قصہ میراں کے بچے کا
قصہ میراں کے بچے کا
Jan 12, 2019
قصہ شاہ دولے پیدا کرنے والی میراں کا
دیدبان شمارہ ،۹
قصہ میراں کے بچے کا
اللہ جانتا ہے
جیسے زمینوں سے چشمے،بیج سے پھل
اور رات کی پسلی سے دن نکلتا ہے،
عورت کے بطن سے اولاد جنم لیتی ہے۔
میراں الھڑ،مست،جیسے گھنگھور بادل،
بھری بھری چھاتیاں، چوڑے سُرین اور اُونچا قد
سیال کی رات میں جیسے الاؤ کی لاٹ،
جوبن تھا کہ پھٹا پڑتا۔
لیکن اللہ جانتا ہے
میراں کو آس نہ لگتی
’’یا پیرا!شاہ دولہ! دے دے،
ننگے پَیر پا پیادہ آئی تیرے در پر
داتا! کوکھ ہری کر، دے دے
میراں فریاد کرتی، کُوکتی،کُرلاتی
لیکن میراں کو آس نہ لگتی
اللہ جانتا ہے،
ایک دن میراں کا جی متلایا۔
یوں لگا جیسے ساتوں موسم بدن میں اُتر گئے ہوں۔
میراں نے مٹھی میں تارے، گود میں چاند اور ہونٹوں سے
شہد بہتے دیکھا
لو جی موجوخوش، موجو کی ماں خوش،
گھر کے تالے، چارپائی کی رسی
اور میراں کے گُندھے ہو ئے بالوں کی چوٹیاں کھول دی گئیں
اور اُس کی دائیں ران پر تعویز باندھا گیا۔
لیکن اللہ جانتا ہے
میراں تیسرے مہینے میلے کیا گئی کہ بدن سے رس نچڑ گیا۔
دس روز وہ تپ چڑھا
کہ شہد کا ڈول اُلٹ گیا،
’’یا داتا!یاشاہ دولہ، دے دے
دے دے سخی لجپال
تیرا چاکر ہوسی، سائیں! دے دے’’
اولاد کی بھوکی میراں شدائن ہو گئی۔
کبھی پُورن کے کنوئیں میں دئیے کی لاٹ میں برہنہ ہوتی۔
کبھی مُردہ بچوں کی آنکھ میں سر مہ ڈالتی
’’یا داتا!یاشاہ دولہ، دے دے
میری کوکھ ہری کر سائیں، دے دے’’
اللہ جانتا ہے
میراں کو پھر آس لگی۔
ہمسائیوں میں ہوئی کُھسر پُھسر
دوودھ، مکھانے،کبھی،شکراور کھٹائیاں۔
ٹھنڈی میٹھی دردوں میں مد ہوش میراں،
نو مہینے گھر میں رہی۔
لیکن اللہ جانتا ہے
میراں نے مُردہ بچہ جنا۔
مُردہ بچہ جننے والی میراں گاؤں میں منحوس ہوئی
سُہاگنوں پر اس کا سایہ حرام ہُوا
سیال کی رات میں چڑھتا الاؤٹھنڈا پڑ گیا۔
مُوجو نے مار مار نیل ڈال دئیے جسم پر۔
میراں کی جوانی اُلاہمہ ہوگئی،
’’دے دے یا پیرا! یا شاہ دولہ!
بچڑا دے دے’’
عمریں گزر گئیں
چیلوں کو ماس، کوؤں کو روٹی
اور شاہ دولے کے مزار پر چراغ جلاتے۔
آخر میراں کو پھر آس لگی
اللہ جانتا ہے
نو مہینے اُس نے اپنا اندر سینت سینت کررکھا۔
رات دن مائی مریم کا پنجہ بھگو کر پیتی رہی
اور اللہ جانتا ہے
چیت کی رات کے آخری پہر
جیسے سیپی لعل کو اُگلتی ہے
میراں نے بچے کوجنم دیا
’’واہ پیرا، میں جھوٹی تُو سچا
یا شاہ دولہ! تیر ی خیر،
تونے میراں کی لاج رکھ لی‘‘
لیکن اللہ جانتا ہے
دن چڑھے جو میراں کو ہوش آیا
تو دیکھا
اُس کا بچہ کہیں نہیں تھا
دُور دُور تک ہجوم تھا شاہ دولے کے فقیروں کا
’’یا پیرا! یا شاہ دُولہ!!
دے ، دے‘‘
سرمد صہبائی
دیدبان شمارہ ،۹
قصہ میراں کے بچے کا
اللہ جانتا ہے
جیسے زمینوں سے چشمے،بیج سے پھل
اور رات کی پسلی سے دن نکلتا ہے،
عورت کے بطن سے اولاد جنم لیتی ہے۔
میراں الھڑ،مست،جیسے گھنگھور بادل،
بھری بھری چھاتیاں، چوڑے سُرین اور اُونچا قد
سیال کی رات میں جیسے الاؤ کی لاٹ،
جوبن تھا کہ پھٹا پڑتا۔
لیکن اللہ جانتا ہے
میراں کو آس نہ لگتی
’’یا پیرا!شاہ دولہ! دے دے،
ننگے پَیر پا پیادہ آئی تیرے در پر
داتا! کوکھ ہری کر، دے دے
میراں فریاد کرتی، کُوکتی،کُرلاتی
لیکن میراں کو آس نہ لگتی
اللہ جانتا ہے،
ایک دن میراں کا جی متلایا۔
یوں لگا جیسے ساتوں موسم بدن میں اُتر گئے ہوں۔
میراں نے مٹھی میں تارے، گود میں چاند اور ہونٹوں سے
شہد بہتے دیکھا
لو جی موجوخوش، موجو کی ماں خوش،
گھر کے تالے، چارپائی کی رسی
اور میراں کے گُندھے ہو ئے بالوں کی چوٹیاں کھول دی گئیں
اور اُس کی دائیں ران پر تعویز باندھا گیا۔
لیکن اللہ جانتا ہے
میراں تیسرے مہینے میلے کیا گئی کہ بدن سے رس نچڑ گیا۔
دس روز وہ تپ چڑھا
کہ شہد کا ڈول اُلٹ گیا،
’’یا داتا!یاشاہ دولہ، دے دے
دے دے سخی لجپال
تیرا چاکر ہوسی، سائیں! دے دے’’
اولاد کی بھوکی میراں شدائن ہو گئی۔
کبھی پُورن کے کنوئیں میں دئیے کی لاٹ میں برہنہ ہوتی۔
کبھی مُردہ بچوں کی آنکھ میں سر مہ ڈالتی
’’یا داتا!یاشاہ دولہ، دے دے
میری کوکھ ہری کر سائیں، دے دے’’
اللہ جانتا ہے
میراں کو پھر آس لگی۔
ہمسائیوں میں ہوئی کُھسر پُھسر
دوودھ، مکھانے،کبھی،شکراور کھٹائیاں۔
ٹھنڈی میٹھی دردوں میں مد ہوش میراں،
نو مہینے گھر میں رہی۔
لیکن اللہ جانتا ہے
میراں نے مُردہ بچہ جنا۔
مُردہ بچہ جننے والی میراں گاؤں میں منحوس ہوئی
سُہاگنوں پر اس کا سایہ حرام ہُوا
سیال کی رات میں چڑھتا الاؤٹھنڈا پڑ گیا۔
مُوجو نے مار مار نیل ڈال دئیے جسم پر۔
میراں کی جوانی اُلاہمہ ہوگئی،
’’دے دے یا پیرا! یا شاہ دولہ!
بچڑا دے دے’’
عمریں گزر گئیں
چیلوں کو ماس، کوؤں کو روٹی
اور شاہ دولے کے مزار پر چراغ جلاتے۔
آخر میراں کو پھر آس لگی
اللہ جانتا ہے
نو مہینے اُس نے اپنا اندر سینت سینت کررکھا۔
رات دن مائی مریم کا پنجہ بھگو کر پیتی رہی
اور اللہ جانتا ہے
چیت کی رات کے آخری پہر
جیسے سیپی لعل کو اُگلتی ہے
میراں نے بچے کوجنم دیا
’’واہ پیرا، میں جھوٹی تُو سچا
یا شاہ دولہ! تیر ی خیر،
تونے میراں کی لاج رکھ لی‘‘
لیکن اللہ جانتا ہے
دن چڑھے جو میراں کو ہوش آیا
تو دیکھا
اُس کا بچہ کہیں نہیں تھا
دُور دُور تک ہجوم تھا شاہ دولے کے فقیروں کا
’’یا پیرا! یا شاہ دُولہ!!
دے ، دے‘‘
سرمد صہبائی