شام کی طرح چپ

شام کی طرح چپ

May 26, 2019

شام کی طرح چپ ۔منیرہ شمیم


شام کی طرح چپ،منیرہ شمیم

از ڈاکٹر مقصودہ

مہمانان گرامی اور معزر سامعین۔ سلام مسنون

چند برس ہوئے اکادمی ادبیات میں ایک باوقار خاتون سے ملاقات ہوئی۔ سعیدہ درانی نے میرا تعارف کراتے ہوئے کالج کا ذکر کیا۔ ان اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بے ساختہ میں کہہ اٹھی ’’ہاں۔۔کبھی ہم بھی خوبصورت تھے‘‘۔دونوں مسکرادیں۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ نظم جن شاعر کی ہے ان ہی کی بیگم ہیں یہ۔ یہ تھی منیرہ احمد شمیم سے پہلی ملاقات۔ باتوں باتوں میں علم ہوا کہ وہ خود بھی ایک افسانہ نگار ہیں اور آج کل احمد شمیم پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد منیرہ سے مزید واقفیت ہوئی۔ بقول جناب افتخار عارف۔

’’انہوں نے یہ کتاب لکھ کر نہ صرف اردو ادب کی خدمت کی ہے بلکہ احمد شمیم کی رفاقت کا قرض بھی بہت احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔‘‘

اسی کتاب میں شامل منیرہ کے نام احمد شمیم کے لکھے ہوئے خطوط کے ذریعے منیرہ سے شناسائی اور گہری ہوئی۔ احمد شمیم ایسے کتنے ہیں۔

’’شام تمہاری طرح چپ چاپ اور اداس ہوتی ہے۔‘‘ یا

’’تومیری ماں کی طرح گم سم اور خاموش ہے۔ شام کو اکثر مجھے تم اور پھر اپنی ماں کی یاد آتی ہے۔‘‘

منیرہ کی شخصیت میں ایک خاص ٹھہرائو ہے جو اُداسی کی سرحدوں کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بہت کم گو ہے۔ بڑی نپی تُلی اور سلجھی ہوئی گفتگو کرتی ہے۔ طالب علمی میں کالج میگزین میں لکھتی رہی۔ بی۔ اے کا رزلٹ آنے سے پہلے ہی احمد شمیم اپنی قید میں لے چکے تھے۔ لکھنے کے جراثیم تو موجود تھے ہی، اب ماحول بھی سازگار ہوگیا۔ پھر شوہر کی خواہش کہ یہ لکھیں۔ چنانچہ منیرہ نے اپنا پہلا افسانہ لکھ ڈالا جو جنگ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا۔ان کی خوش قسمتی کہ دوسرا افسانہ ’’اجنبی لمحے کی قید‘‘ نہ صرف فنون میں شائع ہوا بلکہ احمد ندیم قاسمی کا تعریفی خط بھی انہیں مل گیا۔ گویا توصیفی سند عطا ہوئی۔ اب تو سلسلہ مل پڑا۔ ان کے افسانے فنون، سویرا اور اخبار خواتین میں باقاعدگی سے شائع ہونے لگے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جارہی رہتا تو عین ممکن تھا کہ یہ کتاب بہت پہلے شائع ہوجاتی۔

احمد شمیم کی بے وقت موت نے ان کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ بقول منیرہ

’’وہ ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا جس نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا۔گھر کے اخراجات، بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کیا ۔ جس نے کبھی بیوٹی پارلر چلایا۔ کبھی گھر اور کبھی یونیورسٹی میں کورسز کرائے۔ اور یوں ایک طویل جدوجہد کے بعد سرخرورہی۔ اس نے اپنی کاوشوں کا احاطہ کس خوبصورتی سے کیا:

’’جینا اتنا بھی آسان نہیں، ضرورت اور مجبوری کے تحت میں نے پارلر کھول لیا اور کاغذ پر لفظ سجانے کے بجائے چہرے سجانے لگی۔‘‘

ایک طویل وقفے کے بعد جب منیرہ نے احمد شمیم کے فن اور شخصیت پر کتاب لکھی تو گویا ادبی دنیا میں یہ اس کا دوسرا جنم ہوا۔ ’بے گیان گوتم‘ ۔ایک خوبصورت عنوان جو حسین ٹائٹل میں لپٹے خوبصورت افسانوں کا مجموعہ ہے اس جنم کی دوسری کاوش آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

منیرہ کے افسانوں میں زندگی اپنے حقیقی رنگ میں موجود ہے۔ لیکن دکھ، بے وفائی، انتظار، تنہائی ، محرومی اور جدائی کے آئینے اس کے رنگ کو بے رنگ اور اس کی توانائی کو ماند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے افسانے علامتی نہیں بلکہ ان میں کہانی موجود ہے جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی سے ہی لی گئی ہے۔ دکھ کا عنصر چونکہ اس کی ذاتی زندگی میں حاوی رہا اس لیے اس کے افسانوں میں بھی اس کا رنگ بہت نمایاں ہے۔

وہ ایک فلاسفر کی طرح ارد گرد پھیلے ہوئے لامحدود دکھوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اور بھی دکھی نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی اس کا ذاتی کرب ’’یار‘‘ کی صورت اس کے افسانوں میں جابجا نظر آتا ہے۔ وہ اس میں سے نکلنا بھی چاہتی ہے مگر نکل نہیں پاتی۔ وہ کہتی ہے۔

’’یوں لگتا ہے جیسے میں صدیوں سے ہی یادوں کے اس عذاب میں کسی بھٹکی ہوئی روح کی طرح سرگرداں ہوں اور وقت کا دائرہ مجھے رہائی نہیں دے رہا۔‘‘

تنہائی کا دکھ اس کے ہاں بہت نمایاں ہے۔ ایک جھلک ملاحظہ ہو۔

’’شام سے زیادہ رات کی آمد انسان کو خوف زدہ کردیتی ہے۔ رات کبھی لمحے کو صدیاں بنادیتی ہے اور کبھی صدیوں کو ایک لمحہ۔ راتوں کو جاگنے والے ماضی اور حال کی تقویم میں ساری ساری رات گزاردیتے ہیں۔‘‘

افسانہ تیری قربت، تیری جدائی میں خوبصورت منظر نگاری کرتے ہوئے منیرہ جیسے اپنی کتھا سنا رہی ہے۔

’’رات کا پچھلا پہر تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ ساون کی میٹھی میٹھی پھوار میرے دل میں اترنے لگی۔ اور تمہاری یاد کا گھٹاٹوپ اندھیرا میرے چاروں طرف چھانے لگا ، جانے کیوں جب بھی بارش آتی ہے، تم اور بوندیں بن جاتے ہو۔ اور پھر زمین سے اٹھنے والی گیلی مٹی کی خوشبو میری سانسوں میں اترنے لگتی ہے۔

گرم مٹی سے لپٹ کر سوندھی سوندھی خوشبو میری سانوں میں اترنے لگتی ہے تم یاد آتے ہو۔ جی چاہتا ہے تمہیں زور سے آواز دوں۔ لیکن سارے نام، ساری آوازیں میرے اندر دم توڑدیتی ہیں۔‘‘

وہ ایک حساس دل کی مالک ہے۔ اس نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے محبت جو ایک ازلی اور ابدی سچائی ہے، کا بھی ذکر کیا ہے اور اسے اپنے انداز میں بیان کردیا ہے۔

’’اگر محبت کی زندگی مل جائے تو انسان کو اپنے وجود ہی میں کائنات کی وسعتوں اور رنگینیوں کا احساس ہونے لگتا ہے۔

پھر ایک اور جگہ منیرہ یوں کہتی ہے۔

’’عورت شادی کے بعد اپنی پہلی محبت کا کفن اوڑھ کر ساری زندگی آنے والی محبت کو روک دیتی ہے۔‘‘

اسے دکھ ہے کہ تمام رکاوٹیں، تمام پابندیاں محبت پر لگادی جاتی ہیں۔ یوں اس پاکیزہ جذبہ کو کچلنے کی کوشش ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ وہ کہتی ہے۔

’’دکھ تو یہ ہے کہ محبت میں ازل سے رکاوٹیں ہیں۔ اور ان رکاوٹوں کا نام کبھی حادثات لکھ دیا جاتا ہے کبھی تقدیر اور کبھی بے وفائی ۔

منیرہ اپنے قاری کو کسی پرستان کی سیر کو نہیں لے جاتی بلکہ اس دنیا کی تلخ حقیقتوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہتی ہے۔

’’خوشی اور غم تو موسموں کی طرح آتے جاتے ہیں جو شے زندگی میں خوشی بن کے داخل ہوتی ہے وہ غم بن کے رخصت بھی ہوجاتی ہے۔‘‘

اچھوتی تشبیہات کے استعمال نے اس کے افسانوں کو ایک انوکھا پن اور جدت عطا کی ہے۔‘‘

’’اس کا چہرہ تپتے سورج میں اس زمین کی طرح نظر آیا جس پر برسوں بارش نہ برسی ہو۔‘‘ شاخ شاخ میں وہ کہتی ہے۔

’’ان کا بھیگا بھیگا آنسوئوں سے تر چہرہ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے ان کے چہرے کی جھریاں لہربں کر دکھ کے سمندر میں فنا ہورہی ہیں۔

منیرہ کی ذات اس کے افسانوں میں جابجا جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

مثلا

مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں ایک پھول تھی

آندھی آئی اور اس کی پتیاں بکھر گئیں۔ اب شاخ پر کچھ نہیں۔ کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں دور تک پیوست کانٹے

آخر میں میں اس دعا کے ساتھ اپنے مقالہ کو ختم کرتی ہوں کہ منیرہ کے اس سفر میں اب کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور امید کرتی ہوں کہ وہ اپنا ادبی سفر جاری رکھے گی۔

میں اسے اس قدر خوبصورت کتاب لکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک پیش کرتی ہوں۔

آپ سب کا بہت بہت شکریہ

یہ مضمون 9 فروری 2011ادبی تنظیم زاویہ کے زیرا ہتمام منیرہ احمد شمیم کی کتاب ’بے گیان گو تم‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھاگیا


شام کی طرح چپ،منیرہ شمیم

از ڈاکٹر مقصودہ

مہمانان گرامی اور معزر سامعین۔ سلام مسنون

چند برس ہوئے اکادمی ادبیات میں ایک باوقار خاتون سے ملاقات ہوئی۔ سعیدہ درانی نے میرا تعارف کراتے ہوئے کالج کا ذکر کیا۔ ان اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بے ساختہ میں کہہ اٹھی ’’ہاں۔۔کبھی ہم بھی خوبصورت تھے‘‘۔دونوں مسکرادیں۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ نظم جن شاعر کی ہے ان ہی کی بیگم ہیں یہ۔ یہ تھی منیرہ احمد شمیم سے پہلی ملاقات۔ باتوں باتوں میں علم ہوا کہ وہ خود بھی ایک افسانہ نگار ہیں اور آج کل احمد شمیم پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں۔ اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد منیرہ سے مزید واقفیت ہوئی۔ بقول جناب افتخار عارف۔

’’انہوں نے یہ کتاب لکھ کر نہ صرف اردو ادب کی خدمت کی ہے بلکہ احمد شمیم کی رفاقت کا قرض بھی بہت احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔‘‘

اسی کتاب میں شامل منیرہ کے نام احمد شمیم کے لکھے ہوئے خطوط کے ذریعے منیرہ سے شناسائی اور گہری ہوئی۔ احمد شمیم ایسے کتنے ہیں۔

’’شام تمہاری طرح چپ چاپ اور اداس ہوتی ہے۔‘‘ یا

’’تومیری ماں کی طرح گم سم اور خاموش ہے۔ شام کو اکثر مجھے تم اور پھر اپنی ماں کی یاد آتی ہے۔‘‘

منیرہ کی شخصیت میں ایک خاص ٹھہرائو ہے جو اُداسی کی سرحدوں کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بہت کم گو ہے۔ بڑی نپی تُلی اور سلجھی ہوئی گفتگو کرتی ہے۔ طالب علمی میں کالج میگزین میں لکھتی رہی۔ بی۔ اے کا رزلٹ آنے سے پہلے ہی احمد شمیم اپنی قید میں لے چکے تھے۔ لکھنے کے جراثیم تو موجود تھے ہی، اب ماحول بھی سازگار ہوگیا۔ پھر شوہر کی خواہش کہ یہ لکھیں۔ چنانچہ منیرہ نے اپنا پہلا افسانہ لکھ ڈالا جو جنگ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا۔ان کی خوش قسمتی کہ دوسرا افسانہ ’’اجنبی لمحے کی قید‘‘ نہ صرف فنون میں شائع ہوا بلکہ احمد ندیم قاسمی کا تعریفی خط بھی انہیں مل گیا۔ گویا توصیفی سند عطا ہوئی۔ اب تو سلسلہ مل پڑا۔ ان کے افسانے فنون، سویرا اور اخبار خواتین میں باقاعدگی سے شائع ہونے لگے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جارہی رہتا تو عین ممکن تھا کہ یہ کتاب بہت پہلے شائع ہوجاتی۔

احمد شمیم کی بے وقت موت نے ان کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ بقول منیرہ

’’وہ ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا جس نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا۔گھر کے اخراجات، بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کیا ۔ جس نے کبھی بیوٹی پارلر چلایا۔ کبھی گھر اور کبھی یونیورسٹی میں کورسز کرائے۔ اور یوں ایک طویل جدوجہد کے بعد سرخرورہی۔ اس نے اپنی کاوشوں کا احاطہ کس خوبصورتی سے کیا:

’’جینا اتنا بھی آسان نہیں، ضرورت اور مجبوری کے تحت میں نے پارلر کھول لیا اور کاغذ پر لفظ سجانے کے بجائے چہرے سجانے لگی۔‘‘

ایک طویل وقفے کے بعد جب منیرہ نے احمد شمیم کے فن اور شخصیت پر کتاب لکھی تو گویا ادبی دنیا میں یہ اس کا دوسرا جنم ہوا۔ ’بے گیان گوتم‘ ۔ایک خوبصورت عنوان جو حسین ٹائٹل میں لپٹے خوبصورت افسانوں کا مجموعہ ہے اس جنم کی دوسری کاوش آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

منیرہ کے افسانوں میں زندگی اپنے حقیقی رنگ میں موجود ہے۔ لیکن دکھ، بے وفائی، انتظار، تنہائی ، محرومی اور جدائی کے آئینے اس کے رنگ کو بے رنگ اور اس کی توانائی کو ماند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے افسانے علامتی نہیں بلکہ ان میں کہانی موجود ہے جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی سے ہی لی گئی ہے۔ دکھ کا عنصر چونکہ اس کی ذاتی زندگی میں حاوی رہا اس لیے اس کے افسانوں میں بھی اس کا رنگ بہت نمایاں ہے۔

وہ ایک فلاسفر کی طرح ارد گرد پھیلے ہوئے لامحدود دکھوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اور بھی دکھی نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی اس کا ذاتی کرب ’’یار‘‘ کی صورت اس کے افسانوں میں جابجا نظر آتا ہے۔ وہ اس میں سے نکلنا بھی چاہتی ہے مگر نکل نہیں پاتی۔ وہ کہتی ہے۔

’’یوں لگتا ہے جیسے میں صدیوں سے ہی یادوں کے اس عذاب میں کسی بھٹکی ہوئی روح کی طرح سرگرداں ہوں اور وقت کا دائرہ مجھے رہائی نہیں دے رہا۔‘‘

تنہائی کا دکھ اس کے ہاں بہت نمایاں ہے۔ ایک جھلک ملاحظہ ہو۔

’’شام سے زیادہ رات کی آمد انسان کو خوف زدہ کردیتی ہے۔ رات کبھی لمحے کو صدیاں بنادیتی ہے اور کبھی صدیوں کو ایک لمحہ۔ راتوں کو جاگنے والے ماضی اور حال کی تقویم میں ساری ساری رات گزاردیتے ہیں۔‘‘

افسانہ تیری قربت، تیری جدائی میں خوبصورت منظر نگاری کرتے ہوئے منیرہ جیسے اپنی کتھا سنا رہی ہے۔

’’رات کا پچھلا پہر تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ ساون کی میٹھی میٹھی پھوار میرے دل میں اترنے لگی۔ اور تمہاری یاد کا گھٹاٹوپ اندھیرا میرے چاروں طرف چھانے لگا ، جانے کیوں جب بھی بارش آتی ہے، تم اور بوندیں بن جاتے ہو۔ اور پھر زمین سے اٹھنے والی گیلی مٹی کی خوشبو میری سانسوں میں اترنے لگتی ہے۔

گرم مٹی سے لپٹ کر سوندھی سوندھی خوشبو میری سانوں میں اترنے لگتی ہے تم یاد آتے ہو۔ جی چاہتا ہے تمہیں زور سے آواز دوں۔ لیکن سارے نام، ساری آوازیں میرے اندر دم توڑدیتی ہیں۔‘‘

وہ ایک حساس دل کی مالک ہے۔ اس نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے محبت جو ایک ازلی اور ابدی سچائی ہے، کا بھی ذکر کیا ہے اور اسے اپنے انداز میں بیان کردیا ہے۔

’’اگر محبت کی زندگی مل جائے تو انسان کو اپنے وجود ہی میں کائنات کی وسعتوں اور رنگینیوں کا احساس ہونے لگتا ہے۔

پھر ایک اور جگہ منیرہ یوں کہتی ہے۔

’’عورت شادی کے بعد اپنی پہلی محبت کا کفن اوڑھ کر ساری زندگی آنے والی محبت کو روک دیتی ہے۔‘‘

اسے دکھ ہے کہ تمام رکاوٹیں، تمام پابندیاں محبت پر لگادی جاتی ہیں۔ یوں اس پاکیزہ جذبہ کو کچلنے کی کوشش ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ وہ کہتی ہے۔

’’دکھ تو یہ ہے کہ محبت میں ازل سے رکاوٹیں ہیں۔ اور ان رکاوٹوں کا نام کبھی حادثات لکھ دیا جاتا ہے کبھی تقدیر اور کبھی بے وفائی ۔

منیرہ اپنے قاری کو کسی پرستان کی سیر کو نہیں لے جاتی بلکہ اس دنیا کی تلخ حقیقتوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہتی ہے۔

’’خوشی اور غم تو موسموں کی طرح آتے جاتے ہیں جو شے زندگی میں خوشی بن کے داخل ہوتی ہے وہ غم بن کے رخصت بھی ہوجاتی ہے۔‘‘

اچھوتی تشبیہات کے استعمال نے اس کے افسانوں کو ایک انوکھا پن اور جدت عطا کی ہے۔‘‘

’’اس کا چہرہ تپتے سورج میں اس زمین کی طرح نظر آیا جس پر برسوں بارش نہ برسی ہو۔‘‘ شاخ شاخ میں وہ کہتی ہے۔

’’ان کا بھیگا بھیگا آنسوئوں سے تر چہرہ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے ان کے چہرے کی جھریاں لہربں کر دکھ کے سمندر میں فنا ہورہی ہیں۔

منیرہ کی ذات اس کے افسانوں میں جابجا جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

مثلا

مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں ایک پھول تھی

آندھی آئی اور اس کی پتیاں بکھر گئیں۔ اب شاخ پر کچھ نہیں۔ کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں دور تک پیوست کانٹے

آخر میں میں اس دعا کے ساتھ اپنے مقالہ کو ختم کرتی ہوں کہ منیرہ کے اس سفر میں اب کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور امید کرتی ہوں کہ وہ اپنا ادبی سفر جاری رکھے گی۔

میں اسے اس قدر خوبصورت کتاب لکھنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک پیش کرتی ہوں۔

آپ سب کا بہت بہت شکریہ

یہ مضمون 9 فروری 2011ادبی تنظیم زاویہ کے زیرا ہتمام منیرہ احمد شمیم کی کتاب ’بے گیان گو تم‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھاگیا

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024