شیخ ایاز کی سندھی نظمیں ترجمہ : فہمیدہ ریاض

شیخ ایاز کی سندھی نظمیں ترجمہ : فہمیدہ ریاض

Mar 17, 2018

شیخ ایاز آزادی کے بعد ابھرنے والے بر صغیر ہند و پاک کے بہتریں شاعر تھے

مصنف

فہمیدہ ریاض

 

دیدبان شمارہ ۔۷(۲۰۱۸)

شیخ ایاز کی نظمیں سندھی سے ترجمہ : فہمیدہ ریاض

شیخ ایاز آزادی کے بعد ابھرنے والے بر صغیر ہند و پاک کے بہتریں شاعر تھے ۔ ان کی شاعری کے ایک انتخاب کا ترجمہ کرنے کا شرف مجھے ملا ۔۔ان کی شاعری قدیم اور جدید کے نہایت بارآور امتزاج سے عبارت ہے ۔۔سندھی کی اصناف سخن جیسے کافی واَ ئی بیت بھی لکھے ۔۔ غزلیں بالکل اپنے ہی رنگ کی کہیں آزاد اور پابند نظمیں لکھیں ۔۔طویل منظوم ڈرامے بھی تحریر کیے اور نثری نظمیں بھی لکھیں ۔۔ اس لحاظ سے بھی ان کا کوئی ہمسر نہیں ۔۔پرانی اصناف کو ہاتھ لگاتے تو ان کو جدید بنا دیتے ۔۔یہ وائی دیکھیے

اب تو سورج ڈھل رہا ہے پربتوں میں

شل ہوے ہیں پیر تھک کر پھر بھی کوئی

چل رہا ہے پربتوں میں

ریت کے ٹیلے کے اوپر وہ دیا جو جل رہا ہے

پربتوں میں اک نئے سورج کا سپنا اس

کے اندر پل رہا ہے پربتوں میں

آنے والا دن ابھی سے اپنی آنکھیں مل

رہا ہے پربتوں میں

 -  ان کو حکومتوں نے کئی بار جیل میں ڈالا ۔۔ ہم عصر شاعر فیض کی طرح وہ جیل سے بہت خوبصورت شاعری لے کر آَ ئے ۔۔ یہ ایک اور واَ ئی سکھر جیل میں لکھی جہاں بعد میں بے نظیر کو بھی رکھا گیا تھا

آرے زنداں کے جھروکے سے نہار کتنی

پیاری رات ہے گر رہی ہے

آسماں سے چاندنی کی آبشار

کر رہی ہے دو جہاں پر وار کوئل کی

پکار

یہ ہوا یہ سامنے لمبی کھجوروں کی قطار

چاند بھی سیخوں سے تجھ کو جھانکتا ہے

بار بار

 ناچ سکتا ہے گھڑی بھر اپنی زنجیروں

میں یار

گارے پیارے یہ درو دیوار کب ہیں پائیدار

    کتنی پیاری رات ہے

 

واہ شیخ صاحب تڑپا دیا ____ رلا دیا __ شیخ ایاز پاک ہند جنگ کے بہت مخالف تھے تو جب جنگ کی جاتی تو ان کو ضرور جیل میں ڈال دیتے - ایسی ہی ایک جیل کی جنگی رات مین یہ نظم لکھی ۔۔ اپنی کھولی کے دوسرے قیدی سی مخاطب ہوکر

 

یہ ہابیل ، وہ قابیل دونوں ایک ہی کوکھ

کے باسی

اک دوجے کے خون کے پیاسے

تجھ کو مصحف پڑھنا ہے

د ور ستاروں کی سیڑھی پر

باغ ارم تک چڑھنا ہے

مجھ کو تو آئی ہے نیند

باہر جا خدا کومان

پڑھے سو پڑھ وظیفے کر

بجھا کر جانا یہ قندیل

ہاہاہاہا وہ قابیل یہ ہابیل --------

تو جی جو نہ ہارے کوہیارے

یہ دن بھی گزر ہی جائیں گے

کیوں بیٹھا پیر پسارے

اٹھ کٹ رستے سارے جائیں گے

 کیوں تکتا گھاٹ کی اور  

 ارے کوئی دوجی ناؤ نہ آئے گی

آتا ہے تو آ او بنجارے

تجھے پار اتارے جائیں گے

اس دریا مین جو دہشت ہے

اک دن محشر بن جائے گی

تو اور میں تو بس سندھو میں

اک لہر ابھارے جائیں گے

مرنا ہے ہر اک انسان کو

پر یوں نہ مریں گے ہم

ساتھی کوئی آگ لگا شعلے بھڑکا

اک نئے کنارے جائیں گے

 

ہ ترجمہ میں نے سندھی سے کیا تھا ۔۔اصل کی تال قائم رہی ہے ۔۔ شیخ ایاز بھی ان ترجموں سے خوش تھے ۔ جو شاعری ہمیں دے گئے ہیں ایک خزانہ ہے ایک پورے دور کی یادگار شاعری ہے ان کی جس کی ضیا باری کم نہیں ہوتی ۔۔سندھی مین تو اور بھی لاجواب ہے ---------- 

 

دیدبان شمارہ ۔۷(۲۰۱۸)

شیخ ایاز کی نظمیں سندھی سے ترجمہ : فہمیدہ ریاض

شیخ ایاز آزادی کے بعد ابھرنے والے بر صغیر ہند و پاک کے بہتریں شاعر تھے ۔ ان کی شاعری کے ایک انتخاب کا ترجمہ کرنے کا شرف مجھے ملا ۔۔ان کی شاعری قدیم اور جدید کے نہایت بارآور امتزاج سے عبارت ہے ۔۔سندھی کی اصناف سخن جیسے کافی واَ ئی بیت بھی لکھے ۔۔ غزلیں بالکل اپنے ہی رنگ کی کہیں آزاد اور پابند نظمیں لکھیں ۔۔طویل منظوم ڈرامے بھی تحریر کیے اور نثری نظمیں بھی لکھیں ۔۔ اس لحاظ سے بھی ان کا کوئی ہمسر نہیں ۔۔پرانی اصناف کو ہاتھ لگاتے تو ان کو جدید بنا دیتے ۔۔یہ وائی دیکھیے

اب تو سورج ڈھل رہا ہے پربتوں میں

شل ہوے ہیں پیر تھک کر پھر بھی کوئی

چل رہا ہے پربتوں میں

ریت کے ٹیلے کے اوپر وہ دیا جو جل رہا ہے

پربتوں میں اک نئے سورج کا سپنا اس

کے اندر پل رہا ہے پربتوں میں

آنے والا دن ابھی سے اپنی آنکھیں مل

رہا ہے پربتوں میں

 -  ان کو حکومتوں نے کئی بار جیل میں ڈالا ۔۔ ہم عصر شاعر فیض کی طرح وہ جیل سے بہت خوبصورت شاعری لے کر آَ ئے ۔۔ یہ ایک اور واَ ئی سکھر جیل میں لکھی جہاں بعد میں بے نظیر کو بھی رکھا گیا تھا

آرے زنداں کے جھروکے سے نہار کتنی

پیاری رات ہے گر رہی ہے

آسماں سے چاندنی کی آبشار

کر رہی ہے دو جہاں پر وار کوئل کی

پکار

یہ ہوا یہ سامنے لمبی کھجوروں کی قطار

چاند بھی سیخوں سے تجھ کو جھانکتا ہے

بار بار

 ناچ سکتا ہے گھڑی بھر اپنی زنجیروں

میں یار

گارے پیارے یہ درو دیوار کب ہیں پائیدار

    کتنی پیاری رات ہے

 

واہ شیخ صاحب تڑپا دیا ____ رلا دیا __ شیخ ایاز پاک ہند جنگ کے بہت مخالف تھے تو جب جنگ کی جاتی تو ان کو ضرور جیل میں ڈال دیتے - ایسی ہی ایک جیل کی جنگی رات مین یہ نظم لکھی ۔۔ اپنی کھولی کے دوسرے قیدی سی مخاطب ہوکر

 

یہ ہابیل ، وہ قابیل دونوں ایک ہی کوکھ

کے باسی

اک دوجے کے خون کے پیاسے

تجھ کو مصحف پڑھنا ہے

د ور ستاروں کی سیڑھی پر

باغ ارم تک چڑھنا ہے

مجھ کو تو آئی ہے نیند

باہر جا خدا کومان

پڑھے سو پڑھ وظیفے کر

بجھا کر جانا یہ قندیل

ہاہاہاہا وہ قابیل یہ ہابیل --------

تو جی جو نہ ہارے کوہیارے

یہ دن بھی گزر ہی جائیں گے

کیوں بیٹھا پیر پسارے

اٹھ کٹ رستے سارے جائیں گے

 کیوں تکتا گھاٹ کی اور  

 ارے کوئی دوجی ناؤ نہ آئے گی

آتا ہے تو آ او بنجارے

تجھے پار اتارے جائیں گے

اس دریا مین جو دہشت ہے

اک دن محشر بن جائے گی

تو اور میں تو بس سندھو میں

اک لہر ابھارے جائیں گے

مرنا ہے ہر اک انسان کو

پر یوں نہ مریں گے ہم

ساتھی کوئی آگ لگا شعلے بھڑکا

اک نئے کنارے جائیں گے

 

ہ ترجمہ میں نے سندھی سے کیا تھا ۔۔اصل کی تال قائم رہی ہے ۔۔ شیخ ایاز بھی ان ترجموں سے خوش تھے ۔ جو شاعری ہمیں دے گئے ہیں ایک خزانہ ہے ایک پورے دور کی یادگار شاعری ہے ان کی جس کی ضیا باری کم نہیں ہوتی ۔۔سندھی مین تو اور بھی لاجواب ہے ---------- 

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024