پیمانوں سے پرے وجود
Oct 26, 2020
بوزنوں پر ایک نظم

پیمانوں سے پرے وجود
ساقی ہو کہ جام مست لب بام ہو
پیمانہ ہو کہ درد مند آشفتہ گام ہو
بھڑکے ہوئے الاو سے
سب خوف کھائیں ہیں
غم کو کریں غلط
سب مانتے ہیں درست
جل کے بھسم ہوں
ایسے نہیں ناسمجھ
جام کی تلخی ہو کہ
پیمانے کا خم ہو
ایک ذرا سی آنچ پہ
جاتے ہیں سب لپک
میں رازدان کیمیا گر
کندن کا ہوں مفرد
جلتا ہوا زمانوں سے کئی
کسی طور پہ میرا فسوں
میں نہیں منتظر
کسی مے نوش کی پیاس کی
جذبے میرے سلامت
میرے خوابوں کی سپاس بھی
ایک قافلہ دیکھتی ہوں رندوں کا روز میں
دیوانہ وار بڑھ رہا ہے
پیمانوں کی اور کو
ساقی انڈیلتے ہیں جام ہوس خوشرنگ و خوش بو
گھونٹ جن کے بھر کے یہ کرتے ہیں ہاو ہو
کسی کا درد لادوا وقتی علاج پاتا ہے
کوئی غم اپنوں کے دیئے خود ہی گٹگ جاتا ہے
اس طور پہ آنے کی چاہ کسے
اس راز پیمبری کو پانے کی چاہ کسے
یہ طلبگار حسن و ریا
یہ وفادار سود و زیاں
سب کوئلے ہیجان کے چبا جائیں گے
ہیرے علم و نور کے یہ بیچ کھائیں گے
بھٹکے ہویے یہ بوزنے کیوں میرے پاس آئیں گے۔۔۔
عینی علی