داستانِ امیرحمزہ میں عربی زبان سے اِستفادے کی بعض صورتیں
داستانِ امیرحمزہ میں عربی زبان سے اِستفادے کی بعض صورتیں
Jan 28, 2019
شعبۂ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی
شعبۂ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
داستانِ امیرحمزہ میں عربی زبان سے اِستفادے کی بعض صورتیں
مشہورہے کہ اردوداستانِ امیرحمزہ فارسی سے ترجمہ ہے۔خودہمارے داستان گویوں نے اپنی کاوشوں کوترجمہ قرار دیااور باربار اعلان کیاکہ بڑی مشکل سے فارسی داستان کے چنداجزاحاصل ہوئے ہیں، انھیں ہم اردومیں سناتے ہیں۔ لیکن اصلاً اس طرح کے بیانات سامعین کے اشتیاق کوبڑھانے کے لیے تھے، کچھ کسرنفسی بھی اس میں شامل تھی۔ باقی پبلشروں کے ہتھ کنڈے تھے۔ بہرحال بات مشہور ہوگئی۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ہمارے داستان گویوں نے فارسی داستانِ امیرحمزہ کی بنیاد پرایک عظیم الشان کارنامہ انجام دیاہے جس کی وسعت ،رنگارنگی، ادبی حسن اوربوالعجبیوں کابڑاحصہ خود اردو داستان گویوں کے تخیل کاکرشمہ ہے۔
فارسی داستانِ امیرحمزہ کی بنیادکیاہے اوریہ کب لکھی گئی ،یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ سہیل بخاری کی تحقیق کے مطابق خلیفہ ہارون رشید کے ایک خارجی سردارحمزہ بن عبداللہ الشّارجی الخارجی کے مَغازی اس کی خشتِ اول ہیں۔ کہتے ہیں حمزہ بن عبداللہ خارجی ایک مدت تک ہارون رشیدسے نبردآزمارہا۔ اس نے سندھ، سراندیپ ،روم ،چین، تُرکستان وغیرہ کے سفربھی کیے۔ وہ مختلف مَمالک کی سیرسے فارغ ہوکرآخرکارہارون رشیدکے انتقال کے بعدسیستان لوٹاتواس کی سِیاحتوں اورجنگی فُتوحات کومعتقدین نے مَغازی حمزہ کے نام سے قلم بند کیا۔ بعد میں اس کتاب کومقبول بنانے کے لیے اس میں حمزہ سیستانی کی جگہ حمزہ بن عبدالمطّلب کا نام داخل کردیاگیا۔
تاریخِ سیستان کے ایک قدیم نسخے کے حوالے سے پیش کی گئی یہ دریافت فارسی داستانِ امیرحمزہ کی ابتدائی شکل سے متعلق ہے ۔ وقت کے ساتھ اس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ اس کارنگ روپ بدل گیا۔جب یہ فارسی سے اردومیں آئی تواس میںمزید اضافے ہوئے اورمتعدِد نئے سلسلے قائم ہوگئے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اردوداستانِ امیرحمزہ کابیش تر حصہ طبع زادہے لیکن اس کی بنیاد فارسی داستانِ امیرحمزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میںجابہ جا فارسی عناصرنظرآتے ہیں۔ فارسی کے علاوہ اس داستان پرعربی زبان کے اثرات کی بھی نشان دِہی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً اس کے مرکزی اوربہت سے ضمنی کردارعربی ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ داستان گویوں نے انھیں کہیں عربی اورکہیں عجمی رنگ میں پیش کیاہے۔
داستانِ امیرحمزہ میں ہزاروں کردارہیں ۔ایک طرف حق پرستوں کاسیلابِ بے پناہ ہے، دوسری جانب معبودانِ باطل کے ماننے والوں کی یلغار ہے۔ دونوں جانب مختلف مرتبے، مزاج، اوصاف اورجسمانی وذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں۔ حمزہ کے جاں نثاروں میں عَمروعیار ہیں، خواجہ زادگان ہیں، شہزادے ہیں اور عمروکے ایک لاکھ چالیس ہزارشاگرد ہیں۔ بہت سی ایسی ساحرائیںاور ساحرشہزادیاں بھی ہیں جوپہلے امیرحمزہ کی دشمن تھیں، پھربہ وجوہ حلیف بن گئیں۔ اُدھر مقابل فوج بھی افرادی قوتوں اورجنگی حربوں سے لیس ہے۔ شہرئہ آفاق جادوگر، جادوگرنیاں، عیاربچّیاں ،عفریت، بلائیں اور پہلوانانِ تہم تن شہنشاہِ طلسم ہوشربا افراسیاب کے اشارئہ چشم وابروکے منتظرہیں۔ ان کرداروں کے ناموں پرغورکیجیے توحق پرستوں میں سے بیش تر کے اسماعربی ہیں۔ مثلاً امیرحمزہ صاحب قِراں،عَمروعیار بن اُمیّہ ضُمَری ، ابوسعید لنگری، ابوطاہرخوں ریز، اسدبن کرب ،اسدِ ثانی، بدیع الزماں ،نورالدہر ،مظفربن ضیغم خوںآشام، نعمان بن مظفرشاہ یمنی ، خضران صحرانشیں، امیربولانا مُغلَق ،صدران ماہ منظر، علقمہ، ابراہیم بن مالک، حارث بن سعد، رفیع البخت بن بدیع الملک، سلیمان اعظم بن امیرحمزہ، سَمَک یلطاقی،سیارہ بن عمرو، سیف ذوالیدین، ضرغام شیردل، ضیغم شیرشکار، عامرشاہ دریابادی، عبدالجبار حلبی، عبدالرحمن جنّی ،قُریشیہ سلطان بنت امیرحمزہ، مُقبِلِ وفادار، ہاجرہ بنت حمزئہ ثانی، حکیم اسقلینوس وغیرہ وغیرہ۔
باطل پرستوں میں بھی عربی ناموں کی کمی نہیں۔ ان میں بعض وہ ہیں جوشروع میں امیرحمزہ کے مخالف اوربعد میں ہم نوابن جاتے ہیں۔ ان میں سے چندنام اوپرآچکے ہیں۔ اب بعض مخالفینِ امیرحمزہ کے نام ملاحظہ ہوں:
تنجیل بے قیٰل وقال، امیرالمکان ،حسین الزماں ، ساریق بن بقا، لات ومَنات، مشعل جادو، اِحتقاق جادو، ملک اخضر گوہرپوش، حکیم اِشراق الحکمت ،خداوندِ طبیعۂ مُجَرَّدہ، ذُوالخُرطوم ،سمٰوٰتِ روئیٰں تن، فریطا کوک عقرب چشم، قُرناس احول چشم ، موت اعظم،مَہلیل زنجیرہ پیچ، صلصال بن دال بن دیو، زِلزال بن خَلخال بن صلصال بن دال بن شمامہ،شعشاع بن مِشمِش، عروج بن بُروج بن عَوج بن عُنُق۔
داستانِ امیرحمزہ کی مختلف جلدوں سے ماخوذ ،مندرجہ بالابعض اسماکے فارسی لاحقوں یاسابِقوں سے قطع نظر، بنیادی طورسے یہ عربی نام ہیں۔ افرادِداستان کے علاوہ اشیا، مقامات ،مُعاملات، واقعاتِ حسن وعشق، قتال وجدال ،عیاری، اَسلحہ جات اورتحفہ جات پربھی عربی زبان کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ کہیں یہ اثرات خالص عربی ہیں اورکہیں براہِ فارسی ہم تک پہنچے ہیں۔
واضح ہوکہ یہ اثرات محض الفاظ کے انتخاب تک محدود نہیں ، مرکبات ،تراکیب اورطریقِ استعمال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ چندسطریں ملاحظہ ہوں:
’’بادشاہ نے اپنے سپہ سالارحمزہ صاحب قراں کی جانب دیکھا۔ صاحب قِراں نے عَمروبن اُمیّہ سے حکم دیاکہ پہلوانِ دوراں عادی کوبلائو اورپیش خیمہ طرف کوہِ عقیق کے روانہ کردو۔üüüüüدِلاور مسلح ومکمل ہوکر چلنے پرتیار ہوئے۔ بادشاہ مع سردارانِ گرامی کے اورصاحب قراں مع عیارانِ نامی کے سوار ہوکر بہ رہبری اہل کاروں کے اسی طرف چل نکلے۔‘‘
طلسمِ ہوش ربا:تنقیدوتلخیص ۔ص۴۴
اس اقتباس میں عربی الفاظ کی کثرت کے علاوہ جمع بنانے کاعربی قاعدہ بھی توجّہ طلب ہے ۔اردواورہندی میں بالعموم جمع بنانے کے لیے لفظ کے آخرمیں ’’ی ن‘‘یا’’ون‘‘ کااضافہ کرتے ہیں۔ جیسے عورت سے عورتیں یاعورتوں ،رات سے راتیں یاراتوں، بات سے باتیں یاباتوں، نگاہ سے نگاہیںیانگاہوں، لیکن فارسی اورعربی کے زیراثر اردومیں جمع بنانے کے کچھ اور طریقے بھی رائج ہیں۔ مثلاً فارسی قاعدے سے لفظ کے آخرمیں ’’اں‘‘ کااضافہ کرنا۔ یعنی سردارسے سرداراں، عیارسے عیاراں، اہل کارسے اہل کاراں۔ مُندرجہ بالااقتباس میں اسی فارسی قاعدے کی پیروی کی گئی ہے۔ اس قاعدے سے اہلِ اردو بعض دیسی الفاظ کی بھی جمع بنالیتے ہیں۔ مثلاً :آندھی سے آندھیاں، اٹکھیلی سے اٹکھیلیاں۔ طلسمِ ہوش ربا میں جمع کی یہ صورت بھی ملاحظہ ہو:
’’سامنے کچھارسے ایک آہومثلِ معشوقِ طنّاز سراپاناز اٹکھیلیاں کرتا، طرارے بھرتاپیداہوا۔‘‘طلسم ِہوش رُبا:تنقید و تلخیص۔ص۵۴
ایک اوراقتباس:
’’عَمروایک جھاڑی میں چھپ رہا، دیکھاکہ کئی سوارنیانِ مہ جبیں ومہ جبینانِ مِہرتمکیں برس پندرہ یاکہ سولہ کاسن، جوانی کی راتیں مرادوں کے دن، چلی آتی ہیں۔ ‘‘
مُندرجہ بالااقتباس میں ’’سوارنی‘‘ دیسی لفظ ہے ، اس کی جمع’’ان‘‘لگاکربنائی گئی ہے۔ اور فارسی قاعدے سے فارسی لفظ مہ جبیں کی جمع مہ جبینان بنائی گئی ہے۔ ایک اوراقتباس:
’’ہرروش پربجائے سرخی کے جواہرات کوٹ کرڈالاہے۔ درختوں کوبادلے سے منڈھاہے ۔منہدی کی ٹٹیاں اورتاکِ انگورہرایک آراستہ وپیراستہ، گردسبزئہ نوخاستہ۔‘‘ طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص
عربی قاعدے سے لفظ کے آخرمیں ’’ات‘‘ کااضافہ کرکے جمع بنانے کی ایک اورصورت اردومیں موجودہے۔ مثلاً مکان سے مکانات، نمبرسے نمبرات،خواہش سے خواہشات۔مُندرجہ بالااِقتباس میں عربی قاعدے سے جواہِرکی جمع بلکہ جوہر کی جمع الجمع جواہرات بنائی گئی ہے۔
جمع کے علاوہ عربی فارسی کے مرکبات کااستعمال بھی داستانِ امیرحمزہ کاایک نمایاں وصف ہے۔مثلاً :
’’لشکرِ جلالت پَژُوہ نے قریبِ کوہِ عقیق نُزولِ اِجلال وورودِ اقبال فرمایا۔‘‘
طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص۔ص۴۴
’’جب آئینہ مِہر میں شاہدِ صبح نے منہ دیکھااوروالنہارِ اذاتجلیٰ نے فروغ پایا، رات گزری اوردن آیا، دلاورانِ روزِہَیجا لشکرلے کرمیدان میں آئے اورصف شکنوں نے پَرے جمائے۔‘‘
طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص۔ص۰۸
داستانِ امیرحمزہ میں عربی فارسی کے الفاظ وتراکیب کے علاوہ فقرے اورمحاورے بھی جابہ جانظرآتے ہیں مثلاً والنہار اذا تجلیٰ ،الامرفوق الادب، اَیُّہاالنّاس، دافِعُ البلِیّات و کافی المُہِمّات ،رَضینا بالقَضا،کُن فیکون وغیرہ وغیرہ۔
داستان کے سامعین اس طرح کے جملوں، فقروں ،محاوروں سے اچھی طرح مانوس تھے۔ اس دورکی دوسری تصانیف میں بھی عربی سے استفادے کایہ رجحان نظرآتاہے لیکن داستان اوردیگر تصانیف کایہ فرق ملحوظ رہے کہ دوسری کتابوں میں عربی فارسی الفاظ وتراکیب مصنف کے ذوق کااظہار کرتے ہیں اور داستان میں یہ کاوش’’آغازِ داستان‘‘ میں قاری کومتوجہ کرنے کاکام بھی کرتی ہے۔ داستان گوبالقصد ’’آغازِ داستان‘‘ یاہرباب کے شروع میں عربی وفارسی آمیززبان استعمال کرتاہے۔ یہ ایک طرح کے تمہیدی جملے ہوتے ہیں جومتکلم اورسامع کو جوڑنے کافریضہ انجام دیتے ہیں۔
’’ساقیانِ خُم خانۂ اسما روجُرعہ نوشانِ جام افکار بادئہ ارغوانیِ شنجرف تحریرسے ساغرِ قرطاس کواس طرح مملوکرتے ہیں کہ زمرّد شاہ باختری نے طلسم ہزار شکل سے رہائی پائی۔ اس کے وزیربدتدبیرنے صلاح بتائی کہ ملکِ کوہِ عقیق گلزار سلیمانی کا بادشاہِ عالی جاہ فوجِ بے کراں وپہلوانانِ دوراں رکھتاہے اوراسی ملک سے ڈانڈا طلسم ہوش رُباکاملاہے، حاکمِ طلسم افرسیاب جادو، شہنشاہِ ساحراں، نہایت زورآورہے کہ نَہیبِ شمشیر سے اس کے، سرکشانِ دہرکانپتے اورتھراتے ہیں اورسحرآزمائی سے سامریِ عہداور جمشیدِ روزگارکان پکڑتے ہیں۔‘‘
طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص۔ص۳۴
داستان کے مزاج سے ناواقفیت کی وجہ سے آج ہم لوگ اس قسم کی تحریرکو خواہ مخواہ کی محنت سے تعبیرکرتے ہیںلیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ داستان گو جب مرصّع زبان استعمال کرتاتھا توسامعین تحسین کے ڈونگرے برساتے تھے۔ بات یہ ہے کہ اُن دنوں خواص ہی نہیں، عام پڑھے لکھے لوگ بھی عربی فارسی کے ذائقے سے آشناتھے۔ داستانیں ان کی تفریحِ طبع کاہی نہیں، ادبی ذوق کی سیرابی کابھی ایک ذریعہ تھیں۔ زبان کایہ استعمال اس بات کا ثبوت بھی تھاکہ داستان گوکواظہار پر کتناقابو ہے اورلفظوں سے اس کی کتنی شناسائی ہے۔
داستانوں میں عربی وفارسی الفاظ وتراکیب کے استعمال کی اس ادبی اہمیت کے پہلوبہ پہلو لسانی اہمیت بھی ہے۔ مثلاً اس نوع کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ ہمارے ادیبوں نے اردوکے ذخیرے کووسیع کرنے کے لیے کس طرح کے اِقدامات کیے، کن زبانوں سے استفادہ کیااور اظہار کے کون کون سے پیرایے اختیارکیے۔
ایک اوربات
ہم جانتے ہیں کہ اردوہندآریائی زبان ہے اورعربی کاتعلق زبانوں کے سامی خاندان سے ہے۔ گویااردواورعربی لسانی نقطہ نظرسے دوالگ الگ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن اب اسے مذہب کی طاقت کہیے ، اردواورعربی کے مختارات میں شمار کیجیے یالسانی عمل کاکرشمہ کہیے کہ اردونے عربی سے اس طرح استفادہ کیاکہ عام قارئین کے لیے من وتو کافرق مٹ گیا۔
٭٭٭
Prof. Q.H. Faridi
Department of Urdu
A.M.U. Aligarh (U.P)
India. 202002
پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی
شعبۂ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
داستانِ امیرحمزہ میں عربی زبان سے اِستفادے کی بعض صورتیں
مشہورہے کہ اردوداستانِ امیرحمزہ فارسی سے ترجمہ ہے۔خودہمارے داستان گویوں نے اپنی کاوشوں کوترجمہ قرار دیااور باربار اعلان کیاکہ بڑی مشکل سے فارسی داستان کے چنداجزاحاصل ہوئے ہیں، انھیں ہم اردومیں سناتے ہیں۔ لیکن اصلاً اس طرح کے بیانات سامعین کے اشتیاق کوبڑھانے کے لیے تھے، کچھ کسرنفسی بھی اس میں شامل تھی۔ باقی پبلشروں کے ہتھ کنڈے تھے۔ بہرحال بات مشہور ہوگئی۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ہمارے داستان گویوں نے فارسی داستانِ امیرحمزہ کی بنیاد پرایک عظیم الشان کارنامہ انجام دیاہے جس کی وسعت ،رنگارنگی، ادبی حسن اوربوالعجبیوں کابڑاحصہ خود اردو داستان گویوں کے تخیل کاکرشمہ ہے۔
فارسی داستانِ امیرحمزہ کی بنیادکیاہے اوریہ کب لکھی گئی ،یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ سہیل بخاری کی تحقیق کے مطابق خلیفہ ہارون رشید کے ایک خارجی سردارحمزہ بن عبداللہ الشّارجی الخارجی کے مَغازی اس کی خشتِ اول ہیں۔ کہتے ہیں حمزہ بن عبداللہ خارجی ایک مدت تک ہارون رشیدسے نبردآزمارہا۔ اس نے سندھ، سراندیپ ،روم ،چین، تُرکستان وغیرہ کے سفربھی کیے۔ وہ مختلف مَمالک کی سیرسے فارغ ہوکرآخرکارہارون رشیدکے انتقال کے بعدسیستان لوٹاتواس کی سِیاحتوں اورجنگی فُتوحات کومعتقدین نے مَغازی حمزہ کے نام سے قلم بند کیا۔ بعد میں اس کتاب کومقبول بنانے کے لیے اس میں حمزہ سیستانی کی جگہ حمزہ بن عبدالمطّلب کا نام داخل کردیاگیا۔
تاریخِ سیستان کے ایک قدیم نسخے کے حوالے سے پیش کی گئی یہ دریافت فارسی داستانِ امیرحمزہ کی ابتدائی شکل سے متعلق ہے ۔ وقت کے ساتھ اس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ اس کارنگ روپ بدل گیا۔جب یہ فارسی سے اردومیں آئی تواس میںمزید اضافے ہوئے اورمتعدِد نئے سلسلے قائم ہوگئے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اردوداستانِ امیرحمزہ کابیش تر حصہ طبع زادہے لیکن اس کی بنیاد فارسی داستانِ امیرحمزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میںجابہ جا فارسی عناصرنظرآتے ہیں۔ فارسی کے علاوہ اس داستان پرعربی زبان کے اثرات کی بھی نشان دِہی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً اس کے مرکزی اوربہت سے ضمنی کردارعربی ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ داستان گویوں نے انھیں کہیں عربی اورکہیں عجمی رنگ میں پیش کیاہے۔
داستانِ امیرحمزہ میں ہزاروں کردارہیں ۔ایک طرف حق پرستوں کاسیلابِ بے پناہ ہے، دوسری جانب معبودانِ باطل کے ماننے والوں کی یلغار ہے۔ دونوں جانب مختلف مرتبے، مزاج، اوصاف اورجسمانی وذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں۔ حمزہ کے جاں نثاروں میں عَمروعیار ہیں، خواجہ زادگان ہیں، شہزادے ہیں اور عمروکے ایک لاکھ چالیس ہزارشاگرد ہیں۔ بہت سی ایسی ساحرائیںاور ساحرشہزادیاں بھی ہیں جوپہلے امیرحمزہ کی دشمن تھیں، پھربہ وجوہ حلیف بن گئیں۔ اُدھر مقابل فوج بھی افرادی قوتوں اورجنگی حربوں سے لیس ہے۔ شہرئہ آفاق جادوگر، جادوگرنیاں، عیاربچّیاں ،عفریت، بلائیں اور پہلوانانِ تہم تن شہنشاہِ طلسم ہوشربا افراسیاب کے اشارئہ چشم وابروکے منتظرہیں۔ ان کرداروں کے ناموں پرغورکیجیے توحق پرستوں میں سے بیش تر کے اسماعربی ہیں۔ مثلاً امیرحمزہ صاحب قِراں،عَمروعیار بن اُمیّہ ضُمَری ، ابوسعید لنگری، ابوطاہرخوں ریز، اسدبن کرب ،اسدِ ثانی، بدیع الزماں ،نورالدہر ،مظفربن ضیغم خوںآشام، نعمان بن مظفرشاہ یمنی ، خضران صحرانشیں، امیربولانا مُغلَق ،صدران ماہ منظر، علقمہ، ابراہیم بن مالک، حارث بن سعد، رفیع البخت بن بدیع الملک، سلیمان اعظم بن امیرحمزہ، سَمَک یلطاقی،سیارہ بن عمرو، سیف ذوالیدین، ضرغام شیردل، ضیغم شیرشکار، عامرشاہ دریابادی، عبدالجبار حلبی، عبدالرحمن جنّی ،قُریشیہ سلطان بنت امیرحمزہ، مُقبِلِ وفادار، ہاجرہ بنت حمزئہ ثانی، حکیم اسقلینوس وغیرہ وغیرہ۔
باطل پرستوں میں بھی عربی ناموں کی کمی نہیں۔ ان میں بعض وہ ہیں جوشروع میں امیرحمزہ کے مخالف اوربعد میں ہم نوابن جاتے ہیں۔ ان میں سے چندنام اوپرآچکے ہیں۔ اب بعض مخالفینِ امیرحمزہ کے نام ملاحظہ ہوں:
تنجیل بے قیٰل وقال، امیرالمکان ،حسین الزماں ، ساریق بن بقا، لات ومَنات، مشعل جادو، اِحتقاق جادو، ملک اخضر گوہرپوش، حکیم اِشراق الحکمت ،خداوندِ طبیعۂ مُجَرَّدہ، ذُوالخُرطوم ،سمٰوٰتِ روئیٰں تن، فریطا کوک عقرب چشم، قُرناس احول چشم ، موت اعظم،مَہلیل زنجیرہ پیچ، صلصال بن دال بن دیو، زِلزال بن خَلخال بن صلصال بن دال بن شمامہ،شعشاع بن مِشمِش، عروج بن بُروج بن عَوج بن عُنُق۔
داستانِ امیرحمزہ کی مختلف جلدوں سے ماخوذ ،مندرجہ بالابعض اسماکے فارسی لاحقوں یاسابِقوں سے قطع نظر، بنیادی طورسے یہ عربی نام ہیں۔ افرادِداستان کے علاوہ اشیا، مقامات ،مُعاملات، واقعاتِ حسن وعشق، قتال وجدال ،عیاری، اَسلحہ جات اورتحفہ جات پربھی عربی زبان کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ کہیں یہ اثرات خالص عربی ہیں اورکہیں براہِ فارسی ہم تک پہنچے ہیں۔
واضح ہوکہ یہ اثرات محض الفاظ کے انتخاب تک محدود نہیں ، مرکبات ،تراکیب اورطریقِ استعمال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ چندسطریں ملاحظہ ہوں:
’’بادشاہ نے اپنے سپہ سالارحمزہ صاحب قراں کی جانب دیکھا۔ صاحب قِراں نے عَمروبن اُمیّہ سے حکم دیاکہ پہلوانِ دوراں عادی کوبلائو اورپیش خیمہ طرف کوہِ عقیق کے روانہ کردو۔üüüüüدِلاور مسلح ومکمل ہوکر چلنے پرتیار ہوئے۔ بادشاہ مع سردارانِ گرامی کے اورصاحب قراں مع عیارانِ نامی کے سوار ہوکر بہ رہبری اہل کاروں کے اسی طرف چل نکلے۔‘‘
طلسمِ ہوش ربا:تنقیدوتلخیص ۔ص۴۴
اس اقتباس میں عربی الفاظ کی کثرت کے علاوہ جمع بنانے کاعربی قاعدہ بھی توجّہ طلب ہے ۔اردواورہندی میں بالعموم جمع بنانے کے لیے لفظ کے آخرمیں ’’ی ن‘‘یا’’ون‘‘ کااضافہ کرتے ہیں۔ جیسے عورت سے عورتیں یاعورتوں ،رات سے راتیں یاراتوں، بات سے باتیں یاباتوں، نگاہ سے نگاہیںیانگاہوں، لیکن فارسی اورعربی کے زیراثر اردومیں جمع بنانے کے کچھ اور طریقے بھی رائج ہیں۔ مثلاً فارسی قاعدے سے لفظ کے آخرمیں ’’اں‘‘ کااضافہ کرنا۔ یعنی سردارسے سرداراں، عیارسے عیاراں، اہل کارسے اہل کاراں۔ مُندرجہ بالااقتباس میں اسی فارسی قاعدے کی پیروی کی گئی ہے۔ اس قاعدے سے اہلِ اردو بعض دیسی الفاظ کی بھی جمع بنالیتے ہیں۔ مثلاً :آندھی سے آندھیاں، اٹکھیلی سے اٹکھیلیاں۔ طلسمِ ہوش ربا میں جمع کی یہ صورت بھی ملاحظہ ہو:
’’سامنے کچھارسے ایک آہومثلِ معشوقِ طنّاز سراپاناز اٹکھیلیاں کرتا، طرارے بھرتاپیداہوا۔‘‘طلسم ِہوش رُبا:تنقید و تلخیص۔ص۵۴
ایک اوراقتباس:
’’عَمروایک جھاڑی میں چھپ رہا، دیکھاکہ کئی سوارنیانِ مہ جبیں ومہ جبینانِ مِہرتمکیں برس پندرہ یاکہ سولہ کاسن، جوانی کی راتیں مرادوں کے دن، چلی آتی ہیں۔ ‘‘
مُندرجہ بالااقتباس میں ’’سوارنی‘‘ دیسی لفظ ہے ، اس کی جمع’’ان‘‘لگاکربنائی گئی ہے۔ اور فارسی قاعدے سے فارسی لفظ مہ جبیں کی جمع مہ جبینان بنائی گئی ہے۔ ایک اوراقتباس:
’’ہرروش پربجائے سرخی کے جواہرات کوٹ کرڈالاہے۔ درختوں کوبادلے سے منڈھاہے ۔منہدی کی ٹٹیاں اورتاکِ انگورہرایک آراستہ وپیراستہ، گردسبزئہ نوخاستہ۔‘‘ طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص
عربی قاعدے سے لفظ کے آخرمیں ’’ات‘‘ کااضافہ کرکے جمع بنانے کی ایک اورصورت اردومیں موجودہے۔ مثلاً مکان سے مکانات، نمبرسے نمبرات،خواہش سے خواہشات۔مُندرجہ بالااِقتباس میں عربی قاعدے سے جواہِرکی جمع بلکہ جوہر کی جمع الجمع جواہرات بنائی گئی ہے۔
جمع کے علاوہ عربی فارسی کے مرکبات کااستعمال بھی داستانِ امیرحمزہ کاایک نمایاں وصف ہے۔مثلاً :
’’لشکرِ جلالت پَژُوہ نے قریبِ کوہِ عقیق نُزولِ اِجلال وورودِ اقبال فرمایا۔‘‘
طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص۔ص۴۴
’’جب آئینہ مِہر میں شاہدِ صبح نے منہ دیکھااوروالنہارِ اذاتجلیٰ نے فروغ پایا، رات گزری اوردن آیا، دلاورانِ روزِہَیجا لشکرلے کرمیدان میں آئے اورصف شکنوں نے پَرے جمائے۔‘‘
طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص۔ص۰۸
داستانِ امیرحمزہ میں عربی فارسی کے الفاظ وتراکیب کے علاوہ فقرے اورمحاورے بھی جابہ جانظرآتے ہیں مثلاً والنہار اذا تجلیٰ ،الامرفوق الادب، اَیُّہاالنّاس، دافِعُ البلِیّات و کافی المُہِمّات ،رَضینا بالقَضا،کُن فیکون وغیرہ وغیرہ۔
داستان کے سامعین اس طرح کے جملوں، فقروں ،محاوروں سے اچھی طرح مانوس تھے۔ اس دورکی دوسری تصانیف میں بھی عربی سے استفادے کایہ رجحان نظرآتاہے لیکن داستان اوردیگر تصانیف کایہ فرق ملحوظ رہے کہ دوسری کتابوں میں عربی فارسی الفاظ وتراکیب مصنف کے ذوق کااظہار کرتے ہیں اور داستان میں یہ کاوش’’آغازِ داستان‘‘ میں قاری کومتوجہ کرنے کاکام بھی کرتی ہے۔ داستان گوبالقصد ’’آغازِ داستان‘‘ یاہرباب کے شروع میں عربی وفارسی آمیززبان استعمال کرتاہے۔ یہ ایک طرح کے تمہیدی جملے ہوتے ہیں جومتکلم اورسامع کو جوڑنے کافریضہ انجام دیتے ہیں۔
’’ساقیانِ خُم خانۂ اسما روجُرعہ نوشانِ جام افکار بادئہ ارغوانیِ شنجرف تحریرسے ساغرِ قرطاس کواس طرح مملوکرتے ہیں کہ زمرّد شاہ باختری نے طلسم ہزار شکل سے رہائی پائی۔ اس کے وزیربدتدبیرنے صلاح بتائی کہ ملکِ کوہِ عقیق گلزار سلیمانی کا بادشاہِ عالی جاہ فوجِ بے کراں وپہلوانانِ دوراں رکھتاہے اوراسی ملک سے ڈانڈا طلسم ہوش رُباکاملاہے، حاکمِ طلسم افرسیاب جادو، شہنشاہِ ساحراں، نہایت زورآورہے کہ نَہیبِ شمشیر سے اس کے، سرکشانِ دہرکانپتے اورتھراتے ہیں اورسحرآزمائی سے سامریِ عہداور جمشیدِ روزگارکان پکڑتے ہیں۔‘‘
طلسم ہوش ربا:تنقید وتلخیص۔ص۳۴
داستان کے مزاج سے ناواقفیت کی وجہ سے آج ہم لوگ اس قسم کی تحریرکو خواہ مخواہ کی محنت سے تعبیرکرتے ہیںلیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ داستان گو جب مرصّع زبان استعمال کرتاتھا توسامعین تحسین کے ڈونگرے برساتے تھے۔ بات یہ ہے کہ اُن دنوں خواص ہی نہیں، عام پڑھے لکھے لوگ بھی عربی فارسی کے ذائقے سے آشناتھے۔ داستانیں ان کی تفریحِ طبع کاہی نہیں، ادبی ذوق کی سیرابی کابھی ایک ذریعہ تھیں۔ زبان کایہ استعمال اس بات کا ثبوت بھی تھاکہ داستان گوکواظہار پر کتناقابو ہے اورلفظوں سے اس کی کتنی شناسائی ہے۔
داستانوں میں عربی وفارسی الفاظ وتراکیب کے استعمال کی اس ادبی اہمیت کے پہلوبہ پہلو لسانی اہمیت بھی ہے۔ مثلاً اس نوع کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ ہمارے ادیبوں نے اردوکے ذخیرے کووسیع کرنے کے لیے کس طرح کے اِقدامات کیے، کن زبانوں سے استفادہ کیااور اظہار کے کون کون سے پیرایے اختیارکیے۔
ایک اوربات
ہم جانتے ہیں کہ اردوہندآریائی زبان ہے اورعربی کاتعلق زبانوں کے سامی خاندان سے ہے۔ گویااردواورعربی لسانی نقطہ نظرسے دوالگ الگ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن اب اسے مذہب کی طاقت کہیے ، اردواورعربی کے مختارات میں شمار کیجیے یالسانی عمل کاکرشمہ کہیے کہ اردونے عربی سے اس طرح استفادہ کیاکہ عام قارئین کے لیے من وتو کافرق مٹ گیا۔
٭٭٭
Prof. Q.H. Faridi
Department of Urdu
A.M.U. Aligarh (U.P)
India. 202002