رفیق سندیلوی کی شاعری کا فنی و فکری جائزہ اور رجحانات

رفیق سندیلوی کی شاعری کا فنی و فکری جائزہ اور رجحانات

Jan 20, 2023

دیدبان شمارہ ۔ ۱۶

رفیق سندیلوی کی شاعری کا فنی و فکری جائزہ اور رجحانات

محمد رضا۔ گلگت

فن شاعری کیا ہے؟شعرا اشعار کیوں لکھتے ہیں؟اور شعر لکھنے کی وجہ و سبب کیا ہے؟

شاعری حساس طبع ہونے،احساس ذمہ داری اورجذبات و احساسات کے اظہار کانام اور علامت ہے۔ہرانسان احساسات اورجذبات رکھتا ہےلیکن بعض لوگ زیادہ حساس طبع کے مالک ہوتے ہیں اور اپنے عصرو زمان میں لوگوں پر ہونے والی ناانصافیوں ،ظلم و ستم اور انسانیت کی تذلیل کو برداشت نہیں کرسکتے۔

انسانیت سے بلکہ فطرت سلیم پر موجود ہر شخص اور خاص طور پر تخلیق کار کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ تمام تر مذہبی،مسلکی ،رنگ و نسل اور زبان کے تعصبات سے بالاتر ہوکر فلاح انسسانیت کے لیے سوچتا ہے اور اظہار کرتا ہے۔کسی بھی سطح پر انسانوں پر ظلم و ستم کرتے ہوئے یا ہوتے ہوئےدیکھ کر تخلیق کار نہ صرف اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے بلکہ ظالموں کے خلاف بغاوت کرکے لوگوں کو اس مسئلہ کی طرف شعور و توجہ دلاتا ہے۔یہی لوگ حساس ہوتے ہیں اور معاشرے کے لیےمفید ترین ہوتے ہیں ۔

شاعری کی صلاحیت ۔استعداد اور قوت کے بارے میں مختلف آرا موجود ہیں ان میں سے ایک یہ ہےکہ علم منطق کے بنیاد گزاروں میں سے ایک شخصیت شیخ رضامظفر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہر انسان فطری طور پر شاعرہے۔شاعری کی صلاحیت و استعداد اور قوت فطرتاً ہر انسان میں ہوتی ہے اکثر اس صلاحیت کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہےلیکن بعض افراد اسا صلاحیت کو بروئے کار لاکر استعمال کرتے ہوئےاپنے جذبات و احساسات کو شعری اور نثری انداز میں بیان کرتے ہیں ۔

اردو شعر و غزل کا سفر مالابار کے ساحلی علاقوں اور ولی دکنی سے شروع ہوا اور ان کا دیوان شمالی ہند پہنچنے کے بعد اس میں ہر حوالے سے وسعت آنے لگی۔اردو شاعری میں موضوعاتی،فنی و فکری لحاظ سے تبدیلیاں آتی رہیں۔

اگر ہم اردو شاعری اور غزل کے موضوعات اور فکر وفن کو قیام پاکستان کے بعد کے تناظر میں اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جائےتو اس وقت کے موضوعات میں ہجرت،معاشی ابتری اور جدائی وغیرہ نظر آتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد خصوصاً ساٹھ اور ستر کی دہائی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائےتو ادب ان موضوعات کی وجہ سے متثر نظر آتا ہے۔ اس وقت کے حالات و واقعات اور ادب کے موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر صائمہ نذیر لکھتی ہیں:۔

"۷۰ء کی دہائی پاکستان کے لیے سیاسی ،معاشی اور جغرافیائی تبدیلیاں لے کرسامنے آئی۔مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہونا ،سیاسی توڑپھوڑ،مارشل لا کا نافذ ہونا اور ایک منتخب وزیرِاعظم کی پھانسی ،یہ وہ اہم واقعات ہیں جو اس دہائی کے ادب پر اثر انداز ہوئے۔۔۔۔۔سقوط ڈھاکہ کے اثرات کے بعد جو ادب پر ماتمی فضا نے ڈیرہ جمالیا اس کا بھر پوراظہار غزل میں ملتا ہے۔اس سانحے کی وجہ سے دردمندی ،قومی کرب،وعدوں کا ٹوٹ جانا ،امیدوں کا ٹوٹنا ، جسم کا ریزہ ریزہ ہوکربکھرنا جیسے موضوعات غزل میں دکھائی دینے لگے۔ان موضوضوعات کا اظہار جس طرح غزل میں ہوا کسی اور صنف میں نہیں ملتا"( ۱ )

اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ستر کی دہائی میں مایوسی اور مغموم فضا کی کیفیت نظر آتی ہے۔مایوسی کی وجہ بلکل بجا بھی ہے کیونکہ پاکستان کی طرف ہجرت کر کے آنے والے ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے اس عزم و ارادے کے ساتھ چھوڑ رہے تھے کہ پاکستان میں امن سکون اور سکون سے زندگی گرزارنے کا موقع ملے گا۔ہجرت کر کے آنے والوں اپنے گھر بار اور مال و متاع سب کچھ وہاں چھوڑ کرآئے تھےاور صرف جذبات کی دولت لیکر آئے تھے لیکن کچھ مدت گزرنے کے بعد یہاں کی فضا، ماحول اور حالات دیکھ کران کو بہت مایوسی ہوئی وہ لوگ اتنے مغموم ہوئے گویااتنے زخم کھائے کہ کبھی مندمل نہ ہو سکا بقول فارغ بخاری:۔

ترتیب ِنو سے بدلا نہ مےخانےکا نظام

جو پہلے تشنہ کام تھے اب بھی ہیں تشنہ کام

اس صدی میں سب سے زیادہ المناک حادثہ ملک ٹوٹنے کا المیہ تھا اس کے بعد ماشل لا کا نفاذ وغیرہ۔اس سانحے اور موضوع کے حوالے سے احمد فراز نے بھی اشعار لکھے ہیں

اس صدی میں اس وقت کے پر فتن واقعات اور حالات کے ساتھ موضوعات اور فکر و فن میں بھی تبدیلیاں آئیں۔نئے اسلوب و اظہارِ رائے کے لیےتجربوں کی راہیں کھلیں ،ن میں مزاحمت،علامت نگاری،استعاروں کا استعمال اور امیجنرئیز وغیرہ سامنے آگئیں۔

اس دور کے نمائندہ شعرا یعنی اس وقت کے نمایاں شعرا میں احمد فیض ،احد فراز،کشور ناہید،حبیب جالب اور افتخار عارف وغیرہ تھے۔

اسی (۸۰) کی دہائی میں شعرا نے انفرادی سطح پر نئےامکانات اور نئے رجحاناتکو دریافت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ خصوصیات اکیسویں صدی کے شعرا کے ہاں بھی نظر آتی ہیں۔اسی (۸۰) کی دہائی میں قلم اور زبان و بیان پر مکمل پابندی تھی اس وقت کے شعرا نے تلمیحات وغیرہ کو استعارے کے طور پر استعمال کرنے لگے جیسے اس وقت کی فضا اور حالات کو کربلا کے تناظر میں دیکھتے اور اسے استعارے کے طور پر استعمال کرنے لگے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔جیسے بقول افتخار عارف

نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو

مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑےگا

اس وقت مارشل لا کے دور کی شاعری میں طنز اوراستعارے زیادہ نظر آتے ہیں جیسے

بقول جالب کے:۔

دیواروں میں سہمے بیٹھے ہیں کیا خوب ملی ہے آزادی

اپنوں نے بہایا خون اتنا ہم بھول گئے بیگانوں کو

رفیق سندیلوی کے احوال و آثار۔

محمد رفیق سندیلوی یکم دسمبر ۱۹۶۱ کو سندیلیانوالی 'ٹوبہ ٹیک سنگ 'میں پیدا ہوئے۔انہوں نےاے اردوپنجاب یونیورسٹی سے کیا اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔رفیق سندیلوی غزل گو اور نظم نگار اور پاکستان و ہندوستان میں مشہور و معروف شاعر ہیں۔وہاس وقت شعبئہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

رفیق سندیلوی کی تخلیقات

ان کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ان میں ،ایک رات کاذکر،سبز آنکھوں میں تیر،گرز،غار میں بیٹھا ایک شخص، امتزاجی تنقید کی شعریات،پاکستان میں اردو ہائکو ہیں۔

تخلیقی لحاظ سے رفیق سندیلوی کی خصوصیات:۔

تخلیقی پہلو کے حوالے سے رفیق سندیلوی میں چار خصوصیات پائی جاتی ہین

1- رفیق سندیلوی بطور نقاد

2- رفیق سندیلوی بطور غزل گو

3- رفیق سندیکوی بحثیتِ نظم نگار

4- رفیق سندیلوی پاکستان میں ہائکو شاعری کے بنیاد گزار اور تخلیق کار

رفیق سندیلوی کومعاصر ادبی منظر اور حلقوں میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہے۔وہ بیک وقت غزل گو ،نظم نگاراور نقاد ہیں اس کے علاوہ ہائیکو شاعری پر نہ صرف گرفت رکھتےہیں بلکہ اس صنف میں ایک معتبر حوالہ ہے۔

رفیق سندیلوی نے تنقید پر ایک کتاب تحریر کی ہیں اس کی کتاب اور تنقیدی پہلو کے بارے میں مشہور اور نامور نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیرلکھتے ہیں :۔

"رفیق سندیلوی نے اس کتاب میں وزیرآغآ کے پورے تنقیدی نظام کو پیش کیا ہے جو مسرت کی تلاش ۱۹۵۴ء سے لے کر معنی اور تناظر۱۹۹۸ء تک پھیلا ہوا ہے۔۔۔اس مقالے کا غالباً سب سے توانا پہلو یہ ہے کہ یہ گذشتہ نصف صدی کی اردو تنقید کے متوازی ایک ایسی تنقیدی لہرکی برابر موجودگی کا احساس دلاتا ہے جو تمام متقابل لہروں کی قدرو معنویت پر نظر ثانی کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔نئےسوالات قائم کرتی اور نیا تناظرمہیا کرتی ہے یہ تنقیدی لہر امتزاجی ہے۔"(۲)

رفیق سندیلوی غزل گوشاعر بھی ہیں ۔وہ منفرد انداز میں غزل لکھتے ہیں اور غزل کے ضمن میں نئے خیالات کو بہترین اندازاور پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا رفیق سندیلوی کی تخلیقات اور خصوصیات کے حؤالے سے لکھتے ہیں:۔

"رفیق سندیلوی کی غزل کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اِس شاعر نے اپنے خدوخال سے بھی خود کو مُنسلک رکھا ہے، خدوخال سے باہر آنے کی تگ و دَو بھی کی ہے، بیکرانی کا مزہ بھی چکھا ہے اوراِس کے بعد زمین، رات اور عورت کی طرف بھی مراجعت کی ہے۔ ۔ ۔ اِس لیے نہیں کہ وُہی اُس کی آخری منزل ہے کیوں کہ آخری منزل کوئی نہیں ہے۔ یہ سارا آنے جانے، پھیلنے اور سمٹنے کا وظیفہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ رفیق سندیلوی تخلیق کاری کے اصل ذائقہ سے آشنا ہےاور اِسی لئے وُہ اپنے معاصرین سے الگ بھی ہے اور آگے بھی"(۳)

وہ ہمیشہ منفرد انداز میں لکھتے ہیں ۔ان کی غزل گوئی کی اہمیت، انفرادیت اور خصوصیات کے بارے میں تعمیل ارشاد میں لکھتے ہیں :۔

"۔۔ان کے کلام کی ایک اہم فنی خوبی یہ ہے کہ اس میں خیالات کے تخلیقی رچاؤ کا سحرانگیز اثر ہوتا ہے جو کہ قاری کے ذہن کو جکڑ کر رکھتا ہے ان کی شاعری میں علامتوں اور استعارے کا خوبصورت تخلیقی امتزاج نظر آتا ہے جس کی بدولت ان کا بیشتر کلام ان کے اس شعر کی عکاسی کرتا ہے،

ہم نے کبھی پروں کو منقش نہیں کیا

جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں(۴)

اسی طرح کے موضوعات احمد فراز کی شاعری میں بھی ملتے ہیں جیسے

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

رفیق سندیلوی کے ہم عصر شعرا۔

رفیق سندیلوی کے ہم عصر شعرا کا نام لیا جائے تو ان کے ہم عصر شعرا میں ڈاکٹر وحید احمد ، خاورنقوی ، فضل حسین راہی ، عفظی نسیم ، یوسف حسن ، شہزاد حسن، عدیم ہاشمی، قیوم ناصر ، خواجہ نذر جاوید ، نصرت صدیقی ، فیصل عجمی، ڈاکٹر روش ندیم، ڈاکٹر عابد حسین سیال،رانا سعید دوشی وغیرہ ۔

رفیق سندیلوی کے ہاں حقیقت نگاری اور مکافات عمل کا پہلو۔

میں ہوا کو منجمد کردوں تو کیسے سانس لوں

ریت پر گر جاؤں اور پھر اکھڑے اکھڑے سانس لوں

کب تلک روکے رکھوں میں پانیوں کے تہہ میں سانس

کیوں نہ اک دن سطح دریا سے نکل کے سانس لوں

رفیق سندیلوی ظلم کرنے کا قائل نہیں اور ظالم کے طرف دار بھی ہر گز نہیں ہے۔ان کے ہاں یہ یقین موجود ہے کہ اگر ظلم کی راہ کا راہی بن جائے تو مکافاتِ عمل ک سامنا جلد یا بدیر ہوگا۔

ان کی غزلوں میں،شاعری میں انسانوں بلکہ ہر ذی روح کی فلاح وبہبود اور ان سے محبت اور لگاؤ کا پہلؤ نمایاں ہےبلکہ وہ ہر ذی حیات کی فلاح کے لیے خود کو صعوبت میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔رفیق سندیلوی کی غزل گوئی پختگی اور خوبی کے بارے میں دنیال طریر اس طرح تحریر کرتے ہیں:۔

"رفیق سندیلوی کو ہم عصر نظم نگاروں میں ممتاز کرنے والی ایک خوبی اس کا شعورِ غزل بھی ہے نظموں میں آنے والے اچھوتے قوافی اور انھیں برتنے کا سلیقہ رفیق سندیلوی کو غزل کی تخلیقی ریاضت سے حاصل ہو ہے۔غزل گوئی کی اسی گہری نسبت نے اس کی نظم کے رنگ وآہنگ اور صورت و ساخت کو ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔"(۵)

(2)رفیق سندیلوی کی غزلوں میں خلقت انسان کا بیان اوراندازِسادگی و سلاست

بعض شعرا انسان کی خلقت کو اسلامی تصور کو لے کر عظیم مخلوق کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں ۔کوئی اور طریقے اور نوعیت سے بیان کرتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی نے انتہائی سادگی ،سلاست اور عمدگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔وہ خود کو جدا اور الگ تصورنہیں کرتےبلکہ خود کو ایک نمائندہ ،حصہ اور جز سمجھتے ہوئےعناصر اربعہ کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیایت کمال و زیرکی کے ساتھ قاری کو غیر مذکور سوالوں کے ذریعے سوچنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔

میں مٹی آگ اور پانی کی صورت منتشر تھا

پھر ایک دن سب عناصر ہوگئے یک جان میرے

وہ عناصر اربعہ کو مکمل طور پر بھی ذکرکر سکتے تھے لیکن یہ تھوڑا سا شعور و آگہی رکھنے والا انسان کے لیے دعوت دی ہے۔وہ تنقید کی طرح غزل میں بھی سوالات اٹھا کر قاری کو ایک لحظہ کے لیے سوچنے پر مجبور کرنے کی منفرد روش اپناتے ہیں ہم خصوصی مطالعے کے ذریعے اس حقیقت کو کشف کر سکتے ہیں

3- طنز کے ضمن میں جینے کا عزم دینا

خواب کے متروک گنبد سے نکل کر ایک دن

اپنی آنکھیں کھول دوں اور لمبے لمبے سانس لوں

رفیق سندیلوی اپنی غزلوں میں دوسروں کی طرح طنز کا نشتر اندھادھند نہیں چلاتے بلکہ نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ طنز کرتے ہوئے بہت باریک بینی کے ساتھ جینے کا عزم و ارادہ اور محنت کا طریقہ اور اسی راہ پر چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔وہ خواب دیکھنے کو اچھا عمل سمجھتے ہیں کیونکہ جب کوئی خواب دیکھتا ہے تو وہ اس کو پورا کرنے کی خاطر محنت و مشقت کرتا ہے۔رفیق سندیلوی کے ہاں نالاں ہونے کا اظہار نہیں ملتابلکہ محنت کرنے اور خواب دیکھنے کی روایت کو ختم ہونے کی طرف اور اصل صورت حال کو بیان کرتے ہیں۔

اگر معاشرتی اور معاشی سطح پر دیکھا جائے تو یہاں دو بڑی وجہ نظر آتی ہے۔

1-سرمایہ دارانہ نظم

2-دوسرا یہ کہ محنت کرنے کی روایت و عادت ختم ہورہی ہے۔

اب تو معاشرے میں لوگ بغیر محنت و مشقت کے آرام و سکون کے ساتھ کھانا چاہتے ہیں۔

4-خواہش و امید کا اظہار اور بقا پرایمان و یقین:

امید وخواہش کا اظہار ہر شاعر کے ہاں ملتا ہے لیکن رفیق سندیلوی کے ہاں نہایت خوبصورت پیرائے میں ملتا ہے علاوہ ازین ان کو اپنی تخلیقات کی وجہ سے زندہ رہنے پر یقین کامل ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے یےجسمانی و ظاہری طور پر خاموش ہونے کے بعد آواز کی ترسیل پر شاد ماں نظر آتا ہے۔

کبھی پہنچےگا جس سامعہ تک حرف خفتہ

کبھی آوازِ نامعلوم کی ترسیل ہوگی

انہون نے مذکوراس شعر میں لفظ'سامعہ' سے عمدہ مفہوم و معانی اور مطلب پیدا کر کے ایک خوبصورت فضا قائم کی ہے۔

(5)استعارہ

رفیق سنددیلوی اپنی غزلوں میں استعاروں کے ذریعے معنی و مفہوم میں وسعت و ندرت پیدا کرتے ہیں۔وہ کبھی کبھی تلمیح کے بجائے استعارے کی صورت میں غزل میں خاص فضا اور مطلب پیدا کرتے ہیں۔

سحر تک اس پہاڑی کے عقب میں روکے آتا ہوں

میں نقطہ ہائے گریہ پر اکھٹا ہوکے آتا ہوں

ادھررستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے

میں خاک اور خون سے لھتڑی رکابیں دھوکےآتا ہوں

یہاں ایک دشت میں فرعون کا احرام بُنتا ہے

میں اپنی پشت پر چوکور پتھر ڈھو کے آتا ہوں

تشبیہ اور معنی آفرینی

رفیق سندیلوی نے غزلوں میں خوبصورت اور عمدہ تشبیہ کے ساتھ بہت عمدگی کے ساتھ اپنے مدعا کو بیان کیا ہے۔وہ خود وادئ خواب کے مکین ہونے کے باوجود نہ صرف چشم بینا وباز ہوتے ہیں بلکہ اس وقت اور عالم میں بھی نا خدا کا عمل انجام دیکر نجات، بشر کی خاطر ہاتھ اور قلم کو جنبش دیتے رہتے ہیں

کسی بحر خواب کی سطح پر مجھے تیرنا ہے تمام شب

میری آنکھ کشتئی جسم ہے مرا بادباں مرا ہاتھ ہے

یہ نجوم ہیں مری انگلیاں یہ افق ہیں میری ہتھیلیاں

مری پورپور ہے روشنی کف کہکشاں مرا ہاتھ ہے

معاصر غزل میں استعمال ہونے والے چند خاص الفاظ:

معاصر و جدید غزل میں استعمال ہونے والے چند خاص الفاظ کا استعمال ان کی غزلوں میں بھی نظر آتا ہے،جیسے

سورج،سائہ ہوا وغیرہ

مانگے ہوئےسورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر

ان کے معاصر کلاسیکی انداز سخن رکھنے والا شاعر ڈاکٹر عابد حسین سیال کے ہاں بھی اس طرح کے الفاظ پر مشتمل اشعار ملتے ہیں جیسے

چہرہ بچا کہ سنگ ہین آندھی کے ہاتھ میں

مُڑکر نہ دیکھ کتنی روانی ہوا میں ہے

ڈاکٹر وزیر آغا کی شاعریمین بھی اس طرح کے الفاظ پائے جاتے ہیں جیسے

تو سورج کی آنکھ سے جھانکے پل پل وار کرے

میں اک پیڑکی گھائل چھایامیرا کس پہ زور

امیجری

کمال امیجری ان کی شاعری میں موجود ہے۔ان کی اس خصوصیت اور صفت کے بارے میں دانیال طریر لکھتے ہیں:'

"رفیق سندیلوی کی شاعری اس کے اپنے تجربے کی دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس امیجری اپنی ساخت و پرداخت میں انفرادیت کی حامل ہے۔تجربے سے منسلک تمثالیت کی ایسی مثالیں ہماری شاعری میں بہت ہی کم ہیں '(۶)

انہوں نے ذیل کے اشعار کے ذریعے کمال امیجری کی خصوصیت کی ایک جھلک دکھائی ہے۔

کچھ روز میں اس خاک کے پردے میں رہوں گا

پھردور کسی نور کے ہالے میں رہوں گا

رکھوں گا کبھی دھوپ کی چوٹی پہ رہائش

پانی کی طرح ابرکے ٹکڑے میں رہوں گا

یہ شب بھی گزر جائے گی تاروں سے بچھڑ کر

یہ شب بھی میں کہسار کے درے میں رہوں گا

سورج کی طرح موت مرے سر پہ رہے گی

میں شام تلک جان کے خطرے میں رہوں گا

ابھرے گی مرے ذہن کے خلیوں سے نئی شکل

کب تک میں کسی برف کے ملبے میں رہوں گا (۷)

سکوت و خامشی ایک جرم عمل

جس طرح دوسرے شعرا کے ہاں ظلم سہنے خاموشی اور سکوت اختیار کرنے والوں کی مذمت ملتی ہےاور رفیو سندیلوی نے اس عمل کو جرم سے عبارت کرتے ہیں وہ ہر باشعور کو بالعموم اور تخلیق کاروں کو بالخصوص اس بات لکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ظلم کی فضا میں سکوت و خاموشی باضمیر انسانوں کا شیوہ نہیں بلکہ مشکل حالات میں سر اٹھا کرچلنا ہی اصولِ حیات ہے۔وہ سکوت کت سبب گلستان کو خزاں رسیدہ نہیں دیکھنا چاہتے۔

پڑھ نہ جائے نگر میں رسمِ سکوت

قفلِ لب توڑ دے ،زبانیں کھول

معاصر شعرا میں بھی یہ رنگ ہم دیکھ سکتےہیں بقول رانا سعید دوشی

میں چپ رہا تو مجھے ماردےگا میرا ضمیر

گوہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

سامراجیت کے خلاف مزاحمت

ان کے ہاں رنگ مزاحمت منفرد ہیں۔دیگر شعرا کے ہاں بھی یہ رنگ اور موضوع پایا جاتا ہےبعض شعرا کی شہرت و پہچان مزاحمت کی وجہ سے ہے۔ ان شعرا کے ہاں ہر سطح پر مزاحمت کا رنگ ہم دیکھ سکتے ہیں ،ان سماجی نوعیت ،سیاسی ،مذہبی اور معاشی وغیرہ کے موضوعات کے حوالے سے مزاحمت پائی جاتی ہے۔ان میں فیض احمد فیض ،حبیب جالب اور اھمد فراز کا نام نمایاں ہے۔ فیض احمد فیض نے نہایت سنجیدگی سے مزاحمت پر مشتمل اشعار لکھ کر ایوانوں کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش کی۔بقول فیض۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظرچرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

فیض احمد فیض کی مزاحمت پر مشتمل فکرو فن کے بارے میں خالد علوی اس طرح تحریر کرتے ہیں:۔

"فیض نے اپنے تمام ترترقی پسندانہ نظریات کے باوجود غزل کےروایتی شاعر ہیں۔انہوں نے نہ صرف ماضی کے سودا،اورقائم،درد سے اکتسابِ فیض کیاہے۔۔۔فیض کی غزل نے تجربات کے دروازے نہ کھول کرآزمودہ نسخوں کو زیادہ آزمایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد جب غزل کا ایک طالب علم فیٖض کی غزل مطالعئہ فیض کے نظریات کے مطالعے کے بغیرکرے گا تو محض روایتی شاعر پائے گا'(۸ )

اسی طرح کی مزاحمت احمد فراز کی شاعری میں بھی بغاوت آمیز انداز میں ملتی ہیں جیسے،

اب کس کا جشن مناتے ہو

اُس دیس کا جو تقسیم ہوا

اب کس کا گیت سناتےہو

اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس پرچم کا جس جس کی حرمت

بازاروں میں نیلام ہوئی

اس مٹی کا جس کی حرمت

منسوب عدو کے نام ہوئی(۹ )

رفیق سندیلوی کی مزاحمت سامراجیت کے علاوہ ان کے غلاموں کے بارے میں ہے اور ہہ وقتی مزاحمت کے قائل نہیں ان کی مزاحمت میں تسلسل ہے۔وہ کسی زمان و مکان وغیرہ سے ماورا ہوتی ہے۔وہ صرف اجنبیوں کے قدم پڑنے کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ان کے قدم پڑنے اور اس کے مضر اثرات و نتائج کے پیش نظر مخالفت و مزاحمت کرتےہیں ۔

مسلسل اجنبی چاپیں اگرگلیوں میں اُتریں گی

وہ گھرکی کھڑکیوں پر اور بھی میخیں لا دےگا

اس وقت جب آمریت نے طاقت کے بل بوتے پر زبان و قلم پر پابندی عائد کردی تو ایک جدید رجحان جو کہ علامی انداز پر مشتمل تھا شروع ہوگیا ۔اس وقت کی اس منظر کو خالد علوی اس طرح تحریر کرتے ہیں :۔

"پاکستانی غزل میں ایک اہم رجحان ۱۹۵۸ء میں مارشل لا لگنے کے بعد اپنی آواز کو دبانے کی کوشش کے خلاف ظلم سے واسطہ پڑنے پر سامنے آیا۔۔۔۔۱۹۵۸ء کے بعد پاکستانی شعرا میں تہہ داربڑھی یہی جدیدت کی بنیاد تھی ۔ اس عہد میں داخلیت پسندی زیادہ ہوئی ۔اس عہد کی غزل میں جدت پسندی اپنے شباب پر نظر آتی ہے اور غزل کی لفظیات ، رموز و علائم ،خارجیت اور داخلیت کے تناسب میں ایسی رمزیت ،تہہ دار اور مختلف الجہت پیچیدگی آئی کہ غزل کا نیا اور بہتراسلوپ سامنے آیا۔پاکستانی عوام کا عدم اطمینان ،بے چینی ،گھُٹن جیسے موضوعات تیزی سے غزل مین داخل ہوئے ،دربدری ، بےگھری ،اور ہجرت نے غزل کے آنگن میں پناہ لی ۔اس عہد کی غزل میں منفی اور مثبت تجربات کا طویل سلسلہ ہے"(۱۰)

ماضی پرستی اور قدیم تہذیب و ثقافت

ان کو قدیم تاریخ و تہذیب سے لگاؤ ہے انہون نے ایک ہی غزل میں قدیم تہذیب و تاریخ اور روایت کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے دلی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔وہ جدید دور وزمان کی لہروں اور موجوں میں بہہ جانے کے بجائے قدیم تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ماضی اور قدیم تہذیبی و ثقافتی آثار کو گراں مایہ شئی سمجھتے ہیں ۔قدیم تہذیب سے جڑے رہنے والے اب بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔بعض لوگ ان پرماضی پرستی کا بھی الزام لگاتے نظر آتے ہیں۔

مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

چوپال پہ بوڑھون کی کہانی بھی سُنا کر

معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی

تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں

خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں

تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ

تنہا ہوں میں کتنا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں اگر رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحط ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ

جگنو کو لیے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر (۱۱)

چھوٹی بحر میں پیغام دینا

وہ چھوٹی نحر میں ایک مکمل پیغام دینے کا فن اور ہنر جانتے ہیں اور اپنی تلخلیقات کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی ہے'

خیمۂ خواب کی طنابیں کھول

قافلہ جا چکا ہے آنکھیں کھول

اے زمیں میرا خیر مقدم کر

تیرا بیٹا ہوں اپنی بانہیں کھول

فاش کر بھید دو جہانوں کے

مجھ پہ سربستہ کائناتیں کھول (۱۲)

مراعاۃ النظیر

اردو شاعری میں مراعاۃ النظیر ایک خاص وصف ہےاور یہ ہر شعرا کے ہاں نظر آتی ہے۔مراعاۃالنظیر میں ایک شئی کی مناسب سے اس سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔ رفیق سندیلوی نے اپنی غزلوں میں پھول مرجانے اور بے رونق ہونے کو انوکھا انداز میں پیش کیا ہےاور پھول بے جان ہونے کی وجہ اور ربط و تعلق کو بیان کیا ہے۔

ڈوپ جائیں نہ پھول کی نبضیں

اے خدا موسموں کی سانسیں کھول

معاشرے کا المیہ

ہر شعرا کےہاں یہ پہلو نظرآتا ہے۔شعرا اپنے قرب و جوار میں ہونے والے مظالم ،ناانصافیوں ،غیر انسانی سلوک اور نشیب و فراز کے بارے میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔معاشرتی ،سماجی ،مذہبی اور سیاسی سطح پر ہونے والے بے قاعدگیوں ،رسم و روایت کے حوالے سے اپنی باطنی اور حقیقی آواز کو ان کے خلاف بلند کرتے ہیں ۔رفہق سندیلوی کے ہاں بھی یہ رویہ پایا جاتا ہے۔وہ بھی ایک حساس طبع شاعر ہیں وہ اپنے قرب و جوار کے حالات و واقعات سے نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان واقعات کو کی طرف اشارہ کرتے ہین تاکہ بروقت اس طرح کے جرائم کے روک تھام ممکن ہوسکے۔اس میں شہری زندگے اور دیہاتی زندگی میں لوگوں کے رویے اور اخلاقی اقدار میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ رفیق سندیلوی معاشرے پی تنقد کرتے ہیں تاکہ معاشرے مین آگہی ،فہم و شعوردینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں"

آتی ہیں اگر رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ بھی لیا کر

اسی طرح ان کے دوراور عصر کے شاعر نے بھی اس وقت کے انسانوں کے رویوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں جیسے افتخار عارف کے بقول،

رحمتِ سید لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سید لولاک سے خوف آتا ہے

ناصر کاظمی نے بھی لوگوں کے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا،

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارامارا

یہ بستی چَین سے کیوں سو رہی ہے

رفیق سندیلوی بحیثیت نظم گو

رفیق سندیلوی معاصر نظم نگاروں کی صف میں نمایاں مقام و حیثیت رکھتے ہیں۔ رفیق سندیلوی کا شمار جدید اُردو نظم کے معتبر شاعروں میں ہوتا ہے ۔ رفیق سندیلوی نے نہایت مختصراور کم مدت و عرصے میں اپنی فکر اورُ ندرت اور فنی خوبیوں کے ساتھ کلام میں جدت کی بدولت اس مقام تک رسائی کی جو قابلِ تحسین بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی ہے۔ معاصرِ نظم گواور جدید میں شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف واضح و منفرد دکھائی دیتی ہے بلکہ بہت آسانی وسہل کے ساتھ آگےجانےاور اپنے اوج کمال کی طرف جاتے ہوئے نئے زاویے،اسلوب کو ترتیب دیتا ان کی خاص خصوصیات میں سے ہے۔ ان کی کتاب ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظمیں اِسی حقیقت کو آشکار کرتی ہیں اور ااس کے علاوہ اکی ِ نظموں کو پڑھنےسے احساس ہوتا ہے کہ اِن نظموں کا شاعرنہ صرف اچھے درجے کا شاعر ہے بلکہ ،بہت اچھے اور اعلٰی اوربہترین پائے کا خیال پیش کرنے والا ایسا سخنور ہےکہ جس کو اپنے فن پرناز، غیر معمولی قدرت ،ملکہ،اور دسترس اور گرفت حاصل ہے۔

رفیق سندیلوی کی سب سے اچھی اور خاص بات یہ ہے کہ اُن کی نظموں میں گہرے اچھے اور فنی تجربے اور احساسات کی ایسی جدت ہے جوایک دم سے قارئین کو متوجہ کر لیتی ہے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔ اِن کاہر حرف مستقل طور پر حس کے ِادراک سے جُڑا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظمیں شروع سے ہی اپنے حصار میں گھیرا ڈالنے لگتی ہے اور قاری کو اپنی طرف کھینچ کر لیتی ہیں اور جوں جوں یہ عمل اور سلسلہ آگے کی طرف بڑھتا ہےتو قاری اس فکر و فن میں محو ہوجاتاہے ۔ رفیق سندیلوی کی نظموں کا مجموعہ’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی ساری نظموں میں تمام خوبیاں موجود ہیں اور معنی کی ترسیل سے قاری تسکینِ جمال کی لذتوں کی تمام منزلیں عبور کرتا ہے ۔وہ نظم کی ابتدا سے آخر تک یکساںیت کو جاری رکھتا ہے اور اس طرح نظموں کو رواں دواں رکھنا غیر معمولی تخلیقی صلاحیت و استعداد، جرات اورملکہ کی صلاحیّت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ رفیق سندیلوی نظم گوئی میں گرفت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ رفیق سندیلوی کی نظم نگاری کے حوالے سےڈاکٹر شفیق انجم لکھتے ہیں:۔

"رفیق سندیلوی جدید اُردو نظم کے تازہ دم اور معتبر شاعروں میں سے ہیں۔ اُنھوں نے مختصر مدت میں اپنی فکری ندرت اور فنی جودت کی بدولت اُس مقام تک رسائی پائی ہے جو قابلِ فخر بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی۔ معاصر نظم گو شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف نمایاں و ممتاز ہے بلکہ بہ آسانی آگے نکلتی اور اپنے اوج کے نئے زاویے ترتیب دیتی دکھائی دیتی ہے۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظمیں اِسی حقیقت کا آئینہ ہیں اور اِن نظموں کے مطالعے سے بہت واضح طور پر احساس ہوتا ہے کہ اِن کا خالق صرف اچھے درجے کا شاعر نہیں،بہت اچھے اور اعلی پائے کا وہ سخن گر ہے جسے اپنے فن پر غیر معمولی قدرت اور دسترس حاصل ہے۔۔۔۔ اُن کی نظموں کی پہچان کا اوّلین حوالہ داخلی جذب و کشش اور احساس و ادراک کی یہی تیز اور مسلسل رو ہے۔"

رفیق سندیلوی کی نظم نگار اور ان کا منفرد انداز أسلوب اور خاص روش کے حوالے سے ڈاکٹر روش ندیم لکھتے ہیں:۔

"۔۔۔اسی طرح آپ اس کا ڈکشن دیکھ لیں ۔اس کا ڈکشن اس کا اپنا ہے اور بہت مختلف ہےجس سے اس کی نظم ڈھیرکے اندر ھی پیچانی جاتی ہے۔آج کا نظم گوغزل کی totality اور diction کی جبریت سے آزادی کی جو جنگ لڑرہا ہےاس میںرفیق سندیلوی کا contributionبہت نمایاں ہے۔رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں بعض جگوں پرایسے ایسے الفاظ اور تمثالوں کا استعمال کیا ہے جنھیں استعمال کرنا بڑی جرات کا کام ہے"( ۱۳)

رفیق سندیلوی کی نظموں میں شگفتہ بیانی کے ساتھ کسی بھی مرکز و محور سے تعلق رکھنے کی اہمیت کوبیان کرتا ہے۔اگر کوئی بھی شئی اپنی مرکزیت سے جدا ہوجائے تو اس کا وجود خطرے مین پڑ سکتا ہےلہذا کسی نہ کسی طریقے اس مرجع سے منسلک رہنا ضروری ہے

گُلِ انفصال پذیر

مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر

کسی اور باغ کا رُخ کیا

تو کھلا کہ خوشبو جو مجھ میں تھی

بڑے خاص طرز و حساب کی

کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی

مرے رنگ و روغنِ جسم میں

جو عمیق نوع کی درد تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو سرخ تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا

مرے زرد وسُرخ کے درمیاں

وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی

وہ فنا ہوئی

مری پتّی پتّی بکھر گئی

رفیق سندیلوی کی نظموں کے موضوعات اور اس کی خصوصیات اور خوبیان بہت زیادہ ہیں۔ہر نظم کی پہچان اس نظم کی ساخت،أسلوب اور خاص الفاظ سے ہو جاتی ہے۔منظرنقوی ان کی نظموں کی خصوصیات اور موضوعات کے حوالے سےاس طرح لکھتے ہیں:۔

"۔۔اس کی حقیقت پسندی اسے متضاد اور منافقانہ رویوں سے مزاحمت کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا اپنی فکری بشارت کے ساتھ کرتا ہے جس میں اساطیری حوالے اس کی واضح سمت متعین کرتے ہیں۔مزاحمت اور اساطیری حوالے ،یہ دو منطقے رفیق سندیلوی کی شخصیت کی تفہیم بھی کرتے ہیں اور اس کی شاعری کا مرغوب موضوع بھی بنتے ہیں۔رفیق سندیلوی نے اپنی نظمیہ شاعری میں ان دو حوالوں سے بھر پور کام لیا ہے"(۱۴)

رفیق سندیلوی نے بعض نظموں میں اپنی فکر و فن کی جولانی دکھائی ہے ۔ان کے چند نظموں کو پڑھتے ہوئے بعض دفعہ قاری ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے۔انکی خوبصورت نظموں میں سے ایک یہ نطم بھی ہے:۔

عجب ملاح ہے

سوراخ سے بے فکر

آسن مار کے

کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے

عجب پانی ہے

جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا

کوئی موجِ نہُفتہ ہے

جو پیندے سے

کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے

اس میں انہوں بہت عمدگی کے ساتھ اپنے احساسات و جذبات کو بیان کیا ہے۔ اس میں ذمہ داروں کی حالت و مستعدی ،اور ہمراہوں اور مکینوں کی کیفیات کے ساتھ اصل حقائق کو بناوٹی اور دکھاوا کے لیے اپنانےکے عمل کونہایت گہرائی میں جاکر بتانے کی کوشش کی ہے۔ بعض دفعہ لوگ سطحی و سرسری معنی و مفہوم کو اخذ کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اس نظم کا پیغام یہی ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ کہیں دور کے مفاہیم کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔رفیق سندیلوی دوسروں کی طرح سہل اندازی سے ہرگز کام نہیں لیتا وہ دقیق انداز میں زبان و قلم کو جنبش دیتا ہے اور سوچنے کا الگ زاویہ موجود ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے غزلوں سے بڑھ کر نظموں میں امیجینری اور ایسے مناظر بہت خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں ہمیں یہ شائبہ ہوتا ہے کہ فن شاعری میں یہ ملکہ صرف ان کو حاصل ہوگا ذیل کی اس نظم میں ہم اس کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔

چاند ستارے

پھول،بنفشی پتے

ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر

اُڑنے والی برف

لکڑی کے شفّاف وَرَق پر

مور کے پَر کی نوک سے لکھے

کالے کالے حرف

اُجلی دھوپ میں

ریت کے روشن ذرّے

اَور پہاڑی درّے

اَبر سوارسہانی شام

اور سبز قبا میں

ایک پری کا جسم

سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے

پھولوں جیسے اسم

رنگ برنگ طلسم

جھیل کی تہ میں

ڈوبتے چاند کا عکس

ڈھول کے وحشی تال پہ ہوتا

نیم برَہنہ رقص

کیسے کیسے منظر دیکھے

ایک کروڑ برس پہلے کے

غار میں بیٹھا شخص(۱۵)

یہ نظم ان کا ایک نمائندہ نظم ہے اس میں انہوں تخلیقی اور کائناتی چیزوں کی حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ ایسی منظر کشی کی ہے کہ قاری محظوظ ہونے کے ساتھ وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ تمام مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں اور گزر رہے ہیں۔اس نطؐ میں انہوں نے فلک سے آغاز کیا ہے اور بہت منظم و مربوط طریقے سے ترتیب کے ساتھ ہر منظر اور اس سے وابستہ چیزوں کو عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔اس کی ان منظر کشی کے حوالے سے محمد حمید شاہد لکھتے ہیں:۔

"۔۔مجھے آج تک نظم میں کوئی ایسا شاعر نظر نہیں آیا جو اتنا حوصلہ رکھتا ہو ،جو اتنے بھدے امیجز لے کر،انھیں نظم میں پروکراور پھر ان سے معنی بھی نکالے اور خوبصورتی سے آگے بھی بڑھ جائے۔(۱۶)

رفیق سندیلوی کے معاصر نظم نگاروں میں ایک اہم نام ڈاکٹر روش ندیم کا ہے،ان کی بھی کئی تخلیقات شائع ہو چکی ہے۔

روش ندیم کی نظموں میں مزاحمت بڑی سطح پر موجود ہے اور وہ معاشرے کا ایک اہم نباض کی صورت میں ہربڑا اور چھوٹا واقعہ اور پہلو کو نمایاں کرتے ہیں ۔ان کے ہاں بھی فکر اور موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ان کی ایک نظم یہ ہے-

بے بسی احتجاج کر سکتی ہے

طاقت کھیلتی ہے

أبو غریب کے بے گناہقیدیوں کے ساتھ

فلسطین کے معصوم لڑکوں کے ساتھ

لیاقت باغ میں نعرے لگاتے لوگوں کے ساتھ

طاقت ہنستی ہے

کارخانے کے گیٹ پر کھڑی ملازمہ کی امیدوں پر

اندھیرے بس سٹاپ پہ سہمی لڑکی کے اندیشوں پر

ہسپتال کی راہدری میں کھڑی بڑھیا کے آنسوں پر

طاقت چھیڑتی ہے

ٹی وی پر کسی جرنیل کے قہقہوں ے ذریعے

فلم کی کسی ایکسٹرا کی شوخیوں کے ذریعے

اخبار سے جھانکتے مجبور چہروں کے ذریعے

طاقت گھورتی ہے

جبری استعفےسے لف بے بسی سے،جو افسانہ نہیں

طلاق نامے سے چپکی لاتعلقی سے،جو نظم نہیں

عدالتی حکم سے پکارتے الزام سے،جو انشائیہ نہیں

رفیق سندیلوی کے ہم عصروں میں سے ایک سید مبارک شاہ تھے وہ بھی خوبصورت نظمیں لکھتے تھے ۔ان کے ہاں بھی فکر کی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ان کی ایک نظم یہ ہے (۱۷)

گنتی

یہ آٹھ پہروں شمار کرنا

کہ سات رنگوں کے اس نگر میں

جہات چھے ہیں

حواس خمسہ

چہار موسم

زماں ثلاثہ

جہان دو ہیں

خُدائے واحد'

یہ تیری بے انت وسعتوں کے سفر پہ نکلے ہوئے مسافر

عجب گنتی میں کھو گئے ہیں (۱۸)

ماحصل

رفیق سندیلوی اردو شاعری میں یعنی غزل اور نظم میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کی تمام تخلیقات مفید اور

سنجیدگی پر مشتمل ہیں۔انہوں غزلوں میں اور نظموں میں جدید انداز فکر اور أسلوب اختیار کیا یے وہ ہرغزل اور ہر نظم کو ایک خاص روش سے لکھتے ہیں لیکن ماضی اور قدیم تاریخ و تہذیب سے بھی نہ صرف لگاؤ اور دلچسپی ہے بلکہ وہ ان کا ذکر کر کے ہمیشہ زندہ رکھنا چاہتا ہے

رفیق سندیلوی کی نظموں ،غزلوں کے فن و فکر اور أسلوب کے حوالے سے تحقیق کی گنجائش موجود ہے علاوہ ازیں وہ نقاد بھی ہیں ان تمام خصوصیات سب کا مظہر ان کی تخلیقات خاص کر ان کی غزلیں اور نظمیں ہیں

حوالہ جات

1-صائمہ نذیر،ڈاکٹر،۷۰ کی دہائی کی پاکستانی غزل:فکری جہات،دریافت،شمارہ ۱۳،جنوری ۲۰۱۴ ،نشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز،اسلام آباد

2-ناصر عباس نیر،ڈاکٹر،پیش لفظ،امتزاجی تنقید کی شعریات،جے پرنٹرز،لاہور،۲۰۰۳ء،ص ۸۵

3-وزیر آغا،ڈاکٹر،رفیق سندیلوی کی غزل،سہ ماہی ،سمت،شمارہ ۲۵،جنوری تا مارچ،۲۰۱۵ء

4-ریاض توحیدی کشمیری،ڈاکٹر،ڈاکٹررفیق سندیلوی پاکستان،روزنامہ تعمیل ارشاد کشمیر

5-دانیال طریر،رفیق سندیلوی کا شعری وجدان، سہ ماہی ،سمت،شمارہ ۲۵،جنوری تا مارچ

8-خالد علوی،غزل کے جدید رجحانات،ایجوکشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،۲۰۰۶،ص۲۲۳

9-احمد فراز،شہر سخن آراستہ ہے، دوست پبلی کیشنز۔اسلام آباد۲۰۱۶،ص ۴۸۹

10- خالد علوی،غزل کے جدید رجحانات،ایجوکشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،۲۰۰۶،ص۔۲۳۱

کتابیات

احمد فراز،شہر سخن آراستہ ہے، دوست پبلی کیشنز۔اسلام آباد۲۰۱۶ء

خالد علوی،غزل کے جدید رجحانات،ایجوکشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،۲۰۰۶ء

۔روش ندیم ،ڈاکٹر،دہشت کے موسم میں لکھی نظمیں،القا پبلیکیشنز،لاہور،۲۰۱۴ء

جرائد

دریافت،شمارہ ۱۳،جنوری ۲۰۱۴ ،نشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز،اسلام آباد

سہ ماہی ،سمت،شمارہ ۲۵،جنوری تا مارچ،۲۰۱۵ء

دیدبان شمارہ ۔ ۱۶

رفیق سندیلوی کی شاعری کا فنی و فکری جائزہ اور رجحانات

محمد رضا۔ گلگت

فن شاعری کیا ہے؟شعرا اشعار کیوں لکھتے ہیں؟اور شعر لکھنے کی وجہ و سبب کیا ہے؟

شاعری حساس طبع ہونے،احساس ذمہ داری اورجذبات و احساسات کے اظہار کانام اور علامت ہے۔ہرانسان احساسات اورجذبات رکھتا ہےلیکن بعض لوگ زیادہ حساس طبع کے مالک ہوتے ہیں اور اپنے عصرو زمان میں لوگوں پر ہونے والی ناانصافیوں ،ظلم و ستم اور انسانیت کی تذلیل کو برداشت نہیں کرسکتے۔

انسانیت سے بلکہ فطرت سلیم پر موجود ہر شخص اور خاص طور پر تخلیق کار کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ تمام تر مذہبی،مسلکی ،رنگ و نسل اور زبان کے تعصبات سے بالاتر ہوکر فلاح انسسانیت کے لیے سوچتا ہے اور اظہار کرتا ہے۔کسی بھی سطح پر انسانوں پر ظلم و ستم کرتے ہوئے یا ہوتے ہوئےدیکھ کر تخلیق کار نہ صرف اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے بلکہ ظالموں کے خلاف بغاوت کرکے لوگوں کو اس مسئلہ کی طرف شعور و توجہ دلاتا ہے۔یہی لوگ حساس ہوتے ہیں اور معاشرے کے لیےمفید ترین ہوتے ہیں ۔

شاعری کی صلاحیت ۔استعداد اور قوت کے بارے میں مختلف آرا موجود ہیں ان میں سے ایک یہ ہےکہ علم منطق کے بنیاد گزاروں میں سے ایک شخصیت شیخ رضامظفر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہر انسان فطری طور پر شاعرہے۔شاعری کی صلاحیت و استعداد اور قوت فطرتاً ہر انسان میں ہوتی ہے اکثر اس صلاحیت کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہےلیکن بعض افراد اسا صلاحیت کو بروئے کار لاکر استعمال کرتے ہوئےاپنے جذبات و احساسات کو شعری اور نثری انداز میں بیان کرتے ہیں ۔

اردو شعر و غزل کا سفر مالابار کے ساحلی علاقوں اور ولی دکنی سے شروع ہوا اور ان کا دیوان شمالی ہند پہنچنے کے بعد اس میں ہر حوالے سے وسعت آنے لگی۔اردو شاعری میں موضوعاتی،فنی و فکری لحاظ سے تبدیلیاں آتی رہیں۔

اگر ہم اردو شاعری اور غزل کے موضوعات اور فکر وفن کو قیام پاکستان کے بعد کے تناظر میں اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جائےتو اس وقت کے موضوعات میں ہجرت،معاشی ابتری اور جدائی وغیرہ نظر آتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد خصوصاً ساٹھ اور ستر کی دہائی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائےتو ادب ان موضوعات کی وجہ سے متثر نظر آتا ہے۔ اس وقت کے حالات و واقعات اور ادب کے موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر صائمہ نذیر لکھتی ہیں:۔

"۷۰ء کی دہائی پاکستان کے لیے سیاسی ،معاشی اور جغرافیائی تبدیلیاں لے کرسامنے آئی۔مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہونا ،سیاسی توڑپھوڑ،مارشل لا کا نافذ ہونا اور ایک منتخب وزیرِاعظم کی پھانسی ،یہ وہ اہم واقعات ہیں جو اس دہائی کے ادب پر اثر انداز ہوئے۔۔۔۔۔سقوط ڈھاکہ کے اثرات کے بعد جو ادب پر ماتمی فضا نے ڈیرہ جمالیا اس کا بھر پوراظہار غزل میں ملتا ہے۔اس سانحے کی وجہ سے دردمندی ،قومی کرب،وعدوں کا ٹوٹ جانا ،امیدوں کا ٹوٹنا ، جسم کا ریزہ ریزہ ہوکربکھرنا جیسے موضوعات غزل میں دکھائی دینے لگے۔ان موضوضوعات کا اظہار جس طرح غزل میں ہوا کسی اور صنف میں نہیں ملتا"( ۱ )

اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ستر کی دہائی میں مایوسی اور مغموم فضا کی کیفیت نظر آتی ہے۔مایوسی کی وجہ بلکل بجا بھی ہے کیونکہ پاکستان کی طرف ہجرت کر کے آنے والے ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے اس عزم و ارادے کے ساتھ چھوڑ رہے تھے کہ پاکستان میں امن سکون اور سکون سے زندگی گرزارنے کا موقع ملے گا۔ہجرت کر کے آنے والوں اپنے گھر بار اور مال و متاع سب کچھ وہاں چھوڑ کرآئے تھےاور صرف جذبات کی دولت لیکر آئے تھے لیکن کچھ مدت گزرنے کے بعد یہاں کی فضا، ماحول اور حالات دیکھ کران کو بہت مایوسی ہوئی وہ لوگ اتنے مغموم ہوئے گویااتنے زخم کھائے کہ کبھی مندمل نہ ہو سکا بقول فارغ بخاری:۔

ترتیب ِنو سے بدلا نہ مےخانےکا نظام

جو پہلے تشنہ کام تھے اب بھی ہیں تشنہ کام

اس صدی میں سب سے زیادہ المناک حادثہ ملک ٹوٹنے کا المیہ تھا اس کے بعد ماشل لا کا نفاذ وغیرہ۔اس سانحے اور موضوع کے حوالے سے احمد فراز نے بھی اشعار لکھے ہیں

اس صدی میں اس وقت کے پر فتن واقعات اور حالات کے ساتھ موضوعات اور فکر و فن میں بھی تبدیلیاں آئیں۔نئے اسلوب و اظہارِ رائے کے لیےتجربوں کی راہیں کھلیں ،ن میں مزاحمت،علامت نگاری،استعاروں کا استعمال اور امیجنرئیز وغیرہ سامنے آگئیں۔

اس دور کے نمائندہ شعرا یعنی اس وقت کے نمایاں شعرا میں احمد فیض ،احد فراز،کشور ناہید،حبیب جالب اور افتخار عارف وغیرہ تھے۔

اسی (۸۰) کی دہائی میں شعرا نے انفرادی سطح پر نئےامکانات اور نئے رجحاناتکو دریافت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ خصوصیات اکیسویں صدی کے شعرا کے ہاں بھی نظر آتی ہیں۔اسی (۸۰) کی دہائی میں قلم اور زبان و بیان پر مکمل پابندی تھی اس وقت کے شعرا نے تلمیحات وغیرہ کو استعارے کے طور پر استعمال کرنے لگے جیسے اس وقت کی فضا اور حالات کو کربلا کے تناظر میں دیکھتے اور اسے استعارے کے طور پر استعمال کرنے لگے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔جیسے بقول افتخار عارف

نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو

مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑےگا

اس وقت مارشل لا کے دور کی شاعری میں طنز اوراستعارے زیادہ نظر آتے ہیں جیسے

بقول جالب کے:۔

دیواروں میں سہمے بیٹھے ہیں کیا خوب ملی ہے آزادی

اپنوں نے بہایا خون اتنا ہم بھول گئے بیگانوں کو

رفیق سندیلوی کے احوال و آثار۔

محمد رفیق سندیلوی یکم دسمبر ۱۹۶۱ کو سندیلیانوالی 'ٹوبہ ٹیک سنگ 'میں پیدا ہوئے۔انہوں نےاے اردوپنجاب یونیورسٹی سے کیا اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔رفیق سندیلوی غزل گو اور نظم نگار اور پاکستان و ہندوستان میں مشہور و معروف شاعر ہیں۔وہاس وقت شعبئہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

رفیق سندیلوی کی تخلیقات

ان کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ان میں ،ایک رات کاذکر،سبز آنکھوں میں تیر،گرز،غار میں بیٹھا ایک شخص، امتزاجی تنقید کی شعریات،پاکستان میں اردو ہائکو ہیں۔

تخلیقی لحاظ سے رفیق سندیلوی کی خصوصیات:۔

تخلیقی پہلو کے حوالے سے رفیق سندیلوی میں چار خصوصیات پائی جاتی ہین

1- رفیق سندیلوی بطور نقاد

2- رفیق سندیلوی بطور غزل گو

3- رفیق سندیکوی بحثیتِ نظم نگار

4- رفیق سندیلوی پاکستان میں ہائکو شاعری کے بنیاد گزار اور تخلیق کار

رفیق سندیلوی کومعاصر ادبی منظر اور حلقوں میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل ہے۔وہ بیک وقت غزل گو ،نظم نگاراور نقاد ہیں اس کے علاوہ ہائیکو شاعری پر نہ صرف گرفت رکھتےہیں بلکہ اس صنف میں ایک معتبر حوالہ ہے۔

رفیق سندیلوی نے تنقید پر ایک کتاب تحریر کی ہیں اس کی کتاب اور تنقیدی پہلو کے بارے میں مشہور اور نامور نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیرلکھتے ہیں :۔

"رفیق سندیلوی نے اس کتاب میں وزیرآغآ کے پورے تنقیدی نظام کو پیش کیا ہے جو مسرت کی تلاش ۱۹۵۴ء سے لے کر معنی اور تناظر۱۹۹۸ء تک پھیلا ہوا ہے۔۔۔اس مقالے کا غالباً سب سے توانا پہلو یہ ہے کہ یہ گذشتہ نصف صدی کی اردو تنقید کے متوازی ایک ایسی تنقیدی لہرکی برابر موجودگی کا احساس دلاتا ہے جو تمام متقابل لہروں کی قدرو معنویت پر نظر ثانی کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔نئےسوالات قائم کرتی اور نیا تناظرمہیا کرتی ہے یہ تنقیدی لہر امتزاجی ہے۔"(۲)

رفیق سندیلوی غزل گوشاعر بھی ہیں ۔وہ منفرد انداز میں غزل لکھتے ہیں اور غزل کے ضمن میں نئے خیالات کو بہترین اندازاور پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا رفیق سندیلوی کی تخلیقات اور خصوصیات کے حؤالے سے لکھتے ہیں:۔

"رفیق سندیلوی کی غزل کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اِس شاعر نے اپنے خدوخال سے بھی خود کو مُنسلک رکھا ہے، خدوخال سے باہر آنے کی تگ و دَو بھی کی ہے، بیکرانی کا مزہ بھی چکھا ہے اوراِس کے بعد زمین، رات اور عورت کی طرف بھی مراجعت کی ہے۔ ۔ ۔ اِس لیے نہیں کہ وُہی اُس کی آخری منزل ہے کیوں کہ آخری منزل کوئی نہیں ہے۔ یہ سارا آنے جانے، پھیلنے اور سمٹنے کا وظیفہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ رفیق سندیلوی تخلیق کاری کے اصل ذائقہ سے آشنا ہےاور اِسی لئے وُہ اپنے معاصرین سے الگ بھی ہے اور آگے بھی"(۳)

وہ ہمیشہ منفرد انداز میں لکھتے ہیں ۔ان کی غزل گوئی کی اہمیت، انفرادیت اور خصوصیات کے بارے میں تعمیل ارشاد میں لکھتے ہیں :۔

"۔۔ان کے کلام کی ایک اہم فنی خوبی یہ ہے کہ اس میں خیالات کے تخلیقی رچاؤ کا سحرانگیز اثر ہوتا ہے جو کہ قاری کے ذہن کو جکڑ کر رکھتا ہے ان کی شاعری میں علامتوں اور استعارے کا خوبصورت تخلیقی امتزاج نظر آتا ہے جس کی بدولت ان کا بیشتر کلام ان کے اس شعر کی عکاسی کرتا ہے،

ہم نے کبھی پروں کو منقش نہیں کیا

جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں(۴)

اسی طرح کے موضوعات احمد فراز کی شاعری میں بھی ملتے ہیں جیسے

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

رفیق سندیلوی کے ہم عصر شعرا۔

رفیق سندیلوی کے ہم عصر شعرا کا نام لیا جائے تو ان کے ہم عصر شعرا میں ڈاکٹر وحید احمد ، خاورنقوی ، فضل حسین راہی ، عفظی نسیم ، یوسف حسن ، شہزاد حسن، عدیم ہاشمی، قیوم ناصر ، خواجہ نذر جاوید ، نصرت صدیقی ، فیصل عجمی، ڈاکٹر روش ندیم، ڈاکٹر عابد حسین سیال،رانا سعید دوشی وغیرہ ۔

رفیق سندیلوی کے ہاں حقیقت نگاری اور مکافات عمل کا پہلو۔

میں ہوا کو منجمد کردوں تو کیسے سانس لوں

ریت پر گر جاؤں اور پھر اکھڑے اکھڑے سانس لوں

کب تلک روکے رکھوں میں پانیوں کے تہہ میں سانس

کیوں نہ اک دن سطح دریا سے نکل کے سانس لوں

رفیق سندیلوی ظلم کرنے کا قائل نہیں اور ظالم کے طرف دار بھی ہر گز نہیں ہے۔ان کے ہاں یہ یقین موجود ہے کہ اگر ظلم کی راہ کا راہی بن جائے تو مکافاتِ عمل ک سامنا جلد یا بدیر ہوگا۔

ان کی غزلوں میں،شاعری میں انسانوں بلکہ ہر ذی روح کی فلاح وبہبود اور ان سے محبت اور لگاؤ کا پہلؤ نمایاں ہےبلکہ وہ ہر ذی حیات کی فلاح کے لیے خود کو صعوبت میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔رفیق سندیلوی کی غزل گوئی پختگی اور خوبی کے بارے میں دنیال طریر اس طرح تحریر کرتے ہیں:۔

"رفیق سندیلوی کو ہم عصر نظم نگاروں میں ممتاز کرنے والی ایک خوبی اس کا شعورِ غزل بھی ہے نظموں میں آنے والے اچھوتے قوافی اور انھیں برتنے کا سلیقہ رفیق سندیلوی کو غزل کی تخلیقی ریاضت سے حاصل ہو ہے۔غزل گوئی کی اسی گہری نسبت نے اس کی نظم کے رنگ وآہنگ اور صورت و ساخت کو ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔"(۵)

(2)رفیق سندیلوی کی غزلوں میں خلقت انسان کا بیان اوراندازِسادگی و سلاست

بعض شعرا انسان کی خلقت کو اسلامی تصور کو لے کر عظیم مخلوق کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں ۔کوئی اور طریقے اور نوعیت سے بیان کرتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی نے انتہائی سادگی ،سلاست اور عمدگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔وہ خود کو جدا اور الگ تصورنہیں کرتےبلکہ خود کو ایک نمائندہ ،حصہ اور جز سمجھتے ہوئےعناصر اربعہ کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیایت کمال و زیرکی کے ساتھ قاری کو غیر مذکور سوالوں کے ذریعے سوچنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔

میں مٹی آگ اور پانی کی صورت منتشر تھا

پھر ایک دن سب عناصر ہوگئے یک جان میرے

وہ عناصر اربعہ کو مکمل طور پر بھی ذکرکر سکتے تھے لیکن یہ تھوڑا سا شعور و آگہی رکھنے والا انسان کے لیے دعوت دی ہے۔وہ تنقید کی طرح غزل میں بھی سوالات اٹھا کر قاری کو ایک لحظہ کے لیے سوچنے پر مجبور کرنے کی منفرد روش اپناتے ہیں ہم خصوصی مطالعے کے ذریعے اس حقیقت کو کشف کر سکتے ہیں

3- طنز کے ضمن میں جینے کا عزم دینا

خواب کے متروک گنبد سے نکل کر ایک دن

اپنی آنکھیں کھول دوں اور لمبے لمبے سانس لوں

رفیق سندیلوی اپنی غزلوں میں دوسروں کی طرح طنز کا نشتر اندھادھند نہیں چلاتے بلکہ نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ طنز کرتے ہوئے بہت باریک بینی کے ساتھ جینے کا عزم و ارادہ اور محنت کا طریقہ اور اسی راہ پر چلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔وہ خواب دیکھنے کو اچھا عمل سمجھتے ہیں کیونکہ جب کوئی خواب دیکھتا ہے تو وہ اس کو پورا کرنے کی خاطر محنت و مشقت کرتا ہے۔رفیق سندیلوی کے ہاں نالاں ہونے کا اظہار نہیں ملتابلکہ محنت کرنے اور خواب دیکھنے کی روایت کو ختم ہونے کی طرف اور اصل صورت حال کو بیان کرتے ہیں۔

اگر معاشرتی اور معاشی سطح پر دیکھا جائے تو یہاں دو بڑی وجہ نظر آتی ہے۔

1-سرمایہ دارانہ نظم

2-دوسرا یہ کہ محنت کرنے کی روایت و عادت ختم ہورہی ہے۔

اب تو معاشرے میں لوگ بغیر محنت و مشقت کے آرام و سکون کے ساتھ کھانا چاہتے ہیں۔

4-خواہش و امید کا اظہار اور بقا پرایمان و یقین:

امید وخواہش کا اظہار ہر شاعر کے ہاں ملتا ہے لیکن رفیق سندیلوی کے ہاں نہایت خوبصورت پیرائے میں ملتا ہے علاوہ ازین ان کو اپنی تخلیقات کی وجہ سے زندہ رہنے پر یقین کامل ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے یےجسمانی و ظاہری طور پر خاموش ہونے کے بعد آواز کی ترسیل پر شاد ماں نظر آتا ہے۔

کبھی پہنچےگا جس سامعہ تک حرف خفتہ

کبھی آوازِ نامعلوم کی ترسیل ہوگی

انہون نے مذکوراس شعر میں لفظ'سامعہ' سے عمدہ مفہوم و معانی اور مطلب پیدا کر کے ایک خوبصورت فضا قائم کی ہے۔

(5)استعارہ

رفیق سنددیلوی اپنی غزلوں میں استعاروں کے ذریعے معنی و مفہوم میں وسعت و ندرت پیدا کرتے ہیں۔وہ کبھی کبھی تلمیح کے بجائے استعارے کی صورت میں غزل میں خاص فضا اور مطلب پیدا کرتے ہیں۔

سحر تک اس پہاڑی کے عقب میں روکے آتا ہوں

میں نقطہ ہائے گریہ پر اکھٹا ہوکے آتا ہوں

ادھررستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے

میں خاک اور خون سے لھتڑی رکابیں دھوکےآتا ہوں

یہاں ایک دشت میں فرعون کا احرام بُنتا ہے

میں اپنی پشت پر چوکور پتھر ڈھو کے آتا ہوں

تشبیہ اور معنی آفرینی

رفیق سندیلوی نے غزلوں میں خوبصورت اور عمدہ تشبیہ کے ساتھ بہت عمدگی کے ساتھ اپنے مدعا کو بیان کیا ہے۔وہ خود وادئ خواب کے مکین ہونے کے باوجود نہ صرف چشم بینا وباز ہوتے ہیں بلکہ اس وقت اور عالم میں بھی نا خدا کا عمل انجام دیکر نجات، بشر کی خاطر ہاتھ اور قلم کو جنبش دیتے رہتے ہیں

کسی بحر خواب کی سطح پر مجھے تیرنا ہے تمام شب

میری آنکھ کشتئی جسم ہے مرا بادباں مرا ہاتھ ہے

یہ نجوم ہیں مری انگلیاں یہ افق ہیں میری ہتھیلیاں

مری پورپور ہے روشنی کف کہکشاں مرا ہاتھ ہے

معاصر غزل میں استعمال ہونے والے چند خاص الفاظ:

معاصر و جدید غزل میں استعمال ہونے والے چند خاص الفاظ کا استعمال ان کی غزلوں میں بھی نظر آتا ہے،جیسے

سورج،سائہ ہوا وغیرہ

مانگے ہوئےسورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر

ان کے معاصر کلاسیکی انداز سخن رکھنے والا شاعر ڈاکٹر عابد حسین سیال کے ہاں بھی اس طرح کے الفاظ پر مشتمل اشعار ملتے ہیں جیسے

چہرہ بچا کہ سنگ ہین آندھی کے ہاتھ میں

مُڑکر نہ دیکھ کتنی روانی ہوا میں ہے

ڈاکٹر وزیر آغا کی شاعریمین بھی اس طرح کے الفاظ پائے جاتے ہیں جیسے

تو سورج کی آنکھ سے جھانکے پل پل وار کرے

میں اک پیڑکی گھائل چھایامیرا کس پہ زور

امیجری

کمال امیجری ان کی شاعری میں موجود ہے۔ان کی اس خصوصیت اور صفت کے بارے میں دانیال طریر لکھتے ہیں:'

"رفیق سندیلوی کی شاعری اس کے اپنے تجربے کی دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس امیجری اپنی ساخت و پرداخت میں انفرادیت کی حامل ہے۔تجربے سے منسلک تمثالیت کی ایسی مثالیں ہماری شاعری میں بہت ہی کم ہیں '(۶)

انہوں نے ذیل کے اشعار کے ذریعے کمال امیجری کی خصوصیت کی ایک جھلک دکھائی ہے۔

کچھ روز میں اس خاک کے پردے میں رہوں گا

پھردور کسی نور کے ہالے میں رہوں گا

رکھوں گا کبھی دھوپ کی چوٹی پہ رہائش

پانی کی طرح ابرکے ٹکڑے میں رہوں گا

یہ شب بھی گزر جائے گی تاروں سے بچھڑ کر

یہ شب بھی میں کہسار کے درے میں رہوں گا

سورج کی طرح موت مرے سر پہ رہے گی

میں شام تلک جان کے خطرے میں رہوں گا

ابھرے گی مرے ذہن کے خلیوں سے نئی شکل

کب تک میں کسی برف کے ملبے میں رہوں گا (۷)

سکوت و خامشی ایک جرم عمل

جس طرح دوسرے شعرا کے ہاں ظلم سہنے خاموشی اور سکوت اختیار کرنے والوں کی مذمت ملتی ہےاور رفیو سندیلوی نے اس عمل کو جرم سے عبارت کرتے ہیں وہ ہر باشعور کو بالعموم اور تخلیق کاروں کو بالخصوص اس بات لکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ظلم کی فضا میں سکوت و خاموشی باضمیر انسانوں کا شیوہ نہیں بلکہ مشکل حالات میں سر اٹھا کرچلنا ہی اصولِ حیات ہے۔وہ سکوت کت سبب گلستان کو خزاں رسیدہ نہیں دیکھنا چاہتے۔

پڑھ نہ جائے نگر میں رسمِ سکوت

قفلِ لب توڑ دے ،زبانیں کھول

معاصر شعرا میں بھی یہ رنگ ہم دیکھ سکتےہیں بقول رانا سعید دوشی

میں چپ رہا تو مجھے ماردےگا میرا ضمیر

گوہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

سامراجیت کے خلاف مزاحمت

ان کے ہاں رنگ مزاحمت منفرد ہیں۔دیگر شعرا کے ہاں بھی یہ رنگ اور موضوع پایا جاتا ہےبعض شعرا کی شہرت و پہچان مزاحمت کی وجہ سے ہے۔ ان شعرا کے ہاں ہر سطح پر مزاحمت کا رنگ ہم دیکھ سکتے ہیں ،ان سماجی نوعیت ،سیاسی ،مذہبی اور معاشی وغیرہ کے موضوعات کے حوالے سے مزاحمت پائی جاتی ہے۔ان میں فیض احمد فیض ،حبیب جالب اور اھمد فراز کا نام نمایاں ہے۔ فیض احمد فیض نے نہایت سنجیدگی سے مزاحمت پر مشتمل اشعار لکھ کر ایوانوں کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش کی۔بقول فیض۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظرچرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

فیض احمد فیض کی مزاحمت پر مشتمل فکرو فن کے بارے میں خالد علوی اس طرح تحریر کرتے ہیں:۔

"فیض نے اپنے تمام ترترقی پسندانہ نظریات کے باوجود غزل کےروایتی شاعر ہیں۔انہوں نے نہ صرف ماضی کے سودا،اورقائم،درد سے اکتسابِ فیض کیاہے۔۔۔فیض کی غزل نے تجربات کے دروازے نہ کھول کرآزمودہ نسخوں کو زیادہ آزمایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد جب غزل کا ایک طالب علم فیٖض کی غزل مطالعئہ فیض کے نظریات کے مطالعے کے بغیرکرے گا تو محض روایتی شاعر پائے گا'(۸ )

اسی طرح کی مزاحمت احمد فراز کی شاعری میں بھی بغاوت آمیز انداز میں ملتی ہیں جیسے،

اب کس کا جشن مناتے ہو

اُس دیس کا جو تقسیم ہوا

اب کس کا گیت سناتےہو

اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس پرچم کا جس جس کی حرمت

بازاروں میں نیلام ہوئی

اس مٹی کا جس کی حرمت

منسوب عدو کے نام ہوئی(۹ )

رفیق سندیلوی کی مزاحمت سامراجیت کے علاوہ ان کے غلاموں کے بارے میں ہے اور ہہ وقتی مزاحمت کے قائل نہیں ان کی مزاحمت میں تسلسل ہے۔وہ کسی زمان و مکان وغیرہ سے ماورا ہوتی ہے۔وہ صرف اجنبیوں کے قدم پڑنے کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ان کے قدم پڑنے اور اس کے مضر اثرات و نتائج کے پیش نظر مخالفت و مزاحمت کرتےہیں ۔

مسلسل اجنبی چاپیں اگرگلیوں میں اُتریں گی

وہ گھرکی کھڑکیوں پر اور بھی میخیں لا دےگا

اس وقت جب آمریت نے طاقت کے بل بوتے پر زبان و قلم پر پابندی عائد کردی تو ایک جدید رجحان جو کہ علامی انداز پر مشتمل تھا شروع ہوگیا ۔اس وقت کی اس منظر کو خالد علوی اس طرح تحریر کرتے ہیں :۔

"پاکستانی غزل میں ایک اہم رجحان ۱۹۵۸ء میں مارشل لا لگنے کے بعد اپنی آواز کو دبانے کی کوشش کے خلاف ظلم سے واسطہ پڑنے پر سامنے آیا۔۔۔۔۱۹۵۸ء کے بعد پاکستانی شعرا میں تہہ داربڑھی یہی جدیدت کی بنیاد تھی ۔ اس عہد میں داخلیت پسندی زیادہ ہوئی ۔اس عہد کی غزل میں جدت پسندی اپنے شباب پر نظر آتی ہے اور غزل کی لفظیات ، رموز و علائم ،خارجیت اور داخلیت کے تناسب میں ایسی رمزیت ،تہہ دار اور مختلف الجہت پیچیدگی آئی کہ غزل کا نیا اور بہتراسلوپ سامنے آیا۔پاکستانی عوام کا عدم اطمینان ،بے چینی ،گھُٹن جیسے موضوعات تیزی سے غزل مین داخل ہوئے ،دربدری ، بےگھری ،اور ہجرت نے غزل کے آنگن میں پناہ لی ۔اس عہد کی غزل میں منفی اور مثبت تجربات کا طویل سلسلہ ہے"(۱۰)

ماضی پرستی اور قدیم تہذیب و ثقافت

ان کو قدیم تاریخ و تہذیب سے لگاؤ ہے انہون نے ایک ہی غزل میں قدیم تہذیب و تاریخ اور روایت کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے دلی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔وہ جدید دور وزمان کی لہروں اور موجوں میں بہہ جانے کے بجائے قدیم تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ماضی اور قدیم تہذیبی و ثقافتی آثار کو گراں مایہ شئی سمجھتے ہیں ۔قدیم تہذیب سے جڑے رہنے والے اب بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۔بعض لوگ ان پرماضی پرستی کا بھی الزام لگاتے نظر آتے ہیں۔

مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

چوپال پہ بوڑھون کی کہانی بھی سُنا کر

معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی

تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں

خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں

تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ

تنہا ہوں میں کتنا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں اگر رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحط ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ

جگنو کو لیے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر (۱۱)

چھوٹی بحر میں پیغام دینا

وہ چھوٹی نحر میں ایک مکمل پیغام دینے کا فن اور ہنر جانتے ہیں اور اپنی تلخلیقات کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی ہے'

خیمۂ خواب کی طنابیں کھول

قافلہ جا چکا ہے آنکھیں کھول

اے زمیں میرا خیر مقدم کر

تیرا بیٹا ہوں اپنی بانہیں کھول

فاش کر بھید دو جہانوں کے

مجھ پہ سربستہ کائناتیں کھول (۱۲)

مراعاۃ النظیر

اردو شاعری میں مراعاۃ النظیر ایک خاص وصف ہےاور یہ ہر شعرا کے ہاں نظر آتی ہے۔مراعاۃالنظیر میں ایک شئی کی مناسب سے اس سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔ رفیق سندیلوی نے اپنی غزلوں میں پھول مرجانے اور بے رونق ہونے کو انوکھا انداز میں پیش کیا ہےاور پھول بے جان ہونے کی وجہ اور ربط و تعلق کو بیان کیا ہے۔

ڈوپ جائیں نہ پھول کی نبضیں

اے خدا موسموں کی سانسیں کھول

معاشرے کا المیہ

ہر شعرا کےہاں یہ پہلو نظرآتا ہے۔شعرا اپنے قرب و جوار میں ہونے والے مظالم ،ناانصافیوں ،غیر انسانی سلوک اور نشیب و فراز کے بارے میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔معاشرتی ،سماجی ،مذہبی اور سیاسی سطح پر ہونے والے بے قاعدگیوں ،رسم و روایت کے حوالے سے اپنی باطنی اور حقیقی آواز کو ان کے خلاف بلند کرتے ہیں ۔رفہق سندیلوی کے ہاں بھی یہ رویہ پایا جاتا ہے۔وہ بھی ایک حساس طبع شاعر ہیں وہ اپنے قرب و جوار کے حالات و واقعات سے نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان واقعات کو کی طرف اشارہ کرتے ہین تاکہ بروقت اس طرح کے جرائم کے روک تھام ممکن ہوسکے۔اس میں شہری زندگے اور دیہاتی زندگی میں لوگوں کے رویے اور اخلاقی اقدار میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ رفیق سندیلوی معاشرے پی تنقد کرتے ہیں تاکہ معاشرے مین آگہی ،فہم و شعوردینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں"

آتی ہیں اگر رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ بھی لیا کر

اسی طرح ان کے دوراور عصر کے شاعر نے بھی اس وقت کے انسانوں کے رویوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں جیسے افتخار عارف کے بقول،

رحمتِ سید لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سید لولاک سے خوف آتا ہے

ناصر کاظمی نے بھی لوگوں کے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا،

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارامارا

یہ بستی چَین سے کیوں سو رہی ہے

رفیق سندیلوی بحیثیت نظم گو

رفیق سندیلوی معاصر نظم نگاروں کی صف میں نمایاں مقام و حیثیت رکھتے ہیں۔ رفیق سندیلوی کا شمار جدید اُردو نظم کے معتبر شاعروں میں ہوتا ہے ۔ رفیق سندیلوی نے نہایت مختصراور کم مدت و عرصے میں اپنی فکر اورُ ندرت اور فنی خوبیوں کے ساتھ کلام میں جدت کی بدولت اس مقام تک رسائی کی جو قابلِ تحسین بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی ہے۔ معاصرِ نظم گواور جدید میں شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف واضح و منفرد دکھائی دیتی ہے بلکہ بہت آسانی وسہل کے ساتھ آگےجانےاور اپنے اوج کمال کی طرف جاتے ہوئے نئے زاویے،اسلوب کو ترتیب دیتا ان کی خاص خصوصیات میں سے ہے۔ ان کی کتاب ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظمیں اِسی حقیقت کو آشکار کرتی ہیں اور ااس کے علاوہ اکی ِ نظموں کو پڑھنےسے احساس ہوتا ہے کہ اِن نظموں کا شاعرنہ صرف اچھے درجے کا شاعر ہے بلکہ ،بہت اچھے اور اعلٰی اوربہترین پائے کا خیال پیش کرنے والا ایسا سخنور ہےکہ جس کو اپنے فن پرناز، غیر معمولی قدرت ،ملکہ،اور دسترس اور گرفت حاصل ہے۔

رفیق سندیلوی کی سب سے اچھی اور خاص بات یہ ہے کہ اُن کی نظموں میں گہرے اچھے اور فنی تجربے اور احساسات کی ایسی جدت ہے جوایک دم سے قارئین کو متوجہ کر لیتی ہے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔ اِن کاہر حرف مستقل طور پر حس کے ِادراک سے جُڑا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظمیں شروع سے ہی اپنے حصار میں گھیرا ڈالنے لگتی ہے اور قاری کو اپنی طرف کھینچ کر لیتی ہیں اور جوں جوں یہ عمل اور سلسلہ آگے کی طرف بڑھتا ہےتو قاری اس فکر و فن میں محو ہوجاتاہے ۔ رفیق سندیلوی کی نظموں کا مجموعہ’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی ساری نظموں میں تمام خوبیاں موجود ہیں اور معنی کی ترسیل سے قاری تسکینِ جمال کی لذتوں کی تمام منزلیں عبور کرتا ہے ۔وہ نظم کی ابتدا سے آخر تک یکساںیت کو جاری رکھتا ہے اور اس طرح نظموں کو رواں دواں رکھنا غیر معمولی تخلیقی صلاحیت و استعداد، جرات اورملکہ کی صلاحیّت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ رفیق سندیلوی نظم گوئی میں گرفت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ رفیق سندیلوی کی نظم نگاری کے حوالے سےڈاکٹر شفیق انجم لکھتے ہیں:۔

"رفیق سندیلوی جدید اُردو نظم کے تازہ دم اور معتبر شاعروں میں سے ہیں۔ اُنھوں نے مختصر مدت میں اپنی فکری ندرت اور فنی جودت کی بدولت اُس مقام تک رسائی پائی ہے جو قابلِ فخر بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی۔ معاصر نظم گو شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف نمایاں و ممتاز ہے بلکہ بہ آسانی آگے نکلتی اور اپنے اوج کے نئے زاویے ترتیب دیتی دکھائی دیتی ہے۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظمیں اِسی حقیقت کا آئینہ ہیں اور اِن نظموں کے مطالعے سے بہت واضح طور پر احساس ہوتا ہے کہ اِن کا خالق صرف اچھے درجے کا شاعر نہیں،بہت اچھے اور اعلی پائے کا وہ سخن گر ہے جسے اپنے فن پر غیر معمولی قدرت اور دسترس حاصل ہے۔۔۔۔ اُن کی نظموں کی پہچان کا اوّلین حوالہ داخلی جذب و کشش اور احساس و ادراک کی یہی تیز اور مسلسل رو ہے۔"

رفیق سندیلوی کی نظم نگار اور ان کا منفرد انداز أسلوب اور خاص روش کے حوالے سے ڈاکٹر روش ندیم لکھتے ہیں:۔

"۔۔۔اسی طرح آپ اس کا ڈکشن دیکھ لیں ۔اس کا ڈکشن اس کا اپنا ہے اور بہت مختلف ہےجس سے اس کی نظم ڈھیرکے اندر ھی پیچانی جاتی ہے۔آج کا نظم گوغزل کی totality اور diction کی جبریت سے آزادی کی جو جنگ لڑرہا ہےاس میںرفیق سندیلوی کا contributionبہت نمایاں ہے۔رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں بعض جگوں پرایسے ایسے الفاظ اور تمثالوں کا استعمال کیا ہے جنھیں استعمال کرنا بڑی جرات کا کام ہے"( ۱۳)

رفیق سندیلوی کی نظموں میں شگفتہ بیانی کے ساتھ کسی بھی مرکز و محور سے تعلق رکھنے کی اہمیت کوبیان کرتا ہے۔اگر کوئی بھی شئی اپنی مرکزیت سے جدا ہوجائے تو اس کا وجود خطرے مین پڑ سکتا ہےلہذا کسی نہ کسی طریقے اس مرجع سے منسلک رہنا ضروری ہے

گُلِ انفصال پذیر

مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر

کسی اور باغ کا رُخ کیا

تو کھلا کہ خوشبو جو مجھ میں تھی

بڑے خاص طرز و حساب کی

کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی

مرے رنگ و روغنِ جسم میں

جو عمیق نوع کی درد تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو سرخ تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا

مرے زرد وسُرخ کے درمیاں

وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی

وہ فنا ہوئی

مری پتّی پتّی بکھر گئی

رفیق سندیلوی کی نظموں کے موضوعات اور اس کی خصوصیات اور خوبیان بہت زیادہ ہیں۔ہر نظم کی پہچان اس نظم کی ساخت،أسلوب اور خاص الفاظ سے ہو جاتی ہے۔منظرنقوی ان کی نظموں کی خصوصیات اور موضوعات کے حوالے سےاس طرح لکھتے ہیں:۔

"۔۔اس کی حقیقت پسندی اسے متضاد اور منافقانہ رویوں سے مزاحمت کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا اپنی فکری بشارت کے ساتھ کرتا ہے جس میں اساطیری حوالے اس کی واضح سمت متعین کرتے ہیں۔مزاحمت اور اساطیری حوالے ،یہ دو منطقے رفیق سندیلوی کی شخصیت کی تفہیم بھی کرتے ہیں اور اس کی شاعری کا مرغوب موضوع بھی بنتے ہیں۔رفیق سندیلوی نے اپنی نظمیہ شاعری میں ان دو حوالوں سے بھر پور کام لیا ہے"(۱۴)

رفیق سندیلوی نے بعض نظموں میں اپنی فکر و فن کی جولانی دکھائی ہے ۔ان کے چند نظموں کو پڑھتے ہوئے بعض دفعہ قاری ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے۔انکی خوبصورت نظموں میں سے ایک یہ نطم بھی ہے:۔

عجب ملاح ہے

سوراخ سے بے فکر

آسن مار کے

کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے

عجب پانی ہے

جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا

کوئی موجِ نہُفتہ ہے

جو پیندے سے

کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے

اس میں انہوں بہت عمدگی کے ساتھ اپنے احساسات و جذبات کو بیان کیا ہے۔ اس میں ذمہ داروں کی حالت و مستعدی ،اور ہمراہوں اور مکینوں کی کیفیات کے ساتھ اصل حقائق کو بناوٹی اور دکھاوا کے لیے اپنانےکے عمل کونہایت گہرائی میں جاکر بتانے کی کوشش کی ہے۔ بعض دفعہ لوگ سطحی و سرسری معنی و مفہوم کو اخذ کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اس نظم کا پیغام یہی ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ کہیں دور کے مفاہیم کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔رفیق سندیلوی دوسروں کی طرح سہل اندازی سے ہرگز کام نہیں لیتا وہ دقیق انداز میں زبان و قلم کو جنبش دیتا ہے اور سوچنے کا الگ زاویہ موجود ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے غزلوں سے بڑھ کر نظموں میں امیجینری اور ایسے مناظر بہت خوبصورتی کے ساتھ دکھاتے ہیں ہمیں یہ شائبہ ہوتا ہے کہ فن شاعری میں یہ ملکہ صرف ان کو حاصل ہوگا ذیل کی اس نظم میں ہم اس کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔

چاند ستارے

پھول،بنفشی پتے

ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر

اُڑنے والی برف

لکڑی کے شفّاف وَرَق پر

مور کے پَر کی نوک سے لکھے

کالے کالے حرف

اُجلی دھوپ میں

ریت کے روشن ذرّے

اَور پہاڑی درّے

اَبر سوارسہانی شام

اور سبز قبا میں

ایک پری کا جسم

سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے

پھولوں جیسے اسم

رنگ برنگ طلسم

جھیل کی تہ میں

ڈوبتے چاند کا عکس

ڈھول کے وحشی تال پہ ہوتا

نیم برَہنہ رقص

کیسے کیسے منظر دیکھے

ایک کروڑ برس پہلے کے

غار میں بیٹھا شخص(۱۵)

یہ نظم ان کا ایک نمائندہ نظم ہے اس میں انہوں تخلیقی اور کائناتی چیزوں کی حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ ایسی منظر کشی کی ہے کہ قاری محظوظ ہونے کے ساتھ وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ تمام مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں اور گزر رہے ہیں۔اس نطؐ میں انہوں نے فلک سے آغاز کیا ہے اور بہت منظم و مربوط طریقے سے ترتیب کے ساتھ ہر منظر اور اس سے وابستہ چیزوں کو عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔اس کی ان منظر کشی کے حوالے سے محمد حمید شاہد لکھتے ہیں:۔

"۔۔مجھے آج تک نظم میں کوئی ایسا شاعر نظر نہیں آیا جو اتنا حوصلہ رکھتا ہو ،جو اتنے بھدے امیجز لے کر،انھیں نظم میں پروکراور پھر ان سے معنی بھی نکالے اور خوبصورتی سے آگے بھی بڑھ جائے۔(۱۶)

رفیق سندیلوی کے معاصر نظم نگاروں میں ایک اہم نام ڈاکٹر روش ندیم کا ہے،ان کی بھی کئی تخلیقات شائع ہو چکی ہے۔

روش ندیم کی نظموں میں مزاحمت بڑی سطح پر موجود ہے اور وہ معاشرے کا ایک اہم نباض کی صورت میں ہربڑا اور چھوٹا واقعہ اور پہلو کو نمایاں کرتے ہیں ۔ان کے ہاں بھی فکر اور موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ان کی ایک نظم یہ ہے-

بے بسی احتجاج کر سکتی ہے

طاقت کھیلتی ہے

أبو غریب کے بے گناہقیدیوں کے ساتھ

فلسطین کے معصوم لڑکوں کے ساتھ

لیاقت باغ میں نعرے لگاتے لوگوں کے ساتھ

طاقت ہنستی ہے

کارخانے کے گیٹ پر کھڑی ملازمہ کی امیدوں پر

اندھیرے بس سٹاپ پہ سہمی لڑکی کے اندیشوں پر

ہسپتال کی راہدری میں کھڑی بڑھیا کے آنسوں پر

طاقت چھیڑتی ہے

ٹی وی پر کسی جرنیل کے قہقہوں ے ذریعے

فلم کی کسی ایکسٹرا کی شوخیوں کے ذریعے

اخبار سے جھانکتے مجبور چہروں کے ذریعے

طاقت گھورتی ہے

جبری استعفےسے لف بے بسی سے،جو افسانہ نہیں

طلاق نامے سے چپکی لاتعلقی سے،جو نظم نہیں

عدالتی حکم سے پکارتے الزام سے،جو انشائیہ نہیں

رفیق سندیلوی کے ہم عصروں میں سے ایک سید مبارک شاہ تھے وہ بھی خوبصورت نظمیں لکھتے تھے ۔ان کے ہاں بھی فکر کی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ان کی ایک نظم یہ ہے (۱۷)

گنتی

یہ آٹھ پہروں شمار کرنا

کہ سات رنگوں کے اس نگر میں

جہات چھے ہیں

حواس خمسہ

چہار موسم

زماں ثلاثہ

جہان دو ہیں

خُدائے واحد'

یہ تیری بے انت وسعتوں کے سفر پہ نکلے ہوئے مسافر

عجب گنتی میں کھو گئے ہیں (۱۸)

ماحصل

رفیق سندیلوی اردو شاعری میں یعنی غزل اور نظم میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کی تمام تخلیقات مفید اور

سنجیدگی پر مشتمل ہیں۔انہوں غزلوں میں اور نظموں میں جدید انداز فکر اور أسلوب اختیار کیا یے وہ ہرغزل اور ہر نظم کو ایک خاص روش سے لکھتے ہیں لیکن ماضی اور قدیم تاریخ و تہذیب سے بھی نہ صرف لگاؤ اور دلچسپی ہے بلکہ وہ ان کا ذکر کر کے ہمیشہ زندہ رکھنا چاہتا ہے

رفیق سندیلوی کی نظموں ،غزلوں کے فن و فکر اور أسلوب کے حوالے سے تحقیق کی گنجائش موجود ہے علاوہ ازیں وہ نقاد بھی ہیں ان تمام خصوصیات سب کا مظہر ان کی تخلیقات خاص کر ان کی غزلیں اور نظمیں ہیں

حوالہ جات

1-صائمہ نذیر،ڈاکٹر،۷۰ کی دہائی کی پاکستانی غزل:فکری جہات،دریافت،شمارہ ۱۳،جنوری ۲۰۱۴ ،نشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز،اسلام آباد

2-ناصر عباس نیر،ڈاکٹر،پیش لفظ،امتزاجی تنقید کی شعریات،جے پرنٹرز،لاہور،۲۰۰۳ء،ص ۸۵

3-وزیر آغا،ڈاکٹر،رفیق سندیلوی کی غزل،سہ ماہی ،سمت،شمارہ ۲۵،جنوری تا مارچ،۲۰۱۵ء

4-ریاض توحیدی کشمیری،ڈاکٹر،ڈاکٹررفیق سندیلوی پاکستان،روزنامہ تعمیل ارشاد کشمیر

5-دانیال طریر،رفیق سندیلوی کا شعری وجدان، سہ ماہی ،سمت،شمارہ ۲۵،جنوری تا مارچ

8-خالد علوی،غزل کے جدید رجحانات،ایجوکشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،۲۰۰۶،ص۲۲۳

9-احمد فراز،شہر سخن آراستہ ہے، دوست پبلی کیشنز۔اسلام آباد۲۰۱۶،ص ۴۸۹

10- خالد علوی،غزل کے جدید رجحانات،ایجوکشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،۲۰۰۶،ص۔۲۳۱

کتابیات

احمد فراز،شہر سخن آراستہ ہے، دوست پبلی کیشنز۔اسلام آباد۲۰۱۶ء

خالد علوی،غزل کے جدید رجحانات،ایجوکشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی،۲۰۰۶ء

۔روش ندیم ،ڈاکٹر،دہشت کے موسم میں لکھی نظمیں،القا پبلیکیشنز،لاہور،۲۰۱۴ء

جرائد

دریافت،شمارہ ۱۳،جنوری ۲۰۱۴ ،نشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز،اسلام آباد

سہ ماہی ،سمت،شمارہ ۲۵،جنوری تا مارچ،۲۰۱۵ء

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024