شائستہ مفتی کی دو نظمیں
شائستہ مفتی کی دو نظمیں
Oct 5, 2024
شائستہ مفتی کی دو نظمیں
بے ثمر بد نظر بے وفا عورتیں
تیری بستی میں ہیں فاحشہ عورتیں
خواب مرتے نہیں خواب سوتے نہیں
خواب سولی ہیں، ان پر چڑھا عورتیں
پار کرتیں ہیں دہلیز کو چھپ چھپے
تیرے آنگن میں ہیں پر خطا عورتیں
رات اپنی چتا پر گزارا کریں
روز مرتی رہیں پارسا عورتیں
خوف خونِ جگر میں مچلتا رہے
رقص کرتی رہیں بے نوا عورتیں
روز چکی مشقت کی چلتی رہے
روز پستی رہیں دلربا عورتیں
جسم ڈھلتا رہا، روح زخمی رہی
کیا سے کیا ہوگئیں سانحہ عورتیں
وصل کی بارشیں بھی بجھا نہ سکیں
آگ میں جل بجھیں سوختہ عورتیں
چاند ٹہرا رہا جھیل ٹہری رہی
اور تکتی رہیں گمشدہ عورتیں
عورتیں ہیں فقط رتجگے کی دلہن
دن چڑھے ہو گئیں نقشِ پا عورتیں
شائستہ مفتی
۔۔۔۔۔
صدائے سارس
میں مر چکی ہوں
مگر کہانی ابھی نیا موڑ لے رہی ہے
میں چاہتی ہوں کہ یاد رکھنا
میں ایک انمول زندگی تھی
بڑی دیانت ، بہت ہی چاہت
محبتوں سے سنوارا خود کو
چمن میں کھل کر نکھارا خود کو
ابھی تو مجھ کو نئے افق پر
بہت سے سورج تراشنے تھے
نئے سویرے اجالنے تھے
مگر جو ٹھوکر لگی ہے مجھ کو
تو میرا اپنا چراغِ ہستی ہی بجھ گیا ہے
نظامِ ہستی بھی رک گیا ہے
میں پوچھتی ہوں
کہ میرے آنسو ، یہ میری آہیں
بھلا سکو گے ؟؟
جو نقش میں نے بنا لیا تھا
مٹا سکو گے ؟؟
میں مر چکی ہوں
مگر سوالوں کی ایک گردش
میں چھوڑتی ہوں
ضمیرِ انساں سے پوچھتی ہوں
کہ ایک وحشی فحش درندہ
پہن کے انسان کا لبادہ
نہ جانے کب سے ؟؟
نہ جانے کیسے ؟؟
شکار کرتا رہا ہمیشہ
میں مر چکی ہوں
حسین خوابوں کے رنگ لے کر
امنگ لے کر
کبھی نہ پھر لوٹ کر پلٹنے کی راہ لے کر
صدائے سارس کا آخری گیت لکھ رہی ہوں
بکھر رہی ہوں ، اجڑ رہی ہوں
مگر گزارش بھی کر رہی
خدارا اپنی چہیتی بیٹی کی لاج رکھنا
کسی بھی گھر بھیجنے سے پہلے
چہار جانب بھی دیکھ لینا
کوئی درندہ اندھیرے کنج سے نکل نہ آئے
تمہاری ساری ریاضتوں کو نگل نہ جائے
شائستہ مفتی
شائستہ مفتی کی دو نظمیں
بے ثمر بد نظر بے وفا عورتیں
تیری بستی میں ہیں فاحشہ عورتیں
خواب مرتے نہیں خواب سوتے نہیں
خواب سولی ہیں، ان پر چڑھا عورتیں
پار کرتیں ہیں دہلیز کو چھپ چھپے
تیرے آنگن میں ہیں پر خطا عورتیں
رات اپنی چتا پر گزارا کریں
روز مرتی رہیں پارسا عورتیں
خوف خونِ جگر میں مچلتا رہے
رقص کرتی رہیں بے نوا عورتیں
روز چکی مشقت کی چلتی رہے
روز پستی رہیں دلربا عورتیں
جسم ڈھلتا رہا، روح زخمی رہی
کیا سے کیا ہوگئیں سانحہ عورتیں
وصل کی بارشیں بھی بجھا نہ سکیں
آگ میں جل بجھیں سوختہ عورتیں
چاند ٹہرا رہا جھیل ٹہری رہی
اور تکتی رہیں گمشدہ عورتیں
عورتیں ہیں فقط رتجگے کی دلہن
دن چڑھے ہو گئیں نقشِ پا عورتیں
شائستہ مفتی
۔۔۔۔۔
صدائے سارس
میں مر چکی ہوں
مگر کہانی ابھی نیا موڑ لے رہی ہے
میں چاہتی ہوں کہ یاد رکھنا
میں ایک انمول زندگی تھی
بڑی دیانت ، بہت ہی چاہت
محبتوں سے سنوارا خود کو
چمن میں کھل کر نکھارا خود کو
ابھی تو مجھ کو نئے افق پر
بہت سے سورج تراشنے تھے
نئے سویرے اجالنے تھے
مگر جو ٹھوکر لگی ہے مجھ کو
تو میرا اپنا چراغِ ہستی ہی بجھ گیا ہے
نظامِ ہستی بھی رک گیا ہے
میں پوچھتی ہوں
کہ میرے آنسو ، یہ میری آہیں
بھلا سکو گے ؟؟
جو نقش میں نے بنا لیا تھا
مٹا سکو گے ؟؟
میں مر چکی ہوں
مگر سوالوں کی ایک گردش
میں چھوڑتی ہوں
ضمیرِ انساں سے پوچھتی ہوں
کہ ایک وحشی فحش درندہ
پہن کے انسان کا لبادہ
نہ جانے کب سے ؟؟
نہ جانے کیسے ؟؟
شکار کرتا رہا ہمیشہ
میں مر چکی ہوں
حسین خوابوں کے رنگ لے کر
امنگ لے کر
کبھی نہ پھر لوٹ کر پلٹنے کی راہ لے کر
صدائے سارس کا آخری گیت لکھ رہی ہوں
بکھر رہی ہوں ، اجڑ رہی ہوں
مگر گزارش بھی کر رہی
خدارا اپنی چہیتی بیٹی کی لاج رکھنا
کسی بھی گھر بھیجنے سے پہلے
چہار جانب بھی دیکھ لینا
کوئی درندہ اندھیرے کنج سے نکل نہ آئے
تمہاری ساری ریاضتوں کو نگل نہ جائے
شائستہ مفتی