رومانہ

رومانہ

Nov 6, 2023

مصنف

تنویر احمد تما پوری

دیدبان شمارہ : ۰۲ اور ۲۱ 2023
افسانہ: رومانہ
افسانہ نگار: تنویر احمد تماپوری
ریاض سعودی عرب

وہ خوبصورت لڑکی ناآسمان سے ٹپکی تھی ناپلے اسٹور سے ڈاون لوڈ ہوئی تھی۔بلکہ موبائل کے جی پی ایس نے اسے رچمنڈ کے مغالطے میں مجھ تک پہنچادیاتھا۔ دھیما لہجہ، ریشمی زبان ، شہد میں ڈوبی اس کی آوازکو میں نے دوسرے کان سے نکلنے نہیں دیا  کیونکہ کسی نشے کی طرح پورے وجود پرسرائیت کرچکی تھی۔رچمنڈ میرا پڑوسی اور اس عمارت کا مالک تھا۔ بجائے اس لڑکی کو رچمنڈ کے یہاں بھیجنے کے میں نےاندر بلالیا۔ جھوٹ میرے لئے نئی چیز نہیں تھی۔ لیکن کسی لڑکی کے لئے  یہ پہلا جھوٹ تھا ۔ میں نے اسے برآمدے میں بیٹھا یا پھر رچمنڈ کو فون پرخبر کردی۔ گہری نیلی آنکھیں ، چاندی ملا رنگ،سونے جیسے بال۔ کینیڈا میں جاتی سردیوں کا موسم ویسے ہی گلاب رنگ ہوتا ہے۔ اس لڑکی کے سرخ و سفید سراپے نے اس کو ست رنگی کردیا تھا۔


کب رچمنڈ آیا، کب ان کے بیچ سارے معاملات طے پائے۔ مجھے ہوش تو تب آیا جب خوش خبری نے بے خبری میں جالیا۔ مژدہ جانفزا کبھی کبھی ایسے اچانک زندگی میں چلا آتا ہے کہ رد عمل کا مو قع بھی نہیں ملتا۔ پھروہ میری پڑوسن بلکہ روم میٹ بن گئی۔رومانہ اسی ملک کی باشندہ ہوتے ہوئے بھی ٹورانٹو کے لئے اجنبی تھی۔فرنچ ماں اوردیسی باپ کی کینیڈین لڑکی حسین و جمیل اتنی کہ جیسے خوابوں پر شب خون مارنے کا لائسنس اس کی وراثت ہو۔ ہم دونوں کے کمرے الگ ہونے کے باوجود برآمدہ بیٹھک اور کچن مشترک تھے۔ ان کی صفائی ستھرائی اور د یکھ بھال اکثر جھگڑے کی بنیاد بنتے رہتے تھے۔ اس کی مشرقی روایات ہمارے بیچ کا ظالم سماج تھیں ۔ وہ ودیسی ہوکر بھی اندر سے ٹھیٹھ دیسی تھی ۔ رومانہ کی ذات سے رومان کا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ وہ اس کے نا م میں بستاتھا۔کبھی کبھی مسکرا بھی لیتی تو لگتا کڑوے گھونٹ پی رہی ہے ۔ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی چندا ماما کی طرح دور ہی سے درشن دیتی رہی اور میرے سارے چندرائین نامراد لوٹتے رہے۔حالانکہ باہر کی دنیا مغرب کے کھلے ماحول اور آزاد فضاوں پر مشتمل تھی۔
ایک ویک اینڈ پر اس کےآفس کے کچھ دوست گھر آنے والے تھے۔ میں نے رومانہ کی درخواست پر وہ شام فلیٹ سے باہر گزاردی۔ میری وہ چھوٹی سی مدد آگے چل کر بڑی سود مند ثابت ہوئی ۔ اس کی ذات کے گرد بنی دیوار چین میں پہلی دراڑ ڈال گئی۔رفتہ رفتہ چہرے کے اعصاب کی تنا تنی کم ہونے لگی۔ ماحول بدلنے لگا ۔ اس کے جذبات میں پوری طرح حدت تو نہیں آئی تاہم پہلے والی شدت بھی نہ رہی۔ بیچ میں جمی برف پگھلنے لگی تھی۔ اب کبھی کبھی ساتھ بیٹھ کرمشروب بھی پیا جانےلگاتھا۔


ایک بار کچھ دن کے لئے رومانہ کے والدین ٹورانٹو آگئے۔ میں نےپھر سے ازراہ ہمدردی اپنا بوریا بستر سمیٹنا چاہا۔ رومانہ نے روک لیا۔ وہ ایک اچھی ایونٹ منیجر تھی۔ وہ اپنا کام،والدین اور مجھےایک ساتھ سنبھالنے لگی۔ ماں کو اس نے اپنے کمرے میں شفٹ کرلیا۔ پتا کو میرے ساتھ کر دیا۔ رات کا کھانا سب ساتھ کھاتے تھے ۔ اکثر رومانہ ہی کھانا بنایا کرتی تھی اور اس کی باورچیانہ صلاحیتوں کا بھی جواب نہیں تھا۔ اس کی ماں کی فرانسیسی نما ہندی قہقہوں کی جڑ ہوا کرتی تھی۔ لیکن زیادہ تعجب مجھے رومانہ کی شدھ ہندی اردوپر ہوا۔ یہ لڑکی قسطوں میں مارنے کی ماہر تھی۔ مجھے اعتراف تھا کہ میں اسےپسند کرنے لگا تھا۔ پانچ دن کیسے گزرگئے پتا ہی نہیں چلا۔ معلوم تو اس وقت پڑ ا جب اس کی آنکھوں کے بڑے بڑے کٹورے آنسوؤں سے چھلکنے لگے۔ بھاری من اور بھاری دکھ کے ساتھ رومانہ کے والدین کو وداع کرکے ہم ایر پورٹ سے واپسی پر بالکل چپ تھے۔ گھر پہنچ کر وہ اسی چپی کے لبادے میں سمٹی سمٹائی اپنے حصے میں کہیں غائب ہوگئی۔


اب ہم دونوں عمداً بھی ساتھ بیٹھنے لگے تھے۔چائے اور ٹی وی ساتھ چلنے لگی تھی۔ کبھی آفس کی باتیں کبھی موسم کی گپیں کبھی ہالی وڈ تو کبھی بالی وڈ ۔ ہر موضوع پر وہ سقراط کی چاچی نکلی۔ اب ہماری گفتگو ہندی میں ہونے لگی تھی۔ چائے کافی کے ساتھ مارٹینی اور وڈکا نے بھی بیٹھک کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔ اکثر ڈنر ساتھ ہونے لگا تھا۔پیزا اور برگر بھی ایک دوسر ے کے لئے پوچھ کر منگوانے کا تکلف اب جاتا رہا ۔
ایک ویک اینڈ پر میرا قریبی دوست اگروال بار بی کیو کے سارے لوازمات ، پرانی شراب اور نئی گرل فرینڈ کے ساتھ اچانک آ دھمکا۔ اس طرح کی حرکتیں اسی کا خاصہ تھیں۔ ایسےحملے کے لئے نا میں تیار تھا نا میرا فلیٹ اور نا رومانہ لیکن اس دن پہلی بار میں نے رومانہ کا ایک اور پہلو دیکھا۔ مہمانوں کی آو بھگت اور دیکھ بھال میں وہ مجھ سے زیادہ فعال تھی۔ میرا دوست جو کافی حد تک میرے معاملات میں دخیل تھا ۔میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہاہو۔


" چودھری سالے بلی ۔۔۔۔۔۔ مار بھی لی تو نے اور بتا یا تک نہیں۔ "


رومانہ بھی اپنے حسن اخلاق کے ذریعےاگروال کوسچ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔اس پارٹی میں رومانہ پہلی بارمارٹینی سے برانڈی تک پہنچی تھی۔ یہ لڑکی پہلے حیرت کا انیستھیسیا دیتی تھی پھر گلا کاٹتی تھی۔
وہ مغرب کی پیداوار ہوتے ہوئے بھی مشرقی قدروں کی امین تھی۔ مگر آج اسے اپنی بنیاد کی طرف لوٹتا دیکھا جا سکتا تھا۔ پارٹی ہر گذرتے لمحے کے ساتھ وائلڈ ہورہی تھی۔ ناچ گانا ،مغربی میوزک، اگروال کی ڈی جے والی صلاحیت کل ملا کر ایک ہنگامہ بپا رہا۔ بار بی کیو، برانڈی اور بکواس ساری رات ہمارے حواس پر طاری رہے۔ رات کے آخری پہر اگروال اپنی دوست کو لے کر میرے کمرے کی طرف چل دیا ۔ رومانہ نے مجھے اپنی خواب گاہ میں خوش آمدید کہا۔ اس رات میں نے پہلی بار اس کا کمرہ اندر سے دیکھا تھا۔ وہ بالکل اس کی شخصیت کی طرح صاف ستھرا اورنکھرا ہوا تھا۔ مہذب رنگوں کا امتزاج، برتنے کا سلیقہ ۔ خوابناک سی خوشبو، سب نے مل کر دماغ پر چڑھے رومان کو ایڑ لگادی۔ برانڈی بے لگام ہوگئی۔ میری دست درازیاں ، اس کی نیم دل مزاحمت ۔ بہی کھاتے کھل ہی جاتےمگر وہ رومانہ تھی۔ اس کی مشرقی حیاراستے کا روڑہ تھی اور عین وقت پر جاگ گئی۔ لہذااس کا بیڈروم اس رات بھی کنچن چنگا کی چوٹیوں کی مانند صاف ستھرا ، یخ بستہ اور مقدس ہی بنا رہا۔


دوسرے دن کی صبح میرے دل میں رومانہ کی قدرو منزلت اور بڑھا گئی ۔ سہ پہر کی چائے سے پہلے اگروال اور اس کی دوست جاچکے تھے۔ رومانہ کسی سیپ سے نکلے موتی کی طرح چمکدار اور صاف ستھری لگ رہی تھی۔ چکن برگر اور اسٹرانگ چائے، ساتھ میں پیاری سی مسکراہٹ، جینے کو اور کیا چاہیے۔اب ہم لوگ زیادہ وقت اکٹھے ہی گزارنے لگے تھے۔ باہر بھی جانے لگے تھے۔تفریح طبع، خریداری سب کچھ ساجھا ہی چل رہا تھا۔تیرا میرا کی تمیز کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ کیوپڈ دیو تا ہمیشہ ایسے ہی کسی موقعے کے منتظر ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ترکش کے سب سے فیصلہ کن تیر ہمارے لئے مختص کرلئے اور اس وقت تک برساتے رہے جب تک دستار بندی نہ ہوگئی۔شادی کے بعد عموماً لڑکیاں وداع ہوکر سسرال جاتی ہیں۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہوا ۔ فلیٹ کا رومانہ والا حصہ زیادہ رومانٹک تھاسو وداعی میری ہوئی ۔ یوں زندگی ایک نئی اور حسین دھج پر رواں ہوئی۔


رومانہ جتنی خوبصورت تھی اس سے زیادہ خوب سیرت نکلی۔ اب راوی نے اپنی سیاہی بدل لی تھی۔ اگلے باب سنہری لفظوں میں ڈھلنے لگے۔ ہر روز پیار کے نئے جزیرے دریافت ہونے لگے ۔ اتنی احتیاط سے ایک دوسرے کو خرچ رہے تھے جیسے کوئی کلرک اپنی تنخواہ کو مہینے کے آخری دنوں میں خرچ کرتاہے۔ہم دونوں نے میدان بانٹ لئے ۔ گھر کے باہر وہ میری ہتھیلی کا چھالا تھی، گھر کے اندر میں اس کی آنکھ کا تارا۔ کئی ماہ تک محبت کی یہ گنگا جمنا تواتر سے بہتی رہی ۔


نیلے آسمان کے نیچے سب کچھ دائمی نہیں ہوتا۔ایک معمولی سی بات ہم دونوں کے بیچ گہری کھائی بنا گئی۔ کچھ رشتوں میں جھوٹ کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ میرے ایک چھوٹے سے بے ضرر جھوٹ نے ہم دونوں کو ریل کی پٹریوں میں بدل دیا ۔ پھر سے زند گی نے اپنا ڈھب بدل لیا ۔ اس نے اپنی ذات کے گرد گوتم بدھ کی خاموشی اوڑھ لی۔ پہلے پہل بیزاری نےوہاں سیندھ لگائی پھر پیار کی بنیادیں کمزور ہونے لگیں۔ عجیب لڑکی تھی، جو طور اب مشرق میں عنقا تھے انہیں وہ مغرب میں چلانےپر بضد تھی۔


ایک دن کام سے واپسی پر میں بہت زیادہ فکر مند تھا۔ آفس کے کچھ مسائل، وطن میں جائیداد کو لے کر تناتنی۔ معاش کے کچھ معاملے۔ ایسے میں رومانہ کی لمبی ہوتی چپی اور نسوانی انا نے حالات کو بے قابو کردیا۔ ہم دونوں کے بیچ وہ قضیہ شیطان کی  ثابت ہوہا تھا۔ حالانکہ میری جانب سے کوششیں تھیں ۔ مگر رومانہ نے ناری ہٹ پکڑ لی تھی اور ہٹ کر نہیں دے رہی تھی۔ جھگڑا لمبا ہوتا گیا، چلتا گیا اور اس وقت تک چلتا رہا جب تک میرے اندر کا مشرقی مرد جاگ نہ اٹھا ۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک تھپڑ۔۔۔ اور سب کچھ ختم ۔ ہماری ازدواجی زندگی کا ڈیڈ اینڈ ۔کم سے کم اس کی طرف سے تو یہی کہا گیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے عدالت میں ملنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ وہ ایسی ہی تھی۔اس کی محبت مثالی تھی، اس کی دوستی مثالی تھی، اب دشمنی کی باری تھی اور مجھے ڈر تھا اس میں بھی وہ بے مثال نا نکلے۔


کچھ موسم لوگوں کے مرہون منت ہوتے ہیں ،ساتھ آتے ہیں اور ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ اب وقت کٹ نہیں رہا تھا۔ کاٹا بھی نہیں جارہاتھا۔ فون ، واٹس اپ، ٹویٹر ،انسٹاگرام سب کے دروازوں پر میرے لئے ممنوع لکھا جا چکا تھا۔ میں نے اس کے والدین سے رابطہ کیا ، ان کے جملہ حقوق بھی تسلی دلاسے تک محدود نکلے۔جنگ بندی کی کوئی ترکیب نا نکال پائے۔ کچھ دن تک میں نے کوشش کی پھر میری اپنی بھی انا چٹان بن کر راستے میں آگئی۔ پیارپر عزت نفس کا دو طرفہ حملہ ہوا۔ سرد جنگ لمبی ہوتی گئی۔ سب کچھ ٹہر گیا ۔ صبحیں کہیں ہورہی تھیں۔ شاموں کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ہماری شادی کی سالگرہ بھی ہوتی ہے۔ سالگرہ کا سفید جھنڈا ہاتھ لگا تو میں نے نئے سرے سے جنگ بندی کی کوششیں شروع کردی۔ چوبیس ڈسمبر صبح کی کیوبک سٹی کے لئے بکنگ بھی کرالی۔ اسی تاریخ کو ہماری شادی ہوئی تھی۔ تحفے تحائف اور تیاریوں میں لگ گیا۔


چونکہ صبح تین بجےایر پورٹ کے لئےنکلنا تھا لہذا جلد سونے کے لئے بستر پر چلا گیا۔رات کے دوسرے پہراچانک لگا کوئی دھڑدھڑ اکردروازہ پیٹ رہا ہے۔ بے تکے انداز میں ۔۔۔جیسے کوئی بلا پیچھے لگی ہو، یا یہ میرے خواب کا حصہ تھا۔ جھنجلاہٹ میں آنکھ کھلی تو لگا شاید یہ خواب ہی کا حصہ تھا۔ مگر کال بیل حقیقت تھی اور لگا تار بج رہی تھی۔ میں زچ ہوگیا۔ رات کے اس پہر کی بد تمیزی جان کوآتی ہے۔ متواتر بجنے والی کال بیل نے عندیہ دیا کہ یہ اگروال ہی ہوگاایسی عجیب و غریب حرکتوں کا ٹھیکہ اسی کے پاس تھا۔ میں نہایت غصے میں دانت پیستا ہو ا مغلظات کے گھوڑے پر سوار دروازے تک گیا۔ لیکن یہ کیا دروازے پر رومانہ کھڑی تھی۔ سارا غصہ  آن کے آن ہرن ہوگیا۔وہیں کھڑے کھڑےسارے شکوئے   شکایتیں دھلنے لگے۔ مبارکباد یاںسمیٹی جانے لگیں۔وہ ایسی ہی تھی۔ زمانے سے دو قدم آگے رہتی تھی۔ جیتنا اس کی عادت تھی، آج بھی جیت گئی ۔  بہت سارا کہا سنا معاف۔  پھر بھی بہت کچھ باقی تھا۔ رات بھی ساری باقی تھی۔ میں مسہری پر نیم دراز اس کے واش روم سے نکلنے کا منتظر تھا۔


وقت گذاری کے لئے ٹی وی آن کردیا۔وہاں ہر نیوز چینل پربریکنگ نوز کے نام پر کیوبک  سٹی  کے ایک حادثے کی خبر چل رہی تھی۔ آج شام ہوئے ہوائی حادثے میں ایک بدقسمت پرواز کے عملے سمیت سارے لوگ جاں بحق ہوچکے تھے۔ مہلوکین کی فہرست اور تفصیلات متواتر دکھائی جارہی تھیں۔ اس میں رومانہ کا نام بھی شامل تھا۔ ہائیں اس وقت رومانہ یہاں میرے پاس نا ہوتی تو اس کی تصویر اور باقی تفصیلات دیکھ کر میں بھی غچہ کھا جاتا۔ انتظامیہ کی اتنی بڑی غلطی پر میں حیران تھا۔ تبھی فون بج اٹھا۔کسی اجنبی کال کو رات کے اس پہر انٹر ٹین کرنا میری پالیسی کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن فون پر رومانہ کےپتا جی تھے۔
" کیسے ہو ۔۔۔ بیٹا تم نے ٹی وی پر خبریں دیکھیں "


" جی انکل، دیکھ رہا ہوں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ رومانہ اس وقت میرے پاس ہے۔ ابھی ابھی یہاں پہنچی ہے۔"


"کیا کہہ رہے ہو بیٹا ۔ ایرپورٹ پر تو میں خود اسے چھوڑ آیا تھا ۔ تم ٹھیک تو ہو۔ ایسا کرو تم یہیں آجاؤ بہتر رہے گا"


انہیں لگا میں شدت غم سے بہک گیا ہوں۔ اول فول بک رہا ہوں۔وہ اپنی جگہ صحیح تھے۔ حالات ہی ایسے بن رہے تھے۔ سب کچھ شاید جیسا تھا ویسا نہیں تھا۔بہت دیر ہوئی رومانہ بھی واش روم سے نکلی نہیں تھی۔اس غیر معمولی تاخیرنے میرے اندیشوں کی پیٹھ پر خوف کے بچھوچھوڑدئے۔بجلی کی سرعت سے میں واش روم کی طرف لپکا۔ آوازیں دیتا رہا دوسری طرف سناٹا بول رہا تھا۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ہاتھ لگتے ہی دروازہ کھل گیا ۔ ریڑھ کی ہڈی سنسنانے لگی۔ اندر سے مقفل نہیں تھا ۔ وہاں سب کچھ تھا بس رومانہ نہیں تھی ،جا بجا اس کی نشانیاں بھی  بکھری ہوئی تھیں۔ صابن، شیمپواور دیگر لوشنوں کے باوجودرومانہ کی خوشبو کو میں الگ سے محسوس کررہا تھا۔ نیلگوں روشنی میں بسی اس کے جسم کی خنکی یہیں کہیں اس کی موجودگی کی گواہی دیرہی تھی۔ ہینگر میں لٹکے ہوئے اس س کے کپڑے ماحول کو اور پراسراربنارہے تھے۔ میں حیرت و غم کی مورت بنا چپ چاپ کھڑا ہونقوں کی طرح پلکیں جھپکا رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔
ختم شدہ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

دیدبان شمارہ : ۰۲ اور ۲۱ 2023
افسانہ: رومانہ
افسانہ نگار: تنویر احمد تماپوری
ریاض سعودی عرب

وہ خوبصورت لڑکی ناآسمان سے ٹپکی تھی ناپلے اسٹور سے ڈاون لوڈ ہوئی تھی۔بلکہ موبائل کے جی پی ایس نے اسے رچمنڈ کے مغالطے میں مجھ تک پہنچادیاتھا۔ دھیما لہجہ، ریشمی زبان ، شہد میں ڈوبی اس کی آوازکو میں نے دوسرے کان سے نکلنے نہیں دیا  کیونکہ کسی نشے کی طرح پورے وجود پرسرائیت کرچکی تھی۔رچمنڈ میرا پڑوسی اور اس عمارت کا مالک تھا۔ بجائے اس لڑکی کو رچمنڈ کے یہاں بھیجنے کے میں نےاندر بلالیا۔ جھوٹ میرے لئے نئی چیز نہیں تھی۔ لیکن کسی لڑکی کے لئے  یہ پہلا جھوٹ تھا ۔ میں نے اسے برآمدے میں بیٹھا یا پھر رچمنڈ کو فون پرخبر کردی۔ گہری نیلی آنکھیں ، چاندی ملا رنگ،سونے جیسے بال۔ کینیڈا میں جاتی سردیوں کا موسم ویسے ہی گلاب رنگ ہوتا ہے۔ اس لڑکی کے سرخ و سفید سراپے نے اس کو ست رنگی کردیا تھا۔


کب رچمنڈ آیا، کب ان کے بیچ سارے معاملات طے پائے۔ مجھے ہوش تو تب آیا جب خوش خبری نے بے خبری میں جالیا۔ مژدہ جانفزا کبھی کبھی ایسے اچانک زندگی میں چلا آتا ہے کہ رد عمل کا مو قع بھی نہیں ملتا۔ پھروہ میری پڑوسن بلکہ روم میٹ بن گئی۔رومانہ اسی ملک کی باشندہ ہوتے ہوئے بھی ٹورانٹو کے لئے اجنبی تھی۔فرنچ ماں اوردیسی باپ کی کینیڈین لڑکی حسین و جمیل اتنی کہ جیسے خوابوں پر شب خون مارنے کا لائسنس اس کی وراثت ہو۔ ہم دونوں کے کمرے الگ ہونے کے باوجود برآمدہ بیٹھک اور کچن مشترک تھے۔ ان کی صفائی ستھرائی اور د یکھ بھال اکثر جھگڑے کی بنیاد بنتے رہتے تھے۔ اس کی مشرقی روایات ہمارے بیچ کا ظالم سماج تھیں ۔ وہ ودیسی ہوکر بھی اندر سے ٹھیٹھ دیسی تھی ۔ رومانہ کی ذات سے رومان کا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ وہ اس کے نا م میں بستاتھا۔کبھی کبھی مسکرا بھی لیتی تو لگتا کڑوے گھونٹ پی رہی ہے ۔ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی چندا ماما کی طرح دور ہی سے درشن دیتی رہی اور میرے سارے چندرائین نامراد لوٹتے رہے۔حالانکہ باہر کی دنیا مغرب کے کھلے ماحول اور آزاد فضاوں پر مشتمل تھی۔
ایک ویک اینڈ پر اس کےآفس کے کچھ دوست گھر آنے والے تھے۔ میں نے رومانہ کی درخواست پر وہ شام فلیٹ سے باہر گزاردی۔ میری وہ چھوٹی سی مدد آگے چل کر بڑی سود مند ثابت ہوئی ۔ اس کی ذات کے گرد بنی دیوار چین میں پہلی دراڑ ڈال گئی۔رفتہ رفتہ چہرے کے اعصاب کی تنا تنی کم ہونے لگی۔ ماحول بدلنے لگا ۔ اس کے جذبات میں پوری طرح حدت تو نہیں آئی تاہم پہلے والی شدت بھی نہ رہی۔ بیچ میں جمی برف پگھلنے لگی تھی۔ اب کبھی کبھی ساتھ بیٹھ کرمشروب بھی پیا جانےلگاتھا۔


ایک بار کچھ دن کے لئے رومانہ کے والدین ٹورانٹو آگئے۔ میں نےپھر سے ازراہ ہمدردی اپنا بوریا بستر سمیٹنا چاہا۔ رومانہ نے روک لیا۔ وہ ایک اچھی ایونٹ منیجر تھی۔ وہ اپنا کام،والدین اور مجھےایک ساتھ سنبھالنے لگی۔ ماں کو اس نے اپنے کمرے میں شفٹ کرلیا۔ پتا کو میرے ساتھ کر دیا۔ رات کا کھانا سب ساتھ کھاتے تھے ۔ اکثر رومانہ ہی کھانا بنایا کرتی تھی اور اس کی باورچیانہ صلاحیتوں کا بھی جواب نہیں تھا۔ اس کی ماں کی فرانسیسی نما ہندی قہقہوں کی جڑ ہوا کرتی تھی۔ لیکن زیادہ تعجب مجھے رومانہ کی شدھ ہندی اردوپر ہوا۔ یہ لڑکی قسطوں میں مارنے کی ماہر تھی۔ مجھے اعتراف تھا کہ میں اسےپسند کرنے لگا تھا۔ پانچ دن کیسے گزرگئے پتا ہی نہیں چلا۔ معلوم تو اس وقت پڑ ا جب اس کی آنکھوں کے بڑے بڑے کٹورے آنسوؤں سے چھلکنے لگے۔ بھاری من اور بھاری دکھ کے ساتھ رومانہ کے والدین کو وداع کرکے ہم ایر پورٹ سے واپسی پر بالکل چپ تھے۔ گھر پہنچ کر وہ اسی چپی کے لبادے میں سمٹی سمٹائی اپنے حصے میں کہیں غائب ہوگئی۔


اب ہم دونوں عمداً بھی ساتھ بیٹھنے لگے تھے۔چائے اور ٹی وی ساتھ چلنے لگی تھی۔ کبھی آفس کی باتیں کبھی موسم کی گپیں کبھی ہالی وڈ تو کبھی بالی وڈ ۔ ہر موضوع پر وہ سقراط کی چاچی نکلی۔ اب ہماری گفتگو ہندی میں ہونے لگی تھی۔ چائے کافی کے ساتھ مارٹینی اور وڈکا نے بھی بیٹھک کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔ اکثر ڈنر ساتھ ہونے لگا تھا۔پیزا اور برگر بھی ایک دوسر ے کے لئے پوچھ کر منگوانے کا تکلف اب جاتا رہا ۔
ایک ویک اینڈ پر میرا قریبی دوست اگروال بار بی کیو کے سارے لوازمات ، پرانی شراب اور نئی گرل فرینڈ کے ساتھ اچانک آ دھمکا۔ اس طرح کی حرکتیں اسی کا خاصہ تھیں۔ ایسےحملے کے لئے نا میں تیار تھا نا میرا فلیٹ اور نا رومانہ لیکن اس دن پہلی بار میں نے رومانہ کا ایک اور پہلو دیکھا۔ مہمانوں کی آو بھگت اور دیکھ بھال میں وہ مجھ سے زیادہ فعال تھی۔ میرا دوست جو کافی حد تک میرے معاملات میں دخیل تھا ۔میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہاہو۔


" چودھری سالے بلی ۔۔۔۔۔۔ مار بھی لی تو نے اور بتا یا تک نہیں۔ "


رومانہ بھی اپنے حسن اخلاق کے ذریعےاگروال کوسچ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔اس پارٹی میں رومانہ پہلی بارمارٹینی سے برانڈی تک پہنچی تھی۔ یہ لڑکی پہلے حیرت کا انیستھیسیا دیتی تھی پھر گلا کاٹتی تھی۔
وہ مغرب کی پیداوار ہوتے ہوئے بھی مشرقی قدروں کی امین تھی۔ مگر آج اسے اپنی بنیاد کی طرف لوٹتا دیکھا جا سکتا تھا۔ پارٹی ہر گذرتے لمحے کے ساتھ وائلڈ ہورہی تھی۔ ناچ گانا ،مغربی میوزک، اگروال کی ڈی جے والی صلاحیت کل ملا کر ایک ہنگامہ بپا رہا۔ بار بی کیو، برانڈی اور بکواس ساری رات ہمارے حواس پر طاری رہے۔ رات کے آخری پہر اگروال اپنی دوست کو لے کر میرے کمرے کی طرف چل دیا ۔ رومانہ نے مجھے اپنی خواب گاہ میں خوش آمدید کہا۔ اس رات میں نے پہلی بار اس کا کمرہ اندر سے دیکھا تھا۔ وہ بالکل اس کی شخصیت کی طرح صاف ستھرا اورنکھرا ہوا تھا۔ مہذب رنگوں کا امتزاج، برتنے کا سلیقہ ۔ خوابناک سی خوشبو، سب نے مل کر دماغ پر چڑھے رومان کو ایڑ لگادی۔ برانڈی بے لگام ہوگئی۔ میری دست درازیاں ، اس کی نیم دل مزاحمت ۔ بہی کھاتے کھل ہی جاتےمگر وہ رومانہ تھی۔ اس کی مشرقی حیاراستے کا روڑہ تھی اور عین وقت پر جاگ گئی۔ لہذااس کا بیڈروم اس رات بھی کنچن چنگا کی چوٹیوں کی مانند صاف ستھرا ، یخ بستہ اور مقدس ہی بنا رہا۔


دوسرے دن کی صبح میرے دل میں رومانہ کی قدرو منزلت اور بڑھا گئی ۔ سہ پہر کی چائے سے پہلے اگروال اور اس کی دوست جاچکے تھے۔ رومانہ کسی سیپ سے نکلے موتی کی طرح چمکدار اور صاف ستھری لگ رہی تھی۔ چکن برگر اور اسٹرانگ چائے، ساتھ میں پیاری سی مسکراہٹ، جینے کو اور کیا چاہیے۔اب ہم لوگ زیادہ وقت اکٹھے ہی گزارنے لگے تھے۔ باہر بھی جانے لگے تھے۔تفریح طبع، خریداری سب کچھ ساجھا ہی چل رہا تھا۔تیرا میرا کی تمیز کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ کیوپڈ دیو تا ہمیشہ ایسے ہی کسی موقعے کے منتظر ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ترکش کے سب سے فیصلہ کن تیر ہمارے لئے مختص کرلئے اور اس وقت تک برساتے رہے جب تک دستار بندی نہ ہوگئی۔شادی کے بعد عموماً لڑکیاں وداع ہوکر سسرال جاتی ہیں۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہوا ۔ فلیٹ کا رومانہ والا حصہ زیادہ رومانٹک تھاسو وداعی میری ہوئی ۔ یوں زندگی ایک نئی اور حسین دھج پر رواں ہوئی۔


رومانہ جتنی خوبصورت تھی اس سے زیادہ خوب سیرت نکلی۔ اب راوی نے اپنی سیاہی بدل لی تھی۔ اگلے باب سنہری لفظوں میں ڈھلنے لگے۔ ہر روز پیار کے نئے جزیرے دریافت ہونے لگے ۔ اتنی احتیاط سے ایک دوسرے کو خرچ رہے تھے جیسے کوئی کلرک اپنی تنخواہ کو مہینے کے آخری دنوں میں خرچ کرتاہے۔ہم دونوں نے میدان بانٹ لئے ۔ گھر کے باہر وہ میری ہتھیلی کا چھالا تھی، گھر کے اندر میں اس کی آنکھ کا تارا۔ کئی ماہ تک محبت کی یہ گنگا جمنا تواتر سے بہتی رہی ۔


نیلے آسمان کے نیچے سب کچھ دائمی نہیں ہوتا۔ایک معمولی سی بات ہم دونوں کے بیچ گہری کھائی بنا گئی۔ کچھ رشتوں میں جھوٹ کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ میرے ایک چھوٹے سے بے ضرر جھوٹ نے ہم دونوں کو ریل کی پٹریوں میں بدل دیا ۔ پھر سے زند گی نے اپنا ڈھب بدل لیا ۔ اس نے اپنی ذات کے گرد گوتم بدھ کی خاموشی اوڑھ لی۔ پہلے پہل بیزاری نےوہاں سیندھ لگائی پھر پیار کی بنیادیں کمزور ہونے لگیں۔ عجیب لڑکی تھی، جو طور اب مشرق میں عنقا تھے انہیں وہ مغرب میں چلانےپر بضد تھی۔


ایک دن کام سے واپسی پر میں بہت زیادہ فکر مند تھا۔ آفس کے کچھ مسائل، وطن میں جائیداد کو لے کر تناتنی۔ معاش کے کچھ معاملے۔ ایسے میں رومانہ کی لمبی ہوتی چپی اور نسوانی انا نے حالات کو بے قابو کردیا۔ ہم دونوں کے بیچ وہ قضیہ شیطان کی  ثابت ہوہا تھا۔ حالانکہ میری جانب سے کوششیں تھیں ۔ مگر رومانہ نے ناری ہٹ پکڑ لی تھی اور ہٹ کر نہیں دے رہی تھی۔ جھگڑا لمبا ہوتا گیا، چلتا گیا اور اس وقت تک چلتا رہا جب تک میرے اندر کا مشرقی مرد جاگ نہ اٹھا ۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک تھپڑ۔۔۔ اور سب کچھ ختم ۔ ہماری ازدواجی زندگی کا ڈیڈ اینڈ ۔کم سے کم اس کی طرف سے تو یہی کہا گیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے عدالت میں ملنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ وہ ایسی ہی تھی۔اس کی محبت مثالی تھی، اس کی دوستی مثالی تھی، اب دشمنی کی باری تھی اور مجھے ڈر تھا اس میں بھی وہ بے مثال نا نکلے۔


کچھ موسم لوگوں کے مرہون منت ہوتے ہیں ،ساتھ آتے ہیں اور ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ اب وقت کٹ نہیں رہا تھا۔ کاٹا بھی نہیں جارہاتھا۔ فون ، واٹس اپ، ٹویٹر ،انسٹاگرام سب کے دروازوں پر میرے لئے ممنوع لکھا جا چکا تھا۔ میں نے اس کے والدین سے رابطہ کیا ، ان کے جملہ حقوق بھی تسلی دلاسے تک محدود نکلے۔جنگ بندی کی کوئی ترکیب نا نکال پائے۔ کچھ دن تک میں نے کوشش کی پھر میری اپنی بھی انا چٹان بن کر راستے میں آگئی۔ پیارپر عزت نفس کا دو طرفہ حملہ ہوا۔ سرد جنگ لمبی ہوتی گئی۔ سب کچھ ٹہر گیا ۔ صبحیں کہیں ہورہی تھیں۔ شاموں کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ہماری شادی کی سالگرہ بھی ہوتی ہے۔ سالگرہ کا سفید جھنڈا ہاتھ لگا تو میں نے نئے سرے سے جنگ بندی کی کوششیں شروع کردی۔ چوبیس ڈسمبر صبح کی کیوبک سٹی کے لئے بکنگ بھی کرالی۔ اسی تاریخ کو ہماری شادی ہوئی تھی۔ تحفے تحائف اور تیاریوں میں لگ گیا۔


چونکہ صبح تین بجےایر پورٹ کے لئےنکلنا تھا لہذا جلد سونے کے لئے بستر پر چلا گیا۔رات کے دوسرے پہراچانک لگا کوئی دھڑدھڑ اکردروازہ پیٹ رہا ہے۔ بے تکے انداز میں ۔۔۔جیسے کوئی بلا پیچھے لگی ہو، یا یہ میرے خواب کا حصہ تھا۔ جھنجلاہٹ میں آنکھ کھلی تو لگا شاید یہ خواب ہی کا حصہ تھا۔ مگر کال بیل حقیقت تھی اور لگا تار بج رہی تھی۔ میں زچ ہوگیا۔ رات کے اس پہر کی بد تمیزی جان کوآتی ہے۔ متواتر بجنے والی کال بیل نے عندیہ دیا کہ یہ اگروال ہی ہوگاایسی عجیب و غریب حرکتوں کا ٹھیکہ اسی کے پاس تھا۔ میں نہایت غصے میں دانت پیستا ہو ا مغلظات کے گھوڑے پر سوار دروازے تک گیا۔ لیکن یہ کیا دروازے پر رومانہ کھڑی تھی۔ سارا غصہ  آن کے آن ہرن ہوگیا۔وہیں کھڑے کھڑےسارے شکوئے   شکایتیں دھلنے لگے۔ مبارکباد یاںسمیٹی جانے لگیں۔وہ ایسی ہی تھی۔ زمانے سے دو قدم آگے رہتی تھی۔ جیتنا اس کی عادت تھی، آج بھی جیت گئی ۔  بہت سارا کہا سنا معاف۔  پھر بھی بہت کچھ باقی تھا۔ رات بھی ساری باقی تھی۔ میں مسہری پر نیم دراز اس کے واش روم سے نکلنے کا منتظر تھا۔


وقت گذاری کے لئے ٹی وی آن کردیا۔وہاں ہر نیوز چینل پربریکنگ نوز کے نام پر کیوبک  سٹی  کے ایک حادثے کی خبر چل رہی تھی۔ آج شام ہوئے ہوائی حادثے میں ایک بدقسمت پرواز کے عملے سمیت سارے لوگ جاں بحق ہوچکے تھے۔ مہلوکین کی فہرست اور تفصیلات متواتر دکھائی جارہی تھیں۔ اس میں رومانہ کا نام بھی شامل تھا۔ ہائیں اس وقت رومانہ یہاں میرے پاس نا ہوتی تو اس کی تصویر اور باقی تفصیلات دیکھ کر میں بھی غچہ کھا جاتا۔ انتظامیہ کی اتنی بڑی غلطی پر میں حیران تھا۔ تبھی فون بج اٹھا۔کسی اجنبی کال کو رات کے اس پہر انٹر ٹین کرنا میری پالیسی کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن فون پر رومانہ کےپتا جی تھے۔
" کیسے ہو ۔۔۔ بیٹا تم نے ٹی وی پر خبریں دیکھیں "


" جی انکل، دیکھ رہا ہوں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ رومانہ اس وقت میرے پاس ہے۔ ابھی ابھی یہاں پہنچی ہے۔"


"کیا کہہ رہے ہو بیٹا ۔ ایرپورٹ پر تو میں خود اسے چھوڑ آیا تھا ۔ تم ٹھیک تو ہو۔ ایسا کرو تم یہیں آجاؤ بہتر رہے گا"


انہیں لگا میں شدت غم سے بہک گیا ہوں۔ اول فول بک رہا ہوں۔وہ اپنی جگہ صحیح تھے۔ حالات ہی ایسے بن رہے تھے۔ سب کچھ شاید جیسا تھا ویسا نہیں تھا۔بہت دیر ہوئی رومانہ بھی واش روم سے نکلی نہیں تھی۔اس غیر معمولی تاخیرنے میرے اندیشوں کی پیٹھ پر خوف کے بچھوچھوڑدئے۔بجلی کی سرعت سے میں واش روم کی طرف لپکا۔ آوازیں دیتا رہا دوسری طرف سناٹا بول رہا تھا۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ہاتھ لگتے ہی دروازہ کھل گیا ۔ ریڑھ کی ہڈی سنسنانے لگی۔ اندر سے مقفل نہیں تھا ۔ وہاں سب کچھ تھا بس رومانہ نہیں تھی ،جا بجا اس کی نشانیاں بھی  بکھری ہوئی تھیں۔ صابن، شیمپواور دیگر لوشنوں کے باوجودرومانہ کی خوشبو کو میں الگ سے محسوس کررہا تھا۔ نیلگوں روشنی میں بسی اس کے جسم کی خنکی یہیں کہیں اس کی موجودگی کی گواہی دیرہی تھی۔ ہینگر میں لٹکے ہوئے اس س کے کپڑے ماحول کو اور پراسراربنارہے تھے۔ میں حیرت و غم کی مورت بنا چپ چاپ کھڑا ہونقوں کی طرح پلکیں جھپکا رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔
ختم شدہ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024