ارشد نعیم کی غزلیں
ارشد نعیم کی غزلیں
Aug 9, 2018
ارشد نعیم کی غزلیں
دیدبان شمارہ۔۸ارشد نعیم
ارشد نعیم کی غزلیں
جو زخم تیرے نام کا نہیں رہا.
تو دل کسی بھی کام کا نہیں رہا.
میں رخت, خواب آنکھ میں سمیٹ لوں
کہ وقت اب قیام کا نہیں رہا..
ہر ایک باب کھل رہا ہے آنکھ پر
غبار صبح و شام کا نہیں رہا..
خموش ہو گئی بدن کی سر زمیں..
وہ سلسلہ کلام کا نہیں رہا...
گزر رہی ہے اس طرح سے زندگی...
کہ خوف اختتام کا نہیں رہا..
ارشد نعیم..
۔۔۔۔۔۔۔۔
تری زمیں سے نہیں, تیرے آسماں سے نہیں
کہ اب ہمارا تعلق ترے جہاں سے نہیں
یہ گفتگو ہے کسی اور ہی زمانے سے
مرا خطاب ترے عہد, رائیگاں سے نہیں
عجیب دکھ ہے اسی کو سنانا پڑتی ہے
جسے لگاؤ کوئی میری داستاں سے نہیں
اسی کے دم سے نظر میں ہیں منزلیں روشن
وہ اک ستارہ کہ جو تیرے آسماں سے نہیں
بھٹک رہا ہوں ابھی ہجرتوں کے جنگل میں
میں فیض یاب ابھی بزم, دوستاں سے نہیں....
ارشد نعیم.. ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک خواب ہر اک دشت سے گزارا گیا
پھر اس کے بعد فلک پر مرا ستارہ گیا
تمہارا کیا ہے تمہاری تو ایک کشتی تھی
ہمارے ہاتھ سے دریا گیا کنارہ گیا
ہماری آنکھ بھی اک خواب ہی کی نذر ہوئی
ہمارا دل بھی کسی خواب ہی پہ وارا گیا
بس ایک میں تھا مرے ساتھ میری وحشت تھی
زمیں پہ پہلے پہل جب مجھے اتارا گیا
ہمارے اشکوں سے پہلے کیا گیا روشن
پھر اس چراغ کی لو میں ہمیں اتارا گیا
نہ جانے شہر کی گلیوں میں کیسا جادو تھا
کوئی بھی قیس نہیں دشت میں دوبارہ گیا
ہم تھے اپنی موجوں کی طغیانی میں.
بس اک منظر دیکھ سکے حیرانی میں.
عشق مسافر ہے جو چلتا رہتا ہے..
خاک اڑاتے لمحوں کی نگرانی میں..
جس کو میں نے مشکل میں آباد کیا.
وہ قریہ برباد ہوا آسانی میں...
ایک نیا دکھ اب کے چاک سے اترے گا..
ایک نیا دکھ ہے مٹی اور پانی میں..
ابھی ابھی میں آنکھ بھگو کر نکلا ہوں.
اتر گیا تھا اک تصویر پرانی میں.
جی اٹھتا ہے ایک تحیر خلوت میں.
مر جاتا ہے اک کردار کہانی میں...
ارشد نعیم
دیدبان شمارہ۔۸ارشد نعیم
ارشد نعیم کی غزلیں
جو زخم تیرے نام کا نہیں رہا.
تو دل کسی بھی کام کا نہیں رہا.
میں رخت, خواب آنکھ میں سمیٹ لوں
کہ وقت اب قیام کا نہیں رہا..
ہر ایک باب کھل رہا ہے آنکھ پر
غبار صبح و شام کا نہیں رہا..
خموش ہو گئی بدن کی سر زمیں..
وہ سلسلہ کلام کا نہیں رہا...
گزر رہی ہے اس طرح سے زندگی...
کہ خوف اختتام کا نہیں رہا..
ارشد نعیم..
۔۔۔۔۔۔۔۔
تری زمیں سے نہیں, تیرے آسماں سے نہیں
کہ اب ہمارا تعلق ترے جہاں سے نہیں
یہ گفتگو ہے کسی اور ہی زمانے سے
مرا خطاب ترے عہد, رائیگاں سے نہیں
عجیب دکھ ہے اسی کو سنانا پڑتی ہے
جسے لگاؤ کوئی میری داستاں سے نہیں
اسی کے دم سے نظر میں ہیں منزلیں روشن
وہ اک ستارہ کہ جو تیرے آسماں سے نہیں
بھٹک رہا ہوں ابھی ہجرتوں کے جنگل میں
میں فیض یاب ابھی بزم, دوستاں سے نہیں....
ارشد نعیم.. ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک خواب ہر اک دشت سے گزارا گیا
پھر اس کے بعد فلک پر مرا ستارہ گیا
تمہارا کیا ہے تمہاری تو ایک کشتی تھی
ہمارے ہاتھ سے دریا گیا کنارہ گیا
ہماری آنکھ بھی اک خواب ہی کی نذر ہوئی
ہمارا دل بھی کسی خواب ہی پہ وارا گیا
بس ایک میں تھا مرے ساتھ میری وحشت تھی
زمیں پہ پہلے پہل جب مجھے اتارا گیا
ہمارے اشکوں سے پہلے کیا گیا روشن
پھر اس چراغ کی لو میں ہمیں اتارا گیا
نہ جانے شہر کی گلیوں میں کیسا جادو تھا
کوئی بھی قیس نہیں دشت میں دوبارہ گیا
ہم تھے اپنی موجوں کی طغیانی میں.
بس اک منظر دیکھ سکے حیرانی میں.
عشق مسافر ہے جو چلتا رہتا ہے..
خاک اڑاتے لمحوں کی نگرانی میں..
جس کو میں نے مشکل میں آباد کیا.
وہ قریہ برباد ہوا آسانی میں...
ایک نیا دکھ اب کے چاک سے اترے گا..
ایک نیا دکھ ہے مٹی اور پانی میں..
ابھی ابھی میں آنکھ بھگو کر نکلا ہوں.
اتر گیا تھا اک تصویر پرانی میں.
جی اٹھتا ہے ایک تحیر خلوت میں.
مر جاتا ہے اک کردار کہانی میں...
ارشد نعیم