پھیری والوں کے نام

پھیری والوں کے نام

May 1, 2020

خواب گلی کتاب پر ایک تبصرہ

پھیری والوں کے نام

سبین علی

محترم محمود احمد قاضی نے  چند ہفتے قبل اپنی نئی کتاب خواب گلی کا تحفہ بھیجا تھا۔ وبا کے دنوں میں گلی کی کہانیاں پڑھیں اور ایک عجیب ذائقے سے روشناس ہوئی ۔ کتاب کا انتساب پھیری والوں کے نام ہے اور کہانیوں میں شامل ہے جیتی جاگتی سانس لیتی گلی کی روح جو بھٹکتی بھی ہے پابہ زنجیر بھی  ہے  سوانیوں سے دھلی اور دھلائی بھی جاتی ہے اور معتوب بھی ٹھہرائی جاتی ہے ۔ یہیں اسی گلی میں گئے دنوں کی پر اسرار آوازیں ہیں۔ مہیب سے آسیب ہیں اور چمکتی صبحیں گلابی شامیں بھی ہیں۔

گلی جو ایک عالم سے اتصال کی خواہاں ہے جو بھٹے میں جل کر خام سے پختہ ہوئی ہے صدیوں کے گرم سرد دیکھ چکی ہے وہ مصنف کے سامنے اپنے سارے بھید اگلنے لگ جاتی ہے۔ اور مصنف کمال بے نیازی سے اس کے بھید  قرطاس پر رقم کر کے فاش کیے جاتے ہیں۔  

عوامی ادب کیا ہوتا ہے ۔ کیسے لکھا جاتا ہے؟ میرے خیال سے اس کے لیے عام لوگوں، عام چوباروں ، عام گلیوں عام اینٹوں روڑوں دھول مٹی سب کا ہم راز بننا پڑتا ہے ۔ گلی سے اتصال کے بعد جیسے نجیب محفوظ نے مصر کے گلی کوچے اور ان کے شب و روز بیان کر ڈالے جیسے  غالب نے اپنے خطوط  میں انسانوں کے علاوہ دلی کے گلی کوچوں کے احوال لکھ ڈالے جیسے  گورکی نے مزدوروں کے احوال لکھے ویسے ہی محمود احمد قاضی کے لیے پھیری والے بھی خاص ہو جاتے ہیں اور کبوتر باز بھی ۔ کرداروں کے پاؤں میں پڑی زنجیروں میں گینگرین بن جاتے ہیں مگر کہانی انہیں آزاد کر دیتی ہے۔ گھروں میں برتن مانجھتی بڑھیا اور اس کی جوان بیوہ بہو کے پاگل ہو جانے کا تماشا جو گلی چپ چاپ دیکھتی ہے مصنف کا قلم اس کو بڑی شدت سے محسوس کروا دیتا ہے۔ جادوگرنیاں سی دکھائی دیتی عورتوں کے پیچھے ماضی کے بھوت کبوتر بن کر چمٹے ہیں۔ کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ انہیں کہانیوں سے اڑ کر کبوتر جمیل نقش کے کینوس پر جا بیٹھے تھے اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ جمیل نقش کا کوئی کبوتر محمود احمد قاضی کی خواب گلی کی کسی ممٹی پر آن بیٹھا ہو۔ خواب گلی میں عورت اور کبوتر ایک گہری تمثیل ہے اسی گلی میں شادی بیگم جیسی رسم پر قربان ہوئی مگر بالآخر مزاحم عورتیں بھی ہیں۔  بھائی کو ہی قتل کر دینے والے مرد اور خواب محفوظ کرنے والا محروم خواب بھی ہے۔

ایک عرصہ میں سمجھتی رہی کہ دنیا کا بہترین ادب سمندر کے سفر، بحری  مہم جوئی اور کسی نہ کسی طرح انسان اور سمندر کے اتصال پر لکھا گیا ہے۔

لیکن جہاں سمندر نہ بہتا ہو اور تنگ گلیوں میں سورج کی روشنی زمین پر پہنچتے پہنچتے کنی کترا کر گزر جائے کیا وہاں انسانوں کی داستانیں نہ ہوتی ہوں گی۔ اور خواب گلی پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ انسان خواہ کسی دیس کا باسی ہو اس کے وہی رنج ہیں وہی خوشیاں۔ اس کے درون ذات جھانکیں، تو چاہے  بڑی مچھلی کے شکار پر نکلا بوڑھا ہو یا گلی کی یاترا کرنے والا طبیب سب اسی طرح کے  حیرت انگیز واقعات اور سانحات سے دوچار ہوتے ہیں۔ بھائی کو مارنے جیسے یا مچھلی کو برادر کہہ کر مارنے جیسے۔

کتاب مطاف پبلی کیشنز گوجرانولہ نے شائع کی ہے۔  اگر کتاب دستیاب ہو  ضرور پڑھیے۔

پھیری والوں کے نام

سبین علی

محترم محمود احمد قاضی نے  چند ہفتے قبل اپنی نئی کتاب خواب گلی کا تحفہ بھیجا تھا۔ وبا کے دنوں میں گلی کی کہانیاں پڑھیں اور ایک عجیب ذائقے سے روشناس ہوئی ۔ کتاب کا انتساب پھیری والوں کے نام ہے اور کہانیوں میں شامل ہے جیتی جاگتی سانس لیتی گلی کی روح جو بھٹکتی بھی ہے پابہ زنجیر بھی  ہے  سوانیوں سے دھلی اور دھلائی بھی جاتی ہے اور معتوب بھی ٹھہرائی جاتی ہے ۔ یہیں اسی گلی میں گئے دنوں کی پر اسرار آوازیں ہیں۔ مہیب سے آسیب ہیں اور چمکتی صبحیں گلابی شامیں بھی ہیں۔

گلی جو ایک عالم سے اتصال کی خواہاں ہے جو بھٹے میں جل کر خام سے پختہ ہوئی ہے صدیوں کے گرم سرد دیکھ چکی ہے وہ مصنف کے سامنے اپنے سارے بھید اگلنے لگ جاتی ہے۔ اور مصنف کمال بے نیازی سے اس کے بھید  قرطاس پر رقم کر کے فاش کیے جاتے ہیں۔  

عوامی ادب کیا ہوتا ہے ۔ کیسے لکھا جاتا ہے؟ میرے خیال سے اس کے لیے عام لوگوں، عام چوباروں ، عام گلیوں عام اینٹوں روڑوں دھول مٹی سب کا ہم راز بننا پڑتا ہے ۔ گلی سے اتصال کے بعد جیسے نجیب محفوظ نے مصر کے گلی کوچے اور ان کے شب و روز بیان کر ڈالے جیسے  غالب نے اپنے خطوط  میں انسانوں کے علاوہ دلی کے گلی کوچوں کے احوال لکھ ڈالے جیسے  گورکی نے مزدوروں کے احوال لکھے ویسے ہی محمود احمد قاضی کے لیے پھیری والے بھی خاص ہو جاتے ہیں اور کبوتر باز بھی ۔ کرداروں کے پاؤں میں پڑی زنجیروں میں گینگرین بن جاتے ہیں مگر کہانی انہیں آزاد کر دیتی ہے۔ گھروں میں برتن مانجھتی بڑھیا اور اس کی جوان بیوہ بہو کے پاگل ہو جانے کا تماشا جو گلی چپ چاپ دیکھتی ہے مصنف کا قلم اس کو بڑی شدت سے محسوس کروا دیتا ہے۔ جادوگرنیاں سی دکھائی دیتی عورتوں کے پیچھے ماضی کے بھوت کبوتر بن کر چمٹے ہیں۔ کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ انہیں کہانیوں سے اڑ کر کبوتر جمیل نقش کے کینوس پر جا بیٹھے تھے اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ جمیل نقش کا کوئی کبوتر محمود احمد قاضی کی خواب گلی کی کسی ممٹی پر آن بیٹھا ہو۔ خواب گلی میں عورت اور کبوتر ایک گہری تمثیل ہے اسی گلی میں شادی بیگم جیسی رسم پر قربان ہوئی مگر بالآخر مزاحم عورتیں بھی ہیں۔  بھائی کو ہی قتل کر دینے والے مرد اور خواب محفوظ کرنے والا محروم خواب بھی ہے۔

ایک عرصہ میں سمجھتی رہی کہ دنیا کا بہترین ادب سمندر کے سفر، بحری  مہم جوئی اور کسی نہ کسی طرح انسان اور سمندر کے اتصال پر لکھا گیا ہے۔

لیکن جہاں سمندر نہ بہتا ہو اور تنگ گلیوں میں سورج کی روشنی زمین پر پہنچتے پہنچتے کنی کترا کر گزر جائے کیا وہاں انسانوں کی داستانیں نہ ہوتی ہوں گی۔ اور خواب گلی پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ انسان خواہ کسی دیس کا باسی ہو اس کے وہی رنج ہیں وہی خوشیاں۔ اس کے درون ذات جھانکیں، تو چاہے  بڑی مچھلی کے شکار پر نکلا بوڑھا ہو یا گلی کی یاترا کرنے والا طبیب سب اسی طرح کے  حیرت انگیز واقعات اور سانحات سے دوچار ہوتے ہیں۔ بھائی کو مارنے جیسے یا مچھلی کو برادر کہہ کر مارنے جیسے۔

کتاب مطاف پبلی کیشنز گوجرانولہ نے شائع کی ہے۔  اگر کتاب دستیاب ہو  ضرور پڑھیے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024