اوّل مسئلہ افسانوں کے انتخاب اور پھر ان کی ترتیب کا تھا۔ آپ اگر چاہیں تو اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم سلمی جیلانی نے شعوری طور پر یہ کوشش ضرور کی ہے کہ یہ انتخاب جہاں تک ممکن ہوبہ حیثیت افسانہ نگار سلمی جیلانی کا نمائندہ انتخاب ہو۔ انتخاب کو ممکنہ حد تک جامع بنانے کے لیے ‘جہاں انھوں نے سترہ افسانے منتخب کیے ہیں‘ وہیں ان کی بعض وہ کہانیاں بھی شامل انتخاب کی گئی ہیں جنھیں وہ مختصر افسانے، مایکرو فکشن ،اور نینو فکشن کی اصطلاح استعمال کی ہے تاہم یہ سب کہانیاں لائق توجہ ضرور ہیں۔ ان کے پھلے افسانوی مجموے کی اگر کوئی کمی ہے تو وہ اس کی تزئین و ترتیب کی ہے ،جو کسی نہ کسی وجہ سے نظر انداز ہو ئی ،مگر ہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور یہ ان کی آخری کتب نہیں یقینا ماضی قریب میں ان کی دوسری اہم کتابیں منظرام پر آئینگی .اب کچھ گفتگو ان افسانوں کے بارے میں تاکہ ایک طرف تو ان کے انتخاب میں شامل کرنے کا کسی حد تک جواز فراہم ہو سکے ‘ تو دوسری طرف ان افسانوں کی تفہیم کی راہ بھی ہموار ہو سکے ۔ افسانوں کے بارے میں میری رائے حتمی نہیں ہے ۔ اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے جو ہر قاری کا حق ہے۔
دیدبان شمارہ -۷
"سلمی جیلانی کا افسانوی مجموعہ "بے رنگ پیوند"
نسترن احسن فتیحی
سلمی جیلانی اردو افسانے کا معتبر نام ہے اردو دنیا میں یہ شناخت مسلسل ریاضت اور غوروفکر کی دین ہے۔ سلمی جیلانی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز نظموں کے ترجمے سے کیا جس میں رومی اور بہت سے کنٹمپریری شاعر اور شاعرات شامل ہیں - وطن سے دور اپنی تہذیب اور اپنوں سے جو فاصلے بن گۓ تھے اس کا ازالہ انہوں نے اس طرح کیا اور وہ ادب سی گہرائی سے جڑتی چلی گئیں . ترجمے کے ساتھ ساتھ کچ نظمیں لخنے لگیں لیکن بہت جلد احساس ہوا کہ وہ افسانہ کے ذریعے زیادہ بہتر طریقے سے معاشرےکے مسائل کو سامنے لا سکتی ہیں اس طرح وہ افسانے کی طرف آگئیں ۔ ان کے افسانے ثالث (مونگیر ہندوستان)، فنون (پاکستان)، شاعر(ہندوستان)، ادبیکا (پاکستان)، اجراء (پاکستان) کے علاوہ کئ اہم ادبی جریدوں میں شايع ہوے ہیں۔ ترجمے اور غیر عروضی نظمیں وہ شروع سے کہتی رہی ہیں ..چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ "اُردو اَفسانے سے مجھے جو تعلقِ خاص ہے اس کا سبب اِس کے سوا اورکچھ نہیں ہے کہ میں اَپنے تخلیقی وجود کو اِس باکمال صنف سے ہم آہنگ پاتی ہوں یہ اسی تعلق کا فیضان ہے کہ میں اَفسانے کی تخلیقی فضا میں رہتے ہوئے زندگی کی تفہیم کے جتن کرتی رہتی ہوں۔"
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب انہوں نے افسانے لکھنے شروع کیے تو ان کی ان تحریروں کو وہ توجہ اور پزیرائی ملی جو شاید ہی ان کے کسی ہم عصر کے حصہ میں آئی ہوگی۔ اس تخلیقی سفر کے دوران ‘ان افسانوں کے موضوعات کی وسعت و تنوع اور اسلوب کی رنگا رنگی نے صف اوّل کے افسانہ نگار پیغام آفاقی اور مشرف عالم ذوقی کو متاثر کیا‘ وہیں ان کے معاصرین بھی ان کی تخلیقات سے صرف نظر نہ کر سکے۔ ان کے علاوہ ‘ فرخ ندیم ‘ نعیم بیگ جیسے بالغ النظر ادیب اور نقاد ان کے فن پر بات کرنے والوں میں شامل ہیں۔ پیغام آفاقی نے کہا کہ سلمی جیلانی کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر قدرت رکھتی ہیں۔ان کا مشاہدہ گہرا اور تیز ہے ‘ وہ زندگی کو کسی شاہراہ سے نہیں بلکہ اس کی پگڈنڈیوں سے گزر کر دیکھنے کی عادی ہیں۔ اس طرح کہ زندگی کا بھر پور ابلاغ ان کی کہانیوں سے ہوجاتا ہے۔ان کی کہانیوں میں عہد موجود کی معاشرتی ‘ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے نقوش بڑے واضح اور اتنے نمایاں ہیں کہ ان سے لمحہ رواں کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ نعيم بیگ کو ان کے یہاں بیان کی سادگی‘خلوص اور خیالات کی یک گونہ ندرت نے متوجہ کیا۔ ان کی کہانیاں عصری زندگی کے مصائب کا احاطہ کرتی ہیں۔
ان کی کہانی ” عشق پیچا ں“ اس کی روشن مثال ہے-"عشق پیچاں یعنی انگلش آئی وی کی ننھی سی کونپل کو سامنے لگے ہوئے پام کے درخت پر سر اٹھاتے دیکھا تو میں نے کیاریوں کی صفائی کرتے ہوئے ناگواری سے اسے کاٹنے کے لئے قینچی بڑھائی - "ہفتہ دو ہفتے تک نہ دیکھو تو خود رو پودوں سے سارا باغیچہ جنگل بن جاتا ہے اچھے پودوں کوتو بڑھنے نہیں دیتے، پچھلے سال جو درخت لگایے تھے وہ ابھی تک وہیں کے وہیں تھے اور یہ جھاڑیاں ہیں کہ ........" چبھتی ہوئی دھوپ میں ان پودوں کی دیکھ بھال اور بھی کھل رہی تھی لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا ایک تو مالی رکھنے کی سکت نہ تھی اور نہ ہی میری صفائی پسند طبیعت اس بات کی اجازت دیتی کہ گھر کے سامنے کا حصہ جھاڑ جھنکاڑ سے بھر جانے دوں --- اسی دوران، ننھے امرود کے پودے کے آس پاس لگی جھاڑیوں کو صاف کرنے میں مگن ہو گئی -- اس کی آبیاری میرے لئے بہت اہم تھی ،آخر اس کے پھل کے ذائقے سے اپنے وطن کی یادیں جو جڑی تھیں ،---- عشق پیچاں کی بیل کی طرف سے میرا دھیان ہٹ چکا تھا –"
ا س افسانے کی قرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عصری افسانہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بعض اہل دانش کے نزدیک معدوم ہو چکی ہے تو بعض اہل نظر اسے معاصرادبی منظر نامے پر ابھر نے والے سب سے زیادہ نمایاں اور متحرک تصویر تسلیم کرتے ہیں۔ سلمی جیلانی کا افسانہ” عشق پیچاں “ اردو کی چند تخلیقات میں سے ایک ہے جس میں ماحولیاتی مادریت کی بھر پورعکاسی ملتی ہے ۔ سلمی جیلانی نے اس افسانے میں کیا کیا ہنر دکھائے ہیں۔ فکر انگیز جملے ’ دلچسپ واقعات‘ سیدھی سا دی سی پچیدگیاں، ایجاز و اختصار، زبان کا برملا اوربے دریغ استعمال افسانے کو پر کشش بناتی ہے۔"ہفتہ دو ہفتے تک نہ دیکھو تو خود رو پودوں سے سارا باغیچہ جنگل بن جاتا ہے۔ اچھے پودوں کوتو بڑھنے نہیں دیتے، پچھلے سال جو درخت لگایے تھے وہ ابھی تک وہیں کے وہیں تھے اور یہ جھاڑیاں ہیں کہ ............ بھاگم بھاگ سامنے آکر جو دیکھا -پام کا درخت--- بمع عشق پیچاں کی بیل کے زمین پر اوندھا پڑا تھا تنا بیچ میں سے ٹوٹ چکا تھا صاف ظاہر تھا کہ بیل کا بوجھ نہ سہار سکا اور زمین پر آ رہا تھا.......اب انہیں کیا یاد دلاتی کہ گئے دنوں میں جب بڑے گملے میں لگی ہوئی رات کی رانی کو بچوں نے کرکٹ کی بال مار کر توڑ دیا تو اس رات وہ میرے خواب میں آی تھی ، پھر یہاں ہجرت کے وقت اسے اپنی دوست انیلہ کے گھر زمین میں لگوا آی تھی ، جیسے وہ ہمارا کوئی بچہ ہو جسے یہاںلانے کی اجازت نہ ملی ہو ، بعد میں اس کی خیر خبر بھی پوچھا کرتی تھی تو انیلہ کہتی " ہاں-- وہ تمہاری بیٹی رات کی رانی بھی ٹھیک ہے، چاندنی رات میں خوب خوشبو مہکاتی ہے تو تمہاری یاد بہت آتی ہے۔__________کوئی ایک ماہ بعد کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے پام کے ٹنڈ منڈ تنے پر نظر جماتے ہوئے میں نے سوچا "بے چارہ --- اس کی جڑیں اب بھی زمین چھوڑنے کو تیار نہیں--- اسے معلوم ہی نہیں کہ اس میں اب کبھی شاخیں نہیں پھوٹیں گی ، کیا درخت بھی خود کو دھوکہ دیتے ہیں؟ --- میں نے خود سے سوال کیا -- جواب--- --- اندر—بالکل خاموشی تھی -- ---ایک اور بم دھماکہ --- پاکستانی چینل پر خبر آ رہی تھی --میری کچھ سمجھ میں نہ آیا، سامنے میز پر پڑا ریموٹ اٹھا یا اور چینل بدل دیا "۔یہ اور اس طرح کی کہانیاں عہد موجود کا نوحہ ہیں۔
سلمی جیلانی کی کہانیوں کا مجموعہ سامنے آچکا ہے ۔ وہ مسلسل لکھ رہی ہیں اور ان کی کہانیاں ادبی جریدوں میں تواتر سے شائع ہو رہی ہیں۔”بے رنگ پیوند “ ان کے افسانوں کااولین مجموعہ ہے جو 2017میں شائع ہوا اور اس میں کل سترہ افسانے،تین مختصر افسانے، پانچ مایکرو فکشن، چھ نینو فکشن شامل ہیں ۔” عشق پیچاں “ ، ” چاند چھونے کی خواہش “ اور " تاریک راہوں میں" میں جہاں وہ حقیقت نگاری کے اسلوب کو فنی مہارت کے ساتھ برتتی ہیں‘وہاں”لی شوی کی گلیوں میں “ اور” منجمد سسکیاں“ میں وہ ہمیں باطن کے شہر کی سیر کراتی اور غیر مرئی وجود کا تماشائی بناتی ہیں۔ اپنے پہلے ہی مجموعے میں جہاں افسانہ نگار نے متنوع موضوعات اور اسالیب کو برتنے کی کوشش کی تھی‘وہاں بظاہرسادہ بیانیے کو توڑے بغیر متن کی ساخت کے اندر قدرے بڑے اور گہرے معنیاتی سلسلے کو رکھ دینے کا التزام بھی کیا تھا۔اس کی عمدہ مثال” باد فنا“ہے ۔ ” پندرہ منٹ کا تیوہار “ اور”بے رنگ پیوند" اس مجموعے کی بہترین کہانیاں ہیں۔ ان میں تیکنیک اور موضوع کی پیچیدگی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ کہانیا ں ہمیں افسانہ نگار کے اگلے سفر کی نوید دیتی ہیں۔ ان کہانیوں کے مکالمات کا طریق کار اور بیانیہ کا بہاﺅ دونوں مختلف محسوس ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سلمی جیلانی کو استعاراتی تفاعل کا ہنر آتا ہے ۔وہ معنیاتی انسلاکات پر قدرت رکھتی ہیں اور علامتی مفاہیم کا فن بھی جانتی ہیں۔ اسی میں ان کی انفرادیت کا راز پوشیدہ ہے۔ ان کا تخلیقی سفر دراصل ایک ذہنی اور روحانی سفر ہے جو مختلف سمتوں میں پھیل کر خود اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے۔ چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ میں پورے افسانے کو اپنے اندر بننے دیتی ہوں ‘ پھر اس کو اس کی جزئیات سمیت کاغذ پر منتقل کرتی ہوں ۔ ان کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی ہے ‘ نئی معنیاتی وسعتیں اور نئے امکانات کے دریچے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔خود ان کے الفاظ میں حقیقت کلی ہو یا تخلیقیت کا بھید دونوں عقلِ محض کا علاقہ نہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدائی کہانیوں میں شعری عناصر فکشن کے متن میں منقلب ہوتے رہے ہیں ۔ بعد کے افسانوں میں علامتی تہ داری کے باوجود بیانیہ فکشن کے آہنگ کو لے کر چلتا ہے۔ ان کے افسانوں میں کہانی محض واقعہ کی سطح پر نہیں رہتی ‘علامت بن جاتی ہے ۔ افسانے کو علامت کا منصب عطاکرنے والے عناصر کا بیشتر حصہ سلمی جیلانی کے ہاں لوک داستانوں‘ اساطیر‘ مذہبی حکایات‘ مجموعی انسانی تجربے ‘گہری بصیرت اور مظاہر فطرت سے کشید ہوتاہے۔ سلمی جیلانی کے نظریہ ءفن کا اثر اُن کے تصور اسلوب پر بھی پڑا ہے۔ گبن اور فلابیر نے لکھنے والے کے لیے اسلوب کو اس کی شخصیت کا عکس قرار دیا سلمی جیلانی کہتی ہیں کہ بے شک تخلیقی عمل کا رِشتہ براہ راست ذَات کی دریافت کے ساتھ جڑا ہوا ہے مگر خیال رہے کہ دریافت شدہ ذات کا یہ رخ‘ زندگی کے ہنگاموں میں مصروف فرد کی مکمل شخصیت کوسامنے نہیں لاتابلکہ وہ اسی قدر روشن ہوپاتا ہے جتنا کہ وہ شخص خلوص سے اس کو دریافت کرتا ہے۔ سلمی جیلانی نے اپنے افسانوں میں زبان و بیان کے کئی تجربے کیے ہیں۔ مگر یہ تجربے مسلط نہیں کیے گئے بلکہ یہ سب کچھ کہانی کے بہاﺅ سے برآمد ہوتے رہے ہبں۔ ان کے یہاں کہانی کا تصور اپنی زبان اور ٹریٹمنٹ کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ سلمی جیلانی ایک ہی انداز اور ایک ہی اسلوب میں ہر موضوع کو نہیں برتتیں ‘بلکہ موضوع اور ماحول بدلنے سے نہ صرف زبان تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ جملوں کی ساخت بھی بدل جاتی ہے ۔ جن افسانوں میں انہوں نے مقامی طور ر بولی جانے والی زبان‘ اور اس کے مخصوص الفاظ‘اصطلاحات اور محاوروں سے کام لیا ہے وہاں وہ ایسی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو گئ ہیں جس کے بغیر یہ خاص کہانی حقیقی آب و رنگ سے محروم رہتی۔ ان کے افسانوں میں زبان کا استعمال کہانی کی جزئیات سے اس طرح پیوست رہتا ہے کہ قاری خود کو اس منظر نامے کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔"بے رنگ پیوند" کے افسانوں کے انتخاب اور ترتیب میں بھی ایک ہنر نظر آتا ہے۔اوّل مسئلہ افسانوں کے انتخاب اور پھر ان کی ترتیب کا تھا۔ آپ اگر چاہیں تو اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم سلمی جیلانی نے شعوری طور پر یہ کوشش ضرور کی ہے کہ یہ انتخاب جہاں تک ممکن ہوبہ حیثیت افسانہ نگار سلمی جیلانی کا نمائندہ انتخاب ہو۔ انتخاب کو ممکنہ حد تک جامع بنانے کے لیے ‘جہاں انھوں نے سترہ افسانے منتخب کیے ہیں‘ وہیں ان کی بعض وہ کہانیاں بھی شامل انتخاب کی گئی ہیں جنھیں وہ مختصر افسانے، مایکرو فکشن ،اور نینو فکشن کی اصطلاح استعمال کی ہے تاہم یہ سب کہانیاں لائق توجہ ضرور ہیں۔ ان کے پھلے افسانوی مجموے کی اگر کوئی کمی ہے تو وہ اس کی تزئین و ترتیب کی ہے ،جو کسی نہ کسی وجہ سے نظر انداز ہو ئی ،مگر ہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور یہ ان کی آخری کتب نہیں یقینا ماضی قریب میں ان کی دوسری اہم کتابیں منظرام پر آئینگی .اب کچھ گفتگو ان افسانوں کے بارے میں تاکہ ایک طرف تو ان کے انتخاب میں شامل کرنے کا کسی حد تک جواز فراہم ہو سکے ‘ تو دوسری طرف ان افسانوں کی تفہیم کی راہ بھی ہموار ہو سکے ۔ افسانوں کے بارے میں میری رائے حتمی نہیں ہے ۔ اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے جو ہر قاری کا حق ہے۔