شب کا مسافر

شب کا مسافر

Mar 12, 2018

دیدبان شمارہ۔۷

شب کا مسافر

سخاوت حسین 

شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ شفق پر سورج کی سرخ لکیر الوداع ہوتے مسافر کے آخری سلام کی طرح دور پردہ افق سے الودامی سلام کہہ رہی تھی۔ لاہو ر کی سڑکوں پر اسی طرح گہما گہمی تھی جیسے روز ہوا کرتی تھی۔ چنگ چی رکشے اپنے سفر پر رواں دواں تھے۔ بازاروں میںخریداروں کا ہجوم تھا۔ مجھے کسی کام سے اردو بازار جا نا تھا۔ لیکن رش تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اردو بازار کے شروع میںکھڑے سٹیشنری کے ریڑھے جسے موبائل دوکان بھی کہ سکتے ہیں ، اپنے آپ میں ہی ایک داستان تھے۔کون سی سٹیشنری کی ایسی چیز تھی جو اس چھوٹے سے ریڑھے پر موجود نہ ہو۔ سائیڈ پر چنے والا چنے بیچ رہا تھا۔جب کہ تھوڑی دور پٹھورے والا تیل میں پٹھورے ڈالنے کے علاوہ گاہکوں کوموٹی بگڑی آواز میں بلا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے رش سے بچتے بچتے آخر اردو بازار پہنچا۔رکشے سے اترا اور مطلوبہ سامان ، جو کہ کچھ کتابوں اور کاپیوں پر مشتمل تھا لیا۔ واپسی پر مچھلی مارکیٹ سے گزرتے ہوئے بھاٹی چوک کی طرف چل پڑا۔ دل چاہ رہا تھا کہ پٹھورے بھاٹی چوک سے ہی کھاوں۔بھاٹی چوک میں ویگنوں کے بائیں ہاتھ کی جانب تھوڑا سا نیچے آکر دو پٹھورے والے سال پہلے تک پٹھورے لگایا کرتے تھے۔ دونوں کا خوب مقابلہ رہتا تھا۔ اسی مقابلے کے چکر میں دام بھی دونوں نے کم کر رکھے تھے۔ اب تو صورت حال تبدیل ہو چکی ہے اور صرف ایک ہی پٹھورے والا رہ گیا ہے۔ جیب میں ہاتھ ڈالے تو ابھی کچھ پیسے بچے ہوئے تھے۔ پٹھورے کی دکان پر پہنچا اور کرسی پر سکون سے ڈھ گیا۔ پٹھورے والے، پٹھورے والے وہ ہر آنے اور جانے والوں کو کسی مارکیٹنگ مینیجر کی طرح اپنی طرف بلا رہا تھا۔ تبھی ایک شخص بارہ ربیع الاول کے’ بیجز ‘ اور اس حوالے سے کچھ چیزیں اٹھائے میرے پاس پہنچا۔ "صاحب خرید لو۔ خرید لو صاحب۔”وہ جیسے پیچھے ہی پڑ گیا۔"جاو بھئی اللہ معاف کرے۔ “ابھی میں اتنا ہی بولا تھا کہ وہ تاو کھا گیا۔ "کیسی معافی صاحب۔ میں نے آپ سے بھیک کب مانگی ہے۔ کیا آپ کو بھیگ مانگنے اور محنت کرنے والے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔؟” مجھے اپنے جملوں کی کاٹ کا احساس ہوا۔ اس سے معافی مانگی اور اسے پٹھوروں کی پیشکش کر دی۔ جسے اس نے بڑی خوشی سے قبول کیا۔ “کہاں سے آئے ہو۔ “"جی۔” وہ اتنے دھیان سے پٹھورے کھا رہا تھا جیسے کئی دن سے بھوکا ہو۔ میرا خواہ مخواہ دل چاہ رہا تھا اسے چھیڑوں۔” کہاں سے آئے ہو۔" میں نے دوبارہ پوچھا۔""جہاں سے سب آتے ہیں۔ “اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ "سب کہاں سے آتے ہیں۔ “میں نے دوبارہ اسے چھیڑا۔اسی پر میں آپ کو اپنی ماں کی ایک بات سناوں گا۔ میں ماں سے اکثر پوچھتا تھا ہم کیوں آئے ہیں دنیا میں تو وہ کہتی۔ اس لیے کہ ہمیں دنیا میں آنے کا سلیقہ آجائے۔ ایک وقت آتا ہے جب دنیا ہی ہم میں آجاتی ہے۔ "سنو کتنا پڑھے لکھے ہو تم۔”مجھے لگا وہ جاہل ہرگز نہیں تھا اور ماں والی بات بھی غالبا اس کی اپنی ہی تھی۔"صاحب بی اے پاس ہوں۔ کچھ کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں۔ پہلے والد صاحب ایک دوکا ن کرتے تھے۔ دوکان نہ چلی تو ان کی سانسیں بھی نہ چل سکیں اس کے بعد ہماری دنیا ہی تاریک ہو گئی۔ میں نے بمشکل بی اے کیا تھا۔ پڑھائی کا شوق تھا۔ لیکن والد صاحب کی حالت دیکھ کر آگے ایم اے کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بس پرانی کتابیں کبھی خریدتا۔ ناولز، حکایات اور دیگر کتابیںپڑھتا رہتا۔ جب سے دوکان بند ہوئی وہ سلسلہ بھی بند ہوا۔ اس کے بعد صبح چنے کی ریڑھی لگاتا ہوں ساتھ میں بارہ ربیع الاول قریب ہے تو اسی مناسبت سے شام کو چیزیں بیچ رہا ہوں ۔"”"اچھا۔ اتنی محنت اس لیے کر رہے ہو کہ جلدی شادی کر سکو۔" میں نے پھر اسے چھیڑا۔"نہیں ، ایسا کوئی ارادہ نہیں میرا۔" اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے یہ سوال قطعی پسند نہیں آیا۔ اب تو دوکاندار بھی ہمیں گھورنے لگا تھا۔ کافی دیر ہوگئی تھی ۔پٹھورے والوں جتنی چاہت سے بلاتے ہیں اتنی عزت سے رخصت بھی کرنا جانتے ہیں۔چونکہ میرے پاس کثیر تعداد میں وقت ہی وقت تھا لہذا میں نے اسے کہا چلو یار تم دلچسب لگے ہو کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ وہ مان گیا اور ہم بھاٹی چوک میں ایک کھوکھے کے باہر بیٹھ کر چائے کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد میں پھر محبت نما گفتگو پر آگیا۔اگرچہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھا مگر شکل و صورت سے وہ اعلی خاندان کا نظر آتا تھا۔ غریت بھی کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ غریب ایک کپڑے دھونے والے صابن سے جتنا چمکتا ہے اتنا امیر ہزاروں کا میک اپ کرکے بھی وہ چمک حاصل نہیں کرپاتا۔میں نے اکثر کوڑے دانوں پر پریوں کو جھلملاتے دیکھا تھا۔ جن کے ساتھ نھنے شہرادے امید کی دیپ جلائے اپنا رزق ڈھونڈتے تھے۔ "کس سوچ میں گم ہوگئے ہو جناب،" اس نے مجھے پکارا تو میں خیالی دنیا سے واپس اصلی دنیا میں لوٹ آیا۔ سچ کہتے ہو یار، سوچیں انسان کو گم ہی کردیتی ہیں۔ "نہیں صاحب، غربت انسان کو گم کرتی ہے، پھر اسے اپنا آپ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ روز محل نما گھروں میں شادی کے شادیانے بجتے ہیں۔ مگر غربت دم دبائے ، اسی محل کے باہر بچے ہوئے سالن اور روٹی کی آرزو میں رات بھر آنکھیں اس رستے پر ویران کر دیتی ہے اور گھر میں بچوں کو اپنی سانسیں دے کر یہاں رات بھر صرف بھوک کی مہک محسوس کرتی ہے۔ "کتنا درد تھا اس کے سینے میں، کتنا حساس تھا وہ، ہر منظر جو نظر سے اوجھل تھا۔ ہر راہ جو رستے سے دور تھا۔ ہر قدم جو ٹانگوں کا ساتھ نہ دیتا تھا۔ ہر احساس جو بے حسی کی چادر میں ملفوف تھا۔ وہ ویسا ہی لڑکا تھا۔ "سنو شادی نہ سہی تم نے محبت کی ہے کبھی۔ شرماو مت کبھی تو کی ہوگی۔ کوئی لڑکی پسند آئی ہوگی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کبھی کسی نے تمھاری زندگی میں چاہت کا رنگ نہ بھرا ہو۔" مجھے پتہ تھا یہ سوال کرنے کے بعد مجھے اس کا فلسفہ سننا پڑے گا مگر میں مطمئین تھا ۔ میں اطمینا ن کی منزل پر تھا۔ ابھی کل ہی میں الحمرا ھال میں ایک دانشور کی باتیں سن کر آیا تھا جہاں رنگ برنگے لوگ، نکھرے ہوئے، پھول کی طرح کھلتے ہوئے ہر سو اپنی مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے تب میں سوچتا تھا شاید زندگی اتنی ہی آسان ہوگی۔ اتنی ہی جتنی دانشور کہتے ہیں۔ مگر اس سے مل کر لگا زندگی اتنی ہی آسان ہے جتنی ہمیں محسوس ہوتی ہے۔“وہ محبت کے سوال پر پھر سے بولنے لگا۔ صاحب: تمھارے لئے محبت کی "م" معجزہ ہمارے لئے "م" مزدوری اور موت ، تمھارے لئے محبت کی ح "حساب دل " ہمارے لئے حرکت مسلسل اور حسرت روز و شب، تمھارے لئے محبت کی "ب" بے خودی جب کہ ہمارے لئے بے روزگاری اور بے حسی، تمھارے لئے محبت کی "ت" تلاطم ہمارے لئے تلخی اور ترجیحات۔ کیسی محبت ، محبت بھی تب اچھی لگتی ہے جب پیٹ پر سکون کا اوس گرے۔” تب تک چائے آگئی تھی اور میں اس کی گہری باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا۔ اسے مزید ٹٹولوں۔ چائے کا سپ لیتے ہوئے میں پھر اس سے بولا۔"سنو محبت تو ہر حال میں خوبصورت ہے۔ محبت پھول کی مہکی ڈالی کا پیغام ہے۔ محبت وفا کا سرخ پھول ہے۔ محبت دل کی کتاب ہے۔ محبت شوخ سحاب ہے۔ محبت یادوں کا حساب ہے۔ محبت حسن کا انتساب ہے۔ محبت عقل کی رکاب ہے۔ دوست محبت ہر حال میں خوبصورت ہے۔" میں نے محبت کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔ہاہا، وہ ہنسا۔۔۔۔"صاحب!!! یہ جو ادب ہوتا ہے نا بڑا ہی بے ادب ہوتا ہے۔ یہ مطمئن لوگوں کے چونچلے ہیں۔ جب تمھارا پیٹ بھوک سے اندر ہونا شروع ہوگا نا تو یہ سارا ادب خود بخود باہر آجائے گا۔” وہ اب بے تکلفی پر اتر آیا تھا اور آپ کی بجائے تم کہنے لگا تھا۔"صاحب!!! ،محبت ضرورت کی پیڑ پر سجی دکھ کی کتا ب ہے۔ میری ماں میری نظروں کے سامنے مری۔ جانتے ہو کیوں؟، کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس کے علاج کے پیسے نہیں تھے۔ باپ مر چکا تھا۔ دوکان بند ہو چکی تھی۔ اور رشتے داروں نے بھی ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا اور ویسے بھی غریب کا رشتے دار بھی کون ہوتا ہے۔ بس غربت ہی ہے جو اس سے رشتہ جوڑے رکھتی ہے۔ صاحب محبت میری بے بسی کی کتا ب ہے اور تم کہتے ہو نا محبت یہ ہے محبت وہ ہے۔ میں نے بھی کسی زمانے میں ڈائجسٹوں میں مختلف ناموں سے کہانیاں لکھیں۔میرا موضوع بھی محبت ہوتا تھا۔ لیکن جب غریبی کے یتیمی کا لباس اوڑھ کر میری خواہشات پر ماتم کرتے دیکھا تو اس دن جان لیا کہ محبت کچھ نہیں۔ میری بہن بن بیاہی گھر کے آنگن میں روز اپنے آنے والے دولہا کا انتظار کرتی ہے۔ ہر دستک کو خوابوں کے شہزادے کی دستک سمجھتی ہے۔ اس کی عمر انتظار میں ڈھل گئی ہے۔ جب لوگ ، کتابیں اور رسائل محبت کی باتیں کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ میری بہن جس کے سر میں چاندی اتر آئی ہے کیا اس معاشر ے کی محبت میرے گھر کی دہلیز پر دم توڑ گئی۔؟ جب بھی کوئی اسے دیکھنے آتا ہے تو جہیز کی ایک لسٹ لے کر آتاہے۔ جس گھر میں آٹا انسان سے قیمتی ہو۔ وہاں جہیز کی چیزیں تو نایاب نوادرات سے قیمتی ہوں گی۔ صاحب تمھارے سب سوالوں کا یہی جواب ہے۔”اس نے نم آنکھوں سے جواب دیا۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ پھٹی قمیض جس میں جگہ جگہ داغ کے نشانات لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کئی ہفتوں سے نہیں نہایا۔"جانتے ہو صاحب میری ایک ماں تھی۔ ہفتوں کھانستی رہتی تھی۔ سب کہتے تھے اسے دائمی کھانسی ہے۔ دائمی کھانسی ہونہہ، غربت بھی دائمی ہماری بیماریاں بھی دائمی۔ کچھ کہتے تھے ماں کو کالا یرقان ہے۔ ٹی بی ہے اور پتہ نہیں کتنے نام تھے اس کی بیماری کے۔ ایک دن ہنس کر کہنے لگی۔ بیٹا شکر کر، تیری ماں کو بیماری کی وجہ سے اتنے نام مل گئے ہیں۔ بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں اتنی رنگین بیماریاں لگ گئیں پتر، اب انہی ناموں کے ساتھ مر بھی جاوں تو کیا ہے ۔؟ لیکن صاحب جب وہ شدید بیمار ہوئی تو میری بھی خواہش تھی کہ مر جائے۔ یہ میری نہیں ہر ضرورت مند کی نہ چاہتے ہوئے بھی خواہش ہوتی ہے۔ یہ جوہمارا سسٹم ہے نا اس میں انسان مر تو سکتا ہے لیکن جی نہیں سکتا۔ میں مزدور شخص کس طرح اسے پالتا ۔تب تو چنے کی ریڑھی بھی نہیں تھی۔باپ بھی مرا تھا۔ گھر میں تقریبا فاقے چلتے تھے۔ بس صبح سے شام مزدوری کرتا تھا۔ مل گئی تو ٹھیک نہیں ملی تو فاقے اور بھوک زندگی کی راہ دیکھتے تھے۔ روز یہی دکھ مجھے مار دیتا کہ کس طرح اس کا علاج کروں۔ یہ جو سب بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں نا۔ محبت یہ ہے محبت وہ ہے تو صاحب اس ملک میں کتنے امیر لوگ ہیں۔ جانتے ہو کتنے امیر لوگ جن کے گھروں میں دس دس گاڑیا ں ہیں۔ جن کے گھروں میں اتنا آٹا ہے کہ وہ پورے علاقے کے غریبوں کو پال سکتے ہیں۔ ان کے بینکوں میں اتنا پیسہ ہے کہ وہ سارے غریبوں کی غریبی دور کرسکتے ہیں۔ قرآن میں تو اللہ کہتا ہے کہ امیروں کے مال میں غریبوں اور مسکینو ں کا حصہ رکھا گیا ہے۔ ان کا خدا الگ اور ہمارا الگ کیوں ہے۔؟ان کا نظام الگ اور ہمارا الگ کیوں ہے۔؟ کیوں یہ تضادات ہیں۔؟ ہم کیوں زمیں پر رینگنے والے کیڑے اورامیر روشنی کی دنیا کے ٹمٹماتے چراغ ہیں۔؟ جانتے ہو صاحب اس دور میں سب سے نادر چیز کیا ہے۔؟ وہ ہے امارت اور پیسہ۔ یہ ہے اس سسٹم کا تحفہ۔ڈیموکریسی۔ ہونہہ۔ بس غریب کوتخلیق کرنے والا ڈیمو سسٹم جس کی ہر شاخ پر ظلم کی داستان ہی لکھی ہے۔" میں بس اس کی باتوں کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہماری چائے ختم ہو چکی تھی۔"سنو میرا دل کر رہا ہے اور چائے پیوں ،تم پیوگے۔ وہ ہنسا۔ غریب کو چائے دو یہی اس کی شراب ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بولا اور میں نے لڑکے کو آواز دے کر دوبارہ چائے لانے کو کہا۔ میں بس اسے سوچ رہا تھا۔ وہ لڑکا جو بی اے پاس تھا۔ اس سسٹم سے کتنا تنگ آچکا تھا۔ اسے لگ رہا تھا یہ سسٹم صرف غریب ہی پیدا کر رہا ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے اس سسٹم کی حفاظت کرنی چاہئیے۔ کیوں۔؟ انسان سسٹم کے لئے بنے ہیں یا سسٹم انسان کے لئے، کیا سسٹم کسی مقدس صحیفوں کی طرح قیمتی ہیں۔؟ کیا سسٹم انسان اور انسانیت سے بالاتر ہیں یا یہ سرمایہ دارانہ نظام کا پرفریب نعرہ ہے کہ سسٹم کی ہر حال میں حفاظت کرو خواہ اپنی جان بھی دینی پڑے۔ "مسائل ہر ایک کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن دوست۔۔۔۔ہم سب انسان ہی ہیں۔ سسٹم ہمارے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔یہ سرمایہ درانہ نظام ، یہ جمہوری نظام ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ضرورتوں کے لئے بنائے ہیں ۔مغرب میں بھی تو یہی نظام چل رہے ہیں مگر ان کی عوام کیوں اتنی تنگ نہیں۔وہاں بھی تو یہی سسٹم چلا رہا ہے۔ وہاں کا وزیر بھی عام شخص کی طرح عام سی گاڑی میں سفر کرتا ہے۔ وہاں رہنے والے مطمعئن ہیں۔ ہم نے ان کا سسٹم ادھار لیا تھا مگر ٹھیک سے وہ بھی ادھار نہیں لے سکے۔ اس سسٹم کا بھی ہم نے بھرتہ بنا لیا۔" میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔چائے کی پیالی آدھی ہو چکی تھی۔ لوگ اسی طرح گزر رہے تھے۔ سامنے ایک بوڑھا پسینے میں شرابور ایک ریڑھی کو کھینچنے میں مصروف تھا۔ جب کہ ایک شخص ہاتھوں میں مسواک لیے گاہک ڈھونڈ رہا تھا۔ ہوائیں جیسے رک چکی تھیں۔ آج موسم خاصا گرم تھا۔ شام کے وقت چائے والے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا بیچنے والے دوکانوں کے باہر پانی کا چھڑکاو کر دیتے ہیں جس سے گرمی کی حرارت میں تھوڑی سی کمی واقع ہوتی ہے۔ وہ میرے سامنے پھٹے لبادے میں ملبوس تھا۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ زمانے کے سارے سرد اور گرم اس نے اپنی ذات پر سہے ہیں۔ بال کالے تھے لیکن درمیان میں کہیں سفید رنگوں نے اپنا ڈیڑا ڈال دیا تھا۔ "اچھا تم جو محبت کے اتنے خلاف ہو جاتنے ہو محبت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ “میں اس سے دوبارہ بولا۔"۔یہ جو آپ مغرب کے سسٹم کی تعریف کر رہے ہو تو ہم کیا مغرب میں رہتے ہیں۔ اپنا گھر برباد ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی کا گھر کتنا آباد ہے۔ وہ کامیاب ہیں اس سے ہمارے ملک اور عوام کو کیا فائدہ مل سکتا ہے۔ میں مزدور آدمی ہوں۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا محلے کا ایم این اے ہے۔ ایم پی اے ہے۔ وہ کروڑ پتی کاروباری شخص ہے۔ علاقے کا ایس ایچ ہے۔ غریب کہاں بڑا ہوتا ہے۔ غریب کے ہاں دکھ بڑے ہوتے ہیں اور سکھ کسی تھیلسمیا ہوئے بچے کی طرح کبھی بڑھتے ہی نہیں ۔سنو صاحب غریب شخص کی چوکھٹ پر ضرورت محبت سے پہلے جوان ہو جاتی ہے اور ہماری لڑکیاں بالوں میں چاندی سجائے محبت کو ڈھونڈتی ہیں۔ آپ غریب سے پوچھتے ہو وہ محبت میں اتنا کاہل کیوں ہے تو سنو محبت بعد میں ضرورت کی باری پہلے آتی ہے۔ خدا نے بھی دل چھوٹا سا اور پیٹ بڑا سا بنا یا ہے۔ چھوٹے سے دل کو سمجھایا جا سکتا ہے لیکن بڑے سے پیٹ کو کیسے سمجھائیں۔ محبت کے بغیر جیا تو جا سکتا ہے لیکن روٹی کے بغیر نہیںجی سکتے۔ سچ پوچھو تو غریب کی دہلیز پر محبت جب دستک دیتی ہے تو ضرورت دستک کو موڑ دیتی ہے۔ ہم دلوں کو توڑ کر ضرورت کی چیزیں جوڑتے ہیں۔ صاحب امیر لوگ ویسے بھی ہمارے گھروں میں نہیں آتے۔ ان کو گلہ ہوتا ہے کہ ہمارے گھروں اور وجود سے پسینوں کی اور عجیب و غریب قسم کی ناگوار بدبو آتی ہے۔ کوئی ان کو بتائے کہ غریبوں کے جسموں اور گھروں سے اٹھنے والی بدبو کا ذمہ دار یہ سسٹم ہے ،یہ نظام ہے۔ یہ نظام جس نے غریب سے سوائے غربت کے ہر چیز چھین لی ہے۔میری بہن کو کئی لوگ دیکھنے آئے۔ لیکن جب بھی آتے ان کی آنکھوں میں دولت کی حرص دیکھی میں نے۔ ان کا بھی کیا قصوروہ بھی ہماری طرح غریب ہی ہیں نا اور سچ پوچھو تو غربت گدھ سے زیادہ خطرناک ہے۔ گدھ مردہ انسان کو نہیں چھوڑتا جبکہ غربت زندہ کو۔ ہم ایکدوسرے کو ہی نوچ نوچ کر کھا جا تے ہیں۔ “ چائے کی پیالی ختم ہوچکی تھی۔ مگر اس غریب رائیٹر کی کہانی ہنوز جاری تھی۔ رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ چنگ چی کا شور اسی طرح جاری تھا۔ ساتھ سمن آبا د اور یتیم خانے جانی والی بسوں کے کنڈیکڑ کا شور ماحول میں شامل ہو کر عجیب سا تاثر پیدا کر رہا تھاچنگ چی اور دیگر گاڑیوں کے دھویں سا اٹی ہوئی فضا اور کنڈیکٹر اور چنگ چی ڈرائیورز کی ساندہ ساندہ کے لیے لگائی جانے والی آوازیں ، ساتھ بیس روپے میں دو شربتوں اور لیموں کے ملاپ سے بننے والے شربت کی دوکان پر لوگوں کا رش ، ہر شے اسی طرح ہی تھی جیسے روز ہوا کرتی تھی۔ پان شا پ پر بھی اچھا خاصا رش تھا جسکی وجہ اس کا ٹی وی تھا جس پر کسی خبر کے چینل پر کوئی مزاحیہ پروگرام چل رہا تھا۔ لو گ منہ میں پان دبائے بس ہنسے جا رہے تھے۔ تھڑوں پر مزدورں نے اپنے بستر بچھا دئے تھے۔ وہ دربار سے ملا ہوا لنگر دنیا سے بے نیاز ہو کر کھا رہے تھے۔ اب اس قبیلے میں مرد اور عورت کی قید نہیں تھی۔عورتیں بھی میٹرو بس کے نیچے مردوں کے شانہ بشانہ سوتی تھیں۔ آوارہ کتے بھی سڑکوں کے کناروں پر بے بسی کے عالم میں پھر رہے تھے۔ وہ میرے سامنے غربت کی کتاب بنا ہوا تھا۔ جس کے ہر صفحے پر سسٹم کی سفاکیاں درج تھیں۔ “اچھا سنو تم تو صبح ریڑھی لگا تے ہو۔ شام کو چیزیں بیچتے ہو۔ پھر بھی گھر نہیں چلتا کیا۔”وہ ہنسا، اس کی ہنسی میں کرب تھا۔ صبح ریڑھی لگا تا ہوں۔ گھر میں تین بہنیں ہیں۔ دو بھائی ہیں۔ وہ بھائی ابھی چھوٹے ہیں۔تین بہنوں میں سے دو اکثر بیمار رہتی ہیں۔ زیادہ تر پیسے ان کے علاج پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتا ل میں تو اکثرٹیسٹ کرنے والی مشینیں ہی خراب ہوتی ہیں اور صحیح ہوتی ہیں تو ایک مہینہ آگے کی تاریخ دی جاتی ہے۔ میری ماں کے کل گیارہ بچے تھے باقی دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے۔ سب کہتے ہیںغریب منصوبہ بندی پر عمل کیوں نہیں کرتا۔ پہلے یہ تو پوچھ لو وہ منصوبہ بندی کا آپریشن اور دوائیاں بھی خرید سکتا ہے یا نہیں۔ہمارے محلے کا ایک غریب بچہ تھا۔ جانتے ہو۔اس کی ماں کے پاس پیراسیٹامول شربت کے پیسے بھی نہیں تھے بیوہ تھی اور آخر علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچہ مر گیاکیوں کہ وہ کسی غریب کا بچہ تھا۔ بیوہ تھی ، ہسپتالوں کے چکر لگائے، ایک دن معلوم ہوا بچے کو ڈینگی ہوا ہے۔ غریب نے بچے کو بچانے کی بہت کوششیں کیں۔ ہسپتالوں کے چکر بھی کاٹے مگر وہ بچہ بچ نہ سکا۔ کسی امیر کا ہوتا تو اخبارات میں سرخی لگ جاتی۔ چینلز والے آتے اور اتنا شور ہوتا۔ میری بہن بیمار ہوئی اسے ہسپتا ل ایک ٹیسٹ کروانے کے لئے مجھے بیس دن لگے۔ صاحب تم کب سے مجھ سے محبت کی باتیں کررہے ہو کہ محبت مضبوط کرتی ہے تو یہ محبت امیروں کو غریبوں سے کیوں نہیں ہوتی۔ سسٹم کو ہم سے کیوں نہیں ہوتی یہ محبت روز ان کی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے حسرت سے تکتے مزدور نما بچوں سے ان گاڑی والوں کو کیوں نہیں ہوتی۔ روزکسی بازار میں عزت کی نیلامی کرتی ہوئی وہ معصوم بچیاں، روز ضرورت کی خاطر کسی دہشت گردی میں استعما ل ہونے والے وہ معصوم پھول صاحب وہ سب محبت کے مستحق نہیں کیا۔؟ ہاہا اور تم کہتے ہو محبت خوبصورت ہے۔کیسی خوبصورتی صاحب۔؟ محبت کے گورے رنگ سے لفظو ں کی کریم ہٹا دو نا تو سب سے بھیانک چہرہ نکل آتا ہے۔ جانتے ہوجب غریب کے گھر سے جنازہ نکلتا ہے تو دوسرا غریب خوش ہوتا ہے کہ آج کچھ اچھا کھانے کو ملے گا۔ غریب والدین کا جنازہ گروی رکھ کر چاول اور گوشت خریدتا ہے تاکہ رسم ادا ہو سکے۔" میں بس ان جھیل سی آنکھوں میں چھپے دکھ کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے بے رونق ہونٹ ، جس کے کھردرے میلے ہاتھ، بڑھے ہوئے ناخن، بے ترتیب بال اپنے آپ میں ایک داستان تھے۔ بھلے وہ وجیہ تھا مگر غربت نے اسے کسی دیو جیسا بد صورت بنا دیا تھا۔ سچ کہتے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ ہی غریب کا دکھ ہے۔ وہ کہہ رہا تھا۔"صاحب یہ جو دل ہے نا بڑا ہی کمبخت ہے۔ غریب کے ہاں ضرورت کے لئے ہر وقت دھڑکتا ہے اور امیر کے ہاں ہارٹ اٹیک کے وقت بے ترتیب ہو جاتا ہے۔ غریب کو ضرورتیں ترتیب سے بے ترتیب کردیتی ہیں۔ اس کے گھر کا آنگن جہاں خواہشات کے بہت بڑے گڑھے دفن ہوتے ہیں۔ جہاں ایک دن وہ بھی بے ترتیب سانسوں کے ساتھ دفن ہو جاتا ہے۔ یہی ہے غریب کا دکھ اور محبت۔ تمھاری دنیا کی محبت جو بہت خوبصورت ہے۔ اس کی چائے کب کی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن آنکھوں کے میں غربت کے موتی جھلملا رہے تھے۔ یہ شاید غریب کے آنسو تھے جس کی قیمت بھی سسٹم نے "کچھ نہیں" ہی رکھا تھا ۔تھوڑے فاصلے پر سیاسی پارٹی کے رہنما اپنی بلڈ پروف گاڑی بہت بڑے پروٹوکول کے ساتھ جلسے سے خطاب کرنے جارہے تھے جب کہ کارکن نما عوام لیڈر کی گاڑی کے آگے پیچھے پیدل” لیڈر زندہ باد “ اور” جان بھی حاضر ہے “جیسے نعرے لگا تی ہوئی سیاست کے گول دائر ے میں مسلسل بھاگی چلی جارہی تھی۔

دیدبان شمارہ۔۷

شب کا مسافر

سخاوت حسین 

شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ شفق پر سورج کی سرخ لکیر الوداع ہوتے مسافر کے آخری سلام کی طرح دور پردہ افق سے الودامی سلام کہہ رہی تھی۔ لاہو ر کی سڑکوں پر اسی طرح گہما گہمی تھی جیسے روز ہوا کرتی تھی۔ چنگ چی رکشے اپنے سفر پر رواں دواں تھے۔ بازاروں میںخریداروں کا ہجوم تھا۔ مجھے کسی کام سے اردو بازار جا نا تھا۔ لیکن رش تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اردو بازار کے شروع میںکھڑے سٹیشنری کے ریڑھے جسے موبائل دوکان بھی کہ سکتے ہیں ، اپنے آپ میں ہی ایک داستان تھے۔کون سی سٹیشنری کی ایسی چیز تھی جو اس چھوٹے سے ریڑھے پر موجود نہ ہو۔ سائیڈ پر چنے والا چنے بیچ رہا تھا۔جب کہ تھوڑی دور پٹھورے والا تیل میں پٹھورے ڈالنے کے علاوہ گاہکوں کوموٹی بگڑی آواز میں بلا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے رش سے بچتے بچتے آخر اردو بازار پہنچا۔رکشے سے اترا اور مطلوبہ سامان ، جو کہ کچھ کتابوں اور کاپیوں پر مشتمل تھا لیا۔ واپسی پر مچھلی مارکیٹ سے گزرتے ہوئے بھاٹی چوک کی طرف چل پڑا۔ دل چاہ رہا تھا کہ پٹھورے بھاٹی چوک سے ہی کھاوں۔بھاٹی چوک میں ویگنوں کے بائیں ہاتھ کی جانب تھوڑا سا نیچے آکر دو پٹھورے والے سال پہلے تک پٹھورے لگایا کرتے تھے۔ دونوں کا خوب مقابلہ رہتا تھا۔ اسی مقابلے کے چکر میں دام بھی دونوں نے کم کر رکھے تھے۔ اب تو صورت حال تبدیل ہو چکی ہے اور صرف ایک ہی پٹھورے والا رہ گیا ہے۔ جیب میں ہاتھ ڈالے تو ابھی کچھ پیسے بچے ہوئے تھے۔ پٹھورے کی دکان پر پہنچا اور کرسی پر سکون سے ڈھ گیا۔ پٹھورے والے، پٹھورے والے وہ ہر آنے اور جانے والوں کو کسی مارکیٹنگ مینیجر کی طرح اپنی طرف بلا رہا تھا۔ تبھی ایک شخص بارہ ربیع الاول کے’ بیجز ‘ اور اس حوالے سے کچھ چیزیں اٹھائے میرے پاس پہنچا۔ "صاحب خرید لو۔ خرید لو صاحب۔”وہ جیسے پیچھے ہی پڑ گیا۔"جاو بھئی اللہ معاف کرے۔ “ابھی میں اتنا ہی بولا تھا کہ وہ تاو کھا گیا۔ "کیسی معافی صاحب۔ میں نے آپ سے بھیک کب مانگی ہے۔ کیا آپ کو بھیگ مانگنے اور محنت کرنے والے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔؟” مجھے اپنے جملوں کی کاٹ کا احساس ہوا۔ اس سے معافی مانگی اور اسے پٹھوروں کی پیشکش کر دی۔ جسے اس نے بڑی خوشی سے قبول کیا۔ “کہاں سے آئے ہو۔ “"جی۔” وہ اتنے دھیان سے پٹھورے کھا رہا تھا جیسے کئی دن سے بھوکا ہو۔ میرا خواہ مخواہ دل چاہ رہا تھا اسے چھیڑوں۔” کہاں سے آئے ہو۔" میں نے دوبارہ پوچھا۔""جہاں سے سب آتے ہیں۔ “اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ "سب کہاں سے آتے ہیں۔ “میں نے دوبارہ اسے چھیڑا۔اسی پر میں آپ کو اپنی ماں کی ایک بات سناوں گا۔ میں ماں سے اکثر پوچھتا تھا ہم کیوں آئے ہیں دنیا میں تو وہ کہتی۔ اس لیے کہ ہمیں دنیا میں آنے کا سلیقہ آجائے۔ ایک وقت آتا ہے جب دنیا ہی ہم میں آجاتی ہے۔ "سنو کتنا پڑھے لکھے ہو تم۔”مجھے لگا وہ جاہل ہرگز نہیں تھا اور ماں والی بات بھی غالبا اس کی اپنی ہی تھی۔"صاحب بی اے پاس ہوں۔ کچھ کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں۔ پہلے والد صاحب ایک دوکا ن کرتے تھے۔ دوکان نہ چلی تو ان کی سانسیں بھی نہ چل سکیں اس کے بعد ہماری دنیا ہی تاریک ہو گئی۔ میں نے بمشکل بی اے کیا تھا۔ پڑھائی کا شوق تھا۔ لیکن والد صاحب کی حالت دیکھ کر آگے ایم اے کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بس پرانی کتابیں کبھی خریدتا۔ ناولز، حکایات اور دیگر کتابیںپڑھتا رہتا۔ جب سے دوکان بند ہوئی وہ سلسلہ بھی بند ہوا۔ اس کے بعد صبح چنے کی ریڑھی لگاتا ہوں ساتھ میں بارہ ربیع الاول قریب ہے تو اسی مناسبت سے شام کو چیزیں بیچ رہا ہوں ۔"”"اچھا۔ اتنی محنت اس لیے کر رہے ہو کہ جلدی شادی کر سکو۔" میں نے پھر اسے چھیڑا۔"نہیں ، ایسا کوئی ارادہ نہیں میرا۔" اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے یہ سوال قطعی پسند نہیں آیا۔ اب تو دوکاندار بھی ہمیں گھورنے لگا تھا۔ کافی دیر ہوگئی تھی ۔پٹھورے والوں جتنی چاہت سے بلاتے ہیں اتنی عزت سے رخصت بھی کرنا جانتے ہیں۔چونکہ میرے پاس کثیر تعداد میں وقت ہی وقت تھا لہذا میں نے اسے کہا چلو یار تم دلچسب لگے ہو کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ وہ مان گیا اور ہم بھاٹی چوک میں ایک کھوکھے کے باہر بیٹھ کر چائے کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد میں پھر محبت نما گفتگو پر آگیا۔اگرچہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھا مگر شکل و صورت سے وہ اعلی خاندان کا نظر آتا تھا۔ غریت بھی کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ غریب ایک کپڑے دھونے والے صابن سے جتنا چمکتا ہے اتنا امیر ہزاروں کا میک اپ کرکے بھی وہ چمک حاصل نہیں کرپاتا۔میں نے اکثر کوڑے دانوں پر پریوں کو جھلملاتے دیکھا تھا۔ جن کے ساتھ نھنے شہرادے امید کی دیپ جلائے اپنا رزق ڈھونڈتے تھے۔ "کس سوچ میں گم ہوگئے ہو جناب،" اس نے مجھے پکارا تو میں خیالی دنیا سے واپس اصلی دنیا میں لوٹ آیا۔ سچ کہتے ہو یار، سوچیں انسان کو گم ہی کردیتی ہیں۔ "نہیں صاحب، غربت انسان کو گم کرتی ہے، پھر اسے اپنا آپ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ روز محل نما گھروں میں شادی کے شادیانے بجتے ہیں۔ مگر غربت دم دبائے ، اسی محل کے باہر بچے ہوئے سالن اور روٹی کی آرزو میں رات بھر آنکھیں اس رستے پر ویران کر دیتی ہے اور گھر میں بچوں کو اپنی سانسیں دے کر یہاں رات بھر صرف بھوک کی مہک محسوس کرتی ہے۔ "کتنا درد تھا اس کے سینے میں، کتنا حساس تھا وہ، ہر منظر جو نظر سے اوجھل تھا۔ ہر راہ جو رستے سے دور تھا۔ ہر قدم جو ٹانگوں کا ساتھ نہ دیتا تھا۔ ہر احساس جو بے حسی کی چادر میں ملفوف تھا۔ وہ ویسا ہی لڑکا تھا۔ "سنو شادی نہ سہی تم نے محبت کی ہے کبھی۔ شرماو مت کبھی تو کی ہوگی۔ کوئی لڑکی پسند آئی ہوگی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کبھی کسی نے تمھاری زندگی میں چاہت کا رنگ نہ بھرا ہو۔" مجھے پتہ تھا یہ سوال کرنے کے بعد مجھے اس کا فلسفہ سننا پڑے گا مگر میں مطمئین تھا ۔ میں اطمینا ن کی منزل پر تھا۔ ابھی کل ہی میں الحمرا ھال میں ایک دانشور کی باتیں سن کر آیا تھا جہاں رنگ برنگے لوگ، نکھرے ہوئے، پھول کی طرح کھلتے ہوئے ہر سو اپنی مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے تب میں سوچتا تھا شاید زندگی اتنی ہی آسان ہوگی۔ اتنی ہی جتنی دانشور کہتے ہیں۔ مگر اس سے مل کر لگا زندگی اتنی ہی آسان ہے جتنی ہمیں محسوس ہوتی ہے۔“وہ محبت کے سوال پر پھر سے بولنے لگا۔ صاحب: تمھارے لئے محبت کی "م" معجزہ ہمارے لئے "م" مزدوری اور موت ، تمھارے لئے محبت کی ح "حساب دل " ہمارے لئے حرکت مسلسل اور حسرت روز و شب، تمھارے لئے محبت کی "ب" بے خودی جب کہ ہمارے لئے بے روزگاری اور بے حسی، تمھارے لئے محبت کی "ت" تلاطم ہمارے لئے تلخی اور ترجیحات۔ کیسی محبت ، محبت بھی تب اچھی لگتی ہے جب پیٹ پر سکون کا اوس گرے۔” تب تک چائے آگئی تھی اور میں اس کی گہری باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا۔ اسے مزید ٹٹولوں۔ چائے کا سپ لیتے ہوئے میں پھر اس سے بولا۔"سنو محبت تو ہر حال میں خوبصورت ہے۔ محبت پھول کی مہکی ڈالی کا پیغام ہے۔ محبت وفا کا سرخ پھول ہے۔ محبت دل کی کتاب ہے۔ محبت شوخ سحاب ہے۔ محبت یادوں کا حساب ہے۔ محبت حسن کا انتساب ہے۔ محبت عقل کی رکاب ہے۔ دوست محبت ہر حال میں خوبصورت ہے۔" میں نے محبت کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔ہاہا، وہ ہنسا۔۔۔۔"صاحب!!! یہ جو ادب ہوتا ہے نا بڑا ہی بے ادب ہوتا ہے۔ یہ مطمئن لوگوں کے چونچلے ہیں۔ جب تمھارا پیٹ بھوک سے اندر ہونا شروع ہوگا نا تو یہ سارا ادب خود بخود باہر آجائے گا۔” وہ اب بے تکلفی پر اتر آیا تھا اور آپ کی بجائے تم کہنے لگا تھا۔"صاحب!!! ،محبت ضرورت کی پیڑ پر سجی دکھ کی کتا ب ہے۔ میری ماں میری نظروں کے سامنے مری۔ جانتے ہو کیوں؟، کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس کے علاج کے پیسے نہیں تھے۔ باپ مر چکا تھا۔ دوکان بند ہو چکی تھی۔ اور رشتے داروں نے بھی ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا اور ویسے بھی غریب کا رشتے دار بھی کون ہوتا ہے۔ بس غربت ہی ہے جو اس سے رشتہ جوڑے رکھتی ہے۔ صاحب محبت میری بے بسی کی کتا ب ہے اور تم کہتے ہو نا محبت یہ ہے محبت وہ ہے۔ میں نے بھی کسی زمانے میں ڈائجسٹوں میں مختلف ناموں سے کہانیاں لکھیں۔میرا موضوع بھی محبت ہوتا تھا۔ لیکن جب غریبی کے یتیمی کا لباس اوڑھ کر میری خواہشات پر ماتم کرتے دیکھا تو اس دن جان لیا کہ محبت کچھ نہیں۔ میری بہن بن بیاہی گھر کے آنگن میں روز اپنے آنے والے دولہا کا انتظار کرتی ہے۔ ہر دستک کو خوابوں کے شہزادے کی دستک سمجھتی ہے۔ اس کی عمر انتظار میں ڈھل گئی ہے۔ جب لوگ ، کتابیں اور رسائل محبت کی باتیں کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ میری بہن جس کے سر میں چاندی اتر آئی ہے کیا اس معاشر ے کی محبت میرے گھر کی دہلیز پر دم توڑ گئی۔؟ جب بھی کوئی اسے دیکھنے آتا ہے تو جہیز کی ایک لسٹ لے کر آتاہے۔ جس گھر میں آٹا انسان سے قیمتی ہو۔ وہاں جہیز کی چیزیں تو نایاب نوادرات سے قیمتی ہوں گی۔ صاحب تمھارے سب سوالوں کا یہی جواب ہے۔”اس نے نم آنکھوں سے جواب دیا۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ پھٹی قمیض جس میں جگہ جگہ داغ کے نشانات لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کئی ہفتوں سے نہیں نہایا۔"جانتے ہو صاحب میری ایک ماں تھی۔ ہفتوں کھانستی رہتی تھی۔ سب کہتے تھے اسے دائمی کھانسی ہے۔ دائمی کھانسی ہونہہ، غربت بھی دائمی ہماری بیماریاں بھی دائمی۔ کچھ کہتے تھے ماں کو کالا یرقان ہے۔ ٹی بی ہے اور پتہ نہیں کتنے نام تھے اس کی بیماری کے۔ ایک دن ہنس کر کہنے لگی۔ بیٹا شکر کر، تیری ماں کو بیماری کی وجہ سے اتنے نام مل گئے ہیں۔ بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں اتنی رنگین بیماریاں لگ گئیں پتر، اب انہی ناموں کے ساتھ مر بھی جاوں تو کیا ہے ۔؟ لیکن صاحب جب وہ شدید بیمار ہوئی تو میری بھی خواہش تھی کہ مر جائے۔ یہ میری نہیں ہر ضرورت مند کی نہ چاہتے ہوئے بھی خواہش ہوتی ہے۔ یہ جوہمارا سسٹم ہے نا اس میں انسان مر تو سکتا ہے لیکن جی نہیں سکتا۔ میں مزدور شخص کس طرح اسے پالتا ۔تب تو چنے کی ریڑھی بھی نہیں تھی۔باپ بھی مرا تھا۔ گھر میں تقریبا فاقے چلتے تھے۔ بس صبح سے شام مزدوری کرتا تھا۔ مل گئی تو ٹھیک نہیں ملی تو فاقے اور بھوک زندگی کی راہ دیکھتے تھے۔ روز یہی دکھ مجھے مار دیتا کہ کس طرح اس کا علاج کروں۔ یہ جو سب بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں نا۔ محبت یہ ہے محبت وہ ہے تو صاحب اس ملک میں کتنے امیر لوگ ہیں۔ جانتے ہو کتنے امیر لوگ جن کے گھروں میں دس دس گاڑیا ں ہیں۔ جن کے گھروں میں اتنا آٹا ہے کہ وہ پورے علاقے کے غریبوں کو پال سکتے ہیں۔ ان کے بینکوں میں اتنا پیسہ ہے کہ وہ سارے غریبوں کی غریبی دور کرسکتے ہیں۔ قرآن میں تو اللہ کہتا ہے کہ امیروں کے مال میں غریبوں اور مسکینو ں کا حصہ رکھا گیا ہے۔ ان کا خدا الگ اور ہمارا الگ کیوں ہے۔؟ان کا نظام الگ اور ہمارا الگ کیوں ہے۔؟ کیوں یہ تضادات ہیں۔؟ ہم کیوں زمیں پر رینگنے والے کیڑے اورامیر روشنی کی دنیا کے ٹمٹماتے چراغ ہیں۔؟ جانتے ہو صاحب اس دور میں سب سے نادر چیز کیا ہے۔؟ وہ ہے امارت اور پیسہ۔ یہ ہے اس سسٹم کا تحفہ۔ڈیموکریسی۔ ہونہہ۔ بس غریب کوتخلیق کرنے والا ڈیمو سسٹم جس کی ہر شاخ پر ظلم کی داستان ہی لکھی ہے۔" میں بس اس کی باتوں کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہماری چائے ختم ہو چکی تھی۔"سنو میرا دل کر رہا ہے اور چائے پیوں ،تم پیوگے۔ وہ ہنسا۔ غریب کو چائے دو یہی اس کی شراب ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بولا اور میں نے لڑکے کو آواز دے کر دوبارہ چائے لانے کو کہا۔ میں بس اسے سوچ رہا تھا۔ وہ لڑکا جو بی اے پاس تھا۔ اس سسٹم سے کتنا تنگ آچکا تھا۔ اسے لگ رہا تھا یہ سسٹم صرف غریب ہی پیدا کر رہا ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے اس سسٹم کی حفاظت کرنی چاہئیے۔ کیوں۔؟ انسان سسٹم کے لئے بنے ہیں یا سسٹم انسان کے لئے، کیا سسٹم کسی مقدس صحیفوں کی طرح قیمتی ہیں۔؟ کیا سسٹم انسان اور انسانیت سے بالاتر ہیں یا یہ سرمایہ دارانہ نظام کا پرفریب نعرہ ہے کہ سسٹم کی ہر حال میں حفاظت کرو خواہ اپنی جان بھی دینی پڑے۔ "مسائل ہر ایک کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن دوست۔۔۔۔ہم سب انسان ہی ہیں۔ سسٹم ہمارے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔یہ سرمایہ درانہ نظام ، یہ جمہوری نظام ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ضرورتوں کے لئے بنائے ہیں ۔مغرب میں بھی تو یہی نظام چل رہے ہیں مگر ان کی عوام کیوں اتنی تنگ نہیں۔وہاں بھی تو یہی سسٹم چلا رہا ہے۔ وہاں کا وزیر بھی عام شخص کی طرح عام سی گاڑی میں سفر کرتا ہے۔ وہاں رہنے والے مطمعئن ہیں۔ ہم نے ان کا سسٹم ادھار لیا تھا مگر ٹھیک سے وہ بھی ادھار نہیں لے سکے۔ اس سسٹم کا بھی ہم نے بھرتہ بنا لیا۔" میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔چائے کی پیالی آدھی ہو چکی تھی۔ لوگ اسی طرح گزر رہے تھے۔ سامنے ایک بوڑھا پسینے میں شرابور ایک ریڑھی کو کھینچنے میں مصروف تھا۔ جب کہ ایک شخص ہاتھوں میں مسواک لیے گاہک ڈھونڈ رہا تھا۔ ہوائیں جیسے رک چکی تھیں۔ آج موسم خاصا گرم تھا۔ شام کے وقت چائے والے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا بیچنے والے دوکانوں کے باہر پانی کا چھڑکاو کر دیتے ہیں جس سے گرمی کی حرارت میں تھوڑی سی کمی واقع ہوتی ہے۔ وہ میرے سامنے پھٹے لبادے میں ملبوس تھا۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ زمانے کے سارے سرد اور گرم اس نے اپنی ذات پر سہے ہیں۔ بال کالے تھے لیکن درمیان میں کہیں سفید رنگوں نے اپنا ڈیڑا ڈال دیا تھا۔ "اچھا تم جو محبت کے اتنے خلاف ہو جاتنے ہو محبت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ “میں اس سے دوبارہ بولا۔"۔یہ جو آپ مغرب کے سسٹم کی تعریف کر رہے ہو تو ہم کیا مغرب میں رہتے ہیں۔ اپنا گھر برباد ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی کا گھر کتنا آباد ہے۔ وہ کامیاب ہیں اس سے ہمارے ملک اور عوام کو کیا فائدہ مل سکتا ہے۔ میں مزدور آدمی ہوں۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا محلے کا ایم این اے ہے۔ ایم پی اے ہے۔ وہ کروڑ پتی کاروباری شخص ہے۔ علاقے کا ایس ایچ ہے۔ غریب کہاں بڑا ہوتا ہے۔ غریب کے ہاں دکھ بڑے ہوتے ہیں اور سکھ کسی تھیلسمیا ہوئے بچے کی طرح کبھی بڑھتے ہی نہیں ۔سنو صاحب غریب شخص کی چوکھٹ پر ضرورت محبت سے پہلے جوان ہو جاتی ہے اور ہماری لڑکیاں بالوں میں چاندی سجائے محبت کو ڈھونڈتی ہیں۔ آپ غریب سے پوچھتے ہو وہ محبت میں اتنا کاہل کیوں ہے تو سنو محبت بعد میں ضرورت کی باری پہلے آتی ہے۔ خدا نے بھی دل چھوٹا سا اور پیٹ بڑا سا بنا یا ہے۔ چھوٹے سے دل کو سمجھایا جا سکتا ہے لیکن بڑے سے پیٹ کو کیسے سمجھائیں۔ محبت کے بغیر جیا تو جا سکتا ہے لیکن روٹی کے بغیر نہیںجی سکتے۔ سچ پوچھو تو غریب کی دہلیز پر محبت جب دستک دیتی ہے تو ضرورت دستک کو موڑ دیتی ہے۔ ہم دلوں کو توڑ کر ضرورت کی چیزیں جوڑتے ہیں۔ صاحب امیر لوگ ویسے بھی ہمارے گھروں میں نہیں آتے۔ ان کو گلہ ہوتا ہے کہ ہمارے گھروں اور وجود سے پسینوں کی اور عجیب و غریب قسم کی ناگوار بدبو آتی ہے۔ کوئی ان کو بتائے کہ غریبوں کے جسموں اور گھروں سے اٹھنے والی بدبو کا ذمہ دار یہ سسٹم ہے ،یہ نظام ہے۔ یہ نظام جس نے غریب سے سوائے غربت کے ہر چیز چھین لی ہے۔میری بہن کو کئی لوگ دیکھنے آئے۔ لیکن جب بھی آتے ان کی آنکھوں میں دولت کی حرص دیکھی میں نے۔ ان کا بھی کیا قصوروہ بھی ہماری طرح غریب ہی ہیں نا اور سچ پوچھو تو غربت گدھ سے زیادہ خطرناک ہے۔ گدھ مردہ انسان کو نہیں چھوڑتا جبکہ غربت زندہ کو۔ ہم ایکدوسرے کو ہی نوچ نوچ کر کھا جا تے ہیں۔ “ چائے کی پیالی ختم ہوچکی تھی۔ مگر اس غریب رائیٹر کی کہانی ہنوز جاری تھی۔ رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ چنگ چی کا شور اسی طرح جاری تھا۔ ساتھ سمن آبا د اور یتیم خانے جانی والی بسوں کے کنڈیکڑ کا شور ماحول میں شامل ہو کر عجیب سا تاثر پیدا کر رہا تھاچنگ چی اور دیگر گاڑیوں کے دھویں سا اٹی ہوئی فضا اور کنڈیکٹر اور چنگ چی ڈرائیورز کی ساندہ ساندہ کے لیے لگائی جانے والی آوازیں ، ساتھ بیس روپے میں دو شربتوں اور لیموں کے ملاپ سے بننے والے شربت کی دوکان پر لوگوں کا رش ، ہر شے اسی طرح ہی تھی جیسے روز ہوا کرتی تھی۔ پان شا پ پر بھی اچھا خاصا رش تھا جسکی وجہ اس کا ٹی وی تھا جس پر کسی خبر کے چینل پر کوئی مزاحیہ پروگرام چل رہا تھا۔ لو گ منہ میں پان دبائے بس ہنسے جا رہے تھے۔ تھڑوں پر مزدورں نے اپنے بستر بچھا دئے تھے۔ وہ دربار سے ملا ہوا لنگر دنیا سے بے نیاز ہو کر کھا رہے تھے۔ اب اس قبیلے میں مرد اور عورت کی قید نہیں تھی۔عورتیں بھی میٹرو بس کے نیچے مردوں کے شانہ بشانہ سوتی تھیں۔ آوارہ کتے بھی سڑکوں کے کناروں پر بے بسی کے عالم میں پھر رہے تھے۔ وہ میرے سامنے غربت کی کتاب بنا ہوا تھا۔ جس کے ہر صفحے پر سسٹم کی سفاکیاں درج تھیں۔ “اچھا سنو تم تو صبح ریڑھی لگا تے ہو۔ شام کو چیزیں بیچتے ہو۔ پھر بھی گھر نہیں چلتا کیا۔”وہ ہنسا، اس کی ہنسی میں کرب تھا۔ صبح ریڑھی لگا تا ہوں۔ گھر میں تین بہنیں ہیں۔ دو بھائی ہیں۔ وہ بھائی ابھی چھوٹے ہیں۔تین بہنوں میں سے دو اکثر بیمار رہتی ہیں۔ زیادہ تر پیسے ان کے علاج پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتا ل میں تو اکثرٹیسٹ کرنے والی مشینیں ہی خراب ہوتی ہیں اور صحیح ہوتی ہیں تو ایک مہینہ آگے کی تاریخ دی جاتی ہے۔ میری ماں کے کل گیارہ بچے تھے باقی دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے۔ سب کہتے ہیںغریب منصوبہ بندی پر عمل کیوں نہیں کرتا۔ پہلے یہ تو پوچھ لو وہ منصوبہ بندی کا آپریشن اور دوائیاں بھی خرید سکتا ہے یا نہیں۔ہمارے محلے کا ایک غریب بچہ تھا۔ جانتے ہو۔اس کی ماں کے پاس پیراسیٹامول شربت کے پیسے بھی نہیں تھے بیوہ تھی اور آخر علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچہ مر گیاکیوں کہ وہ کسی غریب کا بچہ تھا۔ بیوہ تھی ، ہسپتالوں کے چکر لگائے، ایک دن معلوم ہوا بچے کو ڈینگی ہوا ہے۔ غریب نے بچے کو بچانے کی بہت کوششیں کیں۔ ہسپتالوں کے چکر بھی کاٹے مگر وہ بچہ بچ نہ سکا۔ کسی امیر کا ہوتا تو اخبارات میں سرخی لگ جاتی۔ چینلز والے آتے اور اتنا شور ہوتا۔ میری بہن بیمار ہوئی اسے ہسپتا ل ایک ٹیسٹ کروانے کے لئے مجھے بیس دن لگے۔ صاحب تم کب سے مجھ سے محبت کی باتیں کررہے ہو کہ محبت مضبوط کرتی ہے تو یہ محبت امیروں کو غریبوں سے کیوں نہیں ہوتی۔ سسٹم کو ہم سے کیوں نہیں ہوتی یہ محبت روز ان کی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے حسرت سے تکتے مزدور نما بچوں سے ان گاڑی والوں کو کیوں نہیں ہوتی۔ روزکسی بازار میں عزت کی نیلامی کرتی ہوئی وہ معصوم بچیاں، روز ضرورت کی خاطر کسی دہشت گردی میں استعما ل ہونے والے وہ معصوم پھول صاحب وہ سب محبت کے مستحق نہیں کیا۔؟ ہاہا اور تم کہتے ہو محبت خوبصورت ہے۔کیسی خوبصورتی صاحب۔؟ محبت کے گورے رنگ سے لفظو ں کی کریم ہٹا دو نا تو سب سے بھیانک چہرہ نکل آتا ہے۔ جانتے ہوجب غریب کے گھر سے جنازہ نکلتا ہے تو دوسرا غریب خوش ہوتا ہے کہ آج کچھ اچھا کھانے کو ملے گا۔ غریب والدین کا جنازہ گروی رکھ کر چاول اور گوشت خریدتا ہے تاکہ رسم ادا ہو سکے۔" میں بس ان جھیل سی آنکھوں میں چھپے دکھ کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے بے رونق ہونٹ ، جس کے کھردرے میلے ہاتھ، بڑھے ہوئے ناخن، بے ترتیب بال اپنے آپ میں ایک داستان تھے۔ بھلے وہ وجیہ تھا مگر غربت نے اسے کسی دیو جیسا بد صورت بنا دیا تھا۔ سچ کہتے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ ہی غریب کا دکھ ہے۔ وہ کہہ رہا تھا۔"صاحب یہ جو دل ہے نا بڑا ہی کمبخت ہے۔ غریب کے ہاں ضرورت کے لئے ہر وقت دھڑکتا ہے اور امیر کے ہاں ہارٹ اٹیک کے وقت بے ترتیب ہو جاتا ہے۔ غریب کو ضرورتیں ترتیب سے بے ترتیب کردیتی ہیں۔ اس کے گھر کا آنگن جہاں خواہشات کے بہت بڑے گڑھے دفن ہوتے ہیں۔ جہاں ایک دن وہ بھی بے ترتیب سانسوں کے ساتھ دفن ہو جاتا ہے۔ یہی ہے غریب کا دکھ اور محبت۔ تمھاری دنیا کی محبت جو بہت خوبصورت ہے۔ اس کی چائے کب کی ختم ہو چکی تھی۔ لیکن آنکھوں کے میں غربت کے موتی جھلملا رہے تھے۔ یہ شاید غریب کے آنسو تھے جس کی قیمت بھی سسٹم نے "کچھ نہیں" ہی رکھا تھا ۔تھوڑے فاصلے پر سیاسی پارٹی کے رہنما اپنی بلڈ پروف گاڑی بہت بڑے پروٹوکول کے ساتھ جلسے سے خطاب کرنے جارہے تھے جب کہ کارکن نما عوام لیڈر کی گاڑی کے آگے پیچھے پیدل” لیڈر زندہ باد “ اور” جان بھی حاضر ہے “جیسے نعرے لگا تی ہوئی سیاست کے گول دائر ے میں مسلسل بھاگی چلی جارہی تھی۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024