قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" کا بیانیاتی نظام"
قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" کا بیانیاتی نظام"
Jun 10, 2023
دیدبان شمارہ۔۱۸
قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" کا بیانیاتی نظام"
علی رفاد فتیحی
تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ" نورین علی حق کا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس افسانوی مجموعے کے افسانے وجودی سوچ پر مشتمل نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں کے بیانیہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نورین علی حق اپنے کردار کی اندرونی جذباتی دنیا کے بارے میں لکھتے ہیں جو بنیادی طور پر زندگی کی مضحکہ خیزیوں سے لڑتے یا وجودی مسائل سے نمٹنے کے لیے انتہائی ایماندارانہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔اس غیر ضروری دنیا میں، نورین علی حق کے کردار ہمیشہ قدر، آزادی اور سچائی کی لامتناہی تلاش کے لیے لڑتے نظر آتے ہیں۔ نورین علی حق کے کردار کا مقصد سماجی تحفظ سے الگ انسانیت کی حالت کی تحقیقات کرنا ہے۔
نورین علی حق کا افسانہ ، "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" اپنے جملہ خصائص کے ساتھ غیر معمولی افسانہ ہے۔ اس لیے کہ یہ افسانہ واقعہ، کہانی پن، پلاٹ، کردار نگاری اور وجودی کیفیات سے متشکل ہوا ہے۔ نورین علی حق کے دیگر افسانوں کی طرح یہ افسانہ بھی واحد متکلم اورواقعہ در واقعہ کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ راوی مرکزی کردار ہے۔ اور وہ "اسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے کے چھ با ئی تین کے بستر پر لیٹا سیلنگ فین کو دیر سے تکے جا رہا ہے۔" اور فطرت کی بے رحم اور ناقابل معافی طاقت کا شکار ہے۔ ہسپتال میں اپنے قیام کے دوران وہ طرح طرح کے احساسات سے گزرتا ہے۔
میں سگریٹ کے کش لیتا جا رہا ہوں سگریٹ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔مجھ میں میرے خاتمے کا یقین بڑھتا جا رہا ہے۔میری طبیعت بگڑتی جا رہی ہے۔ میرے وجود کے اندر دھویں کا دباو بڑھتا جا رہا ہے۔
جمنا کی سطح آب انتہائی گندی اور غلیظ نظر آرہی ہے۔ کوڑے کرکٹ کا ایک انبار بہتا چلا جا رہا ہے۔ گرداب کی تعداد بھی کافی بڑھ گئ ہے۔ میں گرداب کی زد میں آ گیا ہوں
آدمی کی زندگی کا انحصار اس کی زندگی جینے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ایک، آدھ کامیاب کوشش، اور کئی دیگر قابل رحم کوششوں کے بعد، مخالف ماحول کے خلاف آدمی کی تنہا جدوجہد کی ناامیدی واضح ہونے لگتی ہے۔ گھبراہٹ کے ایک طویل واقعہ کے بعد جس میں آدمی مرغ بسمل کی طرح ادھر ادھر بھاگتا ہے اپنے احساس کو اپنے معراج پر لوٹانے کی شدت سے کوشش کرتا ہے۔ "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" کا راوی آخر میں "پرسکون ہو جاتا ہے اور وقار کے ساتھ موت سے ملنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ . .
نہ جانے کب سے میں امید لکائے بیٹھا تھا کہ میری موت آئے گی ، میرے دماغ کی رگیں فشار خون سے پھٹ جائں گی میری روح کے قفس عنصری سےپرواز کرنے سے ایک لمحہ پہلے میں دیکھوں گا
کہانی کا مرکزی موضوع بہت سے وجودیت پسند مصنفین کی طرف سے پیش کیا جا چکا ہے کہ انسان ایک تنہا وجود میں رہتا ہے جو فطرت کی انتھک، ناقابل معافی قوتوں کے طابع ہے۔ اس افسانے کا ایک بہت لطیف حصہ یہ ہے کہ انسان کا مقصد اپنے وجود میں معنی تلاش کرنا ہے۔ اس افسانے میں نورین علی حق کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ کس طرح اندرونی شعور کی کسوٹی وجود کی عدم معنویت کا محاسبہ کرتی ہے۔
نورین علی حق "، "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ " میں وجودی تھیم پر کئی طریقوں سے زور دیتے ہیں، جن میں سب سے اہم اس کی بیانیاتی ترتیب کا انتخاب ہے جس میں کہانی پوشیدہ ہے۔ یہ افسانہ اسپتال کے ایک چھوٹے سے کمر ے میں شروع ہوتا ہے جہاں افسانے کے واحد متکلم کو رکھا گیا ہے۔ نورین علی حق اپنے مرکزی کردار کو ایک ایسے ماحول میں رکھتے ہیں ، جو اس کے تھیم کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن جب وہ اس ناقابل معافی ماحول کو آلودہ جمنا کے ساتھ جوڑتے ہیں تو وہ ایک ایسی ترتیب تخلیق کرتے ہیں ہے جو مخالف، وجودی ماحول کا مظہر ہے۔ "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" میں مرکزی کردار کا ایک چھوٹے سے کمرے کے چھ بائی تین کے بستر پر لیٹے سیلنگ فین کو دیر سے تکے جانا ا س وجودیت پسند خیال کو واضح کرتا ہے کہ انسان کائنات میں تنہا ہے۔ اس خیال پر مزید زور دینے کے لیے، نورین علی حق نے اس مرکزی کردار کو کوئی نام نہیں دیا ہے، بلکہ پوری کہانی میں اسے صرف " واحد متکلم راوی" کے طور پر پیش کیا ہے۔ کردار کا نام نہ لے کر، نورین علی حق نے اسے قاری سے اس کی مہلک ماحول میں اور بھی زیادہ فاصلے پر رکھا ہے، اس طرح اسے ایک تاریک اور دشمن کائنات میں مزید الگ تھلگ کر دیا ہے۔ بظاہر یہ سادہ کہانی ہے لیکن اس میں”وجودیت” کے جملہ موضوعات ہیں۔
وہ جانتا ہے کہ اس کائنات میں اس کا کوئی سہارا نہیں، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔وہ اندھیرا اقلیت، سائنس اور سرمایہ داری کا ہے۔ اس لیے وہ جس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کی شناخت واضح نہیں ہے
اس افسانے میں بیانیہ ایک سرایت شدہ کہانی ہے اور راوی ایک ایسا کردار ہے جو کہانی کو بیان کرنے میں مشغول ہے۔ تاہم یہ افسانہ جدیدافسانے سے بالکل مختلف نہںی ہے بلکہ بعض معنوں مں اس کی توسی م صورت ہے ۔اس افسانے مںہ بھی وجودی عناصر بدرجہ اتم ملتے ہںع۔ اس افسانے نے تنہائی کے احساس، دہشت، خوف، ڈر، مایوسی اور کرب جین وجودی کاے ت کو اپنے اندر سمولیا ہے۔ نورین علی حق کا یہ افسانہ وجودی کیفیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔
دیدبان شمارہ۔۱۸
قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" کا بیانیاتی نظام"
علی رفاد فتیحی
تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ" نورین علی حق کا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس افسانوی مجموعے کے افسانے وجودی سوچ پر مشتمل نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں کے بیانیہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نورین علی حق اپنے کردار کی اندرونی جذباتی دنیا کے بارے میں لکھتے ہیں جو بنیادی طور پر زندگی کی مضحکہ خیزیوں سے لڑتے یا وجودی مسائل سے نمٹنے کے لیے انتہائی ایماندارانہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔اس غیر ضروری دنیا میں، نورین علی حق کے کردار ہمیشہ قدر، آزادی اور سچائی کی لامتناہی تلاش کے لیے لڑتے نظر آتے ہیں۔ نورین علی حق کے کردار کا مقصد سماجی تحفظ سے الگ انسانیت کی حالت کی تحقیقات کرنا ہے۔
نورین علی حق کا افسانہ ، "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" اپنے جملہ خصائص کے ساتھ غیر معمولی افسانہ ہے۔ اس لیے کہ یہ افسانہ واقعہ، کہانی پن، پلاٹ، کردار نگاری اور وجودی کیفیات سے متشکل ہوا ہے۔ نورین علی حق کے دیگر افسانوں کی طرح یہ افسانہ بھی واحد متکلم اورواقعہ در واقعہ کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ راوی مرکزی کردار ہے۔ اور وہ "اسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے کے چھ با ئی تین کے بستر پر لیٹا سیلنگ فین کو دیر سے تکے جا رہا ہے۔" اور فطرت کی بے رحم اور ناقابل معافی طاقت کا شکار ہے۔ ہسپتال میں اپنے قیام کے دوران وہ طرح طرح کے احساسات سے گزرتا ہے۔
میں سگریٹ کے کش لیتا جا رہا ہوں سگریٹ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔مجھ میں میرے خاتمے کا یقین بڑھتا جا رہا ہے۔میری طبیعت بگڑتی جا رہی ہے۔ میرے وجود کے اندر دھویں کا دباو بڑھتا جا رہا ہے۔
جمنا کی سطح آب انتہائی گندی اور غلیظ نظر آرہی ہے۔ کوڑے کرکٹ کا ایک انبار بہتا چلا جا رہا ہے۔ گرداب کی تعداد بھی کافی بڑھ گئ ہے۔ میں گرداب کی زد میں آ گیا ہوں
آدمی کی زندگی کا انحصار اس کی زندگی جینے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ایک، آدھ کامیاب کوشش، اور کئی دیگر قابل رحم کوششوں کے بعد، مخالف ماحول کے خلاف آدمی کی تنہا جدوجہد کی ناامیدی واضح ہونے لگتی ہے۔ گھبراہٹ کے ایک طویل واقعہ کے بعد جس میں آدمی مرغ بسمل کی طرح ادھر ادھر بھاگتا ہے اپنے احساس کو اپنے معراج پر لوٹانے کی شدت سے کوشش کرتا ہے۔ "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" کا راوی آخر میں "پرسکون ہو جاتا ہے اور وقار کے ساتھ موت سے ملنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ . .
نہ جانے کب سے میں امید لکائے بیٹھا تھا کہ میری موت آئے گی ، میرے دماغ کی رگیں فشار خون سے پھٹ جائں گی میری روح کے قفس عنصری سےپرواز کرنے سے ایک لمحہ پہلے میں دیکھوں گا
کہانی کا مرکزی موضوع بہت سے وجودیت پسند مصنفین کی طرف سے پیش کیا جا چکا ہے کہ انسان ایک تنہا وجود میں رہتا ہے جو فطرت کی انتھک، ناقابل معافی قوتوں کے طابع ہے۔ اس افسانے کا ایک بہت لطیف حصہ یہ ہے کہ انسان کا مقصد اپنے وجود میں معنی تلاش کرنا ہے۔ اس افسانے میں نورین علی حق کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ کس طرح اندرونی شعور کی کسوٹی وجود کی عدم معنویت کا محاسبہ کرتی ہے۔
نورین علی حق "، "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ " میں وجودی تھیم پر کئی طریقوں سے زور دیتے ہیں، جن میں سب سے اہم اس کی بیانیاتی ترتیب کا انتخاب ہے جس میں کہانی پوشیدہ ہے۔ یہ افسانہ اسپتال کے ایک چھوٹے سے کمر ے میں شروع ہوتا ہے جہاں افسانے کے واحد متکلم کو رکھا گیا ہے۔ نورین علی حق اپنے مرکزی کردار کو ایک ایسے ماحول میں رکھتے ہیں ، جو اس کے تھیم کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن جب وہ اس ناقابل معافی ماحول کو آلودہ جمنا کے ساتھ جوڑتے ہیں تو وہ ایک ایسی ترتیب تخلیق کرتے ہیں ہے جو مخالف، وجودی ماحول کا مظہر ہے۔ "قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ" میں مرکزی کردار کا ایک چھوٹے سے کمرے کے چھ بائی تین کے بستر پر لیٹے سیلنگ فین کو دیر سے تکے جانا ا س وجودیت پسند خیال کو واضح کرتا ہے کہ انسان کائنات میں تنہا ہے۔ اس خیال پر مزید زور دینے کے لیے، نورین علی حق نے اس مرکزی کردار کو کوئی نام نہیں دیا ہے، بلکہ پوری کہانی میں اسے صرف " واحد متکلم راوی" کے طور پر پیش کیا ہے۔ کردار کا نام نہ لے کر، نورین علی حق نے اسے قاری سے اس کی مہلک ماحول میں اور بھی زیادہ فاصلے پر رکھا ہے، اس طرح اسے ایک تاریک اور دشمن کائنات میں مزید الگ تھلگ کر دیا ہے۔ بظاہر یہ سادہ کہانی ہے لیکن اس میں”وجودیت” کے جملہ موضوعات ہیں۔
وہ جانتا ہے کہ اس کائنات میں اس کا کوئی سہارا نہیں، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔وہ اندھیرا اقلیت، سائنس اور سرمایہ داری کا ہے۔ اس لیے وہ جس چیز کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کی شناخت واضح نہیں ہے
اس افسانے میں بیانیہ ایک سرایت شدہ کہانی ہے اور راوی ایک ایسا کردار ہے جو کہانی کو بیان کرنے میں مشغول ہے۔ تاہم یہ افسانہ جدیدافسانے سے بالکل مختلف نہںی ہے بلکہ بعض معنوں مں اس کی توسی م صورت ہے ۔اس افسانے مںہ بھی وجودی عناصر بدرجہ اتم ملتے ہںع۔ اس افسانے نے تنہائی کے احساس، دہشت، خوف، ڈر، مایوسی اور کرب جین وجودی کاے ت کو اپنے اندر سمولیا ہے۔ نورین علی حق کا یہ افسانہ وجودی کیفیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔