رقصِ ہجراں
رقصِ ہجراں
Mar 14, 2018
دیدبان شمارہ۔۷
رقص ِ ہجراں
غلام فاطمہ مہرو
خاک در خاک یہاں آج اُڑی جاتی ہے
ہستیِ جان کی کمزور نبض پر جیسے
تیرے آثارِ قدیمہ سے نظر آتے ہیں
شکست و ریخ کی تختی، مکان ِذات پہ آج
کہ بڑی دوُر سے آویزاں ہوئ جاتی ہے
یہ تیرے در کے مُسافر تیرے سفر کے تھکے،
تیری تلاش کی اک گمشدہ چٹان کے پاس
دو قدم رُکتے نہیں، بیٹھ کے سستاتے نہیں !
یہ صحرا.. مقتل ِ سسی و سراب ِ لیلیٰ
کسی جنون ِحق و دوش کا دِلدار نہیں !
یہاں پہ خون کو خاکستری کا اُلجھاٶ ..
یہاں سراب تیری راہ، مری تِشنہ نظر !
یہ چار سُوِ تماشاے ماتمی لشکر
جو غرضِ سنگتِ زنجیر چلے آتے ہیں
انھیں بتاٶ کِسی بخت کی افسردہ شام
بلا کے سوز سے نبردآزما ہو کر
ساز رکھتی ہے کسی ٹوٹتی پائل جیسا !
یہ کِسی تخت، کِسی ساز کی محتاج کہاں
اِس کو کافی ہیں تیرے در سے نکالے ہوۓ لوگ
اِس کی چُپ چاپ کی صحبت کہ راکھ پرور سی !
اِس کے دل سوز نقارے تیرے ہجراں کی اذان !!
دیدبان شمارہ۔۷
رقص ِ ہجراں
غلام فاطمہ مہرو
خاک در خاک یہاں آج اُڑی جاتی ہے
ہستیِ جان کی کمزور نبض پر جیسے
تیرے آثارِ قدیمہ سے نظر آتے ہیں
شکست و ریخ کی تختی، مکان ِذات پہ آج
کہ بڑی دوُر سے آویزاں ہوئ جاتی ہے
یہ تیرے در کے مُسافر تیرے سفر کے تھکے،
تیری تلاش کی اک گمشدہ چٹان کے پاس
دو قدم رُکتے نہیں، بیٹھ کے سستاتے نہیں !
یہ صحرا.. مقتل ِ سسی و سراب ِ لیلیٰ
کسی جنون ِحق و دوش کا دِلدار نہیں !
یہاں پہ خون کو خاکستری کا اُلجھاٶ ..
یہاں سراب تیری راہ، مری تِشنہ نظر !
یہ چار سُوِ تماشاے ماتمی لشکر
جو غرضِ سنگتِ زنجیر چلے آتے ہیں
انھیں بتاٶ کِسی بخت کی افسردہ شام
بلا کے سوز سے نبردآزما ہو کر
ساز رکھتی ہے کسی ٹوٹتی پائل جیسا !
یہ کِسی تخت، کِسی ساز کی محتاج کہاں
اِس کو کافی ہیں تیرے در سے نکالے ہوۓ لوگ
اِس کی چُپ چاپ کی صحبت کہ راکھ پرور سی !
اِس کے دل سوز نقارے تیرے ہجراں کی اذان !!