سبین علی کا افسانہ"ریت کے پرندے" کا تجزیاتی مطالعہ
سبین علی کا افسانہ"ریت کے پرندے" کا تجزیاتی مطالعہ
Aug 8, 2025


سبین علی کا افسانہ"ریت کے پرندے" کا تجزیاتی مطالعہ
نسترن احسن فتیحی
سبین علی کا افسانہ "ریت کے پرندے" ایک تہدار بیانیہ ہے جو بظاہر ایک سادہ سے واقعے (سانپ پکڑنے) کے گرد بُنا گیا ہے، لیکن درحقیقت اس میں انسانی نفسیات، خوف، عقیدے، سماجی جبر، اور آزادی کی تلاش جیسے کئی اہم موضوعات کو کمال مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ "قاری شاکر" نامی ایک کردار کے گرد گھومتا ہے جس کی شخصیت میں تضادات اور .گہرائی ہے
یہی تضادات کہانی کو نئی جہتیں فراہم کرتے ہیں۔
افسانے کا مرکزی خیال ظاہر و باطن کی کشمکش، آزادی کی خواہش، اور سماجی تعصبات کو توڑ کر انسانیت کے لیے جدوجہد ہے۔ یہ افسانہ کئی موضوعات کو چھوتا ہے۔
سبین علی کے اس افسانے کا سب سے بڑا تھیم خوف ہے۔ سانپ کا خوف، جو قاری شاکر کے ہنر کے ذریعے زیر ہوتا ہے، استعاراتی طور پر انسانی زندگی کے مختلف خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ قاری کہتا ہے کہ "ڈر نہ ہو تو حملہ بھی نہ ہو" اور "وہ جو سانپ ہے نا وہ ڈر کو ہماری آنکھوں میں دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔" یہ بات نہ صرف سانپوں پر بلکہ انسانی تعلقات اور سماجی رشتوں پر بھی صادق آتی ہے۔ سماجی رسومات اور جبری شادی کا خوف، اور روایتی سوچ کا خوف بھی اس میں پایا جاتا ہے۔
افسانہ قاری شاکر کے علم (قرآن اور جنگلی حیات کا علم) اور دیگر ملازمین کی جہالت یا توہم پرستی کے درمیان تضاد کو اجاگر کرتا ہے۔ لوگ قاری کے سانپ پکڑنے کے فن کو کسی "عمل"، "ٹونے"، یا "منتر" کا نتیجہ سمجھتے ہیں، جبکہ قاری اسے "فن" اور "تکنیک" قرار دیتا ہے۔ یہ تضاد معاشرے میں علم کی بجائے مافوق الفطرت باتوں پر یقین کرنے کی عمومی روش کی عکاسی کرتا ہے۔
قاری شاکرایک حافظِ قرآن ہے جو ڈپلومہ ہولڈر فیلڈ اسسٹنٹ بھی ہے۔ وہ سرکاری بابوؤں کے جوتے پالش کرتا ہے لیکن دل ہی دل میں اسٹیو ارون جیسا بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ اس کا "قاری اسٹیو" نام اسے اندرونی طور پر خوش کرتا ہے مگر وہ بظاہر اس سے انکاری ہوتا ہے۔ اس کے ظاہر میں ایک مذہبی شخص اور باطن میں جنگلی حیات سے محبت کرنے والا ایڈونچرر موجود ہے۔ یہ تضادات اس کی شخصیت کو جاندار اورغیرمعمولی بناتے ہیں اس لئے قاری شاکر ایک کثیر الجہتی کردار کے طور پر ابھرتا ہے۔
سیماں کا کردار اس افسانے میں ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی جبری اور کم عمری کی شادی، اور اس کے نتیجے میں اس کی المناک موت، دیہی معاشرے میں عورت پر ہونے والے جبر اور اس کی بے بسی کو نمایاں کرتی ہے۔ قاری شاکر سیماں حیسی تقدیراب کسی کی دیکھنا نہیں چاہتا،اسی لیے عرصہ دراز بعد بھی ایک دوسری بچی کے لئے کئ جوکھم اٹھاتا ہے۔ جو اس کی انسانی ہمدردی اور ماضی کے اس جبر سے آزادی کی تڑپ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بچی کو مدرسے بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ وہ "عالمہ" بن کر اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکے۔ یہ عمل قاری کے اندرونی "خوف" پر قابو پانے اور روایتی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش ہے۔
افسانہ انسان اور قدرت کے تعلق کو بھی بیان کرتا ہے۔ قاری کا سانپوں سے پیار، ان کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے کی پہچان، اور انہیں مارنے سے گریز کرنا قدرت سے اس کے گہرے رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جانوروں کے درد کو محسوس کرتا ہے اور انہیں "بے زبان جنور" کہتا ہے۔
سبین علی کا اسلوب سادہ، رواں اور بیانیہ ہے۔ وہ نیم سرائیکی لہجے میں اردو کا استعمال کر کے مقامی رنگ اور حقیقت پسندی پیدا کرتی ہیں۔ مکالموں میں روزمرہ کی زبان کا استعمال کرداروں کو مزید قابلِ یقین بناتا ہے۔ علامتی زبان کا استعمال بھی قابلِ ذکر ہے، جیسے "ریت کے پرندے" جو کہ ریت کی مانند بے وزن اور آسانی سے منتشر ہو جانے والے خوابوں اور آرزوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔وہ اسٹیو ارون کی موت اور قاری کا اس سے متاثر ہونا ہو یا سیماں کی جدائ کا غم، اس کے اپنے خوابوں کے بکھر جانے کا استعارہ ہے۔
افسانے کا مرکزی کردار جو ایک حافظِ قرآن، سرکاری ملازم اور غیر معمولی سانپ پکڑنے والا ہے۔ وہ سادہ لوح، نیک دل، اور باطنی طور پر ایک ایڈونچر پسند شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی شخصیت میں مذہبی عقیدت، عملی ذہانت اور انسانی ہمدردی کا حسین امتزاج ہے۔ وہ خوف کو صرف حیوانات کے حوالے سے نہیں بلکہ انسانی تعلقات اور معاشرتی جبر کے تناظر میں بھی دیکھتا ہے۔
مالی کا کردار عام لوگوں کی توہم پرستی اور روایتی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ قاری کے فن کو "منتر" اور "چِلا" سے جوڑتا ہے۔ اس کا مکالمہ کہانی میں مزاح اور مقامی رنگ تو پیدا کرتا ہی ہےساتھ ہی مقامی عام ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
سیماں کا کردار اگرچہ کہانی میں براہ راست موجود نہیں لیکن اس کا ذکر کہانی کو ایک اہم موڑ دیتا ہے۔ وہ سماجی جبر، کم عمری کی شادی اور اس کے المناک نتائج کی علامت ہے۔
اسٹیو ارون: یہ کردار قاری کے لیے ایک آئیڈیل اور اس کے چھپے ہوئے جنون کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسٹیو کی موت قاری کے خوابوں اور حوصلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
اس افسانے میں سانپ خوف، خطرہ، لیکن ساتھ ہی قدرت کا توازن اور قاری کی مہارت کی علامت۔ سانپ کا سُن ہو جانا دراصل قاری کی مہارت اور اس کی نفسیاتی برتری کی علامت ہے جس نے سانپ کے فطری "خوف" کو ختم کر دیا ہے۔سبین علی کے افسانے "ریت کے پرندے" میں سانپ محض ایک جانور نہیں بلکہ کئی گہرے استعاراتی معنی رکھتا ہے جو افسانے کی تہہ داری اور اس کے مرکزی موضوعات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ سانپ کی اہمیت کو مندرجہ ذیل نکات کے تحت سمجھا جا سکتا ہے:
1. خوف کا استعارہ:
افسانے میں سانپ سب سے پہلے خوف کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ سرکاری بنگلے میں کوڑیالے سانپ کی موجودگی سب کو خوفزدہ کر دیتی ہے، حتیٰ کہ ڈائریکٹر صاحب بھی دفتر میں اس کی دہشت محسوس کرتے ہیں۔ یہ خوف صرف سانپ سے ڈسے جانے کا نہیں بلکہ غیر متوقع خطرے، لاچاری اور ناواقفیت کا بھی ہے۔ مالی اور دیگر ملازمین کی سانپ سے متعلق کہانیاں اور توہمات اسی خوف کی عکاسی کرتی ہیں۔
* یہ خوف سماجی، نفسیاتی اور وجودی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قاری ایک بچے کو سمجھاتا ہے کہ "اگر سانپ کا ڈر مُک جائے تو وہ ہم پر حملہ بہت کم کرے" اور "وہ جو سانپ ہے نا وہ ڈر کو ہماری آنکھوں میں دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔" یہ بات صرف سانپ پر نہیں بلکہ زندگی کے ہر خوف پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ سماجی دباؤ ہو، غلط رسم و رواج کا خوف ہو یا اپنی آواز بلند کرنے کا ڈر ۔
سانپ کو قابو کرنے کی قاری کی صلاحیت کو جب لوگ "منتر"، "ٹونا"، "چِلا" یا "مؤکل" سے جوڑتے ہیں، تو سانپ یہاں جہالت اور توہم پرستی کی علامت بن جاتا ہے۔ لوگ حقیقت (فن اور تکنیک) کو سمجھنے کے بجائے اسے مافوق الفطرت قوتوں سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ معاشرے میں عقلی سوچ پر توہم پرستی کے غلبے کو ظاہر کرتا ہے۔
سانپ قاری شاکر کی منفرد مہارت اور فن کی بھی علامت ہے۔ جس طرح قاری سانپ کو قابو کرتا ہے، وہ اس کی خصوصی صلاحیت، مشاہدے کی گہرائی، اور قدرت سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ سانپ اس کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ صحیح علم اور ہنر کے ذریعے مشکل ترین چیزوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
قاری کا سانپوں کی نسل، ان کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے اور ان کے کسان دوست ہونے کی معلومات دینا سانپ کو قدرت اور اس کے توازن کی علامت بناتا ہے۔ وہ غیر زہریلے سانپوں کو نہ مارنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ وہ چوہے کھا کر فصلوں کو بچاتے ہیں۔ یہ فطرت کے نظام میں ہر جاندار کی اہمیت اور اس کے کردار کو اجاگر کرتا ہے، اور انسان کو اس توازن میں دخل اندازی نہ کرنے کا درس دیتا ہے۔
افسانے میں سانپ ایک اور اہم استعارہ بھی بنتا ہے، خاص کر سماجی جبر اور آزادی کی کشمکش کے تناظر میں۔ جب قاری سانپ کا زہر دانت نکالتا ہے اور اسے تھیلے میں بند کر دیتا ہے، تو یہ دراصل ایک ظاہری "خطرہ" (سانپ کا ڈسنا) کو ختم کرنے کی علامت ہے۔ تاہم، اس کے پس پردہ ایک گہرا سماجی مسئلہ بھی موجود ہے: سیماں کی جبری اور کم عمری کی شادی، جو اس کے لیے ایک زہریلے سانپ کی طرح تھی۔ اس کی زندگی سے "زہر" نہ نکالا جا سکا اور وہ اسی جبر کا شکار ہو کر مر گئی۔
اسی تناظر میں، جب قاری اس جوگی کی بیٹی کو اسی جبری شادی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ ایک طرح سے سانپ کے زہر کو نکالنے اور اسے آزادی دلانے کی انسانی کوشش ہے۔ وہ اس بچی کو ایک "بند تھیلے" (سماجی رسم و رواج کے جبر) سے نکال کر ایک نئی زندگی کی طرف گامزن کرتا ہے۔ یہاں سانپ اس 'زہر' کی علامت ہے جو معاشرے کی فرسودہ روایات اور جبر میں پوشیدہ ہے۔ قاری کا سانپوں کے دانت نکالنا اور انہیں قابو کرنا، معاشرتی برائیوں اور ناانصافیوں کو پہچان کر انہیں ختم کرنے کی استعاراتی کوشش ہے۔
نتیجہ:
اس طرح، "ریت کے پرندے" میں سانپ ایک کثیر المعانی استعارہ ہے جو کہانی کو کئی سطحوں پر بامعنی بناتا ہے۔ یہ نہ صرف خوف اور جہالت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ قاری کی مہارت، فطرت سے اس کے گہرے تعلق، اور سب سے بڑھ کر سماجی جبر کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی بھی علامت بنتا ہے۔ سانپ کے ذریعے مصنفہ نے کہانی کے اندر گہری پرتیں شامل کی ہیں جو اسے محض ایک واقعاتی افسانے سے بلند کر کے ایک علامتی اور فکری متن بنا دیتی ہیں۔
ریت کے پرندے (عنوان): ایسے خواب اور آرزوئیں جو مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں، جو ریت کی طرح بکھر سکتے ہیں۔ قاری کے اسٹیو بننے کا خواب اور اس کے بعد اس کا ٹوٹ جانا اسی کی عکاسی کرتا ہے۔
اس افسانے میں نہرزندگی کی روانی، اور اس کے کنارے وہ ڈیرہ جہاں ایک نئی زندگی کا آغاز ممکن ہے کی نشاندہی کرتا ہے۔۔ نہر کا کنارا آزادی اور نئی منزلوں کی طرف سفر کی علامت ہے۔
"ریت کے پرندے" ایک متاثر کن افسانہ ہے جو محض سانپ پکڑنے کی کہانی نہیں بلکہ انسانیت، خوف، علم، جہالت اور سماجی جبر کے موضوعات کو گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ سبین علی نے قاری شاکر جیسے ایک تضادات سے بھرپور کردار کے ذریعے معاشرتی حقیقتوں اور انسان کی اندرونی کشمکش کو کامیابی سے پیش کیا ہے۔ افسانے کا اختتام قاری کے ایک نئے مشن (ایک بچی کی تقدیر بدلنے) پر ہوتا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حقیقی نجات اور سکون دوسروں کی بھلائی اور انہیں آزاد کرنے میں ہے۔ اس طرح، افسانہ ایک سادہ سے واقعے سے اٹھ کر ایک وسیع تر سماجی اور نفسیاتی کینوس پر پھیل جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبین علی کا افسانہ"ریت کے پرندے" کا تجزیاتی مطالعہ
نسترن احسن فتیحی
سبین علی کا افسانہ "ریت کے پرندے" ایک تہدار بیانیہ ہے جو بظاہر ایک سادہ سے واقعے (سانپ پکڑنے) کے گرد بُنا گیا ہے، لیکن درحقیقت اس میں انسانی نفسیات، خوف، عقیدے، سماجی جبر، اور آزادی کی تلاش جیسے کئی اہم موضوعات کو کمال مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ "قاری شاکر" نامی ایک کردار کے گرد گھومتا ہے جس کی شخصیت میں تضادات اور .گہرائی ہے
یہی تضادات کہانی کو نئی جہتیں فراہم کرتے ہیں۔
افسانے کا مرکزی خیال ظاہر و باطن کی کشمکش، آزادی کی خواہش، اور سماجی تعصبات کو توڑ کر انسانیت کے لیے جدوجہد ہے۔ یہ افسانہ کئی موضوعات کو چھوتا ہے۔
سبین علی کے اس افسانے کا سب سے بڑا تھیم خوف ہے۔ سانپ کا خوف، جو قاری شاکر کے ہنر کے ذریعے زیر ہوتا ہے، استعاراتی طور پر انسانی زندگی کے مختلف خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ قاری کہتا ہے کہ "ڈر نہ ہو تو حملہ بھی نہ ہو" اور "وہ جو سانپ ہے نا وہ ڈر کو ہماری آنکھوں میں دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔" یہ بات نہ صرف سانپوں پر بلکہ انسانی تعلقات اور سماجی رشتوں پر بھی صادق آتی ہے۔ سماجی رسومات اور جبری شادی کا خوف، اور روایتی سوچ کا خوف بھی اس میں پایا جاتا ہے۔
افسانہ قاری شاکر کے علم (قرآن اور جنگلی حیات کا علم) اور دیگر ملازمین کی جہالت یا توہم پرستی کے درمیان تضاد کو اجاگر کرتا ہے۔ لوگ قاری کے سانپ پکڑنے کے فن کو کسی "عمل"، "ٹونے"، یا "منتر" کا نتیجہ سمجھتے ہیں، جبکہ قاری اسے "فن" اور "تکنیک" قرار دیتا ہے۔ یہ تضاد معاشرے میں علم کی بجائے مافوق الفطرت باتوں پر یقین کرنے کی عمومی روش کی عکاسی کرتا ہے۔
قاری شاکرایک حافظِ قرآن ہے جو ڈپلومہ ہولڈر فیلڈ اسسٹنٹ بھی ہے۔ وہ سرکاری بابوؤں کے جوتے پالش کرتا ہے لیکن دل ہی دل میں اسٹیو ارون جیسا بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ اس کا "قاری اسٹیو" نام اسے اندرونی طور پر خوش کرتا ہے مگر وہ بظاہر اس سے انکاری ہوتا ہے۔ اس کے ظاہر میں ایک مذہبی شخص اور باطن میں جنگلی حیات سے محبت کرنے والا ایڈونچرر موجود ہے۔ یہ تضادات اس کی شخصیت کو جاندار اورغیرمعمولی بناتے ہیں اس لئے قاری شاکر ایک کثیر الجہتی کردار کے طور پر ابھرتا ہے۔
سیماں کا کردار اس افسانے میں ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی جبری اور کم عمری کی شادی، اور اس کے نتیجے میں اس کی المناک موت، دیہی معاشرے میں عورت پر ہونے والے جبر اور اس کی بے بسی کو نمایاں کرتی ہے۔ قاری شاکر سیماں حیسی تقدیراب کسی کی دیکھنا نہیں چاہتا،اسی لیے عرصہ دراز بعد بھی ایک دوسری بچی کے لئے کئ جوکھم اٹھاتا ہے۔ جو اس کی انسانی ہمدردی اور ماضی کے اس جبر سے آزادی کی تڑپ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بچی کو مدرسے بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ وہ "عالمہ" بن کر اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکے۔ یہ عمل قاری کے اندرونی "خوف" پر قابو پانے اور روایتی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش ہے۔
افسانہ انسان اور قدرت کے تعلق کو بھی بیان کرتا ہے۔ قاری کا سانپوں سے پیار، ان کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے کی پہچان، اور انہیں مارنے سے گریز کرنا قدرت سے اس کے گہرے رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جانوروں کے درد کو محسوس کرتا ہے اور انہیں "بے زبان جنور" کہتا ہے۔
سبین علی کا اسلوب سادہ، رواں اور بیانیہ ہے۔ وہ نیم سرائیکی لہجے میں اردو کا استعمال کر کے مقامی رنگ اور حقیقت پسندی پیدا کرتی ہیں۔ مکالموں میں روزمرہ کی زبان کا استعمال کرداروں کو مزید قابلِ یقین بناتا ہے۔ علامتی زبان کا استعمال بھی قابلِ ذکر ہے، جیسے "ریت کے پرندے" جو کہ ریت کی مانند بے وزن اور آسانی سے منتشر ہو جانے والے خوابوں اور آرزوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔وہ اسٹیو ارون کی موت اور قاری کا اس سے متاثر ہونا ہو یا سیماں کی جدائ کا غم، اس کے اپنے خوابوں کے بکھر جانے کا استعارہ ہے۔
افسانے کا مرکزی کردار جو ایک حافظِ قرآن، سرکاری ملازم اور غیر معمولی سانپ پکڑنے والا ہے۔ وہ سادہ لوح، نیک دل، اور باطنی طور پر ایک ایڈونچر پسند شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی شخصیت میں مذہبی عقیدت، عملی ذہانت اور انسانی ہمدردی کا حسین امتزاج ہے۔ وہ خوف کو صرف حیوانات کے حوالے سے نہیں بلکہ انسانی تعلقات اور معاشرتی جبر کے تناظر میں بھی دیکھتا ہے۔
مالی کا کردار عام لوگوں کی توہم پرستی اور روایتی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ قاری کے فن کو "منتر" اور "چِلا" سے جوڑتا ہے۔ اس کا مکالمہ کہانی میں مزاح اور مقامی رنگ تو پیدا کرتا ہی ہےساتھ ہی مقامی عام ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
سیماں کا کردار اگرچہ کہانی میں براہ راست موجود نہیں لیکن اس کا ذکر کہانی کو ایک اہم موڑ دیتا ہے۔ وہ سماجی جبر، کم عمری کی شادی اور اس کے المناک نتائج کی علامت ہے۔
اسٹیو ارون: یہ کردار قاری کے لیے ایک آئیڈیل اور اس کے چھپے ہوئے جنون کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسٹیو کی موت قاری کے خوابوں اور حوصلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
اس افسانے میں سانپ خوف، خطرہ، لیکن ساتھ ہی قدرت کا توازن اور قاری کی مہارت کی علامت۔ سانپ کا سُن ہو جانا دراصل قاری کی مہارت اور اس کی نفسیاتی برتری کی علامت ہے جس نے سانپ کے فطری "خوف" کو ختم کر دیا ہے۔سبین علی کے افسانے "ریت کے پرندے" میں سانپ محض ایک جانور نہیں بلکہ کئی گہرے استعاراتی معنی رکھتا ہے جو افسانے کی تہہ داری اور اس کے مرکزی موضوعات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ سانپ کی اہمیت کو مندرجہ ذیل نکات کے تحت سمجھا جا سکتا ہے:
1. خوف کا استعارہ:
افسانے میں سانپ سب سے پہلے خوف کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ سرکاری بنگلے میں کوڑیالے سانپ کی موجودگی سب کو خوفزدہ کر دیتی ہے، حتیٰ کہ ڈائریکٹر صاحب بھی دفتر میں اس کی دہشت محسوس کرتے ہیں۔ یہ خوف صرف سانپ سے ڈسے جانے کا نہیں بلکہ غیر متوقع خطرے، لاچاری اور ناواقفیت کا بھی ہے۔ مالی اور دیگر ملازمین کی سانپ سے متعلق کہانیاں اور توہمات اسی خوف کی عکاسی کرتی ہیں۔
* یہ خوف سماجی، نفسیاتی اور وجودی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قاری ایک بچے کو سمجھاتا ہے کہ "اگر سانپ کا ڈر مُک جائے تو وہ ہم پر حملہ بہت کم کرے" اور "وہ جو سانپ ہے نا وہ ڈر کو ہماری آنکھوں میں دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔" یہ بات صرف سانپ پر نہیں بلکہ زندگی کے ہر خوف پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ سماجی دباؤ ہو، غلط رسم و رواج کا خوف ہو یا اپنی آواز بلند کرنے کا ڈر ۔
سانپ کو قابو کرنے کی قاری کی صلاحیت کو جب لوگ "منتر"، "ٹونا"، "چِلا" یا "مؤکل" سے جوڑتے ہیں، تو سانپ یہاں جہالت اور توہم پرستی کی علامت بن جاتا ہے۔ لوگ حقیقت (فن اور تکنیک) کو سمجھنے کے بجائے اسے مافوق الفطرت قوتوں سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ معاشرے میں عقلی سوچ پر توہم پرستی کے غلبے کو ظاہر کرتا ہے۔
سانپ قاری شاکر کی منفرد مہارت اور فن کی بھی علامت ہے۔ جس طرح قاری سانپ کو قابو کرتا ہے، وہ اس کی خصوصی صلاحیت، مشاہدے کی گہرائی، اور قدرت سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ سانپ اس کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ صحیح علم اور ہنر کے ذریعے مشکل ترین چیزوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
قاری کا سانپوں کی نسل، ان کے زہریلے ہونے یا نہ ہونے اور ان کے کسان دوست ہونے کی معلومات دینا سانپ کو قدرت اور اس کے توازن کی علامت بناتا ہے۔ وہ غیر زہریلے سانپوں کو نہ مارنے کی تلقین کرتا ہے کیونکہ وہ چوہے کھا کر فصلوں کو بچاتے ہیں۔ یہ فطرت کے نظام میں ہر جاندار کی اہمیت اور اس کے کردار کو اجاگر کرتا ہے، اور انسان کو اس توازن میں دخل اندازی نہ کرنے کا درس دیتا ہے۔
افسانے میں سانپ ایک اور اہم استعارہ بھی بنتا ہے، خاص کر سماجی جبر اور آزادی کی کشمکش کے تناظر میں۔ جب قاری سانپ کا زہر دانت نکالتا ہے اور اسے تھیلے میں بند کر دیتا ہے، تو یہ دراصل ایک ظاہری "خطرہ" (سانپ کا ڈسنا) کو ختم کرنے کی علامت ہے۔ تاہم، اس کے پس پردہ ایک گہرا سماجی مسئلہ بھی موجود ہے: سیماں کی جبری اور کم عمری کی شادی، جو اس کے لیے ایک زہریلے سانپ کی طرح تھی۔ اس کی زندگی سے "زہر" نہ نکالا جا سکا اور وہ اسی جبر کا شکار ہو کر مر گئی۔
اسی تناظر میں، جب قاری اس جوگی کی بیٹی کو اسی جبری شادی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ ایک طرح سے سانپ کے زہر کو نکالنے اور اسے آزادی دلانے کی انسانی کوشش ہے۔ وہ اس بچی کو ایک "بند تھیلے" (سماجی رسم و رواج کے جبر) سے نکال کر ایک نئی زندگی کی طرف گامزن کرتا ہے۔ یہاں سانپ اس 'زہر' کی علامت ہے جو معاشرے کی فرسودہ روایات اور جبر میں پوشیدہ ہے۔ قاری کا سانپوں کے دانت نکالنا اور انہیں قابو کرنا، معاشرتی برائیوں اور ناانصافیوں کو پہچان کر انہیں ختم کرنے کی استعاراتی کوشش ہے۔
نتیجہ:
اس طرح، "ریت کے پرندے" میں سانپ ایک کثیر المعانی استعارہ ہے جو کہانی کو کئی سطحوں پر بامعنی بناتا ہے۔ یہ نہ صرف خوف اور جہالت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ قاری کی مہارت، فطرت سے اس کے گہرے تعلق، اور سب سے بڑھ کر سماجی جبر کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی بھی علامت بنتا ہے۔ سانپ کے ذریعے مصنفہ نے کہانی کے اندر گہری پرتیں شامل کی ہیں جو اسے محض ایک واقعاتی افسانے سے بلند کر کے ایک علامتی اور فکری متن بنا دیتی ہیں۔
ریت کے پرندے (عنوان): ایسے خواب اور آرزوئیں جو مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں، جو ریت کی طرح بکھر سکتے ہیں۔ قاری کے اسٹیو بننے کا خواب اور اس کے بعد اس کا ٹوٹ جانا اسی کی عکاسی کرتا ہے۔
اس افسانے میں نہرزندگی کی روانی، اور اس کے کنارے وہ ڈیرہ جہاں ایک نئی زندگی کا آغاز ممکن ہے کی نشاندہی کرتا ہے۔۔ نہر کا کنارا آزادی اور نئی منزلوں کی طرف سفر کی علامت ہے۔
"ریت کے پرندے" ایک متاثر کن افسانہ ہے جو محض سانپ پکڑنے کی کہانی نہیں بلکہ انسانیت، خوف، علم، جہالت اور سماجی جبر کے موضوعات کو گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ سبین علی نے قاری شاکر جیسے ایک تضادات سے بھرپور کردار کے ذریعے معاشرتی حقیقتوں اور انسان کی اندرونی کشمکش کو کامیابی سے پیش کیا ہے۔ افسانے کا اختتام قاری کے ایک نئے مشن (ایک بچی کی تقدیر بدلنے) پر ہوتا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حقیقی نجات اور سکون دوسروں کی بھلائی اور انہیں آزاد کرنے میں ہے۔ اس طرح، افسانہ ایک سادہ سے واقعے سے اٹھ کر ایک وسیع تر سماجی اور نفسیاتی کینوس پر پھیل جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔