ارشد معراج کی نظمیں
ارشد معراج کی نظمیں
Mar 10, 2024
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
اتنی سی تو بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشد معراج
**********************************
تم کافی پرانے ہو چکے ہو
روح اب اپنا لباس تبدیل کرنا چاہتی ہے
نہیں ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔
یہ اچانک نہیں ہو گا
بہت دھیرے دھیرے سے
قسطوں میں ۔۔۔
عارضے کے روپ میں
لذتیں تم سے ہجر و وصال کی آنکھ مچولی کھیلیں گی
یہ شروعات ہے
مٹھاس کی چاشنی
اچار کی کھٹاس کا چٹخارہ
آئس کریم کی تسکین
بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو
دانتوں کی عارضیت
دل کی دھڑکن کی صدائیں
مضمحل ہوتے قوی کا ادارک
خون کی گردش کا بے ترتیب رقص
سانس کی رفتار کی دھن
دور تک دیکھ لینے کی عادت
سماعت سے ٹکراتا بے ہنگم کا شور
راتوں کی نیند کی آسودگی میں مہکتی خواہشیں
صبح کے سرور میں نہاتا نور
کتاب کی دوستی سے سیکھی کچھ باتیں
یاروں کی منڈلی میں اٹھتے طوفان
لطیفوں کے جل تھل کا بہاو
چائے خانوں کی شاموں میں تیرتی تنہائی
شریانوں میں سنسنی بن کر دوڑتی نظموں کی کشش
دھیان کے آتش دان میں گیتوں کا سرگم
بارش میں بھیگنے کی سرشاری
گرمیوں کی دوپہروں کی غنودگی
آہستہ آہستہ رخصت مانگیں گی
لمس کی لذت سے پگھلتے دل
بدن کے حدت کی لپک
جامنی ہونٹوں کی بنفشیت
ملائم جلد کی سانولیت
گلابی پوروں کی حسیت
صبیح چہروں کی نرماہٹ
سیاہ آنکھوں کا طلسم
جسم کی قوسیں ، خطوط ، زاویے
لڑکیوں کے قہقہے میں مچلتی پھلجھڑیاں
میٹرو سٹیشن پر کسی کا انتظار
روٹھ جانے کی ایکٹنگ
اشکوں کی جھڑی
دھند میں لیٹے خط
سب خواب ہو جائیں گے
تم پچھلے دروازے سے زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کرو گے
لیکن دیر تلک شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گنگنا نہیں پاو گے
پرانا لباس بہت دنوں بدن پر نہیں رہتا
بو آنے لگتی ہے
خود سے خود کو
یکسانیت سے جی اوب جاتا ہے
سو تم تیار ہو جاو گے
روح اپنا لباس تبدیل کر لے گی
تم چین سے سو جاو گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستوں کی اوک ۔۔۔۔۔ ارشد معراج
یہودہ!
سن !
کپل وستو رگ و پے میں اترتا ہے۔
تو پلکوں پر جمی خوش فہمیوں کی گرد ہٹتی ہے
زمانہ وردیاں تبدیل کرتا ہے
یہودہ!
رات سر پر ہے جدائی کی
وچھوڑا تیز ناخن سے
ہماری سوچ سختی پر
نئے وجدان کا چہرہ بناتا ہے
پرانا زخم تازہ وار سہتا ہے
تمناؤں کے بستر پر بڑھاپا
سانس سرمنڈل پہ
کھانسی سے بھرے جب گیت گاتا ہے
ہماری ریڑھ کی ہڈی میں گودا جھر جھری لیتا ہے
سانسیں پھول جاتی ہیں۔
تماشا ہے
تماشے میں نہ عیسی ہے نہ موسیٰ ہے نہ گو تم ہے نہ وشنو ہے
ہمارے چار سولیکن سماعت سے مبرا کان
جن سے ریت بہتی ہے
ہوائیں سرسراتی ہیں
تو ہم ایسے ہزاروں پا پیادہ قرب کے پیاسے
مقفل دائروں میں رقص کرتے ہیں
یہودہ!
سن!
ہمیں ہر سانس کی قیمت چکانا ہے سیہ چرمی کتابوں میں یہی لکھا ہوا
دیدبان شمارہ ۔ ۲۰ اور ۲۱
اتنی سی تو بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشد معراج
**********************************
تم کافی پرانے ہو چکے ہو
روح اب اپنا لباس تبدیل کرنا چاہتی ہے
نہیں ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔
یہ اچانک نہیں ہو گا
بہت دھیرے دھیرے سے
قسطوں میں ۔۔۔
عارضے کے روپ میں
لذتیں تم سے ہجر و وصال کی آنکھ مچولی کھیلیں گی
یہ شروعات ہے
مٹھاس کی چاشنی
اچار کی کھٹاس کا چٹخارہ
آئس کریم کی تسکین
بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو
دانتوں کی عارضیت
دل کی دھڑکن کی صدائیں
مضمحل ہوتے قوی کا ادارک
خون کی گردش کا بے ترتیب رقص
سانس کی رفتار کی دھن
دور تک دیکھ لینے کی عادت
سماعت سے ٹکراتا بے ہنگم کا شور
راتوں کی نیند کی آسودگی میں مہکتی خواہشیں
صبح کے سرور میں نہاتا نور
کتاب کی دوستی سے سیکھی کچھ باتیں
یاروں کی منڈلی میں اٹھتے طوفان
لطیفوں کے جل تھل کا بہاو
چائے خانوں کی شاموں میں تیرتی تنہائی
شریانوں میں سنسنی بن کر دوڑتی نظموں کی کشش
دھیان کے آتش دان میں گیتوں کا سرگم
بارش میں بھیگنے کی سرشاری
گرمیوں کی دوپہروں کی غنودگی
آہستہ آہستہ رخصت مانگیں گی
لمس کی لذت سے پگھلتے دل
بدن کے حدت کی لپک
جامنی ہونٹوں کی بنفشیت
ملائم جلد کی سانولیت
گلابی پوروں کی حسیت
صبیح چہروں کی نرماہٹ
سیاہ آنکھوں کا طلسم
جسم کی قوسیں ، خطوط ، زاویے
لڑکیوں کے قہقہے میں مچلتی پھلجھڑیاں
میٹرو سٹیشن پر کسی کا انتظار
روٹھ جانے کی ایکٹنگ
اشکوں کی جھڑی
دھند میں لیٹے خط
سب خواب ہو جائیں گے
تم پچھلے دروازے سے زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کرو گے
لیکن دیر تلک شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گنگنا نہیں پاو گے
پرانا لباس بہت دنوں بدن پر نہیں رہتا
بو آنے لگتی ہے
خود سے خود کو
یکسانیت سے جی اوب جاتا ہے
سو تم تیار ہو جاو گے
روح اپنا لباس تبدیل کر لے گی
تم چین سے سو جاو گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستوں کی اوک ۔۔۔۔۔ ارشد معراج
یہودہ!
سن !
کپل وستو رگ و پے میں اترتا ہے۔
تو پلکوں پر جمی خوش فہمیوں کی گرد ہٹتی ہے
زمانہ وردیاں تبدیل کرتا ہے
یہودہ!
رات سر پر ہے جدائی کی
وچھوڑا تیز ناخن سے
ہماری سوچ سختی پر
نئے وجدان کا چہرہ بناتا ہے
پرانا زخم تازہ وار سہتا ہے
تمناؤں کے بستر پر بڑھاپا
سانس سرمنڈل پہ
کھانسی سے بھرے جب گیت گاتا ہے
ہماری ریڑھ کی ہڈی میں گودا جھر جھری لیتا ہے
سانسیں پھول جاتی ہیں۔
تماشا ہے
تماشے میں نہ عیسی ہے نہ موسیٰ ہے نہ گو تم ہے نہ وشنو ہے
ہمارے چار سولیکن سماعت سے مبرا کان
جن سے ریت بہتی ہے
ہوائیں سرسراتی ہیں
تو ہم ایسے ہزاروں پا پیادہ قرب کے پیاسے
مقفل دائروں میں رقص کرتے ہیں
یہودہ!
سن!
ہمیں ہر سانس کی قیمت چکانا ہے سیہ چرمی کتابوں میں یہی لکھا ہوا