پیراڈوکس کے قیدی

پیراڈوکس کے قیدی

Feb 16, 2025

مصنف

سبین علی

شمارہ

شمارہ -٨ ٢

"پیراڈوکس کے قیدی"افسانوی مجموعہ

تبصرہ : سبین علی

ذرا ایک ایسے تخلیق کار کو تصور کیجیے جو حساس دل اور سوچنے والا ذہن رکھتا ہو اسے اور اس کے اجداد کو نسل در نسل ہجرتوں کے کرب سہنے پڑے ہوں۔ وہ ہجرتیں جن کے سرے سفرِ کربلا سے جا ملتے ہیں۔ آل حسین رضی اللہ عنہ عرب کو چھوڑ کر عراق ، فارس اور پھر ہندوستان میں آن بسی تھی۔ یہ ہجرت ہر چند نسلوں کے بعد کسی نئی سرزمین پر لوگوں کو یوں اڑا لے جاتی رہی جیسی خزاں کی ہوا خشک پتوں اور بیجوں کو دور دراز زمینوں تک پہنچا دیتی ہے۔ جیسے بدلتے موسم کے ساتھ خانہ بدوش چراہ گاہوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ایسے ہی سلمی جیلانی جن کے اجداد عرب سے عراق ایران ہندوستان ، پھر سنتالیس میں ان کے والد اور دادی پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔

جب کراچی میں مصنوعی غنڈہ گردی جسے کسی سیاسی ایجنڈے کے تحت پھیلایا گیا تھا سلمی جیلانی جو کراچی کے ایک گورمنٹ کالج میں لیکچرار تھیں نیوزی لینڈ کی جانب ہجرت کر گئیں۔ نیوزی میں کچھ عرصہ مختلف ملازمتوں کے بعد آکلینڈ میں بین الاقوامی طلباء کی درس و تدریس سے وابستہ ہوئیں۔ درس و تدریس کے اسی دور میں انہوں نے بین الاقوامی طلباء کے مسائل کو کہانیوں میں بیان کیا۔

سلمی جیلانی کی دوسری کتاب پیراڈوکس کے قیدی کے نام سے شائع ہوئی ۔ جسے مہر در پبلشرز نے شائع کیا اس میں طویل افسانے مختصر کہانیاں اور مائیکروفکشن جمع کیے گئے ہیں جن کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔

سلمی کی کہانیوں میں کارپوریٹ کلچر اور کیپٹل ازم کے اثرات تلے بوسیدہ تہذیب کے انبار نظر آتے ہیں۔ جس میں ذات پات اور چھوت چھات کی نفرتیں رقم ہیں۔ تباہ ہوتے ماحول اور فضاؤں کے قصے ییں اور کرائے پر دی گئی کوکھ سے لے کر جھینگوں کی خوراک بنانے کے لیے بیٹ کے طور سمندر میں پھینکے گئے روہنگیا مہاجروں کے قصے ہیں ۔ یہ قصے ایسے دردناک ہیں کہ آپ کتاب کو ایک نشست میں پڑھ ہی نہیں سکتے۔ یہ قاری کو اتنا بے چین کرتے ہیں کہ چند کہانیاں پڑھ کر کتاب ایک طرف رکھنا پڑتی ہے تاکہ اگلی کہانیوں میں پھیلی داستانیں پڑھنے کے لیے ہمت جمع کی جا سکے۔

پیرا ڈوکس کے قیدی کراچی کے اس دور کی کہانی ہے جب سٹریٹ کرائم بھتہ خوری اور اجرتی قتل کو اشرافیہ کی سرپرستی تلے پروان چڑھایا گیا۔ ایسا دور جس میں گھبرا کر ایک بڑی تعداد نے ملک سے ہجرت کرنے میں عافیت جانی ۔

ہجرتوں کے بعد ان لوگوں پر کیا بیتا؟ ایسی کئی کہانیاں کتاب میں شامل ہیں جن میں سنگ سیم تاریک راہوں میں مارے گئے روہنگیا کے مہاجر مسلمانوں کی روح فرسا داستانیں ، گرمٹیہ کے الم ناک قصے ، جنگ کی ہولناکیوں سے متاثرہ مہاجر کیمپوں میں بستے بچوں کی تصویر کشی کرتی کہانیاں قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔

حقیقت بظاہر سادہ ہے مگر کسی ہارر فلم سے زیادہ خوفناک منظر پیش کرتی ہیں۔ انکاکہانی اور پومپائی ماضی کے دریچوں سے جھانکتی داستانوں کے پس منطر میں لکھی گئی ہیں اس طرح وادی سندھ کی قدیم تہذیب میں موہونجودڑو کی داستان میں ایسے رنگ بھرا کہ ڈانسنگ گرل کا کردار آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔

اس کے علاوہ سلمی کے افسانوں اور مختصر کہنایوں میں صارفیت کے کلچر سرمایہ دارانہ نظام اور برانڈ لائلٹی اور تیز رفتار صنعتی ترقی کے پس منظر میں پھیلتی ماحولیاتی الودگی جیسے مسائل پر بھی کہانیاں شامل ہیں ۔

کیپٹل ازم معاشی ہجرت اور مزدور کے استحصال کی تکون کبھی ختم نہیں ہوتی اس لیے پیراڈوکس کے قیدی میں موضوع اور کہانی جو بھی لکھی گئی پس منظر میں ہمیں امپیریل ازم اور نیو کیپٹل ازم کے جبر لازماً ملتے ہیں۔

جبر کی کوکھ سے مزاحمت پھوٹتی ہے۔ اس کتاب میں کئی جبر سے مزاحمت کی صورت لی شوئی کی گلیوں لںیوژینگ جیسی کچرا چننے والے انسانوں کو کار آمد بنانے کی سعی میں جتی اس اندھیر نگری کے نظام کے مقابل دیا جلاتی نظر آتی ہے۔ قندیل ڈائری بے رنگ پیوند کھچڑی ایک الگ زاویہ سے دنیا کو دیکھنے اور دکھانے کی سعی ہیں

یہی جدوجہد اور مزاحمت اس کتاب کا ماحصل ہے ۔

اس کتاب میں افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ مائیکروفکشن کی ذیل میں لکھی گئی مختصر ترین کہانیاں شامل ہیں ۔ کئی کہانیاں پچیس سے پچاس الفاظ کے درمیان میں لکھی گئی ہیں۔ جو مصنفہ کی مائیکرو فکشن کی تکنیک پر گرفت اور مہارت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہر مائیکرو فکشن کا اختتام چونکا دینے والا یا ہھر فکر انگیز ہے ۔

کتاب مہر در پبلشر کوئٹہ نے شائع کی یے۔ فلیپ کی آراء کی بجائے سلمی جیلانی نے اپنے والدین کے بارے میں دو مضامین شامل کر کے روایت سے خوبصورت انحراف کیا ہے۔

"پیراڈوکس کے قیدی"افسانوی مجموعہ

تبصرہ : سبین علی

ذرا ایک ایسے تخلیق کار کو تصور کیجیے جو حساس دل اور سوچنے والا ذہن رکھتا ہو اسے اور اس کے اجداد کو نسل در نسل ہجرتوں کے کرب سہنے پڑے ہوں۔ وہ ہجرتیں جن کے سرے سفرِ کربلا سے جا ملتے ہیں۔ آل حسین رضی اللہ عنہ عرب کو چھوڑ کر عراق ، فارس اور پھر ہندوستان میں آن بسی تھی۔ یہ ہجرت ہر چند نسلوں کے بعد کسی نئی سرزمین پر لوگوں کو یوں اڑا لے جاتی رہی جیسی خزاں کی ہوا خشک پتوں اور بیجوں کو دور دراز زمینوں تک پہنچا دیتی ہے۔ جیسے بدلتے موسم کے ساتھ خانہ بدوش چراہ گاہوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ایسے ہی سلمی جیلانی جن کے اجداد عرب سے عراق ایران ہندوستان ، پھر سنتالیس میں ان کے والد اور دادی پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔

جب کراچی میں مصنوعی غنڈہ گردی جسے کسی سیاسی ایجنڈے کے تحت پھیلایا گیا تھا سلمی جیلانی جو کراچی کے ایک گورمنٹ کالج میں لیکچرار تھیں نیوزی لینڈ کی جانب ہجرت کر گئیں۔ نیوزی میں کچھ عرصہ مختلف ملازمتوں کے بعد آکلینڈ میں بین الاقوامی طلباء کی درس و تدریس سے وابستہ ہوئیں۔ درس و تدریس کے اسی دور میں انہوں نے بین الاقوامی طلباء کے مسائل کو کہانیوں میں بیان کیا۔

سلمی جیلانی کی دوسری کتاب پیراڈوکس کے قیدی کے نام سے شائع ہوئی ۔ جسے مہر در پبلشرز نے شائع کیا اس میں طویل افسانے مختصر کہانیاں اور مائیکروفکشن جمع کیے گئے ہیں جن کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔

سلمی کی کہانیوں میں کارپوریٹ کلچر اور کیپٹل ازم کے اثرات تلے بوسیدہ تہذیب کے انبار نظر آتے ہیں۔ جس میں ذات پات اور چھوت چھات کی نفرتیں رقم ہیں۔ تباہ ہوتے ماحول اور فضاؤں کے قصے ییں اور کرائے پر دی گئی کوکھ سے لے کر جھینگوں کی خوراک بنانے کے لیے بیٹ کے طور سمندر میں پھینکے گئے روہنگیا مہاجروں کے قصے ہیں ۔ یہ قصے ایسے دردناک ہیں کہ آپ کتاب کو ایک نشست میں پڑھ ہی نہیں سکتے۔ یہ قاری کو اتنا بے چین کرتے ہیں کہ چند کہانیاں پڑھ کر کتاب ایک طرف رکھنا پڑتی ہے تاکہ اگلی کہانیوں میں پھیلی داستانیں پڑھنے کے لیے ہمت جمع کی جا سکے۔

پیرا ڈوکس کے قیدی کراچی کے اس دور کی کہانی ہے جب سٹریٹ کرائم بھتہ خوری اور اجرتی قتل کو اشرافیہ کی سرپرستی تلے پروان چڑھایا گیا۔ ایسا دور جس میں گھبرا کر ایک بڑی تعداد نے ملک سے ہجرت کرنے میں عافیت جانی ۔

ہجرتوں کے بعد ان لوگوں پر کیا بیتا؟ ایسی کئی کہانیاں کتاب میں شامل ہیں جن میں سنگ سیم تاریک راہوں میں مارے گئے روہنگیا کے مہاجر مسلمانوں کی روح فرسا داستانیں ، گرمٹیہ کے الم ناک قصے ، جنگ کی ہولناکیوں سے متاثرہ مہاجر کیمپوں میں بستے بچوں کی تصویر کشی کرتی کہانیاں قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔

حقیقت بظاہر سادہ ہے مگر کسی ہارر فلم سے زیادہ خوفناک منظر پیش کرتی ہیں۔ انکاکہانی اور پومپائی ماضی کے دریچوں سے جھانکتی داستانوں کے پس منطر میں لکھی گئی ہیں اس طرح وادی سندھ کی قدیم تہذیب میں موہونجودڑو کی داستان میں ایسے رنگ بھرا کہ ڈانسنگ گرل کا کردار آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔

اس کے علاوہ سلمی کے افسانوں اور مختصر کہنایوں میں صارفیت کے کلچر سرمایہ دارانہ نظام اور برانڈ لائلٹی اور تیز رفتار صنعتی ترقی کے پس منظر میں پھیلتی ماحولیاتی الودگی جیسے مسائل پر بھی کہانیاں شامل ہیں ۔

کیپٹل ازم معاشی ہجرت اور مزدور کے استحصال کی تکون کبھی ختم نہیں ہوتی اس لیے پیراڈوکس کے قیدی میں موضوع اور کہانی جو بھی لکھی گئی پس منظر میں ہمیں امپیریل ازم اور نیو کیپٹل ازم کے جبر لازماً ملتے ہیں۔

جبر کی کوکھ سے مزاحمت پھوٹتی ہے۔ اس کتاب میں کئی جبر سے مزاحمت کی صورت لی شوئی کی گلیوں لںیوژینگ جیسی کچرا چننے والے انسانوں کو کار آمد بنانے کی سعی میں جتی اس اندھیر نگری کے نظام کے مقابل دیا جلاتی نظر آتی ہے۔ قندیل ڈائری بے رنگ پیوند کھچڑی ایک الگ زاویہ سے دنیا کو دیکھنے اور دکھانے کی سعی ہیں

یہی جدوجہد اور مزاحمت اس کتاب کا ماحصل ہے ۔

اس کتاب میں افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ مائیکروفکشن کی ذیل میں لکھی گئی مختصر ترین کہانیاں شامل ہیں ۔ کئی کہانیاں پچیس سے پچاس الفاظ کے درمیان میں لکھی گئی ہیں۔ جو مصنفہ کی مائیکرو فکشن کی تکنیک پر گرفت اور مہارت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہر مائیکرو فکشن کا اختتام چونکا دینے والا یا ہھر فکر انگیز ہے ۔

کتاب مہر در پبلشر کوئٹہ نے شائع کی یے۔ فلیپ کی آراء کی بجائے سلمی جیلانی نے اپنے والدین کے بارے میں دو مضامین شامل کر کے روایت سے خوبصورت انحراف کیا ہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024