سدرہ سحر عمران کی نظمیں

سدرہ سحر عمران کی نظمیں

Jan 2, 2023


سدرہ سحر عمران کی نظمیں

“وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ “

۔۔۔۔

وہ آتشیں ہتھیاروں سے

ہماری عیدگاہیں

قبروں میں انڈیل گئے

اور ہم سات رنگوں کی بددعائیں

آسمانوں پر ٹانک کر

ریلیاں آپس میں بانٹتے رہے

“ماں کی گالی پہلے دی جائےگی

یا۔۔۔ احتجاج کی ننگی سڑکوں پر

ان کی بہنوں کی عزت اتاری جائے”

ہم ازار بندوں کی طرح الجھے

اور ترانوں کی سیاہ پٹیاں

اپنے نیفوں پر باندھ لیں

وہ ہمارے گھر

یتیم خانوں میں بدلتے

ہماری زمینیں چاٹ گئے

اور ہم۔۔۔۔

”چندہ برائے فلسطین”کے لئے

لوہے کی چادریں اکھٹی کرتے رہے

۔۔۔۔۔۔

ایک روٹی کا جہیز

۔۔۔۔۔۔

جس وقت تم خوب صورت تصویریں

اور پیسوں کی خوشبوجمع کرتے

ہم ایک روٹی کے ٹکڑے کے لئے

ایک دوسرے کی آنکھیں ٹٹولتے

پانی سے بھری ہوئی آنکھیں

اس بستی کی سب سے امیر آنکھیں ہیں

جس کے پیرمیں کبھی کوئی کانٹا نہ لگا ہو

ایسے حسین پیر

اس لڑکی کے ہوسکتے ہیں

جو اپنی وہیل چیئر سے

کبھی نیچے نہیں اتری

ہم کنویں کی تلاش میں مینڈک بن گئے

اور ۔۔

کیمرے والے ہمارے لئے

بھوک کے فارم جمع کرنے آگئے

انہیں دیکھو

وہ ایک دوسرے کواشارہ کرتے ہوئے

رودیے

ہم نے اس پانی سے بھوک افطار کی

اورمسکراکر کیمرے سے پوچھا

کبھی دو پیروں پر رینگنے والے  

جانور نہیں دیکھے؟

۔۔۔۔۔۔

آگ سے بُنی ہوئی محبت

۔۔۔۔۔

ہم ملبے کے ڈھیر میں

ایک دوسرے سے ملے

تمہاری آنکھیں

اور میرا دل

ریشم کے ٹکڑوں کی طرح

جل رہے تھے

ہم نے راکھ پر

اپنے جسموں سے

دستخط کئے

اور اپنی کلائیوں سے

وقت اتار کر

ایک دوسرے کی انگلی میں

پہنا دیا

ہمارے پاؤں اداسی کے

پیڑ بن گئے

ہم ایک دن اس زمین کی

آنکھ سے

آنسوؤں کی طرح

طلوع ہوں گے

اور لوگ ہمیں

دریا کے نام سے پکاریں گے

۔۔۔۔۔

حجرے کا “سدوم”

ہمارے باپ

کوڑا کرکٹ کی طرح

اولاد جمع کرتے رہے

اور کسی تاریک حجرے کا

پتہ سونگھتے ہوئے

پھینک آئے

پکی عمرکے کوٹھوں پر

ہم کھلے  ۔۔۔

غلیظ نالیوں میں

بند ہوئے ۔۔۔

تیزاب کی بوتلوں کی طرح

اڑسے گئے۔۔۔

بوڑھے ،بدکار ،بد چلن

نیفوں میں

اپنے بچپنے،

گھر بار

گونگی ماؤں کے بولتے دکھ

ڈھوتے ڈھوتے

کچی انگیٹھیوں پر

وہی آگ جلاتے رہے

جو عذابناک بارشوں پہ آکر

ٹھنڈی ہوئی ہے

۔۔۔۔۔

بارشیں راستہ نہیں دیتیں

۔۔۔۔۔

انتظارہماری آنکھوں میں

گیلی مٹی کی طرح لیپ دیا جائے گا

اور ہم سڑک کی تھالیوں میں

اپنے پیر کھنکاتے رہیں گے

انتظار کا چہرہ پیلا پڑ جائے گا

اور درختوں کے ہاتھ

سرخ موسموں تک نہیں پہنچیں گے

انتظار کشتیوں سے نکل کر

پانی کے جوتے پہن لے گا

اور آنکھیں ننگے پاؤں

دریا کا کانٹا خود سے نکال دیں گی

انتظار ہمیں بالکونی سے ہاتھ ہلائے گا

ہم وقت کی گاڑی میں جگہ بناتے ہوئے

تم سے ملنے کا اعلان کریں گے

تم اندھی بارشوں کی طرح

ہماری آواز

دیکھے بغیر گزر جاؤ گے

۔۔۔

سدرہ سحر عمران


سدرہ سحر عمران کی نظمیں

“وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ “

۔۔۔۔

وہ آتشیں ہتھیاروں سے

ہماری عیدگاہیں

قبروں میں انڈیل گئے

اور ہم سات رنگوں کی بددعائیں

آسمانوں پر ٹانک کر

ریلیاں آپس میں بانٹتے رہے

“ماں کی گالی پہلے دی جائےگی

یا۔۔۔ احتجاج کی ننگی سڑکوں پر

ان کی بہنوں کی عزت اتاری جائے”

ہم ازار بندوں کی طرح الجھے

اور ترانوں کی سیاہ پٹیاں

اپنے نیفوں پر باندھ لیں

وہ ہمارے گھر

یتیم خانوں میں بدلتے

ہماری زمینیں چاٹ گئے

اور ہم۔۔۔۔

”چندہ برائے فلسطین”کے لئے

لوہے کی چادریں اکھٹی کرتے رہے

۔۔۔۔۔۔

ایک روٹی کا جہیز

۔۔۔۔۔۔

جس وقت تم خوب صورت تصویریں

اور پیسوں کی خوشبوجمع کرتے

ہم ایک روٹی کے ٹکڑے کے لئے

ایک دوسرے کی آنکھیں ٹٹولتے

پانی سے بھری ہوئی آنکھیں

اس بستی کی سب سے امیر آنکھیں ہیں

جس کے پیرمیں کبھی کوئی کانٹا نہ لگا ہو

ایسے حسین پیر

اس لڑکی کے ہوسکتے ہیں

جو اپنی وہیل چیئر سے

کبھی نیچے نہیں اتری

ہم کنویں کی تلاش میں مینڈک بن گئے

اور ۔۔

کیمرے والے ہمارے لئے

بھوک کے فارم جمع کرنے آگئے

انہیں دیکھو

وہ ایک دوسرے کواشارہ کرتے ہوئے

رودیے

ہم نے اس پانی سے بھوک افطار کی

اورمسکراکر کیمرے سے پوچھا

کبھی دو پیروں پر رینگنے والے  

جانور نہیں دیکھے؟

۔۔۔۔۔۔

آگ سے بُنی ہوئی محبت

۔۔۔۔۔

ہم ملبے کے ڈھیر میں

ایک دوسرے سے ملے

تمہاری آنکھیں

اور میرا دل

ریشم کے ٹکڑوں کی طرح

جل رہے تھے

ہم نے راکھ پر

اپنے جسموں سے

دستخط کئے

اور اپنی کلائیوں سے

وقت اتار کر

ایک دوسرے کی انگلی میں

پہنا دیا

ہمارے پاؤں اداسی کے

پیڑ بن گئے

ہم ایک دن اس زمین کی

آنکھ سے

آنسوؤں کی طرح

طلوع ہوں گے

اور لوگ ہمیں

دریا کے نام سے پکاریں گے

۔۔۔۔۔

حجرے کا “سدوم”

ہمارے باپ

کوڑا کرکٹ کی طرح

اولاد جمع کرتے رہے

اور کسی تاریک حجرے کا

پتہ سونگھتے ہوئے

پھینک آئے

پکی عمرکے کوٹھوں پر

ہم کھلے  ۔۔۔

غلیظ نالیوں میں

بند ہوئے ۔۔۔

تیزاب کی بوتلوں کی طرح

اڑسے گئے۔۔۔

بوڑھے ،بدکار ،بد چلن

نیفوں میں

اپنے بچپنے،

گھر بار

گونگی ماؤں کے بولتے دکھ

ڈھوتے ڈھوتے

کچی انگیٹھیوں پر

وہی آگ جلاتے رہے

جو عذابناک بارشوں پہ آکر

ٹھنڈی ہوئی ہے

۔۔۔۔۔

بارشیں راستہ نہیں دیتیں

۔۔۔۔۔

انتظارہماری آنکھوں میں

گیلی مٹی کی طرح لیپ دیا جائے گا

اور ہم سڑک کی تھالیوں میں

اپنے پیر کھنکاتے رہیں گے

انتظار کا چہرہ پیلا پڑ جائے گا

اور درختوں کے ہاتھ

سرخ موسموں تک نہیں پہنچیں گے

انتظار کشتیوں سے نکل کر

پانی کے جوتے پہن لے گا

اور آنکھیں ننگے پاؤں

دریا کا کانٹا خود سے نکال دیں گی

انتظار ہمیں بالکونی سے ہاتھ ہلائے گا

ہم وقت کی گاڑی میں جگہ بناتے ہوئے

تم سے ملنے کا اعلان کریں گے

تم اندھی بارشوں کی طرح

ہماری آواز

دیکھے بغیر گزر جاؤ گے

۔۔۔

سدرہ سحر عمران

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024