روش ندیم کی نظمیں
روش ندیم کی نظمیں
May 19, 2019
روش ندیم کی نظمیں
بند کواڑوں کے اس طرف
کب سنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دروازے آخر دستک کب سنتے ہیں؟
کب کھُلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ہر آجانے والے پر یہ کب کھلتے ہیں؟
ہم تو بس دہلیز پہ رُک کر
ہاتھ میں تازہ پھول لیے
تکتے رہتے ہیں
اپنا آپ وہ کس پر کھولیں کون یہ جانے؟
بھید بھرے رنگلے دروازے کب سنتے ہیں
جیون کے چورا ہے پر میں آج یہ بیٹھا سوچ رہا ہوں
بے دیوار گلی کوچوں میںوہ دروازہ
جس کے پارسنا تھا میں نے میرے خواب کی دنیا بھی ہے
اس کی چاہ میں کتنے برسوں
دستک کا گلدستہ اپنے ہاتھ میںلے کرکھڑا رہا تھا
سوچ رہاتھا
ہو سکتا ہے وہ دروازہ میرے لمس کے اسم اعظم سے کھل جائے
اور میں اک دن چوکھٹ کے اس پار کی وادی میں جااتروں
موسم بدلے ، عمریں بیتیں
پروہ دستک اب تک میرے خواب میں بیٹھی اونگھ رہی ہے
پوروںپر اک خون سی سرخی بے آواز سی دستک بن کر
آشاکے ا ہراموں اندر گونج رہی ہے
اے عمروں کی چوکھٹ کے بوڑھے دروازے!
مجھ پر اک دن کھول دے خود کو
اک دن خود پر کھول دے مجھ کو
۔۔۔۔۔۔
خدائے پاک کی مرضیگم سم ورق پردستخط
خدائے پاک کی مرضی
جہاں جیون نشیبوں کا سفر ہوتو
یہ کہتے ہیں:
وہاں نہ دن نکلتا ہے
وہاں نہ شب گزرتی ہے
خدائے پاک کی مرضی
جلال آباد کے مردِ مجاہد، صاحبِ ایمان و دِیں
یعنی زمیں گل خا ن کی بیوہ!!
یہی کچھ ہی برس پہلے
سنا ہے
جب وہ اپنی عمر کے بس 14ویں زینے پہ اتری تھی
فضا بارود کی اک اجنبی سی باس پہ حیران تھی
اور پوستیں پھولوں پہ پیلے موسموں کا رنگ چھایا تھا
فقط اک رائیگانی
درد کی کہنہ کہانی ہے
یہی دن تھے
جلال آباد کا مردِ مجاہد، صاحبِ ایمان و دِیں یعنی زمیں گل خان
کاندھے پر لیے بندوق
اپنے ہاتھ میں تسبیح کے دانے گھماتا
ورد کرتا
موسموں کی سازشوں میں کھو گیا تھا
سومقدر کے لکھے کا حوصلہ پا کر
کلائی میں جلے خوابوں
ادھوری قربتوں کی چوڑیاں پہنے
عذابِ زندگی کی اوڑھنی اوڑھے
زمیں گل خان کی بیوہ وطن سے دور آنکلی
خدائے پاک کی مرضی
سنا ہے آج کل وہ شہرکے گنجان حصے سے ذراہٹ کر
ادھر 7/6مرلے کے مکاں نمبر C-28 میںرہتی ہے
جہاں شب تو گزرتی ہے
مگر اک ناتواں دن کی خماری کاٹتی ہے
پھر گزرتی ہے
جہاں دن بھی نکلتا ہے
مگر شب کی ادھوری کروٹوں کی اوٹ سے ہو کر نکلتا ہے
خدائے پاک کی مرضی
مضافاتِ تمنا کے خرابوں میں چھپی پرنور سی آہٹ!
معطر خامشی میں ایک آوارہ مگر محتاط سرگوشی!!
سفیدی کا تقدس اوڑھ کر گم سم پڑے
خالی ورق کے ایک کونے پر گلابی دستخط
یعنی مہرخانم!
خدائے پاک کی مرضی
روش ندیم کی نظمیں
بند کواڑوں کے اس طرف
کب سنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دروازے آخر دستک کب سنتے ہیں؟
کب کھُلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ہر آجانے والے پر یہ کب کھلتے ہیں؟
ہم تو بس دہلیز پہ رُک کر
ہاتھ میں تازہ پھول لیے
تکتے رہتے ہیں
اپنا آپ وہ کس پر کھولیں کون یہ جانے؟
بھید بھرے رنگلے دروازے کب سنتے ہیں
جیون کے چورا ہے پر میں آج یہ بیٹھا سوچ رہا ہوں
بے دیوار گلی کوچوں میںوہ دروازہ
جس کے پارسنا تھا میں نے میرے خواب کی دنیا بھی ہے
اس کی چاہ میں کتنے برسوں
دستک کا گلدستہ اپنے ہاتھ میںلے کرکھڑا رہا تھا
سوچ رہاتھا
ہو سکتا ہے وہ دروازہ میرے لمس کے اسم اعظم سے کھل جائے
اور میں اک دن چوکھٹ کے اس پار کی وادی میں جااتروں
موسم بدلے ، عمریں بیتیں
پروہ دستک اب تک میرے خواب میں بیٹھی اونگھ رہی ہے
پوروںپر اک خون سی سرخی بے آواز سی دستک بن کر
آشاکے ا ہراموں اندر گونج رہی ہے
اے عمروں کی چوکھٹ کے بوڑھے دروازے!
مجھ پر اک دن کھول دے خود کو
اک دن خود پر کھول دے مجھ کو
۔۔۔۔۔۔
خدائے پاک کی مرضیگم سم ورق پردستخط
خدائے پاک کی مرضی
جہاں جیون نشیبوں کا سفر ہوتو
یہ کہتے ہیں:
وہاں نہ دن نکلتا ہے
وہاں نہ شب گزرتی ہے
خدائے پاک کی مرضی
جلال آباد کے مردِ مجاہد، صاحبِ ایمان و دِیں
یعنی زمیں گل خا ن کی بیوہ!!
یہی کچھ ہی برس پہلے
سنا ہے
جب وہ اپنی عمر کے بس 14ویں زینے پہ اتری تھی
فضا بارود کی اک اجنبی سی باس پہ حیران تھی
اور پوستیں پھولوں پہ پیلے موسموں کا رنگ چھایا تھا
فقط اک رائیگانی
درد کی کہنہ کہانی ہے
یہی دن تھے
جلال آباد کا مردِ مجاہد، صاحبِ ایمان و دِیں یعنی زمیں گل خان
کاندھے پر لیے بندوق
اپنے ہاتھ میں تسبیح کے دانے گھماتا
ورد کرتا
موسموں کی سازشوں میں کھو گیا تھا
سومقدر کے لکھے کا حوصلہ پا کر
کلائی میں جلے خوابوں
ادھوری قربتوں کی چوڑیاں پہنے
عذابِ زندگی کی اوڑھنی اوڑھے
زمیں گل خان کی بیوہ وطن سے دور آنکلی
خدائے پاک کی مرضی
سنا ہے آج کل وہ شہرکے گنجان حصے سے ذراہٹ کر
ادھر 7/6مرلے کے مکاں نمبر C-28 میںرہتی ہے
جہاں شب تو گزرتی ہے
مگر اک ناتواں دن کی خماری کاٹتی ہے
پھر گزرتی ہے
جہاں دن بھی نکلتا ہے
مگر شب کی ادھوری کروٹوں کی اوٹ سے ہو کر نکلتا ہے
خدائے پاک کی مرضی
مضافاتِ تمنا کے خرابوں میں چھپی پرنور سی آہٹ!
معطر خامشی میں ایک آوارہ مگر محتاط سرگوشی!!
سفیدی کا تقدس اوڑھ کر گم سم پڑے
خالی ورق کے ایک کونے پر گلابی دستخط
یعنی مہرخانم!
خدائے پاک کی مرضی