صحرائی نظمیں
صحرائی نظمیں
Feb 9, 2019
تھر کے قحط کے پس منظر میں
ہمارا کل اثاثہ
اونٹ پر لدا لکڑی کا اک صندوق
جس میں پڑا ہے بیٹی کے جہیز کا
سوٹ
جس پر آدھی کڑھائی ہو چکی
سوئی اور دھاگے
کچھ برتن اور اناج
ہماری کلائیوں میں سفید کڑے
کًھن کَھن کرتے
ہماری چنریاں پیاسے صحرا میں
رنگ بھریں
جہاں دور تک
ریت ہی ریت
چند بستر
دو مٹی کے گھڑے
اور ہمارے ساتھی مور
ہم چل پڑتے ہیں
اس جانب
جہاں ٹِبے میں
تھوڑا سا گدلا پانی ملے
اونٹ بکریاں اور مور
ہمارے ساتھ
اُسی جوہڑ سے سیراب ہو لیتے ہیں
ہم تھری خانہ بدوش
قحط سے لڑتے
خار دار جھاڑیوں کی مانند
سوکھ کر کانٹا ہوئے بھی
جئے چلے جاتے ہیں
سبین علی
۔۔۔۔۔
سوا نیزے کے سورج تلے
پیاس کی تپتی آنکھیں
جو تھری ریت کے بگولوں سے بلند ہوتی ہیں
تکتی ہیں چناب اور جہلم کی جانب
کئی سسیاں کئی مارویاں
ننگے پاؤں میلوں تک
پانی کی تلاش میں بھٹکتی ہیں
اور لاہور کی فضا میں
کثیف دھواں اترنے لگتا ہے
بادل راستے میں سے ہی
عیار ہوائیں چرا لیتی ہیں
اور مجھے شبہ ہوتا ہے
کہیں تھر کی تپتی آنکھوں نے
اپنی اُس زبان سے موسموں کو
کوئی بددعا تو نہیں دی تھی
جو قحط زدہ مور کے ساتھ
سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی
سبین علی
۔۔۔۔۔
ہمارا کل اثاثہ
اونٹ پر لدا لکڑی کا اک صندوق
جس میں پڑا ہے بیٹی کے جہیز کا
سوٹ
جس پر آدھی کڑھائی ہو چکی
سوئی اور دھاگے
کچھ برتن اور اناج
ہماری کلائیوں میں سفید کڑے
کًھن کَھن کرتے
ہماری چنریاں پیاسے صحرا میں
رنگ بھریں
جہاں دور تک
ریت ہی ریت
چند بستر
دو مٹی کے گھڑے
اور ہمارے ساتھی مور
ہم چل پڑتے ہیں
اس جانب
جہاں ٹِبے میں
تھوڑا سا گدلا پانی ملے
اونٹ بکریاں اور مور
ہمارے ساتھ
اُسی جوہڑ سے سیراب ہو لیتے ہیں
ہم تھری خانہ بدوش
قحط سے لڑتے
خار دار جھاڑیوں کی مانند
سوکھ کر کانٹا ہوئے بھی
جئے چلے جاتے ہیں
سبین علی
۔۔۔۔۔
سوا نیزے کے سورج تلے
پیاس کی تپتی آنکھیں
جو تھری ریت کے بگولوں سے بلند ہوتی ہیں
تکتی ہیں چناب اور جہلم کی جانب
کئی سسیاں کئی مارویاں
ننگے پاؤں میلوں تک
پانی کی تلاش میں بھٹکتی ہیں
اور لاہور کی فضا میں
کثیف دھواں اترنے لگتا ہے
بادل راستے میں سے ہی
عیار ہوائیں چرا لیتی ہیں
اور مجھے شبہ ہوتا ہے
کہیں تھر کی تپتی آنکھوں نے
اپنی اُس زبان سے موسموں کو
کوئی بددعا تو نہیں دی تھی
جو قحط زدہ مور کے ساتھ
سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی
سبین علی
۔۔۔۔۔