اداریہ’شمارہ -٧‘ نسترن احسن فتیحی

اداریہ’شمارہ -٧‘ نسترن احسن فتیحی

Sep 25, 2015

مزاحمتی ادب نمبر

  

 اداریہ

‍مزاحمتی ادب نمبر 

نسترن احسن فتیحی  

مزاحمتی ادب کے

موضوع پر دیدبان کا شمارہ تکمیل کو پہنچا- اور ترتیب دیتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا پڑا

کہ دیدبان کا اگلا شمارہ بھی اسی موضوع کا احاطہ کرے کیونکہ مزاحمتی ادب کے حوالے

سے تخلیقات کا ملنا اب تک جاری ہے اور ہر تحریر اہم ہے . لوگوں کے سوال اور تجسس

کو دیکھتے ہوئے مزاحمتی ادب کے حوالے سے جو نکات میرے ذہن میں تھے وہ اداریے کی

صورت میں تحریر کرکے میں نے قبل از وقت ہی فیس بک پیج پر شیئر کر لیا تھا. جو اب

یہاں بھی شامل ہے- اس موضوع کے سلسلے کی مزید وضاحت دیدبان میں شامل تحریروں سے ہو

جائیگی.اور قاری کے ہر تجسس، سوال اور ادبی ذوق کی سیرابی ہو سکے گی - ہم نے کوشش

کی ہے کہ اس موضوع سے پورا پورا انصاف ممکن ہو سکے . مزاحمتی ادب نیا نہیں ہے ہر

دور کی وجوہات الگ ہو سکتی ہیں مگر مزاحمت وہی ہے . ہمارا دور بھی اس وقت ایک گھٹن

کی ایسی سرنگ سے گزر رہا ہے جہاں چہار جانب طبقاتی ، سماجی اور معاشرتی مزاحمت کا

لاوا پک رہا ہے مگر ابھی یہ احتجاج بن کر نہیں پھوٹی ہیں . وہ کیسے ؟ تو اس سوال

کا جواب "مزاحمت کی شعریا ت" علی رفاد فتیحی کے مضمون میں موجود ہے اسی

طرح نعیم بیگ کے مضمون سے اس کی وضاحت ممکن ہے . ان لوگوں سےمیں نے خاص طور

پر استدعا کی کہ وہ اس موضوع کے حوالے سے ضرور کچھ  لکھ کر دیں تاکہ شمارہ مزاحمتی ادب کے موضوع پر

پوری طرح روشنی ڈال سکے . 


 ایک ایسے وقت میں جب د نیا بھر میں انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہےاور ہماری

بنیادی آزادی کو خطرہ لاحق ہے ۔ وہ آئین جس پر انسانی معاشرے کی فلاح کا دار و

مدار ہے وہ بس طاقت اور حکومت کے نجی فائدے کا آلہ بن کر رہ گیا ہے اور جمہوری عمل

پہلے سے کہیں زیادہ تنگ نظر اور بنیاد پرست مذہبی و قومی جماعتوں کے ہاتھ کا

کھلونا بن چکا ہے۔ 

۔عسکری ادارے اور شدت پسند عناصر اب ہر قانون کو بالائے طاق رکھ کر آزادانہ طور پر

ظلم،بربریت دہشت اور خوف و ہراس کا ماحول پھیلا رہے ہیں ۔ساتھ ہی جمہوری قوتوں کو

بری طرح پسپا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر کہیں بھی انصاف ، انسانیت اور ظلم سے پاک

نظام کا خیال خواب ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں مزاحمتی ادب کی ذمہ داریاں مزید

بڑھ جاتی ہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے دنیا بھر میں ہو رہی انسانی حقوق کی

پامالی یا ہر قسم کی خلاف ورزیوں کے لئے ایک خاموش احتجاج جاری رکھا جائے ، اس کے

لئے صف آرا ہوا جائے۔ خواہ وہ کسی بھی رنگ، نسل، صنف یا قومیت کے افراد کے خلاف

ہوں ،ان پر آواز اٹھایا جائے ۔ آج کا ادب اپنے اپنے محدود دائرے سے نکل کر عالمی

سطح پر پھیلنے کی سہولت اور طاقت رکھتا ہے ۔ 

اس لئے ہم بلا تفریق مساوی حیثیت دلانے کی کوشش کرنے کے لئے ہر انسانیت سوز عوامل

کے خلاف ایک آواز اٹھا سکتے ہیں ۔مقامی اور عالمی جدوجہدیااحتجاج کی یہ آواز جلد

یا بدیرمذہبی شدت پسندی، نسل پرستی اور قومیت پرستی کے خلاف ایک بہتر مستقبل تعمیر

کرے گی۔ ہماری ادبی یا لسانی تاریخ آمریت، معاشی استحصال اور مذہبی شدت پسندی کے

خلاف جدوجہد کی تاریخ ہے ۔ 


اپنے مضمون میں نعیم بیگ صاحب کہتے ہیں کہ...” ادب میں مزاحمتی اصطلاح کے طور پر ’

ادب المقاومہ‘ کی تاریخی اصطلاح اس وقت رائج ہوئی ، جب 1966 میں فلسطینی ادیب و

نقاد غسان کنفانی نے ” فلسطین میں مزاحمتی ادب ۶۶۔۸۴۹۱ “کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ غسان

نے یہ مضمون ١٩٦٧ کی جنگ سے پہلے لکھا جس میں فلسطینی مجاہدین اور اسرائیل کے

کنفلکٹ کو نہ صرف نمایاں عالمی ادب کا حصہ بنایا بلکہ ہم عصر تحاریک جو اس وقت

آزادی کی جدو جہد میں لاطینی امریکہ ، مشرقِ بعید اور افریقہ میں جاری تھیں کے

ساتھ لا کھڑا کیا۔ اس مقالے میں مغربی استعماریت کے خلاف ایک پوری تاریخ درج ہونے

کے ساتھ ہی مزاحمتی ادب کا کردار، اس کے بنیادی عناصر اور وسیع تر مابعد نو آبادیاتی

رحجانات، تفاوت کو زیرِ بحث لایا گیا۔ غسان نے ایک کام اور کیا کہ انہوں نے علامتی

ابلاغیات ( سیمیوٹک) سے ہٹ کر مزاحمت کے وسیع تر معنیاتی نظام کو بھی تشکیل دینے

کی صراحت کی۔ مزاحمتی متون کی تثلیث کاری ’ سیاق، تناظر و ثقافت‘ کو یک جا کرتے

ہوئے اسے تجارب کی دنیا سے نکال کر ایک حقیقت کا روپ دینے کی بے مثال کوشش کی جو

بعدازاں مزاحمتی محرکات کی متصورہ صورت متعین کرنے مدومعاون ثابت ہوئی۔" 


درج کرو !

 میں عرب ہوں 

میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے

 میرے آٹھ بچے ہیں اور نواں بچہ موسمِ گرما کے بعد دنیا میں آ جائے گا 

پس کیا تم غصہ کرو گے؟ 

درج کرو ! 

میں عرب ہوں 

اور یارانِ محنت کش کے ہمراہ پتھر کی کان میں کام کرتا ہوں 

میرے آٹھ بچے ہیں 

میں ان کے لیے 

نان اور ملبوسات اور کاپیاں 

پتھروں سے باہر نکالتا ہوں ۔۔۔ 

 محمود درویش 

مزاحمتی ادب کا اسلوب انکار اور احتجاجی قوتوں کا سرچشمہ ہے: پروفیسر انیس اشفاق

کا خیال ہے کہ" اردو ادب اپنی فکر ،مزاج و منہاج اور مزاحمتی اسلوب بیان میں

مرثیوں سے قوت نمو حاصل کرتا ہے۔" سر، نیزہ اور انکار مرثیے کے کلیدی لفظیات

ہیں اور یہ بطور علامت ہماری شاعری کی اساس ہیں۔ کربلا آج بھی برپا ہے۔ وہی حق و

باطل کی کشمکش جاری ہے۔ اور اس حوالے سے مرثیے کی مضامحتی آواز عصری معنویت سے

لبریز ہے۔


 پروفیسر شمیم حنفی کا خیال ہے کہ ”دنیا کہ تمام بڑی شاعری مزاحمت کی

پیداوار ہے اور اس حوالے سے دنیا کا مزاحمتی ادب بھی یقیناًبڑا ادب ہے۔ دنیا میں

مزاحمتی ادب کا قدیم ،ضخیم اور عظیم سرمایہ ہونے کے باوجوداس پر تحقیق و تنقید بہت

کم ہوسکی ہے۔ 


اس موضوع پر تحقیق کیا جاۓ تو ایک نہیں کئی شمارے میں اس کا حق ادا ہو سکیگا ..

اسی تحقیق کے سلسلے میں میں نےہاورڈ فاسٹ کا ناول  "اسپارٹے کس"  پڑھا تو اندازہ ہوا کہ یہ نیم تاریخی ناول

اپنے اندر مزاحمت کی کیسی داستان سموئے ہوئے . روم کی تاریخ میں اس کا عروج اور اس عروج کے پس پردہ  انسانیت کے زوال کی لازوال داستان ، جہاں انسانوں کے خرید و فروخت اور غیر انسانی

رویوں کے خلاف غلاموں کی  مزاحمت ، بغاوت

اور احتجاج  کی نہ بھولنے والی داستان رقم

کی گئی ہے- میں اس شمارے میں اس ناول کا کچھ  حصہ شامل کرنا چا ہتی تھی مگر مصروفیت نے اس کا

موقع نہ دیا .لیکن دیدبان کے قاری سے وعد ہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق ناول کا اردو ترجمہ

دیدبان کے اگلے شماروں کا حصہ ضرور بنیگا . 

اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں اپنی رفیق کار سلمی جیلانی ، سبین علی کے ساتھ محمد

شکیب عالم کا نام بھی لینا چاہونگی جس کی مدد کے بغیر دیدبان اپنے نئے خد وخال میں

سامنے نہ آ پا تا  . انہوں نے دیدبان کے رنگ و روپ کو سنوارنےمیں شب و روز ایک کر دیا

اور اسے ہما رے خوابوں کی حسین تعبیر بنا دیا . سلمی اور سبین کے ساتھ دیدبان کی اشاعتی ذمہ داریاں نبھا تے ہوئے ہم اس قدر یکجان  ہو جاتے ہیں کہ وہاں  تین الگ شخصیتوں  کا احساس باقی نہیں رہتا . یہ ہمارا مشترکہ خواب ہے اور اس کی تیاری ترتیب اور تزئین میں ہم کبھی کہیں پر الگ نہیں رہے . دیدبان کی نئے سرے سے  تزئین و ترتیب میں وقت لگ رہا ہے اس لئے پرانے شمارے ابھی آپ کو مکمل طور پر نظر نہیں آئینگے مگر جلد ہی پرانے سارے شمارے بھی آپ کو یہاں دستیاب ہونگے

جناب سرفراز مصور صاحب کی عنا یت

کا خصوصی شکریہ کہ .ان کی مصورانہ شراکت نے دیدبان کی تخلیقی پیش کش کو چار چاند

لگا دیئے- ان سارے شرکاء کا شکریہ جنہوں نے خود آگے بڑھ کر اپنی تحریریں اس کی زینت

بنائیں یا وہ بھی جنہوں نے ایک بار ہمارے مانگنے پر بہت خلوص سے ہمیں اپنی تخلیقات

بھیجیں اور اس کے وقار میں اضافہ کا سبب بنے . فورم نعت ورثہ کے جناب محمد

خاورصاحب کا شکریہ ادا نہ کرنا نا انصافی ہوگی جن کے توسط سے ہمیں حمد اور نعت کی

پیش کش میں اس کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنا ممکن ہو سکا.اس کے ساتھ جناب احمد سہیل صاحب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے میرے مضمون "عالمی ادب اور مزاحمت "میں شامل کرنے کے لۓ اپنا ترجمہ دیا . مصروفیت کے . . . باعث یہ مضمون مکمل نہ ہو سکا پھر بھی میں نے اسے  شامل کیا ہے . تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے . امید کرتی ہوں کہ آنے والے شماروں کے لئے بھی آپ سب کا تعاون شامل رہیگا 

 آپ کے مشورے اسے  بہتر بنانے میں مددگار ہونگے اس لئے اپنی رائے سے ضرور نوازیں .

------------------------------------------------------ 

  

 اداریہ

‍مزاحمتی ادب نمبر 

نسترن احسن فتیحی  

مزاحمتی ادب کے

موضوع پر دیدبان کا شمارہ تکمیل کو پہنچا- اور ترتیب دیتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا پڑا

کہ دیدبان کا اگلا شمارہ بھی اسی موضوع کا احاطہ کرے کیونکہ مزاحمتی ادب کے حوالے

سے تخلیقات کا ملنا اب تک جاری ہے اور ہر تحریر اہم ہے . لوگوں کے سوال اور تجسس

کو دیکھتے ہوئے مزاحمتی ادب کے حوالے سے جو نکات میرے ذہن میں تھے وہ اداریے کی

صورت میں تحریر کرکے میں نے قبل از وقت ہی فیس بک پیج پر شیئر کر لیا تھا. جو اب

یہاں بھی شامل ہے- اس موضوع کے سلسلے کی مزید وضاحت دیدبان میں شامل تحریروں سے ہو

جائیگی.اور قاری کے ہر تجسس، سوال اور ادبی ذوق کی سیرابی ہو سکے گی - ہم نے کوشش

کی ہے کہ اس موضوع سے پورا پورا انصاف ممکن ہو سکے . مزاحمتی ادب نیا نہیں ہے ہر

دور کی وجوہات الگ ہو سکتی ہیں مگر مزاحمت وہی ہے . ہمارا دور بھی اس وقت ایک گھٹن

کی ایسی سرنگ سے گزر رہا ہے جہاں چہار جانب طبقاتی ، سماجی اور معاشرتی مزاحمت کا

لاوا پک رہا ہے مگر ابھی یہ احتجاج بن کر نہیں پھوٹی ہیں . وہ کیسے ؟ تو اس سوال

کا جواب "مزاحمت کی شعریا ت" علی رفاد فتیحی کے مضمون میں موجود ہے اسی

طرح نعیم بیگ کے مضمون سے اس کی وضاحت ممکن ہے . ان لوگوں سےمیں نے خاص طور

پر استدعا کی کہ وہ اس موضوع کے حوالے سے ضرور کچھ  لکھ کر دیں تاکہ شمارہ مزاحمتی ادب کے موضوع پر

پوری طرح روشنی ڈال سکے . 


 ایک ایسے وقت میں جب د نیا بھر میں انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہےاور ہماری

بنیادی آزادی کو خطرہ لاحق ہے ۔ وہ آئین جس پر انسانی معاشرے کی فلاح کا دار و

مدار ہے وہ بس طاقت اور حکومت کے نجی فائدے کا آلہ بن کر رہ گیا ہے اور جمہوری عمل

پہلے سے کہیں زیادہ تنگ نظر اور بنیاد پرست مذہبی و قومی جماعتوں کے ہاتھ کا

کھلونا بن چکا ہے۔ 

۔عسکری ادارے اور شدت پسند عناصر اب ہر قانون کو بالائے طاق رکھ کر آزادانہ طور پر

ظلم،بربریت دہشت اور خوف و ہراس کا ماحول پھیلا رہے ہیں ۔ساتھ ہی جمہوری قوتوں کو

بری طرح پسپا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر کہیں بھی انصاف ، انسانیت اور ظلم سے پاک

نظام کا خیال خواب ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں مزاحمتی ادب کی ذمہ داریاں مزید

بڑھ جاتی ہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے دنیا بھر میں ہو رہی انسانی حقوق کی

پامالی یا ہر قسم کی خلاف ورزیوں کے لئے ایک خاموش احتجاج جاری رکھا جائے ، اس کے

لئے صف آرا ہوا جائے۔ خواہ وہ کسی بھی رنگ، نسل، صنف یا قومیت کے افراد کے خلاف

ہوں ،ان پر آواز اٹھایا جائے ۔ آج کا ادب اپنے اپنے محدود دائرے سے نکل کر عالمی

سطح پر پھیلنے کی سہولت اور طاقت رکھتا ہے ۔ 

اس لئے ہم بلا تفریق مساوی حیثیت دلانے کی کوشش کرنے کے لئے ہر انسانیت سوز عوامل

کے خلاف ایک آواز اٹھا سکتے ہیں ۔مقامی اور عالمی جدوجہدیااحتجاج کی یہ آواز جلد

یا بدیرمذہبی شدت پسندی، نسل پرستی اور قومیت پرستی کے خلاف ایک بہتر مستقبل تعمیر

کرے گی۔ ہماری ادبی یا لسانی تاریخ آمریت، معاشی استحصال اور مذہبی شدت پسندی کے

خلاف جدوجہد کی تاریخ ہے ۔ 


اپنے مضمون میں نعیم بیگ صاحب کہتے ہیں کہ...” ادب میں مزاحمتی اصطلاح کے طور پر ’

ادب المقاومہ‘ کی تاریخی اصطلاح اس وقت رائج ہوئی ، جب 1966 میں فلسطینی ادیب و

نقاد غسان کنفانی نے ” فلسطین میں مزاحمتی ادب ۶۶۔۸۴۹۱ “کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ غسان

نے یہ مضمون ١٩٦٧ کی جنگ سے پہلے لکھا جس میں فلسطینی مجاہدین اور اسرائیل کے

کنفلکٹ کو نہ صرف نمایاں عالمی ادب کا حصہ بنایا بلکہ ہم عصر تحاریک جو اس وقت

آزادی کی جدو جہد میں لاطینی امریکہ ، مشرقِ بعید اور افریقہ میں جاری تھیں کے

ساتھ لا کھڑا کیا۔ اس مقالے میں مغربی استعماریت کے خلاف ایک پوری تاریخ درج ہونے

کے ساتھ ہی مزاحمتی ادب کا کردار، اس کے بنیادی عناصر اور وسیع تر مابعد نو آبادیاتی

رحجانات، تفاوت کو زیرِ بحث لایا گیا۔ غسان نے ایک کام اور کیا کہ انہوں نے علامتی

ابلاغیات ( سیمیوٹک) سے ہٹ کر مزاحمت کے وسیع تر معنیاتی نظام کو بھی تشکیل دینے

کی صراحت کی۔ مزاحمتی متون کی تثلیث کاری ’ سیاق، تناظر و ثقافت‘ کو یک جا کرتے

ہوئے اسے تجارب کی دنیا سے نکال کر ایک حقیقت کا روپ دینے کی بے مثال کوشش کی جو

بعدازاں مزاحمتی محرکات کی متصورہ صورت متعین کرنے مدومعاون ثابت ہوئی۔" 


درج کرو !

 میں عرب ہوں 

میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے

 میرے آٹھ بچے ہیں اور نواں بچہ موسمِ گرما کے بعد دنیا میں آ جائے گا 

پس کیا تم غصہ کرو گے؟ 

درج کرو ! 

میں عرب ہوں 

اور یارانِ محنت کش کے ہمراہ پتھر کی کان میں کام کرتا ہوں 

میرے آٹھ بچے ہیں 

میں ان کے لیے 

نان اور ملبوسات اور کاپیاں 

پتھروں سے باہر نکالتا ہوں ۔۔۔ 

 محمود درویش 

مزاحمتی ادب کا اسلوب انکار اور احتجاجی قوتوں کا سرچشمہ ہے: پروفیسر انیس اشفاق

کا خیال ہے کہ" اردو ادب اپنی فکر ،مزاج و منہاج اور مزاحمتی اسلوب بیان میں

مرثیوں سے قوت نمو حاصل کرتا ہے۔" سر، نیزہ اور انکار مرثیے کے کلیدی لفظیات

ہیں اور یہ بطور علامت ہماری شاعری کی اساس ہیں۔ کربلا آج بھی برپا ہے۔ وہی حق و

باطل کی کشمکش جاری ہے۔ اور اس حوالے سے مرثیے کی مضامحتی آواز عصری معنویت سے

لبریز ہے۔


 پروفیسر شمیم حنفی کا خیال ہے کہ ”دنیا کہ تمام بڑی شاعری مزاحمت کی

پیداوار ہے اور اس حوالے سے دنیا کا مزاحمتی ادب بھی یقیناًبڑا ادب ہے۔ دنیا میں

مزاحمتی ادب کا قدیم ،ضخیم اور عظیم سرمایہ ہونے کے باوجوداس پر تحقیق و تنقید بہت

کم ہوسکی ہے۔ 


اس موضوع پر تحقیق کیا جاۓ تو ایک نہیں کئی شمارے میں اس کا حق ادا ہو سکیگا ..

اسی تحقیق کے سلسلے میں میں نےہاورڈ فاسٹ کا ناول  "اسپارٹے کس"  پڑھا تو اندازہ ہوا کہ یہ نیم تاریخی ناول

اپنے اندر مزاحمت کی کیسی داستان سموئے ہوئے . روم کی تاریخ میں اس کا عروج اور اس عروج کے پس پردہ  انسانیت کے زوال کی لازوال داستان ، جہاں انسانوں کے خرید و فروخت اور غیر انسانی

رویوں کے خلاف غلاموں کی  مزاحمت ، بغاوت

اور احتجاج  کی نہ بھولنے والی داستان رقم

کی گئی ہے- میں اس شمارے میں اس ناول کا کچھ  حصہ شامل کرنا چا ہتی تھی مگر مصروفیت نے اس کا

موقع نہ دیا .لیکن دیدبان کے قاری سے وعد ہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق ناول کا اردو ترجمہ

دیدبان کے اگلے شماروں کا حصہ ضرور بنیگا . 

اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں اپنی رفیق کار سلمی جیلانی ، سبین علی کے ساتھ محمد

شکیب عالم کا نام بھی لینا چاہونگی جس کی مدد کے بغیر دیدبان اپنے نئے خد وخال میں

سامنے نہ آ پا تا  . انہوں نے دیدبان کے رنگ و روپ کو سنوارنےمیں شب و روز ایک کر دیا

اور اسے ہما رے خوابوں کی حسین تعبیر بنا دیا . سلمی اور سبین کے ساتھ دیدبان کی اشاعتی ذمہ داریاں نبھا تے ہوئے ہم اس قدر یکجان  ہو جاتے ہیں کہ وہاں  تین الگ شخصیتوں  کا احساس باقی نہیں رہتا . یہ ہمارا مشترکہ خواب ہے اور اس کی تیاری ترتیب اور تزئین میں ہم کبھی کہیں پر الگ نہیں رہے . دیدبان کی نئے سرے سے  تزئین و ترتیب میں وقت لگ رہا ہے اس لئے پرانے شمارے ابھی آپ کو مکمل طور پر نظر نہیں آئینگے مگر جلد ہی پرانے سارے شمارے بھی آپ کو یہاں دستیاب ہونگے

جناب سرفراز مصور صاحب کی عنا یت

کا خصوصی شکریہ کہ .ان کی مصورانہ شراکت نے دیدبان کی تخلیقی پیش کش کو چار چاند

لگا دیئے- ان سارے شرکاء کا شکریہ جنہوں نے خود آگے بڑھ کر اپنی تحریریں اس کی زینت

بنائیں یا وہ بھی جنہوں نے ایک بار ہمارے مانگنے پر بہت خلوص سے ہمیں اپنی تخلیقات

بھیجیں اور اس کے وقار میں اضافہ کا سبب بنے . فورم نعت ورثہ کے جناب محمد

خاورصاحب کا شکریہ ادا نہ کرنا نا انصافی ہوگی جن کے توسط سے ہمیں حمد اور نعت کی

پیش کش میں اس کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنا ممکن ہو سکا.اس کے ساتھ جناب احمد سہیل صاحب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے میرے مضمون "عالمی ادب اور مزاحمت "میں شامل کرنے کے لۓ اپنا ترجمہ دیا . مصروفیت کے . . . باعث یہ مضمون مکمل نہ ہو سکا پھر بھی میں نے اسے  شامل کیا ہے . تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے . امید کرتی ہوں کہ آنے والے شماروں کے لئے بھی آپ سب کا تعاون شامل رہیگا 

 آپ کے مشورے اسے  بہتر بنانے میں مددگار ہونگے اس لئے اپنی رائے سے ضرور نوازیں .

------------------------------------------------------ 

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024