شاہد حنیف کی تین نظمیں
شاہد حنیف کی تین نظمیں
Sep 3, 2025


شاہد حنیف کی تین نظمیں
واپسی کی راتیں
ہرے دنوں میں ساون کے
بچپنے کی ٹہنی پر
جھولتے بدن دو تھے
سات دن مسلسل تھی
اس جھڑی کی بارش میں
بھیگتی سی چھتری تھی
عارضی ضیافت تھی!
عارضی ضیافت میں
دو پیالہ چائے سنگ
چلبلے پکوڑے تھے
چلبلی سی باتیں تھیں
چلبلے ارادے تھے
پائیدار کیا ہوتے!
عارضی ضیافت کی
عارضی ہی باتیں تھیں
اپنی خواب گاہوں میں
کینیڈا کی راتیں تھیں!
کینیڈا کی راتوں میں
سکوت تو ازل سے ہے
اس سکوت کو لے کر
زندگی نے کیا پایا
وقت بے بدل پایا!
بارشیں تو اب بھی ہیں
عارضی پناہ گاہ میں
چھڑی کی ترچھی جھالر ہے
دو پیالہ چائے ہے
چلبلے پکوڑے ہیں
خواب برف زاروں کے
ہم نے، کینیڈا ہی
چھوڑےہیں!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اب بھی
پرانے محلے کی گلیوں
کی تنگ دامنی پر
بہت مطمعن،آسودہ
خاطر ہوں
جن میں نئے دور کےاجنبی
بھر گئے ہیں
تفتیش میں جو لگا ہوں
وقت کے ارتقاء ہی کو لے کر
خدوخال کے کیمیاء ہی
کو لے کر
انہی کھڑکیوں ، بوسیدہ
دالانوں کے احاطے میں گویا
پرکھوں کی ارواح سب
سر نہوڑے ہوئی ہیں
عدم کے بے آسرا راستوں پر
تکلم میں مصروف
کھوئی ہوئی ہیں
تنگ گلیاں،بالا خانے
جھروکے اور تاریک چلمن
مسلسل اک دوجے کو تک
رہے ہیں
وہاں کوئی مونس،کوئی
دل کو لگتا
کیا بس رہا ہے؟
دعوت خواب آنکھوں میں
لے کر
گلیارے میں جھانکتا
ہنس رہا ہے
موڑ پر آبائی گھرتھا جو
میرا
ناراض سا،منہ بسورے
پیرانہ سال ،راتب کی
صورت
کہ جس کو جواں سال
اولاد جیسے
آشرم(اولڈ ہوم)چھوڑ جائے
در ایں خیال رفتم
گلی میں کھڑا تھا ،اچانک
نو خیز بچپن ،لڑکے کی
صورت
ٹکرا کے مجھ سے،سوری
کہے بن
سر رنگ پتنگوں کے پیچھے
سر پٹ جو بھاگا،امنگوں
کے پیچھے
ٹکرا کے مجھ سے،سوری
کہے بن
نے گوٹ ہاتھ میں
نہ ڈوری لئے بن
ٹکرا کے مجھ سے ،
سوری کہے بن!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پوچھناتھا !
کہ حالات کے ستارے
اب مکدر بھی ہوگئے ہیں
محبتوں کے سب حوالے
جو چپ چاپ
سو گئے ہیں
تمہارے تخیل کی ماورائی دنیا
اب سانس لیتی دھڑک رہی ہے
تسکین آنا کے ساماں لئے ہوئے۔
تمہارے آگے جو جھک رہی ہے
جہاں قدم قدم پر کھڑے ہوئے ہیں
دائیں سمت نام لیوا تو
بائیں اور جان دیوا
ایسے پر کیف ماحول میں
کہیں جو کوئی۔
خیال میراجو نام لے کے گزرے
جواب دینا
جواب دینا
یہ پوچھناتھا ؟
یہ پوچھناتھا؟
کہ تسکین آنا کے اس وقت
اور آج کے معیار میں بتا
بھلاکیا
فرق کوئی پڑا ہے؟
………………..
شاہد حنیف
شاہد حنیف کی تین نظمیں
واپسی کی راتیں
ہرے دنوں میں ساون کے
بچپنے کی ٹہنی پر
جھولتے بدن دو تھے
سات دن مسلسل تھی
اس جھڑی کی بارش میں
بھیگتی سی چھتری تھی
عارضی ضیافت تھی!
عارضی ضیافت میں
دو پیالہ چائے سنگ
چلبلے پکوڑے تھے
چلبلی سی باتیں تھیں
چلبلے ارادے تھے
پائیدار کیا ہوتے!
عارضی ضیافت کی
عارضی ہی باتیں تھیں
اپنی خواب گاہوں میں
کینیڈا کی راتیں تھیں!
کینیڈا کی راتوں میں
سکوت تو ازل سے ہے
اس سکوت کو لے کر
زندگی نے کیا پایا
وقت بے بدل پایا!
بارشیں تو اب بھی ہیں
عارضی پناہ گاہ میں
چھڑی کی ترچھی جھالر ہے
دو پیالہ چائے ہے
چلبلے پکوڑے ہیں
خواب برف زاروں کے
ہم نے، کینیڈا ہی
چھوڑےہیں!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اب بھی
پرانے محلے کی گلیوں
کی تنگ دامنی پر
بہت مطمعن،آسودہ
خاطر ہوں
جن میں نئے دور کےاجنبی
بھر گئے ہیں
تفتیش میں جو لگا ہوں
وقت کے ارتقاء ہی کو لے کر
خدوخال کے کیمیاء ہی
کو لے کر
انہی کھڑکیوں ، بوسیدہ
دالانوں کے احاطے میں گویا
پرکھوں کی ارواح سب
سر نہوڑے ہوئی ہیں
عدم کے بے آسرا راستوں پر
تکلم میں مصروف
کھوئی ہوئی ہیں
تنگ گلیاں،بالا خانے
جھروکے اور تاریک چلمن
مسلسل اک دوجے کو تک
رہے ہیں
وہاں کوئی مونس،کوئی
دل کو لگتا
کیا بس رہا ہے؟
دعوت خواب آنکھوں میں
لے کر
گلیارے میں جھانکتا
ہنس رہا ہے
موڑ پر آبائی گھرتھا جو
میرا
ناراض سا،منہ بسورے
پیرانہ سال ،راتب کی
صورت
کہ جس کو جواں سال
اولاد جیسے
آشرم(اولڈ ہوم)چھوڑ جائے
در ایں خیال رفتم
گلی میں کھڑا تھا ،اچانک
نو خیز بچپن ،لڑکے کی
صورت
ٹکرا کے مجھ سے،سوری
کہے بن
سر رنگ پتنگوں کے پیچھے
سر پٹ جو بھاگا،امنگوں
کے پیچھے
ٹکرا کے مجھ سے،سوری
کہے بن
نے گوٹ ہاتھ میں
نہ ڈوری لئے بن
ٹکرا کے مجھ سے ،
سوری کہے بن!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پوچھناتھا !
کہ حالات کے ستارے
اب مکدر بھی ہوگئے ہیں
محبتوں کے سب حوالے
جو چپ چاپ
سو گئے ہیں
تمہارے تخیل کی ماورائی دنیا
اب سانس لیتی دھڑک رہی ہے
تسکین آنا کے ساماں لئے ہوئے۔
تمہارے آگے جو جھک رہی ہے
جہاں قدم قدم پر کھڑے ہوئے ہیں
دائیں سمت نام لیوا تو
بائیں اور جان دیوا
ایسے پر کیف ماحول میں
کہیں جو کوئی۔
خیال میراجو نام لے کے گزرے
جواب دینا
جواب دینا
یہ پوچھناتھا ؟
یہ پوچھناتھا؟
کہ تسکین آنا کے اس وقت
اور آج کے معیار میں بتا
بھلاکیا
فرق کوئی پڑا ہے؟
………………..
شاہد حنیف