صلح

صلح

Mar 12, 2018

ہندی ادب سے انتخاب

مصنف

ترجمہ: عامر صدیقی

شمارہ

شمارہ -٧

دیدبان شمارہ۔


صلح

دیوی نانگرانی

ترجمہ /عامر صدیقی

(ہندی ادب سے انتخاب)

۔۔۔

آج اس نے دل کی کرنے کی ٹھان لی۔ بس بہت ہو گیا، ہر بار پیارمحبت کی چکنی چپڑی باتوں سے بہلا پھسلاکر، اسے مستقبل کے سہانے خواب دکھاکر اسے صلح کرنے پر مجبور کر دیتا تھا منجیت۔لیکن آخر کب تک؟

ماں تھی وہ،وہ امیرزادہ ہوا تو چہ معنی دارد؟ وہ اپنوں سے دور ہوئی تو کیا ہوا؟ کیا قریب یا دور رہنے سے رشتوں کے مطالب بدل جاتے ہیں؟ اسی الجھن بھری کشمکش سے گذرتے ہوئے وہ،رات بھر کروٹ بدلتے بدلتے خود سے پوچھے ہر سوال کا جواب طلب کرتی رہتی۔

راہول اسکی پہلوٹھی کی اولاد، سات مہینے کا ہونے کو آیا تھااور ابھی تک اسے وہ اپنی ماں سے نہیں ملوا پائی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھاکہ اب وہ کسی بھی حال میں نوکری نہیں کرے گی۔ اپنے بچّے کی پرورش و دیکھ بھال خود کرے گی، دوسری صورت میں وہ بدیس چھوڑ کر اپنے ملک ہندوستان لوٹ جائے گی ، جہاں کی مٹّی اسے اپنی آغوش میں لینے کی منتظر تھی۔

۔۔۔

اسی نگوڑی نوکری کیلئے وہ اپنے ننھے بچّے کو صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک ’’بے بی ڈے کیئر‘‘میں چھوڑ دیتی ہے، جہاں اسکی دیکھ بھال کی مد میں ہفتے کے تین سو ڈالرکی خطیرادائیگی کر رہی ہے۔ باوجود اسکے پیر سے جمعہ سے تک ہر روزبڑے لگے بندھے اصولوں کے تحت ساڑھے سات بجے تمام دن کیلئے ضروری اشیاء یعنی کھانا، جوس، کھلونے، تبدیل کرنے کیلئے کپڑے، سبھی کچھ ایک باسکٹ میں بھرکر کار میں رکھنے کے بعد وہ خود تیار ہوکر پھر بچّے کوبڑے دکھ سے اٹھاتی۔ ممتا چاہتی کہ بچّہ کچھ پل اور سو لے، لیکن مجبوری کا احساس کرتے ہوئے بچّے کو اٹھاکر جیسے تیسے صاف کرکے تیار کرتی، موسم کی مناسبت سے کپڑے پہناتی، پاؤڈر وغیرہ لگاکر کپڑے بدلتی، ایک بوتل دودھ کی لیکر اسے کار سیٹ میں بٹھاتی۔ گرمی ہو یا سردی، برسات ہو یا برفباری۔ یہ سلسلہ پچھلے تین مہینوں سے جاری ہے۔ تین مہینے تو ’’میٹرنٹی لیو‘‘ رہی، چارمہینے سے دونوں میاں بیوی نے صبح شام کی مل بانٹ کر ذمے داری لے لی۔ ایک صبح یہ کام سنبھالتا تو دوسرا رات کی ڈیوٹی سر انجام دیتا۔ اور اسی جاگنے اور سونے کی کشمکش نے دونوں اکثر سوالوں جوابوں کی قطار میں الجھے رہتے۔

اپنی نادانی پر شرمندہ ہوتے ہوئے وہ محسوس کرتی کہ پندرہ سو ڈالر کماتے ہوئے بھی وہ اپنے ادھورے پن کے احساس کوخود سے الگ نہیں کر پا رہی ہے۔ نہ مکمل طریقے سے ماں بن پائی ہے اور نہ ہی ایک اچھّی استاد۔سبب اسکا اپنابٹوارا،اپنے بچّے اورطلباء بچّوں کے بیچ۔ ایک اسکول میں ٹیچر تھی وہ۔

بچّے کو گود میں اٹھاکرڈے کیئر پہنچتے ہی،اندر جاکر، انچارج کے ہاتھوں میں اپنا بچہ سپرد کرتی اور ساتھ میں اسکے ضرورت کے سبھی سامان اسے دیتے ہوئے بچّے کا بوسہ لیکر اپنے کام پر چلی جاتی۔ لیکن اسکا دل وہیں کہیں، بچّے کے آس پاس منڈراتا رہتا، بھٹکتا رہتا۔ شام چھ بجے لوٹتے وقت بھی یہی سلسلہ، بچّے کو لینا، اسکے سامان کو سمیٹنا، سنبھال کر اٹھانا، کبھی بچہ سویا ہوتا، تو کبھی بیدار، کبھی ہنستا تو کبھی روتا ہوا۔ ان سبھی مشکلات سے اسے اکیلے ہی نپٹناپڑتا۔ اب یہ سلسلے وار اور منظم دستور العمل اسے ناگوار سا گذرنے لگاتھا۔ ماں کی ممتا امنڈتی تو تھی، پر وہ اپنا پیار چھلکائے تو کس پر؟ تمام دن بچّہ اوروں کے حوالے اور دوسروں کے بچّے اسکے سپرد۔ اسکول کے بچّوں کو پڑھاتے اسکی آنکھوں کے سامنے اپنا بیٹا راہول آجاتا۔ کبھی ڈے کیئر کے جھولے میں بسورتا ہوا، کبھی روتاہوا، کبھی بلکتاہوا۔ وہ بس سوچتی رہتی، کیا سولہ ننھی معصوم جانوں کوصرف دو عورتیں سنبھال پاتی ہونگی؟ انھیں چھاتی سے لگاکر، لوری گاکر سلا پاتی ہونگی؟ یہ ممکنات سے نہیں تھا۔

ایڈمشن لینے کے بعد،ڈی کیئر کے اصولوں و قواعد کے مطابق ،پہلے تین دن ماں یا باپ کا بچّے کے ساتھ رہنا لازمی تھا، تاکہ بچہ ماں کے آنچل یا باپ کی آغوش میں رہتے ہوئے اسکول کے اجنبی لمس کو پہچان سکے۔

یقیناً مادھوری کا اپنا وقت جیسے سمٹنے لگا۔ ایک گھنٹا پہلے اور ایک گھنٹا آفس کے بعد، ڈے کیئر سے گھر آنے جانے میں لگتا۔ گھر پہنچتے ہی پہلے کچن جاتی، سبزی، چاول یا چپاتی بناتی، پھر بچّے کو گرم پانی سے نہلاتی، پاؤڈر لگاکر صاف ستھرے کپڑے پہناتی، تب کہیں جاکر وہ پلنگ پر بیٹھ کر اسے گود میں اٹھاکر، اپنے دودھ کے بجائے بوتل کا دودھ پلاتے ہوئے اسے دیکھ دیکھ کر مسکرانے کی ناکام کوشش کرتی۔

جب بچّہ پیدا ہوا، تین ماہ وہ گھر میں تھی، خوش تھی۔ بچّے کے ساتھ وقت گذارتے ، اپنی ممتا لٹانے اور اسکی دیکھ بھال کرتے ہوئے مسرور و فرداں ہوتی، پر جب سے کام پر لوٹنے کے دن آئے، ہنسی تو جیسے اسے الوداع کہہ گئی۔کبھی کبھی اسکا دل باغی بن جاتا۔ کیوں بچّے کی پرورش میں، اسکی دیکھ بھال کرنے میں، فقط ماں کا حصہ ہو؟ کیا باپ کا حصہ صرف اسکی ولدیت اور نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ماں کی کوکھ میں پنپنے والی نازک کونپل کو پیار سے سینچنا کیا فقط ماں کا فرض ہے؟ کیا باپ صرف گھر کا مالک ہوتا ہے، وہ جو چاہے کرے، جو فیصلہ کرے وہی حکم بن جائے۔

اسی سوچ کی بنیادپر پہلے بھی کئی بار ان دونوں میں بحث و تکرارہوئی ہے۔ مادھوری اپنے شوہر منجیت سے ہمیشہ ہی ہار جاتی، بس تھکی ہاری ہوئی ایک شریکِ حیات، ایک ماں بھرہوکر رہ جاتی۔

’’ تم نوکری چھوڑوگی تو یہ گاڑی کیسے چلے گی؟ گھر کا کرایہ، دو گاڑیوں کا پریمیم، ہیلتھ انشرنس کا پریمیم، بچّے کاتین سو ڈالر ملاکر لگ بھگ سات آٹھ سو ڈالر کے اخراجات ہیں۔ کم سے کم اسکے بعد سات سو ڈالر تو بچتے تو ہیں۔ اگر یہ آمدنی نہ ہوگی تو کیا ایک کی کمائی سے اس گھر کی گاڑی چل پائیگی؟ تین لوگوں کا گذارہ ہو پائیگا؟‘‘

’’پر میں ایسی بٹی ہوئی زندگی کب تک گزاروں گی منجیت؟‘‘ مادھوری غصے میں پوچھ بیٹھتی۔

’’ کیا مطلب! میں کچھ بھی نہیں کرتا؟ تمھاری طرح صبح ساڑھے آٹھ بجے گھر سے نکلتا ہوں اور رات کونو بجے گھر لوٹتا ہوں۔ لیکن یہاں بھی ایک پل سکون کا نصیب نہیں ہوتا۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ میں کیسے خودکو مار کر جیتا ہوں۔ اپنی تمنّاؤں کا گلا گھونٹ گھونٹ کر بے حس ہوتا جا رہا ہوں۔‘‘

’’منجیت یہ تو تمھارا اپنا فیصلہ تھا کہ ہم یہاں آکرمقیم ہو جائیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے ملک سے، اپنوں سے دور، یہ زندگی تو نہیں پر اسکی سزاالبتہ ضرور بھگت رہے ہیں۔ بچّے کو سردی ہو یا بخار، کھانسی ہو یا جلاب، اسے’’ ڈے کیئر‘‘ تو چھوڑنا ہی ہے، کیونکہ مجھے کام پر حاضر ہونا ہے۔ ہندوستان میں تو لوگ اپنے بچّوں کو گہوارے میں جھولا جھلاکر، لوریاں گاکر سلاتے ہیں۔ وہاں دادا دادی،نانا نانی اپنی پوتے پوتیوں کو لاڈ پیار سے پچکار کرکھلاتے پلاتے ہیں، کہانیاں سناکر انکا دل بہلاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو ہمارے سوا راہول کا کوئی بھی نہیں؟ ہم دونوں بھی اپنے اپنے کام پر ہوتے ہیں اور راہول اوروں کے سپرد۔ مجھے پانچ سال تک کی مہلت چاہئے کہ میں اپنے بچّے کی پرورش کرسکوں، پیار کے پانی سے سینچوں، اس پر اپنی ممتا نچھاور کروں، اسکی توتلی بولی سنوں، اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر مسکراؤں۔ یہ سب کیا ہوتا ہے یہ تو میرے لئے جیسے خواب سا ہو گیا ہے۔‘‘

’’یہ تو ہے، پر جب وہ کچھ بڑا ہوگا، تو ہم کچھ کرنے کی حالت میں ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو گرہستی کی ضرورتیں ہی ہماری مقصدِ حیات ہے، جسکے لئے ہم دونوں کا کام کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘اتنا کہ کر منجیت جیسے کسی سوچ میں گم ہو گیا۔

’’ہم بچّے کو پیار اوروقت ابھی نہیں دے سکیں گے تو بڑا ہوکر ایسی نامناسب پرورش کے عوض وہ کھِل نہیں پائے گا۔ اوراب میں بھی خود کو ادھورا محسوس کرنے لگی ہوں۔ منجیت، مجھے لگتا ہے کہ میں نوکری چھوڑ کر اس معصوم کی پرورش خود کروں، شاید میرے پیاسی ممتا کو کچھ طمانیت ملے، اور ہمارا بچہ بھی پیار سے پل جائے۔‘‘

’’میں سب کچھ سمجھ رہا ہوں مادھوری،لیکن۔۔۔۔‘‘ ابھی منجیت اتنا کہہ ہی پایا تھا کہ مادھوری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا،’’منجیت ہماری یہ گھریلو زندگی اگر پیار اور اعتماد کی بنیاد پر نہیں ہے، تو ہم ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہ ہونگے۔ دل میں دراڑیں اپنا وجود بنا لیں گی۔ دلوں میں دوریاں آتی رہینگی۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم اپنی اس دنیا کی بنیاد مایوسیوں پر رکھیں؟ تم تین سال اکیلے نوکری کرو، پھر چاہے میری کار بیچ دو، بھلے ہی گھر چھوٹا لے۔۔۔۔ لو۔۔۔ میں گھر میں بیٹھ کر کچھ کر پائی توضرور کرونگی، پر یہ موقعہ جو مجھے ملا ہے اسمیں مجھے تمھارابھرپور تعاون چاہئے تاکہ میں بچّے کو اپنی محبت،اپنا پیار دے پاؤں، اسمیں انسانیت کے بیج بو پاؤں، اسکے بڑا ہونے تک اسکی پہچان کی بنیاد رکھ پاؤں۔ آج اگر ہم بچّوں کے بچپن کے ساتھی بنیں گے تو کل بڑا ہوکر وہ ہمارے بڑھاپے کا ساتھی بنے گا۔ یہ رشتے نہیں، دلوں کے ریشے ہے، کھینچاتانی سے ٹوٹنے لگیں گے۔ منجیت پلیز مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں اس پہلی تاریخ کو نوکری چھوڑنا چاہتی ہوں اور اگر تمھیں یہ بات بالکل بھی منظور نہیں ہے، تو پھر میں ایک فیصلہ کرونگی۔ میں اس بچّے کے ساتھ ہندوستان چلی جاؤنگی۔‘‘ یہ سب کہتے ہوئے مادھوری کی آنکھوں میں آنسو بے اختیار ہی نمودار ہوگئے۔

منجیت خاموش تھا، بالکل خاموش۔ بات اسکے دل تک دستک دے گئی۔ سچ ہی تو ہے جب وہ اپنی ماں سے دو تین سال بعد ملنے ہندوستان جاتا ہے، تو وہ محسوس کرتا ہے کہ ماں اسکی جانب دیکھتے نہیں تھکتی، اسکی بلائیں لیتے لیتے ممتامیں نہا جاتی اور جب امریکا لوٹنے کے دن قریب آتے تو کیسے وہ گھایل پنچھی کی طرح اپنے زخم کی تکلیف اپنے اندر کی دبا لیتی۔

منجیت مادھوری کی سوچ اورسخت فیصلے کو سن کر چپ ہو گیا۔ اس نے اپنی ماں کے دل کو توڑا تھا اور اب اپنے بیٹے کی ماں کا دل نہیں توڑ سکتاتھا۔ آخرخاموشی کو توڑتے ہوئے منجیت نے کہا۔’’ مادھوری، سچ کہہ رہی ہو تم، چلو یہ پرایا ملک چھوڑ کر، غیروں کو چھوڑکر، اپنوں کے پاس اپنے ملک چلتے ہیں۔ ہمارے بچّے کو ہمارے پیار کی ضرورت ہے، ہم دونوں کو ایک دوسرے کے پیار اور ساتھ کی طلب ہے۔ چلو امیدوں کی ڈور پکڑکر ہم آگے بڑھیں، جہاں خوشی مسکراکر ہمارا خیر مقدم کرنے کو بے قرار ہے۔ میری اور تمہاری ماؤں کی پھیلی ہوئی بانہیں راہول کو اپنے آنچل میں لے لیں گی اورہم ایک دوسرے کے مددگاربن کر اس گھر کو ایک نیا روپ دیں گے، جہاں خوشیوں کی بارشیں ہونگی اورنئے نئے پھول مہکیں گے۔

خوشیوں بھرے اس فیصلے پردونوں کی صلح ہوئی۔ دونوں کے دل طمانیت کی ایک نئی کونپل نمودار ہونے کی امید لئے،وطن کی جڑوں میں جم جانے کی چاہ کے ساتھ اڑان بھر رہے تھے۔

***

دیدبان شمارہ۔


صلح

دیوی نانگرانی

ترجمہ /عامر صدیقی

(ہندی ادب سے انتخاب)

۔۔۔

آج اس نے دل کی کرنے کی ٹھان لی۔ بس بہت ہو گیا، ہر بار پیارمحبت کی چکنی چپڑی باتوں سے بہلا پھسلاکر، اسے مستقبل کے سہانے خواب دکھاکر اسے صلح کرنے پر مجبور کر دیتا تھا منجیت۔لیکن آخر کب تک؟

ماں تھی وہ،وہ امیرزادہ ہوا تو چہ معنی دارد؟ وہ اپنوں سے دور ہوئی تو کیا ہوا؟ کیا قریب یا دور رہنے سے رشتوں کے مطالب بدل جاتے ہیں؟ اسی الجھن بھری کشمکش سے گذرتے ہوئے وہ،رات بھر کروٹ بدلتے بدلتے خود سے پوچھے ہر سوال کا جواب طلب کرتی رہتی۔

راہول اسکی پہلوٹھی کی اولاد، سات مہینے کا ہونے کو آیا تھااور ابھی تک اسے وہ اپنی ماں سے نہیں ملوا پائی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھاکہ اب وہ کسی بھی حال میں نوکری نہیں کرے گی۔ اپنے بچّے کی پرورش و دیکھ بھال خود کرے گی، دوسری صورت میں وہ بدیس چھوڑ کر اپنے ملک ہندوستان لوٹ جائے گی ، جہاں کی مٹّی اسے اپنی آغوش میں لینے کی منتظر تھی۔

۔۔۔

اسی نگوڑی نوکری کیلئے وہ اپنے ننھے بچّے کو صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک ’’بے بی ڈے کیئر‘‘میں چھوڑ دیتی ہے، جہاں اسکی دیکھ بھال کی مد میں ہفتے کے تین سو ڈالرکی خطیرادائیگی کر رہی ہے۔ باوجود اسکے پیر سے جمعہ سے تک ہر روزبڑے لگے بندھے اصولوں کے تحت ساڑھے سات بجے تمام دن کیلئے ضروری اشیاء یعنی کھانا، جوس، کھلونے، تبدیل کرنے کیلئے کپڑے، سبھی کچھ ایک باسکٹ میں بھرکر کار میں رکھنے کے بعد وہ خود تیار ہوکر پھر بچّے کوبڑے دکھ سے اٹھاتی۔ ممتا چاہتی کہ بچّہ کچھ پل اور سو لے، لیکن مجبوری کا احساس کرتے ہوئے بچّے کو اٹھاکر جیسے تیسے صاف کرکے تیار کرتی، موسم کی مناسبت سے کپڑے پہناتی، پاؤڈر وغیرہ لگاکر کپڑے بدلتی، ایک بوتل دودھ کی لیکر اسے کار سیٹ میں بٹھاتی۔ گرمی ہو یا سردی، برسات ہو یا برفباری۔ یہ سلسلہ پچھلے تین مہینوں سے جاری ہے۔ تین مہینے تو ’’میٹرنٹی لیو‘‘ رہی، چارمہینے سے دونوں میاں بیوی نے صبح شام کی مل بانٹ کر ذمے داری لے لی۔ ایک صبح یہ کام سنبھالتا تو دوسرا رات کی ڈیوٹی سر انجام دیتا۔ اور اسی جاگنے اور سونے کی کشمکش نے دونوں اکثر سوالوں جوابوں کی قطار میں الجھے رہتے۔

اپنی نادانی پر شرمندہ ہوتے ہوئے وہ محسوس کرتی کہ پندرہ سو ڈالر کماتے ہوئے بھی وہ اپنے ادھورے پن کے احساس کوخود سے الگ نہیں کر پا رہی ہے۔ نہ مکمل طریقے سے ماں بن پائی ہے اور نہ ہی ایک اچھّی استاد۔سبب اسکا اپنابٹوارا،اپنے بچّے اورطلباء بچّوں کے بیچ۔ ایک اسکول میں ٹیچر تھی وہ۔

بچّے کو گود میں اٹھاکرڈے کیئر پہنچتے ہی،اندر جاکر، انچارج کے ہاتھوں میں اپنا بچہ سپرد کرتی اور ساتھ میں اسکے ضرورت کے سبھی سامان اسے دیتے ہوئے بچّے کا بوسہ لیکر اپنے کام پر چلی جاتی۔ لیکن اسکا دل وہیں کہیں، بچّے کے آس پاس منڈراتا رہتا، بھٹکتا رہتا۔ شام چھ بجے لوٹتے وقت بھی یہی سلسلہ، بچّے کو لینا، اسکے سامان کو سمیٹنا، سنبھال کر اٹھانا، کبھی بچہ سویا ہوتا، تو کبھی بیدار، کبھی ہنستا تو کبھی روتا ہوا۔ ان سبھی مشکلات سے اسے اکیلے ہی نپٹناپڑتا۔ اب یہ سلسلے وار اور منظم دستور العمل اسے ناگوار سا گذرنے لگاتھا۔ ماں کی ممتا امنڈتی تو تھی، پر وہ اپنا پیار چھلکائے تو کس پر؟ تمام دن بچّہ اوروں کے حوالے اور دوسروں کے بچّے اسکے سپرد۔ اسکول کے بچّوں کو پڑھاتے اسکی آنکھوں کے سامنے اپنا بیٹا راہول آجاتا۔ کبھی ڈے کیئر کے جھولے میں بسورتا ہوا، کبھی روتاہوا، کبھی بلکتاہوا۔ وہ بس سوچتی رہتی، کیا سولہ ننھی معصوم جانوں کوصرف دو عورتیں سنبھال پاتی ہونگی؟ انھیں چھاتی سے لگاکر، لوری گاکر سلا پاتی ہونگی؟ یہ ممکنات سے نہیں تھا۔

ایڈمشن لینے کے بعد،ڈی کیئر کے اصولوں و قواعد کے مطابق ،پہلے تین دن ماں یا باپ کا بچّے کے ساتھ رہنا لازمی تھا، تاکہ بچہ ماں کے آنچل یا باپ کی آغوش میں رہتے ہوئے اسکول کے اجنبی لمس کو پہچان سکے۔

یقیناً مادھوری کا اپنا وقت جیسے سمٹنے لگا۔ ایک گھنٹا پہلے اور ایک گھنٹا آفس کے بعد، ڈے کیئر سے گھر آنے جانے میں لگتا۔ گھر پہنچتے ہی پہلے کچن جاتی، سبزی، چاول یا چپاتی بناتی، پھر بچّے کو گرم پانی سے نہلاتی، پاؤڈر لگاکر صاف ستھرے کپڑے پہناتی، تب کہیں جاکر وہ پلنگ پر بیٹھ کر اسے گود میں اٹھاکر، اپنے دودھ کے بجائے بوتل کا دودھ پلاتے ہوئے اسے دیکھ دیکھ کر مسکرانے کی ناکام کوشش کرتی۔

جب بچّہ پیدا ہوا، تین ماہ وہ گھر میں تھی، خوش تھی۔ بچّے کے ساتھ وقت گذارتے ، اپنی ممتا لٹانے اور اسکی دیکھ بھال کرتے ہوئے مسرور و فرداں ہوتی، پر جب سے کام پر لوٹنے کے دن آئے، ہنسی تو جیسے اسے الوداع کہہ گئی۔کبھی کبھی اسکا دل باغی بن جاتا۔ کیوں بچّے کی پرورش میں، اسکی دیکھ بھال کرنے میں، فقط ماں کا حصہ ہو؟ کیا باپ کا حصہ صرف اسکی ولدیت اور نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ماں کی کوکھ میں پنپنے والی نازک کونپل کو پیار سے سینچنا کیا فقط ماں کا فرض ہے؟ کیا باپ صرف گھر کا مالک ہوتا ہے، وہ جو چاہے کرے، جو فیصلہ کرے وہی حکم بن جائے۔

اسی سوچ کی بنیادپر پہلے بھی کئی بار ان دونوں میں بحث و تکرارہوئی ہے۔ مادھوری اپنے شوہر منجیت سے ہمیشہ ہی ہار جاتی، بس تھکی ہاری ہوئی ایک شریکِ حیات، ایک ماں بھرہوکر رہ جاتی۔

’’ تم نوکری چھوڑوگی تو یہ گاڑی کیسے چلے گی؟ گھر کا کرایہ، دو گاڑیوں کا پریمیم، ہیلتھ انشرنس کا پریمیم، بچّے کاتین سو ڈالر ملاکر لگ بھگ سات آٹھ سو ڈالر کے اخراجات ہیں۔ کم سے کم اسکے بعد سات سو ڈالر تو بچتے تو ہیں۔ اگر یہ آمدنی نہ ہوگی تو کیا ایک کی کمائی سے اس گھر کی گاڑی چل پائیگی؟ تین لوگوں کا گذارہ ہو پائیگا؟‘‘

’’پر میں ایسی بٹی ہوئی زندگی کب تک گزاروں گی منجیت؟‘‘ مادھوری غصے میں پوچھ بیٹھتی۔

’’ کیا مطلب! میں کچھ بھی نہیں کرتا؟ تمھاری طرح صبح ساڑھے آٹھ بجے گھر سے نکلتا ہوں اور رات کونو بجے گھر لوٹتا ہوں۔ لیکن یہاں بھی ایک پل سکون کا نصیب نہیں ہوتا۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ میں کیسے خودکو مار کر جیتا ہوں۔ اپنی تمنّاؤں کا گلا گھونٹ گھونٹ کر بے حس ہوتا جا رہا ہوں۔‘‘

’’منجیت یہ تو تمھارا اپنا فیصلہ تھا کہ ہم یہاں آکرمقیم ہو جائیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے ملک سے، اپنوں سے دور، یہ زندگی تو نہیں پر اسکی سزاالبتہ ضرور بھگت رہے ہیں۔ بچّے کو سردی ہو یا بخار، کھانسی ہو یا جلاب، اسے’’ ڈے کیئر‘‘ تو چھوڑنا ہی ہے، کیونکہ مجھے کام پر حاضر ہونا ہے۔ ہندوستان میں تو لوگ اپنے بچّوں کو گہوارے میں جھولا جھلاکر، لوریاں گاکر سلاتے ہیں۔ وہاں دادا دادی،نانا نانی اپنی پوتے پوتیوں کو لاڈ پیار سے پچکار کرکھلاتے پلاتے ہیں، کہانیاں سناکر انکا دل بہلاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو ہمارے سوا راہول کا کوئی بھی نہیں؟ ہم دونوں بھی اپنے اپنے کام پر ہوتے ہیں اور راہول اوروں کے سپرد۔ مجھے پانچ سال تک کی مہلت چاہئے کہ میں اپنے بچّے کی پرورش کرسکوں، پیار کے پانی سے سینچوں، اس پر اپنی ممتا نچھاور کروں، اسکی توتلی بولی سنوں، اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر مسکراؤں۔ یہ سب کیا ہوتا ہے یہ تو میرے لئے جیسے خواب سا ہو گیا ہے۔‘‘

’’یہ تو ہے، پر جب وہ کچھ بڑا ہوگا، تو ہم کچھ کرنے کی حالت میں ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو گرہستی کی ضرورتیں ہی ہماری مقصدِ حیات ہے، جسکے لئے ہم دونوں کا کام کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘اتنا کہ کر منجیت جیسے کسی سوچ میں گم ہو گیا۔

’’ہم بچّے کو پیار اوروقت ابھی نہیں دے سکیں گے تو بڑا ہوکر ایسی نامناسب پرورش کے عوض وہ کھِل نہیں پائے گا۔ اوراب میں بھی خود کو ادھورا محسوس کرنے لگی ہوں۔ منجیت، مجھے لگتا ہے کہ میں نوکری چھوڑ کر اس معصوم کی پرورش خود کروں، شاید میرے پیاسی ممتا کو کچھ طمانیت ملے، اور ہمارا بچہ بھی پیار سے پل جائے۔‘‘

’’میں سب کچھ سمجھ رہا ہوں مادھوری،لیکن۔۔۔۔‘‘ ابھی منجیت اتنا کہہ ہی پایا تھا کہ مادھوری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا،’’منجیت ہماری یہ گھریلو زندگی اگر پیار اور اعتماد کی بنیاد پر نہیں ہے، تو ہم ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہ ہونگے۔ دل میں دراڑیں اپنا وجود بنا لیں گی۔ دلوں میں دوریاں آتی رہینگی۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم اپنی اس دنیا کی بنیاد مایوسیوں پر رکھیں؟ تم تین سال اکیلے نوکری کرو، پھر چاہے میری کار بیچ دو، بھلے ہی گھر چھوٹا لے۔۔۔۔ لو۔۔۔ میں گھر میں بیٹھ کر کچھ کر پائی توضرور کرونگی، پر یہ موقعہ جو مجھے ملا ہے اسمیں مجھے تمھارابھرپور تعاون چاہئے تاکہ میں بچّے کو اپنی محبت،اپنا پیار دے پاؤں، اسمیں انسانیت کے بیج بو پاؤں، اسکے بڑا ہونے تک اسکی پہچان کی بنیاد رکھ پاؤں۔ آج اگر ہم بچّوں کے بچپن کے ساتھی بنیں گے تو کل بڑا ہوکر وہ ہمارے بڑھاپے کا ساتھی بنے گا۔ یہ رشتے نہیں، دلوں کے ریشے ہے، کھینچاتانی سے ٹوٹنے لگیں گے۔ منجیت پلیز مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں اس پہلی تاریخ کو نوکری چھوڑنا چاہتی ہوں اور اگر تمھیں یہ بات بالکل بھی منظور نہیں ہے، تو پھر میں ایک فیصلہ کرونگی۔ میں اس بچّے کے ساتھ ہندوستان چلی جاؤنگی۔‘‘ یہ سب کہتے ہوئے مادھوری کی آنکھوں میں آنسو بے اختیار ہی نمودار ہوگئے۔

منجیت خاموش تھا، بالکل خاموش۔ بات اسکے دل تک دستک دے گئی۔ سچ ہی تو ہے جب وہ اپنی ماں سے دو تین سال بعد ملنے ہندوستان جاتا ہے، تو وہ محسوس کرتا ہے کہ ماں اسکی جانب دیکھتے نہیں تھکتی، اسکی بلائیں لیتے لیتے ممتامیں نہا جاتی اور جب امریکا لوٹنے کے دن قریب آتے تو کیسے وہ گھایل پنچھی کی طرح اپنے زخم کی تکلیف اپنے اندر کی دبا لیتی۔

منجیت مادھوری کی سوچ اورسخت فیصلے کو سن کر چپ ہو گیا۔ اس نے اپنی ماں کے دل کو توڑا تھا اور اب اپنے بیٹے کی ماں کا دل نہیں توڑ سکتاتھا۔ آخرخاموشی کو توڑتے ہوئے منجیت نے کہا۔’’ مادھوری، سچ کہہ رہی ہو تم، چلو یہ پرایا ملک چھوڑ کر، غیروں کو چھوڑکر، اپنوں کے پاس اپنے ملک چلتے ہیں۔ ہمارے بچّے کو ہمارے پیار کی ضرورت ہے، ہم دونوں کو ایک دوسرے کے پیار اور ساتھ کی طلب ہے۔ چلو امیدوں کی ڈور پکڑکر ہم آگے بڑھیں، جہاں خوشی مسکراکر ہمارا خیر مقدم کرنے کو بے قرار ہے۔ میری اور تمہاری ماؤں کی پھیلی ہوئی بانہیں راہول کو اپنے آنچل میں لے لیں گی اورہم ایک دوسرے کے مددگاربن کر اس گھر کو ایک نیا روپ دیں گے، جہاں خوشیوں کی بارشیں ہونگی اورنئے نئے پھول مہکیں گے۔

خوشیوں بھرے اس فیصلے پردونوں کی صلح ہوئی۔ دونوں کے دل طمانیت کی ایک نئی کونپل نمودار ہونے کی امید لئے،وطن کی جڑوں میں جم جانے کی چاہ کے ساتھ اڑان بھر رہے تھے۔

***

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024