شہر بھی انسان ہے

شہر بھی انسان ہے

Oct 31, 2020

اس نے سوچا بوڑھا مر رہا ہے

مصنف

عاطف ملک

شمارہ

شمارہ - ١٢

شہر بھی انسان ہے

تحریر: عاطف ملک

ڈاکٹر نے سوچا بوڑھا مر رہا ہے۔

ڈاکٹر کے ذہن میں بوڑھا کبھی بوڑھا نہیں تھا۔ اُس کا اور بوڑھے کا بچپن سے تعلق تھا۔ بچپن، جب ڈاکٹر بچہ تھا اور بوڑھا بوڑھا نہ تھا۔ آج جب بوڑھا مر رہا تھا تب بھی ڈاکٹر کے ذہن میں اس کا عکس کئی دہائیوں قبل کا تھا؛ پیچھے کو سنوارے بال، ذہانت کا اظہار کرتی گہری آنکھیں، کالے فریم کی عینک لگائے مسکراتا جوان چہرہ جس پر بچپن کی کسی شرارت کی عطا میں ماتھے کی ایک جانب گہرے زخم کا نشان تھا۔ ڈاکٹر کے لیے وقت  اسی منظر پر رکا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کو علم نہیں تھا کہ یہ عکس تھا یا نقش تھا۔ یہ نقش ہی ہوگا، عکس تو بدل سکتا ہے مگر نقش نہیں بدلتا۔

مگر یہ نقش چپکے چپکے بنا تھا، نقش جو عکس تھا اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہ کپڑے پر لگایا گیا ٹھپہ نہ تھا کہ ایک ضرب کے ساتھ ہی چھپ جائے، یہ تو وقت کے ساتھ آئی جھریوں کی مانند چپ چاپ روح میں اُترتے نشان تھے؛ پکے، گوڑے، انمنٹ، شناخت کے طور پر لکھی گئی علامت، ذہن پر کنداں کی گئی پکی تحریر، اہرام مصر سے نکلنے والی ڈھیٹ تحریر جو سمجھ میں نہ آئے مگر ہر حالات میں صدیاں سہار لیتی ہے۔ یہ نقش تھا۔

ڈاکٹر کے لیے بوڑھا بوڑھا نہ تھا۔

ڈاکٹر کو یاد نہیں کہ کب وہ بوڑھے سے پہلی دفعہ ملا تھا۔ شاید وہ پہلا دن تھا جب ساتھ کے میدان میں کرکٹ کھیلتے گیند پڑوس کے گھر کے صحن میں جا گری تھی، اور دروازے پر دستک دے کر ایک بچہ گھبرایا کھڑا تھا۔ سات سال کے بچے نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی تو اس کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔  دروازہ کھلا اور بچے نے وہ مسکراتا چہرہ دیکھا تو اس کی پریشانی یکایک کم ہوگئی تھی۔ صحن سے گیند اٹھاتے اس بچے نے دیکھا تھا کہ گھر میں کئی پھلوں کے درخت لگے تھے، ایک جانب گلاب کا کنج تھا۔ اُس دن بچے کو گیند کے ساتھ ساتھ تازہ اترے دو کینو بھی ملے تھے۔ اس دن وہ بچہ اس گھر سے گیند اور کینوں کے ساتھ ساتھ ایک تعلق بھی اٹھا لایا تھا۔  

لوگ اُس مسکراتے کے پاس کہانیاں سننے آتے تھے جس نے نفسیات پڑھی تھی اورانسانیت جانی تھی۔ شام کو اُس  گھر کے صحن میں بیٹھک لگتی تھی، محبتوں اور جدائیوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اُس شاعر خیال کے پاس لوگ آتے تھے؛ برداشت، رواداری پر بات ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نے اُس مسکراتے چہرے کو کئی جگہوں پر دیکھا؛ لائبریری میں کتاب پڑھتے، چائے خانے میں دوستوں کی محفل میں لطف اٹھاتے، باغ میں صبح کی سیر کرتے، صحن میں پودوں کو پانی دیتے، بیٹھک میں مذہب، انسان، کائنات سب کو ایک لڑی میں پروتے۔  ڈاکٹر نے اُس سے کئی کہانیاں سنیں تھیں، تحیر آمیز، دلآویز، خوش کن، حیران کن؛ وہ کن کی ایک کڑی تھا۔ دوسرے کی بات وہ خوش چہرہ غور سے سنتا تھا اور اپنی بات آرام سے کہتا تھا، کبھی اُس کی آواز اونچی نہ ہوئی کہ وہ دلیل سے بات کرنا جانتا تھا۔ ڈاکٹر نے کچھ عرصے بعد جان لیا کہ وہ انسان کو فوقیت دیتا ہے، اکثر بحث کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہے۔  ڈاکٹر کو سمجھ آگئی کہ اُس گھر سے وہ اکیلا ہی نہیں دوسرے بھی کیوں تعلق اٹھا لاتے ہیں۔

سالہا سال کے بعد وہ تعلق ڈاکٹر کے سامنے آئی-سی-یو میں پڑا تھا۔ بوڑھے کا ذہن کام کرنا چھوڑ رہا تھا، اُس کا دل رُک رہا تھا، اس کی شریانوں میں خون کا بہاو رکاوٹ کا شکار تھا، اُس کی سانس رک رک کر آرہی تھی۔ ڈاکٹر دل گرفتہ تھا مگر اپنے شعبے میں اُس نے بہت سے اجنبیوں اور تعلق داروں کو مرتے دیکھا تھا۔ ڈاکٹر کو علم تھا کہ طب کا شعبہ قربانی مانگتا ہے، آنسو روکنے اور جذبات قابو کرنے کا سوال کرتا ہے۔ ڈاکٹر مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ اس نے پچھلے چند سالوں میں بہت کچھ دیکھا تھا۔ زخمی اور روتی مائیں، کٹے ہوئے بازوں کے ساتھ لائے گئے بچے جو تہوار کے دن پارک میں جھولے لینے گئے اور بم دھماکے کا شکار ہوگئے۔ اس نے خود کش حملوں کے زخمیوں پر مرہم رکھا تھا، اس نے فرقہ وارانہ حملوں کے زخمیوں کی پٹیاں کرتے خون سے اپنا سفید اوورکوٹ رنگدار کر لیا تھا۔ تمام انسانی کوشش کے باوجود مر جانے والے بے قصوروں کی آںکھیں ڈاکٹر نے اپنے ہاتھوں سے بند کی تھیں۔  مگر وہ خود نہیں رویا تھا کہ اگر وہ رو پڑا تو اُسے چپ کون کرائے گا۔ مگر اُس دن آئی-سی-یو میں پڑے اپنے پرانے تعلق کو دیکھ کر ڈاکٹر بہت افسردہ تھا۔ افسردہ مگر رویا وہ پھر بھی نہ تھا۔

ڈاکٹر ہسپتال سے نکلا اور اپنی کار چلا کر گھر کی جانب چل نکلا۔ وہ موڑ مڑا  تو اس نے دیکھا کہ ٹریفک بری طرح پھنسی ہے۔ لوگ اپنی گاڑیاں آگے نکالنے کے چکر میں اپنے مقام سے اتر چکے تھے؛ انسانیت اور گاڑیاں دونوں اپنے مقام سے اتری تھیں۔ دائیں چھوڑ کر اگر لوگ بائیں معمولی سی بھی جگہ پاتے تو وہاں گاڑی گھسیڑ رہے تھے، کچے میں مٹی اڑاتے گھسے چلے جاتے تھے۔ موٹرسائیکل سوار معمولی سی جگہ دیکھ کر اپنی بائیک گھسا رہے تھے۔ کچھ اپنی موٹرسائیکل اٹھا کرسڑک کی درمیانی بٹوار کو عبور کر کے مخالف سمت سے آنے والی ٹریفک میں روانہ ہوگئے تھے۔ دوسری جانب شاید ٹریفک جام تھی کہ ٹریفک نہ آرہی تھی سو کچھ دیر بعد ایک راہ پا کر گاڑیاں بھی سامنے سے آنے والی سڑک پر جا گھسیں۔ ٹریفک کا بہاو پہلے ہلکا چل رہا تھا، پھر بری طرح رکاوٹ کا شکارہوگیا۔ ڈاکٹر صبح سے افسردہ تھا، یہ حالات دیکھ کر وہ افسوس کی کسی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ فضا بہت آلودہ تھی، دھویں میں سانس لینے سے دشواری ہورہی تھی۔ ڈاکٹر نے گاڑی کے شیشے چڑھا دیے، مگر وہ ایر کنڈیشنڈ نہیں چلانا چاہتا تھا کہ نہ جانے ابھی کتنا وقت اسی سڑک پر گذرنا تھا۔ اس نے آس پاس کے لوگوں پر نظر ڈالی، سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے، گا لیاں دیتے، کھانستے، جھلاہٹ کا شکارایک دوسرے کا حق مار کر آگے نکلنے کی کوشش میں تھے۔  ڈاکٹر کو سب سمجھ بوجھ سے عاری نظر آرہے تھے جو اپنی حرکات سے ٹریفک کی خرابی میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔  ڈاکٹر نے سوچا کیا ان کا دماغ کام نہیں کرتا؟ یہ اپنی ہی شاخ کو کاٹتے لوگ ہیں جو اپنا نقصان کرنے پر تلے ہیں، چڑچڑاہٹ کا شکار، گالیاں دیتے، سمجھ بوجھ سے عاری ایک ہجوم چل رہا تھا۔ ڈاکٹر نے سوچا کہ کیا یہ زندہ ہیں؟ اُسے پتہ تھا کہ سانس آنے کا مطلب زندہ ہونا نہیں ہوتا۔ اُسی وقت اس کی گاڑی کو کسی نے پیچھے سے ٹکر مار دی۔ وہ گاڑی سے اترا، شکر تھا کہ رفتار ہلکی ہونے کی بنا پرمعمولی نقصان تھا، مگر دوسری گاڑی کا ڈرائیور شدید غصے میں تھا۔ وہ ڈاکٹر کو گالیاں دے رہا تھا۔ بظاہر وہ خوش لباس آدمی پڑھا لکھا اور اچھا عہدیدار لگ رہا تھا مگر اس کی زبان کچھ اور بتا رہی تھی۔ ڈاکٹر کو سمجھ نہ آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ کیا اس آدمی کا دماغ کام نہیں کررہا کہ گاڑی کو اُس نے پیچھے سے ٹکر ماری اور گالیاں بھی  وہی نکال رہا تھا۔ ڈاکٹر کو آئی- سی–یو میں پڑے بوڑھے کے برتاو کا خیال آیا، اس نے الجھے بغیر بدتمیز شخص سے معافی مانگی اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کو رینگتی رفتار سے آگے بڑھانے لگا۔

ڈاکٹرپہلے ہی افسردہ تھا اور مزید افسردہ ہوگیا۔ رینگتی گاڑی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے سامنے آگئی تھی۔ یونیورسٹی کے باہر طلباء مظاہرہ کررہے تھے جس کی وجہ سے ٹریفک کا مسلہ بنا ہوا تھا۔  طلباء نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ انہیں سبز باغ دکھا کر ایسے شعبوں میں داخلے دیے گئے تھے جن کی مانگ ہے، مگر پرائیویٹ یونیورسٹی وہ ڈگریاں دینے کی اجازت نہ رکھتی تھی۔ سالہا سال ان طلبا سے فیسیں اکٹھی کی گئیں؛ اکٹھی کی گئیں یا لوٹی گئیں؟ کورس مکمل ہوگئے، ڈگریاں دے دی گئیں مگر ان ڈگریوں کی کاغذ کے ٹکڑوں سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہ تھی۔ ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی لٹ گئی تھی۔ سالہا سال گذر گئے مگر کوئی ان کی شنوائی نہ تھی۔ اُن کی بات کوئی نہ سنتا تھا۔ یونیورسٹی کے مالک نے طلبا سے اینٹھے پیسوں سے ایک ٹی وی چینل چلا لیا تھا۔ تعلیم کی بندر بانٹ کے ساتھ ساتھ اب وہ بلیک میلنگ سے پیسے کمارہا تھا۔ اس ٹی وی چینل کے اینکرز مالک کے حکم پر کسی کی عزت کی دھجیاں ادھیڑتے ایک لمحہ کو نہ رکتے تھے۔  ان کے شر سے دیانتداری سے کام کرنیوالے عہدیدار اور ادارے کوئی محفوظ نہ تھے۔ ڈاکٹر نے سوچا کہ کیا ان کا ضمیر زندہ ہے؟ کیا کسی پر ظلم کرتے ہوئے انکے دل کی دھڑکن اپنی رفتار سے آگے پیچھے نہیں ہوتی؟ عام لوگوں کے پیسے ہتھیاتے کیسے کسی کو کوئی احساس نہیں ہوتا؟ کیا انہیں اولاد کی تعلیم کے نام پر ماں باپ کے منہ سے نوالہ چھینتے ایک لمحے کی کپکپاہٹ بھی نہیں ہوتی؟ یہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں؟ ڈاکٹرپہلے ہی افسردہ تھا، وہ مزید افسردہ ہوگیا۔

ڈاکٹر کی گاڑی  رینگتے رینگتے بالآخر اس یونیورسٹی کے آگے سے گذر گئی۔ آگے ایک بڑی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔ اس جگہ کچھ عرصے قبل تک کھیل کا میدان تھا جہاں بچے کرکٹ کھیلتے تھے۔ صبح کو بزرگ خواتین ہاتھ میں تسبحیاں پکڑے سیر کرتی نظر آتی تھیں۔ شام کو کونے میں جوڈو کراٹے کے استاد اپنے شاگردوں کو تیار کر رہے ہوتے تھے۔ شام کے بعد لوگ آکر گپ شپ لگانے بیٹھ جاتے تھے، لوڈو اور تاش کی بازیاں لگتی تھیں، لوگ ہنستے اور ایک دوسرے کے رونے میں شریک ہوتے تھے۔ ہر روز میدان کے ایک جانب ایک بانسری نواز اپنے شاگردوں کو دھنیں سکھانے لگ جاتا تھا۔ ڈاکٹر کے خیال میں بانسری کی آواز گونجنے لگی، افسردہ بلکہ بہت افسردہ ہونے کے باوجود اُس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔

ڈاکٹر نے سوچا یہ تو اس قدیم شہر کی تہذیب کا حصہ تھا۔ یہ بوڑھا شہر بھی ڈاکٹر کے دل پر نقش تھا، گوڑی، انمٹ، پکی تحریر کے ساتھ نقش تھا۔ اس باغوں کے شہر کی تہذیب میں قصہ گو جا بجا بیٹھتے تھے۔ لوگوں کے دل کُھلے تھے، لوگ انسان کو انسانیت سے جانتے تھے، فرقہ بندی کہیں نہ تھی۔ ایک فرقے کے جلوس میں دوسرے فرقے کے لوگ سبیلیں لگا کر پیاسوں کی پیاس بجھاتے تھے۔ ٹی ہاوسز میں لوگ بیٹھ کر ادب کی بات ادب سے کرتے تھے۔ باغوں کے شہر میں  پھر ایسی رُت بدلی کہ باغ کنکریٹ سے بھرے جانے لگے۔ باغوں کی زمین ہتھیا لی گئی ۔ وہ خواص جنہیں عام لوگوں کے حقوق کے لیے چنا گیا، انہوں نے ہی عامیوں سے صاف ہوا چھین لی۔ کہیں ایم پی اے ہوسٹل بن گئے، کہیں لینڈ مافیا اور سرکاری عہدیدران کی ملی بھگت سے باغات کی زمین پر پلازے اور کمرشل عمارات قائم کر دی گئیں۔ ڈونگی گراونڈیں عمارتی میٹیریل سے بھر گئیں۔ شہریوں کی سیر اور بچوں کے کھیل کی جگہ پر حاجی کیمپ کے بورڈ لگا کر مخلوق کی پہنچ سے باہر کر دیا گیا۔ باغ ختم ہوئے تو آلودگی بڑھ گئی، شہر میں سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ محلے محلے میں لائبریاں تھیں، لوگ کتابیں پڑھتے تھے، سوچتے تھے، مل کر بات کرتے تھے، اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھتے تھے۔ کالجوں کے شہر میں  تعلیم ابھی کمرشل نہ ہوئی تھی۔ استاد پڑھاتے تھے اور شاگرد پڑھتے تھے، اور اسی پڑھائی لکھائی میں احترام کا رشتہ قائم ہوجاتا تھا، پکا خلوص کا رشتہ جو وقت، فاصلے کی پیمائش سے کہیں آگے بڑھ کر ہمیشہ قائم رہتا تھا۔ خوراک ابھی فوڈ چینز کا حصہ نہ بنی تھی۔ پڑوسی پڑوسی کو جانتا تھا۔ ڈاکٹر کو وہ رات یاد تھی جب وہ مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک  جارہا تھا۔ رات ایک بجے ایرپورٹ کے لیے جب وہ گھر سے نکل رہا تھا تو پڑوسیوں کے دروازے کھل گئے تھے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دینے والے بزرگ صرف اُس کے اپنے گھر کے نہ تھے۔

اچانک ڈاکٹر کو عجب خیال آیا کہ شہر بھی انسان مانند ہے۔ اُسے ادراک ہوگیا کہ شہر کے تمام اعضاء جواب دے رہے ہیں۔ خدمت پر جو معمور تھے وہی غاصب بن گئے، پیسے کی لوٹ کی چاہ نے قلب سیاہ کردیے۔ ڈاکٹر کو نظر آنے لگا کہ شہر کا دل سیاہ کے ساتھ ساتھ مردہ ہوتا جارہا ہے۔ باغات ختم ہوئے تو شہر کا سانس رکنے لگا، شہر کے پھیپڑوں میں دھواں بھر آیا۔ سڑکوں پر رکی ٹریفک جسم میں خون کی رکاوٹ کی مانند ہے، جلد ہی جسم پھول جائے گا اور ورم جابجا ہونگے۔ بکنے کو تیار حکمران، جعلی دانشور، فرقہ پرستی پھیلاتے ملا، اغراض کے پجاری عہدیدار، پیسے کے اشارے پر پروگرام کرتے اینکرز، سب نے مل کر اقدار بدلنے میں اپنا کردار ادا کیا اور سوچ پامال کردی۔ ڈاکٹر نے سوچا، شہر کا دماغ کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر کو وارڈ میں پڑے ایک مریض کا خیال آیا جس کا دماغ خراب تھا اور وہ وجہ بے وجہ مغلظات بکتا تھا۔ ڈاکٹر کو شہر کے گلی کوچوں میں گند اور سیوریج کے نظام کی مشابہت مریضوں کو لگی پیشاب کی نالیوں سے آئی، مریض جن کے بستر اور کپڑے بو دیتے تھے۔

ڈاکٹر کا شہر سے محبت کا پرانا تعلق تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو وہ رونے لگا۔ اس کی بیوی نے جب اُسے روتے دیکھا تو وہ پریشان ہو گئی۔ ڈاکٹر مضبوط اعصاب کا مالک تھا، اس کی بیوی نے اسے کبھی روتے نہیں دیکھا تھا۔ مگر اُس وقت ڈاکٹر روتا جاتا تھا اور بار بار یہی کہتا تھا، "بڑا نقصان ہونے والا ہے، شہر مر رہا ہے، شہر مر رہا ہے"۔

شہر بھی انسان ہے

تحریر: عاطف ملک

ڈاکٹر نے سوچا بوڑھا مر رہا ہے۔

ڈاکٹر کے ذہن میں بوڑھا کبھی بوڑھا نہیں تھا۔ اُس کا اور بوڑھے کا بچپن سے تعلق تھا۔ بچپن، جب ڈاکٹر بچہ تھا اور بوڑھا بوڑھا نہ تھا۔ آج جب بوڑھا مر رہا تھا تب بھی ڈاکٹر کے ذہن میں اس کا عکس کئی دہائیوں قبل کا تھا؛ پیچھے کو سنوارے بال، ذہانت کا اظہار کرتی گہری آنکھیں، کالے فریم کی عینک لگائے مسکراتا جوان چہرہ جس پر بچپن کی کسی شرارت کی عطا میں ماتھے کی ایک جانب گہرے زخم کا نشان تھا۔ ڈاکٹر کے لیے وقت  اسی منظر پر رکا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کو علم نہیں تھا کہ یہ عکس تھا یا نقش تھا۔ یہ نقش ہی ہوگا، عکس تو بدل سکتا ہے مگر نقش نہیں بدلتا۔

مگر یہ نقش چپکے چپکے بنا تھا، نقش جو عکس تھا اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہ کپڑے پر لگایا گیا ٹھپہ نہ تھا کہ ایک ضرب کے ساتھ ہی چھپ جائے، یہ تو وقت کے ساتھ آئی جھریوں کی مانند چپ چاپ روح میں اُترتے نشان تھے؛ پکے، گوڑے، انمنٹ، شناخت کے طور پر لکھی گئی علامت، ذہن پر کنداں کی گئی پکی تحریر، اہرام مصر سے نکلنے والی ڈھیٹ تحریر جو سمجھ میں نہ آئے مگر ہر حالات میں صدیاں سہار لیتی ہے۔ یہ نقش تھا۔

ڈاکٹر کے لیے بوڑھا بوڑھا نہ تھا۔

ڈاکٹر کو یاد نہیں کہ کب وہ بوڑھے سے پہلی دفعہ ملا تھا۔ شاید وہ پہلا دن تھا جب ساتھ کے میدان میں کرکٹ کھیلتے گیند پڑوس کے گھر کے صحن میں جا گری تھی، اور دروازے پر دستک دے کر ایک بچہ گھبرایا کھڑا تھا۔ سات سال کے بچے نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی تو اس کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔  دروازہ کھلا اور بچے نے وہ مسکراتا چہرہ دیکھا تو اس کی پریشانی یکایک کم ہوگئی تھی۔ صحن سے گیند اٹھاتے اس بچے نے دیکھا تھا کہ گھر میں کئی پھلوں کے درخت لگے تھے، ایک جانب گلاب کا کنج تھا۔ اُس دن بچے کو گیند کے ساتھ ساتھ تازہ اترے دو کینو بھی ملے تھے۔ اس دن وہ بچہ اس گھر سے گیند اور کینوں کے ساتھ ساتھ ایک تعلق بھی اٹھا لایا تھا۔  

لوگ اُس مسکراتے کے پاس کہانیاں سننے آتے تھے جس نے نفسیات پڑھی تھی اورانسانیت جانی تھی۔ شام کو اُس  گھر کے صحن میں بیٹھک لگتی تھی، محبتوں اور جدائیوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اُس شاعر خیال کے پاس لوگ آتے تھے؛ برداشت، رواداری پر بات ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نے اُس مسکراتے چہرے کو کئی جگہوں پر دیکھا؛ لائبریری میں کتاب پڑھتے، چائے خانے میں دوستوں کی محفل میں لطف اٹھاتے، باغ میں صبح کی سیر کرتے، صحن میں پودوں کو پانی دیتے، بیٹھک میں مذہب، انسان، کائنات سب کو ایک لڑی میں پروتے۔  ڈاکٹر نے اُس سے کئی کہانیاں سنیں تھیں، تحیر آمیز، دلآویز، خوش کن، حیران کن؛ وہ کن کی ایک کڑی تھا۔ دوسرے کی بات وہ خوش چہرہ غور سے سنتا تھا اور اپنی بات آرام سے کہتا تھا، کبھی اُس کی آواز اونچی نہ ہوئی کہ وہ دلیل سے بات کرنا جانتا تھا۔ ڈاکٹر نے کچھ عرصے بعد جان لیا کہ وہ انسان کو فوقیت دیتا ہے، اکثر بحث کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہے۔  ڈاکٹر کو سمجھ آگئی کہ اُس گھر سے وہ اکیلا ہی نہیں دوسرے بھی کیوں تعلق اٹھا لاتے ہیں۔

سالہا سال کے بعد وہ تعلق ڈاکٹر کے سامنے آئی-سی-یو میں پڑا تھا۔ بوڑھے کا ذہن کام کرنا چھوڑ رہا تھا، اُس کا دل رُک رہا تھا، اس کی شریانوں میں خون کا بہاو رکاوٹ کا شکار تھا، اُس کی سانس رک رک کر آرہی تھی۔ ڈاکٹر دل گرفتہ تھا مگر اپنے شعبے میں اُس نے بہت سے اجنبیوں اور تعلق داروں کو مرتے دیکھا تھا۔ ڈاکٹر کو علم تھا کہ طب کا شعبہ قربانی مانگتا ہے، آنسو روکنے اور جذبات قابو کرنے کا سوال کرتا ہے۔ ڈاکٹر مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ اس نے پچھلے چند سالوں میں بہت کچھ دیکھا تھا۔ زخمی اور روتی مائیں، کٹے ہوئے بازوں کے ساتھ لائے گئے بچے جو تہوار کے دن پارک میں جھولے لینے گئے اور بم دھماکے کا شکار ہوگئے۔ اس نے خود کش حملوں کے زخمیوں پر مرہم رکھا تھا، اس نے فرقہ وارانہ حملوں کے زخمیوں کی پٹیاں کرتے خون سے اپنا سفید اوورکوٹ رنگدار کر لیا تھا۔ تمام انسانی کوشش کے باوجود مر جانے والے بے قصوروں کی آںکھیں ڈاکٹر نے اپنے ہاتھوں سے بند کی تھیں۔  مگر وہ خود نہیں رویا تھا کہ اگر وہ رو پڑا تو اُسے چپ کون کرائے گا۔ مگر اُس دن آئی-سی-یو میں پڑے اپنے پرانے تعلق کو دیکھ کر ڈاکٹر بہت افسردہ تھا۔ افسردہ مگر رویا وہ پھر بھی نہ تھا۔

ڈاکٹر ہسپتال سے نکلا اور اپنی کار چلا کر گھر کی جانب چل نکلا۔ وہ موڑ مڑا  تو اس نے دیکھا کہ ٹریفک بری طرح پھنسی ہے۔ لوگ اپنی گاڑیاں آگے نکالنے کے چکر میں اپنے مقام سے اتر چکے تھے؛ انسانیت اور گاڑیاں دونوں اپنے مقام سے اتری تھیں۔ دائیں چھوڑ کر اگر لوگ بائیں معمولی سی بھی جگہ پاتے تو وہاں گاڑی گھسیڑ رہے تھے، کچے میں مٹی اڑاتے گھسے چلے جاتے تھے۔ موٹرسائیکل سوار معمولی سی جگہ دیکھ کر اپنی بائیک گھسا رہے تھے۔ کچھ اپنی موٹرسائیکل اٹھا کرسڑک کی درمیانی بٹوار کو عبور کر کے مخالف سمت سے آنے والی ٹریفک میں روانہ ہوگئے تھے۔ دوسری جانب شاید ٹریفک جام تھی کہ ٹریفک نہ آرہی تھی سو کچھ دیر بعد ایک راہ پا کر گاڑیاں بھی سامنے سے آنے والی سڑک پر جا گھسیں۔ ٹریفک کا بہاو پہلے ہلکا چل رہا تھا، پھر بری طرح رکاوٹ کا شکارہوگیا۔ ڈاکٹر صبح سے افسردہ تھا، یہ حالات دیکھ کر وہ افسوس کی کسی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ فضا بہت آلودہ تھی، دھویں میں سانس لینے سے دشواری ہورہی تھی۔ ڈاکٹر نے گاڑی کے شیشے چڑھا دیے، مگر وہ ایر کنڈیشنڈ نہیں چلانا چاہتا تھا کہ نہ جانے ابھی کتنا وقت اسی سڑک پر گذرنا تھا۔ اس نے آس پاس کے لوگوں پر نظر ڈالی، سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے، گا لیاں دیتے، کھانستے، جھلاہٹ کا شکارایک دوسرے کا حق مار کر آگے نکلنے کی کوشش میں تھے۔  ڈاکٹر کو سب سمجھ بوجھ سے عاری نظر آرہے تھے جو اپنی حرکات سے ٹریفک کی خرابی میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔  ڈاکٹر نے سوچا کیا ان کا دماغ کام نہیں کرتا؟ یہ اپنی ہی شاخ کو کاٹتے لوگ ہیں جو اپنا نقصان کرنے پر تلے ہیں، چڑچڑاہٹ کا شکار، گالیاں دیتے، سمجھ بوجھ سے عاری ایک ہجوم چل رہا تھا۔ ڈاکٹر نے سوچا کہ کیا یہ زندہ ہیں؟ اُسے پتہ تھا کہ سانس آنے کا مطلب زندہ ہونا نہیں ہوتا۔ اُسی وقت اس کی گاڑی کو کسی نے پیچھے سے ٹکر مار دی۔ وہ گاڑی سے اترا، شکر تھا کہ رفتار ہلکی ہونے کی بنا پرمعمولی نقصان تھا، مگر دوسری گاڑی کا ڈرائیور شدید غصے میں تھا۔ وہ ڈاکٹر کو گالیاں دے رہا تھا۔ بظاہر وہ خوش لباس آدمی پڑھا لکھا اور اچھا عہدیدار لگ رہا تھا مگر اس کی زبان کچھ اور بتا رہی تھی۔ ڈاکٹر کو سمجھ نہ آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ کیا اس آدمی کا دماغ کام نہیں کررہا کہ گاڑی کو اُس نے پیچھے سے ٹکر ماری اور گالیاں بھی  وہی نکال رہا تھا۔ ڈاکٹر کو آئی- سی–یو میں پڑے بوڑھے کے برتاو کا خیال آیا، اس نے الجھے بغیر بدتمیز شخص سے معافی مانگی اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کو رینگتی رفتار سے آگے بڑھانے لگا۔

ڈاکٹرپہلے ہی افسردہ تھا اور مزید افسردہ ہوگیا۔ رینگتی گاڑی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے سامنے آگئی تھی۔ یونیورسٹی کے باہر طلباء مظاہرہ کررہے تھے جس کی وجہ سے ٹریفک کا مسلہ بنا ہوا تھا۔  طلباء نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ انہیں سبز باغ دکھا کر ایسے شعبوں میں داخلے دیے گئے تھے جن کی مانگ ہے، مگر پرائیویٹ یونیورسٹی وہ ڈگریاں دینے کی اجازت نہ رکھتی تھی۔ سالہا سال ان طلبا سے فیسیں اکٹھی کی گئیں؛ اکٹھی کی گئیں یا لوٹی گئیں؟ کورس مکمل ہوگئے، ڈگریاں دے دی گئیں مگر ان ڈگریوں کی کاغذ کے ٹکڑوں سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہ تھی۔ ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی لٹ گئی تھی۔ سالہا سال گذر گئے مگر کوئی ان کی شنوائی نہ تھی۔ اُن کی بات کوئی نہ سنتا تھا۔ یونیورسٹی کے مالک نے طلبا سے اینٹھے پیسوں سے ایک ٹی وی چینل چلا لیا تھا۔ تعلیم کی بندر بانٹ کے ساتھ ساتھ اب وہ بلیک میلنگ سے پیسے کمارہا تھا۔ اس ٹی وی چینل کے اینکرز مالک کے حکم پر کسی کی عزت کی دھجیاں ادھیڑتے ایک لمحہ کو نہ رکتے تھے۔  ان کے شر سے دیانتداری سے کام کرنیوالے عہدیدار اور ادارے کوئی محفوظ نہ تھے۔ ڈاکٹر نے سوچا کہ کیا ان کا ضمیر زندہ ہے؟ کیا کسی پر ظلم کرتے ہوئے انکے دل کی دھڑکن اپنی رفتار سے آگے پیچھے نہیں ہوتی؟ عام لوگوں کے پیسے ہتھیاتے کیسے کسی کو کوئی احساس نہیں ہوتا؟ کیا انہیں اولاد کی تعلیم کے نام پر ماں باپ کے منہ سے نوالہ چھینتے ایک لمحے کی کپکپاہٹ بھی نہیں ہوتی؟ یہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں؟ ڈاکٹرپہلے ہی افسردہ تھا، وہ مزید افسردہ ہوگیا۔

ڈاکٹر کی گاڑی  رینگتے رینگتے بالآخر اس یونیورسٹی کے آگے سے گذر گئی۔ آگے ایک بڑی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔ اس جگہ کچھ عرصے قبل تک کھیل کا میدان تھا جہاں بچے کرکٹ کھیلتے تھے۔ صبح کو بزرگ خواتین ہاتھ میں تسبحیاں پکڑے سیر کرتی نظر آتی تھیں۔ شام کو کونے میں جوڈو کراٹے کے استاد اپنے شاگردوں کو تیار کر رہے ہوتے تھے۔ شام کے بعد لوگ آکر گپ شپ لگانے بیٹھ جاتے تھے، لوڈو اور تاش کی بازیاں لگتی تھیں، لوگ ہنستے اور ایک دوسرے کے رونے میں شریک ہوتے تھے۔ ہر روز میدان کے ایک جانب ایک بانسری نواز اپنے شاگردوں کو دھنیں سکھانے لگ جاتا تھا۔ ڈاکٹر کے خیال میں بانسری کی آواز گونجنے لگی، افسردہ بلکہ بہت افسردہ ہونے کے باوجود اُس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔

ڈاکٹر نے سوچا یہ تو اس قدیم شہر کی تہذیب کا حصہ تھا۔ یہ بوڑھا شہر بھی ڈاکٹر کے دل پر نقش تھا، گوڑی، انمٹ، پکی تحریر کے ساتھ نقش تھا۔ اس باغوں کے شہر کی تہذیب میں قصہ گو جا بجا بیٹھتے تھے۔ لوگوں کے دل کُھلے تھے، لوگ انسان کو انسانیت سے جانتے تھے، فرقہ بندی کہیں نہ تھی۔ ایک فرقے کے جلوس میں دوسرے فرقے کے لوگ سبیلیں لگا کر پیاسوں کی پیاس بجھاتے تھے۔ ٹی ہاوسز میں لوگ بیٹھ کر ادب کی بات ادب سے کرتے تھے۔ باغوں کے شہر میں  پھر ایسی رُت بدلی کہ باغ کنکریٹ سے بھرے جانے لگے۔ باغوں کی زمین ہتھیا لی گئی ۔ وہ خواص جنہیں عام لوگوں کے حقوق کے لیے چنا گیا، انہوں نے ہی عامیوں سے صاف ہوا چھین لی۔ کہیں ایم پی اے ہوسٹل بن گئے، کہیں لینڈ مافیا اور سرکاری عہدیدران کی ملی بھگت سے باغات کی زمین پر پلازے اور کمرشل عمارات قائم کر دی گئیں۔ ڈونگی گراونڈیں عمارتی میٹیریل سے بھر گئیں۔ شہریوں کی سیر اور بچوں کے کھیل کی جگہ پر حاجی کیمپ کے بورڈ لگا کر مخلوق کی پہنچ سے باہر کر دیا گیا۔ باغ ختم ہوئے تو آلودگی بڑھ گئی، شہر میں سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ محلے محلے میں لائبریاں تھیں، لوگ کتابیں پڑھتے تھے، سوچتے تھے، مل کر بات کرتے تھے، اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھتے تھے۔ کالجوں کے شہر میں  تعلیم ابھی کمرشل نہ ہوئی تھی۔ استاد پڑھاتے تھے اور شاگرد پڑھتے تھے، اور اسی پڑھائی لکھائی میں احترام کا رشتہ قائم ہوجاتا تھا، پکا خلوص کا رشتہ جو وقت، فاصلے کی پیمائش سے کہیں آگے بڑھ کر ہمیشہ قائم رہتا تھا۔ خوراک ابھی فوڈ چینز کا حصہ نہ بنی تھی۔ پڑوسی پڑوسی کو جانتا تھا۔ ڈاکٹر کو وہ رات یاد تھی جب وہ مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک  جارہا تھا۔ رات ایک بجے ایرپورٹ کے لیے جب وہ گھر سے نکل رہا تھا تو پڑوسیوں کے دروازے کھل گئے تھے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دینے والے بزرگ صرف اُس کے اپنے گھر کے نہ تھے۔

اچانک ڈاکٹر کو عجب خیال آیا کہ شہر بھی انسان مانند ہے۔ اُسے ادراک ہوگیا کہ شہر کے تمام اعضاء جواب دے رہے ہیں۔ خدمت پر جو معمور تھے وہی غاصب بن گئے، پیسے کی لوٹ کی چاہ نے قلب سیاہ کردیے۔ ڈاکٹر کو نظر آنے لگا کہ شہر کا دل سیاہ کے ساتھ ساتھ مردہ ہوتا جارہا ہے۔ باغات ختم ہوئے تو شہر کا سانس رکنے لگا، شہر کے پھیپڑوں میں دھواں بھر آیا۔ سڑکوں پر رکی ٹریفک جسم میں خون کی رکاوٹ کی مانند ہے، جلد ہی جسم پھول جائے گا اور ورم جابجا ہونگے۔ بکنے کو تیار حکمران، جعلی دانشور، فرقہ پرستی پھیلاتے ملا، اغراض کے پجاری عہدیدار، پیسے کے اشارے پر پروگرام کرتے اینکرز، سب نے مل کر اقدار بدلنے میں اپنا کردار ادا کیا اور سوچ پامال کردی۔ ڈاکٹر نے سوچا، شہر کا دماغ کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر کو وارڈ میں پڑے ایک مریض کا خیال آیا جس کا دماغ خراب تھا اور وہ وجہ بے وجہ مغلظات بکتا تھا۔ ڈاکٹر کو شہر کے گلی کوچوں میں گند اور سیوریج کے نظام کی مشابہت مریضوں کو لگی پیشاب کی نالیوں سے آئی، مریض جن کے بستر اور کپڑے بو دیتے تھے۔

ڈاکٹر کا شہر سے محبت کا پرانا تعلق تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو وہ رونے لگا۔ اس کی بیوی نے جب اُسے روتے دیکھا تو وہ پریشان ہو گئی۔ ڈاکٹر مضبوط اعصاب کا مالک تھا، اس کی بیوی نے اسے کبھی روتے نہیں دیکھا تھا۔ مگر اُس وقت ڈاکٹر روتا جاتا تھا اور بار بار یہی کہتا تھا، "بڑا نقصان ہونے والا ہے، شہر مر رہا ہے، شہر مر رہا ہے"۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024