قندیل

قندیل

Jan 12, 2019

پھر سر صبح وہ قصہ چھیٹرا دن کی قندیل بجھا دی ہم نے

دیدبان شمارہ۔ ٩

مختصر افسانہ : قندیل

تحریر : سلمیٰ جیلانی

وہ آگ سے کھیل رہی ہے کوئی سمجھائے اسے اپنے عاشقوں کو کوئی یوں سر عام ننگا کرتا ہو گا اس نے تو بیڈ روم کے راز طشت از بام کر دیئے عزت داروں کی پگڑیاں ٹوپیاں سب اچھال کر رکھ دیں ، ارے آج تک تو مرد ہی ایسا کرتا آیا وہ البیلی نار ایسا بھی کر بیٹھے گی میں کیا جانوں

بوڑھی میڈم ہاتھ ملتے ہوئے بڑبڑاتی جا رہی تھی مانا بہت دلربا ہے بڑی دلنواز ہے مگر جانتی نہیں ہے تو عورت ذات اور رہتی کہاں ہے جہاں بھائی بہن کی عزت اتار لے تو بھی بہن کو خاموش رہنا چاہئے ورنہ خاندان بھر کی عزت کو بٹہ لگ جائے گا ہاں اگر کسی اور سے آنکہ مٹکا کر لے تو وہی بھائی اسی کی جان سینہ ٹھونک کر لے سکتا ہے ...

میڈم کو اپنا دور یاد آیا کیسے مردوں کو لبھانے رجھانے کے انداز سکھائے گئے تب جا کر کتنے پاپی پیٹ پالے چھوئی موئی سی بن کر کبھی نخرے دکھا کر کبھی نرت بھاؤ سے رجھا کر مگر سب ایک شرافت کے دائرے میں کیا کیا مجال برقعے بغیر گھر سے نکلیں ہوں وہ بھی اور اس کی شاگردیں بھی

مگر اس نئی نویلی نے تو موئی فیس بک کو کیسا ہتھیار بنایا پانچ لاکھ سے زیادہ عاشق بھلا بتاؤ تو میں کوئی کم حسین تھی اس سے نگوڑے درجن سے آگے نہ بڑھے کبھی .

ابھی بھی اپنی پرانی تصویر لگا دوں تو ہنگامہ ہو جائے بوڑھی نائکہ نے یک بارگی حسرت سے سوچا پھر کھانستے ہوئے اگال دان کو بستر کے نیچے سے نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا، دیوار گیر ٹیلی ویژن پر نئی ماڈل کرزما کی پھڑکتی ہوئی ڈاکومنٹری پر رواں تبصرہ کرنے لگی بستر پر اکیلے پڑے پڑے یہی کام رہ گیا تھا -

یہ بھی جس حلیے میں میرے پاس آئی تھی ..تیل میں چپڑے بال کس کر دو چوٹیوں میں گندھے ہوئے اور سختی سے منڈھا ہوا دوپٹہ گویا اس کے نشیب و فراز تو ابھرنے سے پہلے ہی غرق آب ہو گئے ہوں .... میں تو ہنس دی تھی دیکھ کر لو بھلا اچھا مال الگ کس واسطے باندھ رکھا ہے بی بی بیچو گی کیا پھر ..... مگر اس نے تو کیسے پر پرزے نکالے میری تو عقل دنگ ہے اور زبان گنگ

کیا بھول گئی ہو رہتی چیچوں کی ملیاں میں ہو اور سمجھتی خود کو انگلستان میں

بی بی جہاں رہتی ہو وہاں کے طور طریقے سیکھو

تم تو کم کارڈشن بننے چلی ہو

دیکھو ! وہی کرو جو یہ موئی کارڈی شن کرتی ہے مگر چھپ کے وہ تو امریکا میں رہ کر بھی تو کسی ایک کی ہو گئی ،،،نگوڑ مارے کلو کی اب جو چاہے رنگ دکھائے ، میں کہتی ہوں شرافت کا لبادہ اوڑھ اور عزت سے جی کام بھلے یہی کر ویسے بھی تجھے کوئی اور کام کرنے بھی کہاں دے گا

میٹرک میں چار بار فیل ہوئی ، ورنہ کچھ تاریخ ہی پڑھ لیتی کیا ہوتا ہے ایسی عورتوں کے ساتھ ؟

ہاں بتاؤ کیا ہوتا ہے کیا ہوتا ہے ایسی عورتوں کے ساتھ ....

کرزما سامنے کھڑی ہنس رہی تھی .... اس نے اپنی دھندلی ہوتی ہوئی آنکھیں ملیں ...

ارے میں سب جانتی ہوں ان مردوں کو انگلیوں پر نچاؤں اور لمبی رقمیں کماؤں گی میں نے جدید دنیا میں جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے

وہ اٹھلائی اپنی سلکی نائٹی کی ڈوریاں ایک ہاتھ سے کھولیں اور ہواؤں میں اڑتے اپنے ریشمی بال سنوارے ......

میڈم نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں زور لگا کر اسکرین پر نظر جمانے کی ایک بار پھر کوشش کی وہ اب بھی کچھ بڑبڑا رہی تھی گو آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی ...

اگر تم پڑھی لکھی ہوتیں تو تمہیں پتا چلتا مارلن منرو کے ساتھ کیا ہوا تھا وہ تو تم سے ہزار درجہ حسین تھی ... تمہارے عاشقوں سے کہیں زیادہ عزت داروں کو سر عام ننگا کرنے چلی تھی مگر ترقی یافتہ دنیا کے گھاگ مرد وں نے اس سے جینے کا حق چھین لیا تھا تمہاری تو بساط ہی کیا ..................خر خر خر ...

پھر سر صبح وہ قصہ چھیٹرا

دن کی قندیل بجھا دی ہم نے

خالی کمرے میں میڈم کے خراٹوں کی گونج کےمیں مغنیہ کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی جو ستار کے تاروں پر ناصر کاظمی کی غزل چھیڑ رہی تھی

----------------------

دیدبان شمارہ۔ ٩

مختصر افسانہ : قندیل

تحریر : سلمیٰ جیلانی

وہ آگ سے کھیل رہی ہے کوئی سمجھائے اسے اپنے عاشقوں کو کوئی یوں سر عام ننگا کرتا ہو گا اس نے تو بیڈ روم کے راز طشت از بام کر دیئے عزت داروں کی پگڑیاں ٹوپیاں سب اچھال کر رکھ دیں ، ارے آج تک تو مرد ہی ایسا کرتا آیا وہ البیلی نار ایسا بھی کر بیٹھے گی میں کیا جانوں

بوڑھی میڈم ہاتھ ملتے ہوئے بڑبڑاتی جا رہی تھی مانا بہت دلربا ہے بڑی دلنواز ہے مگر جانتی نہیں ہے تو عورت ذات اور رہتی کہاں ہے جہاں بھائی بہن کی عزت اتار لے تو بھی بہن کو خاموش رہنا چاہئے ورنہ خاندان بھر کی عزت کو بٹہ لگ جائے گا ہاں اگر کسی اور سے آنکہ مٹکا کر لے تو وہی بھائی اسی کی جان سینہ ٹھونک کر لے سکتا ہے ...

میڈم کو اپنا دور یاد آیا کیسے مردوں کو لبھانے رجھانے کے انداز سکھائے گئے تب جا کر کتنے پاپی پیٹ پالے چھوئی موئی سی بن کر کبھی نخرے دکھا کر کبھی نرت بھاؤ سے رجھا کر مگر سب ایک شرافت کے دائرے میں کیا کیا مجال برقعے بغیر گھر سے نکلیں ہوں وہ بھی اور اس کی شاگردیں بھی

مگر اس نئی نویلی نے تو موئی فیس بک کو کیسا ہتھیار بنایا پانچ لاکھ سے زیادہ عاشق بھلا بتاؤ تو میں کوئی کم حسین تھی اس سے نگوڑے درجن سے آگے نہ بڑھے کبھی .

ابھی بھی اپنی پرانی تصویر لگا دوں تو ہنگامہ ہو جائے بوڑھی نائکہ نے یک بارگی حسرت سے سوچا پھر کھانستے ہوئے اگال دان کو بستر کے نیچے سے نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا، دیوار گیر ٹیلی ویژن پر نئی ماڈل کرزما کی پھڑکتی ہوئی ڈاکومنٹری پر رواں تبصرہ کرنے لگی بستر پر اکیلے پڑے پڑے یہی کام رہ گیا تھا -

یہ بھی جس حلیے میں میرے پاس آئی تھی ..تیل میں چپڑے بال کس کر دو چوٹیوں میں گندھے ہوئے اور سختی سے منڈھا ہوا دوپٹہ گویا اس کے نشیب و فراز تو ابھرنے سے پہلے ہی غرق آب ہو گئے ہوں .... میں تو ہنس دی تھی دیکھ کر لو بھلا اچھا مال الگ کس واسطے باندھ رکھا ہے بی بی بیچو گی کیا پھر ..... مگر اس نے تو کیسے پر پرزے نکالے میری تو عقل دنگ ہے اور زبان گنگ

کیا بھول گئی ہو رہتی چیچوں کی ملیاں میں ہو اور سمجھتی خود کو انگلستان میں

بی بی جہاں رہتی ہو وہاں کے طور طریقے سیکھو

تم تو کم کارڈشن بننے چلی ہو

دیکھو ! وہی کرو جو یہ موئی کارڈی شن کرتی ہے مگر چھپ کے وہ تو امریکا میں رہ کر بھی تو کسی ایک کی ہو گئی ،،،نگوڑ مارے کلو کی اب جو چاہے رنگ دکھائے ، میں کہتی ہوں شرافت کا لبادہ اوڑھ اور عزت سے جی کام بھلے یہی کر ویسے بھی تجھے کوئی اور کام کرنے بھی کہاں دے گا

میٹرک میں چار بار فیل ہوئی ، ورنہ کچھ تاریخ ہی پڑھ لیتی کیا ہوتا ہے ایسی عورتوں کے ساتھ ؟

ہاں بتاؤ کیا ہوتا ہے کیا ہوتا ہے ایسی عورتوں کے ساتھ ....

کرزما سامنے کھڑی ہنس رہی تھی .... اس نے اپنی دھندلی ہوتی ہوئی آنکھیں ملیں ...

ارے میں سب جانتی ہوں ان مردوں کو انگلیوں پر نچاؤں اور لمبی رقمیں کماؤں گی میں نے جدید دنیا میں جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے

وہ اٹھلائی اپنی سلکی نائٹی کی ڈوریاں ایک ہاتھ سے کھولیں اور ہواؤں میں اڑتے اپنے ریشمی بال سنوارے ......

میڈم نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں زور لگا کر اسکرین پر نظر جمانے کی ایک بار پھر کوشش کی وہ اب بھی کچھ بڑبڑا رہی تھی گو آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی ...

اگر تم پڑھی لکھی ہوتیں تو تمہیں پتا چلتا مارلن منرو کے ساتھ کیا ہوا تھا وہ تو تم سے ہزار درجہ حسین تھی ... تمہارے عاشقوں سے کہیں زیادہ عزت داروں کو سر عام ننگا کرنے چلی تھی مگر ترقی یافتہ دنیا کے گھاگ مرد وں نے اس سے جینے کا حق چھین لیا تھا تمہاری تو بساط ہی کیا ..................خر خر خر ...

پھر سر صبح وہ قصہ چھیٹرا

دن کی قندیل بجھا دی ہم نے

خالی کمرے میں میڈم کے خراٹوں کی گونج کےمیں مغنیہ کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی جو ستار کے تاروں پر ناصر کاظمی کی غزل چھیڑ رہی تھی

----------------------

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024