پینڈیمک نمبر
پینڈیمک نمبر
Feb 28, 2022
اداریہ دیدبان
اداریہ دیدبان
پینڈیمک نمبر
سبین علی
ورچوئل ورلڈ ، میٹا یا اس پوری سائبر سیویلائزیشن میں انسان حقیقی طور پر سماجی تنہائی کا شکار تھا۔ حقیقی دنیا میں جب کرونا کی پہلی لہر آئی تو سماجی دوری لازمی قرار پائی۔ جہاں دنیا بھر سے بہت سے حلقے اس وائرس کو انسانی کوتاہی قرار دیتے ہیں وہیں بہت سی تھیوریز یہ بھی ہیں کہ وائرس لیبارٹری میں تیار کر کے پھیلایا گیا۔ وجہ کوئی بھی ہو سماجی دوری نے انسان کو ورچوئل ورلڈ میں زیادہ متحرک کر دیا۔ کرونا کی دوسری تیسری اور پھر چوتھی لہر نے کمزور معشیت رکھنے والے ممالک کی کمر توڑ دی۔ عوام مہنگائی کے طوفان کے سامنے بے بس نظر آئے اور حکومتوں یا ممالک کی بجائے کچھ کمپنیوں نے دنیا کے منافع کا بڑا حصہ کمایا ۔ وائرس کے علاج اور ویکسینیشن پر اٹھنے والے اخراجات سے قبل ہی سماجی دوری آن لائین کلاسز اور گھر سے دفاتر کا کام سر انجام دینا لازمی قرار پایا تو لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور سمارٹ فون اور سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیوں کے منافق میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بیچ بیچ میں لاک ڈاؤن نرم اور سخت ہوتا رہا ۔ ہر نئی کرونا لہر اپنے ساتھ نئے وئیرینٹ لاتی رہی جن میں سے بھارت میں تباہی مچانے والا ڈیلٹیا وئیرینٹ ، افریقی وئیرینٹ اور پھر اومیکرون جن کے خلاف ویکسین بھی اتنی مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔ انسان اور وائرس کی جنگ میں چوہے بلی کے کھیل جیسی بازی کا آغاز یوں ہوا کہ جب ویکسینیشن شروع ہوئی ساتھ ہی نئے وئرینٹ اسے پھر محدود اثر کی حامل بنا چکے تھے۔
سائبر ورلڈ کے بعد فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی پانچوں گھی میں ہیں۔ غریب ممالک کو تو کچھ ویکسین عطیات کی صورت میں ملی اور کچھ خریدنا پڑی مگر ترقی یافتہ اور امیر ممالک بھی اس وبا کے نتیجے میں بڑے اقتصادی نقصانات سے دوچار ہوئے۔
بین الاقوامی ہوائی سفر کئی پابندیوں کے بعد جزوی طور پر کھلتا اور پھر پابندی کا شکار ہوتا رہا۔ جب جب مختلف ممالک میں بین الاقوامی سفر کی اجازت ملتی ساتھ ہی پی سی آر ٹیسٹ ویکسین اور کوارنٹائین کے بھاری اخراجات الگ سے شامل ہوتے گئے۔ ایسے میں غور و فکر کرنے والے لوگ خدشات کا شکار نظر آئے کہ آیا دنیا میں پھر سے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی کمپنیاں حکومت کریں گی؟
سوشل میڈیا ورلڈ میں مارک زکر برگ نے میٹا ورس لانچ کر دی ۔ آن لائین کلاسز اور کئی تعلیمی ادارے ان ایپس پر تکیہ کیے بیٹھے تھے جہاں اب ڈاٹا بغیر کسی نوٹس کے حذف کر دیا جاتا ہے۔ آزادی اظہار صرف اس صورت ممکن ہے جب آپ ایپ ڈویویلپر کی مرضی کی بات کریں۔ مخالفت میں لکھا کوئی بھی لفظ خودکار طریقے سے ایپ پروائیڈر کی جانب سے آپ کو بلاک کر سکتا ہے ۔
گویا کرونا نے پہلے سے جاری سائبر سویلائزیشن کے خدو خال نمایاں کر دیے ہیں۔
سماجی دوری تو کرونا سے قبل ہی ایک وبا کی مانند پھیل رہی تھی۔ انسان اپنے گرد و پیش سے کٹا ہوا دور دنیا میں ایسے انسانوں کے قرب کا خواہاں تھا جہاں اسے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور کمنٹس مل سکیں۔ قریب بیٹھے اپنے ہی بچوں سے دور اور کسی نامعلوم مقام پہ کسی فیک آئی ڈی سے قریب انسان اپنے گردو پیش میں موجود حقیقی انسانوں کی خوشی ،رنج، تکلیف یا بیماری تک سے بے خبر ان سے دور ہو چکا تھا مگر سائبر سیکس کے نت نئے انداز اس کے لیے بڑی کشش کا باعث تھے ۔ گویا کرونا کے نتیجے میں در آنے والی سماجی تنہائی اور ورچوئل ورلڈ میں داخلہ کسی نہ کسی سطح پر پہلے سے تھا جو بعد میں بڑے کیپٹلسٹ کا منافع بخش ہدف بنا ۔
ابھی تک دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن ہو چکی ہے اور ویکسینیشن نہ کروانے والوں پر سخت سفری پابندیاں عائد ہیں۔ بظاہر تو اس وبا کو قابو میں آ جانا چاہیے تھا مگر تاحال اس وبا کا خوف برقرار ہے جو دنیا کے لاکھوں انسانوں کو متاثر کر چکی یے۔
ایسے میں سوچنے والے اذہان اس کے ہر پہلو پر قلم اٹھا رہے ہیں۔ کرونا نے حساس اذہان کو اور اہل قلم کو کچھ زیادہ متاثر کیا۔ یہ حساس لوگ جو سرمایہ اور استعمار کے خلاف لکھتے نہ چونکتے تھے اس کارپوریٹ وبا کے سب سامنے جسمانی مدافعت نہ لا سکے۔ کرونا کی یہ وبا مشرف عالم ذوقی تبسم فاطمہ اور ڈاکٹر خورشید نسرین المعروف امواج الساحل سمیت کتنے ہی بڑے ادیبوں اور دانشوروں کو نگل چکی ہے ۔ دیدبان کا نیا شمارہ پھر سے پینڈیمک پر ہی نکالا گیا ہے۔ اس شمارے میں ڈاکٹر ابرار احمد کے بارے میں یاد رفتگاں کا خصوصی گوشہ بھی شامل ہے جو دیدبان کے آغاز سے ہی اس کے لیے لکھتے رہے۔
امید ہے یہ شمارہ ادب کے قارئین کے ذوق کی تسکین کے ساتھ پینڈیمک ادب پر ایک حوالے کے طور پر بھی محفوظ کیا جا سکے گا۔
اداریہ دیدبان
پینڈیمک نمبر
سبین علی
ورچوئل ورلڈ ، میٹا یا اس پوری سائبر سیویلائزیشن میں انسان حقیقی طور پر سماجی تنہائی کا شکار تھا۔ حقیقی دنیا میں جب کرونا کی پہلی لہر آئی تو سماجی دوری لازمی قرار پائی۔ جہاں دنیا بھر سے بہت سے حلقے اس وائرس کو انسانی کوتاہی قرار دیتے ہیں وہیں بہت سی تھیوریز یہ بھی ہیں کہ وائرس لیبارٹری میں تیار کر کے پھیلایا گیا۔ وجہ کوئی بھی ہو سماجی دوری نے انسان کو ورچوئل ورلڈ میں زیادہ متحرک کر دیا۔ کرونا کی دوسری تیسری اور پھر چوتھی لہر نے کمزور معشیت رکھنے والے ممالک کی کمر توڑ دی۔ عوام مہنگائی کے طوفان کے سامنے بے بس نظر آئے اور حکومتوں یا ممالک کی بجائے کچھ کمپنیوں نے دنیا کے منافع کا بڑا حصہ کمایا ۔ وائرس کے علاج اور ویکسینیشن پر اٹھنے والے اخراجات سے قبل ہی سماجی دوری آن لائین کلاسز اور گھر سے دفاتر کا کام سر انجام دینا لازمی قرار پایا تو لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور سمارٹ فون اور سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیوں کے منافق میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بیچ بیچ میں لاک ڈاؤن نرم اور سخت ہوتا رہا ۔ ہر نئی کرونا لہر اپنے ساتھ نئے وئیرینٹ لاتی رہی جن میں سے بھارت میں تباہی مچانے والا ڈیلٹیا وئیرینٹ ، افریقی وئیرینٹ اور پھر اومیکرون جن کے خلاف ویکسین بھی اتنی مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔ انسان اور وائرس کی جنگ میں چوہے بلی کے کھیل جیسی بازی کا آغاز یوں ہوا کہ جب ویکسینیشن شروع ہوئی ساتھ ہی نئے وئرینٹ اسے پھر محدود اثر کی حامل بنا چکے تھے۔
سائبر ورلڈ کے بعد فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی پانچوں گھی میں ہیں۔ غریب ممالک کو تو کچھ ویکسین عطیات کی صورت میں ملی اور کچھ خریدنا پڑی مگر ترقی یافتہ اور امیر ممالک بھی اس وبا کے نتیجے میں بڑے اقتصادی نقصانات سے دوچار ہوئے۔
بین الاقوامی ہوائی سفر کئی پابندیوں کے بعد جزوی طور پر کھلتا اور پھر پابندی کا شکار ہوتا رہا۔ جب جب مختلف ممالک میں بین الاقوامی سفر کی اجازت ملتی ساتھ ہی پی سی آر ٹیسٹ ویکسین اور کوارنٹائین کے بھاری اخراجات الگ سے شامل ہوتے گئے۔ ایسے میں غور و فکر کرنے والے لوگ خدشات کا شکار نظر آئے کہ آیا دنیا میں پھر سے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی کمپنیاں حکومت کریں گی؟
سوشل میڈیا ورلڈ میں مارک زکر برگ نے میٹا ورس لانچ کر دی ۔ آن لائین کلاسز اور کئی تعلیمی ادارے ان ایپس پر تکیہ کیے بیٹھے تھے جہاں اب ڈاٹا بغیر کسی نوٹس کے حذف کر دیا جاتا ہے۔ آزادی اظہار صرف اس صورت ممکن ہے جب آپ ایپ ڈویویلپر کی مرضی کی بات کریں۔ مخالفت میں لکھا کوئی بھی لفظ خودکار طریقے سے ایپ پروائیڈر کی جانب سے آپ کو بلاک کر سکتا ہے ۔
گویا کرونا نے پہلے سے جاری سائبر سویلائزیشن کے خدو خال نمایاں کر دیے ہیں۔
سماجی دوری تو کرونا سے قبل ہی ایک وبا کی مانند پھیل رہی تھی۔ انسان اپنے گرد و پیش سے کٹا ہوا دور دنیا میں ایسے انسانوں کے قرب کا خواہاں تھا جہاں اسے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور کمنٹس مل سکیں۔ قریب بیٹھے اپنے ہی بچوں سے دور اور کسی نامعلوم مقام پہ کسی فیک آئی ڈی سے قریب انسان اپنے گردو پیش میں موجود حقیقی انسانوں کی خوشی ،رنج، تکلیف یا بیماری تک سے بے خبر ان سے دور ہو چکا تھا مگر سائبر سیکس کے نت نئے انداز اس کے لیے بڑی کشش کا باعث تھے ۔ گویا کرونا کے نتیجے میں در آنے والی سماجی تنہائی اور ورچوئل ورلڈ میں داخلہ کسی نہ کسی سطح پر پہلے سے تھا جو بعد میں بڑے کیپٹلسٹ کا منافع بخش ہدف بنا ۔
ابھی تک دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن ہو چکی ہے اور ویکسینیشن نہ کروانے والوں پر سخت سفری پابندیاں عائد ہیں۔ بظاہر تو اس وبا کو قابو میں آ جانا چاہیے تھا مگر تاحال اس وبا کا خوف برقرار ہے جو دنیا کے لاکھوں انسانوں کو متاثر کر چکی یے۔
ایسے میں سوچنے والے اذہان اس کے ہر پہلو پر قلم اٹھا رہے ہیں۔ کرونا نے حساس اذہان کو اور اہل قلم کو کچھ زیادہ متاثر کیا۔ یہ حساس لوگ جو سرمایہ اور استعمار کے خلاف لکھتے نہ چونکتے تھے اس کارپوریٹ وبا کے سب سامنے جسمانی مدافعت نہ لا سکے۔ کرونا کی یہ وبا مشرف عالم ذوقی تبسم فاطمہ اور ڈاکٹر خورشید نسرین المعروف امواج الساحل سمیت کتنے ہی بڑے ادیبوں اور دانشوروں کو نگل چکی ہے ۔ دیدبان کا نیا شمارہ پھر سے پینڈیمک پر ہی نکالا گیا ہے۔ اس شمارے میں ڈاکٹر ابرار احمد کے بارے میں یاد رفتگاں کا خصوصی گوشہ بھی شامل ہے جو دیدبان کے آغاز سے ہی اس کے لیے لکھتے رہے۔
امید ہے یہ شمارہ ادب کے قارئین کے ذوق کی تسکین کے ساتھ پینڈیمک ادب پر ایک حوالے کے طور پر بھی محفوظ کیا جا سکے گا۔