مائکرو فکشن آکٹوپس انگریزی ترجمہ کے ساتھ
مائکرو فکشن آکٹوپس انگریزی ترجمہ کے ساتھ
Dec 8, 2021
Micro Fiction: The Octopus
مائکرو فکشن آکٹوپس انگریزی ترجمہ کے ساتھ
تحریر : سلمیٰ جیلانی ( نیوزی لینڈ )
انگریزی ترجمہ : سروش لطیف (پاکستان )
ماحول میں عجیب سی بو رچی تھی -
نئی قسم کی جراثیم کش ادویہ کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا ، انہیں امید تھی کہ وہ جلد ہی اسے سدھا لیں گے -
وہ سب اکھٹا ہو کر دعاؤں میں مصروف ہو گئے،
گروہ در گروہ اپنے اپنے انداز میں اندیکھے دشمن سے نمٹنے کے لئے اپنی روحوں کو صیقل کرنے کے ہتھیار اٹھائے آگے بڑھ رہے تھے-
اذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں
کہیں گرجا گھروں کی گھنٹیاں بجائی جا رہی تھیں-
پوتر پانی میں غوطے لگانے والے پوری طرح تیار تھے-
کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ بے ضرر چیونٹیاں کھا کر گزارا کرتا تھا، چند دن پہلے ہی ایک ویران جزیرے سے نکلا اور اب کسی آکٹوپس کی طرح لجلجاتا بل کھاتا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ایک سے دس اورپھر سو سے ہزار کی گنتی پوری کرتا مسلسل تقسیم در تقسیم تھا اتنی تیزی سے سروں کو جکڑتا ، چھلانگیں لگاتا ہوا پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوتا جا رہا تھا-
اب تو اس کے تیور پہلے سے کہیں زیادہ خطرنا ک تھے -
کسی نے کہا صرف بوڑھے آدمیوں کو کھاتا ہے-
کچھ اسے خیالی ہیولا سمجھ رہے تھے-
وہ مطمین تھی-
ابھی تیس سال ہی کی تھی ، چھوٹا بھائی تو اس سے بھی پانچ سال چھوٹا تھا
احتیاط کا دامن تھامنے کی کیا پڑی ۔ میلے ٹھیلوں سے لطف اندوز ہونے کے دن یہی تو ہیں-
پھر
غم کی پہلی ضرب لگی گو بہت کاری تھی پر جھیل گئے وہ۔۔
امی ۔۔۔۔ دو دن پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے دفن کر کے آیا تھا -
پتا ہی نہیں چلا کب وہ اس کے اپنے پھپھڑوں کو کھانے لگا-
وہ ہواؤں میں تیر چلا رہے تھے ، کوئی نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس کے کاری وار انہیں بے حال کرتے جا رہے تھے -
آنا ً فانا ً سر سے پاؤں تک پلاسٹک کے تھیلوں سے بنے ملبوس میں خلائی مخلوق دکھائی دینے والے کچھ ہیولے اس کے سر پر کھڑے تھے -
کہیں سے آواز آئی-
یہ آخری دور ہے اس کے آگے کچھ نہیں -
اسے لگا کلمہ پڑھ لے فرشتے لینے آ گئے ہیں-
اس کی بند ہوتی آنکھوں اور کانوں کی درزوں سے ہوا کا ارتعاش کچھ اور کہہ رہا تھا -
ہم تمہیں ہسپتال لے جانے آئے ہیں -
لیکن یہاں تو کوئی وینٹی لیٹر ہی نہیں آکسیجن کے ٹینک خالی پڑے ہیں -
آپ انہیں کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں -
حفاظتی غلاف والے جیسے بے جان گڈوں میں تبدیل ہو گئے ،ان کی ساری محنت اکارت چلی گئی تھی -
اس نے خود ہی ہمت کی ،کانپتے ہاتھوں سے فون تھاما - آنکھیں بوجھل تھیں اور سانس رک رک کر آ رہی تھی -
سوشل میڈیا پر اتنے چاہنے والے ہیں کوئی تو مدد کرے گا - لرزتی انگلیوں سے لکھا
کوئی ہے؟ جو مجھے بتائے ، ایسے ہسپتال کا پتا، جہاں آکسجن مل جائے مجھے سانس نہیں آ رہی ہے -
بے ربط سانسوں کے درمیان ایک پل سکون کا ڈھونڈنے کی کو شش کی - زور لگا کر آنکھیں کھولیں
کوئی کمنٹ نہیں آیا
البتہ لائیک کرنے والے مسلسل ٹسوے بہاتی اسمائیلی بھیج رہے تھے -
دوسرے دن
اس کے جنازے کو کندھا دینے وہی چار پلاسٹک کے گڈے نما انسان آچکے تھے -
وباء سے مرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کی بیرون ملک سے خصوصی تربیت لے کر آئے تھے -
افسوس اور دعائے مغفرت کے کمنٹس کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں پہنچ گئی -
ہجوم پہلے سے بھی زیادہ جوش سے پوتر پانی میں اتر رہا ہے ان کے نعروں میں تیزی آ چکی ہے-
سڑکوں پر ایک دوسرا ہجوم جن کے سر پر دستاریں ہیں - ڈنڈے اور لاٹھیاں لئے اپنے اوپر ہی وار کر رہا ہے -
اندیکھا آکٹوپس اب لا تعداد بازؤوں والا عفریت بن چکا ہے - جوں ہی کوئی مرتا ہے اس کے جسم پر ایک اور بازو کا اضافہ
ہو جاتا ہے جو میلوں پر پھیلتا جا رہا ہے
Micro Fiction: The Octopus
Writer: Salma Jilani (original in Urdu)
Translated into English by Sarosh Latif
A strange stink lingered in the air. Some new disinfectant was being sprayed; they would soon tame it was what they believed. They all busied themselves in communal prayers. Myriads of crowds, in their own ways and well-armed, were advancing to refine their souls to push around the invisible enemy. The Azans were resonating all over. The church bells were being rung somewhere. To immerse into the holy water, the divers were all togged up.
No one could foresee that the one who fed on innocuous and lowly ants came out of a desolate island, swaying clammily like an octopus, and had suddenly entangled the entire world. From one to ten and then to hundreds and thousands, it kept on multiplying. Gripping heads and bouncing over, it was gaining strength steadily. Now its tactics were more dangerous than ever. Someone said that this demon only preys on old people. Some were taking it as an illusory monster.
Like others she was not a bit ruffled, as she was merely thirty, and her brother was even five years younger. Why to bother about taking any preventive measures? It was the prime time of their lives to cherish festivities... And then came the first blow of grief. It hit them hard, but somehow they endured. The mother…he buried her with his own hands two day back. He didn’t even notice when it started feeding on his lungs. They were shooting in the dark. Their enemy was not visible, but its fatal blows had been turning them helpless.
Out of nowhere some silhouettes appeared .... all wrapped up in plastic, like space dwellers, and stood around her bed. A deep voice surfaced from somewhere. This is the end of time…nothing is beyond it.
She had smelled her death; it was time to recite holy Kalmas …the angels had come to take her along. But the pulsating air around her nearly collapsing eyes and the corners of ears was whispering something else, " You must fight. Do not lose hope, we are here to take you to the hospital." But no ventilator was available. "The oxygen tanks are empty, take her to another hospital." Those wrapped up in protective coverings turned into lifeless figurines. All their efforts rolled into dust. As a last resort, she gathered up all her remaining strength and picked the phone in her tremulous hands with heavy eyes and broken breathing. She hoped
someone would surely turn up… lots of admirers follow her on social media. With quivering hands, she typed…. "Would someone share with me the address of the hospital where oxygen could be found? ... I cannot breathe." Between rambling breaths, she tried to find a moment of comfort. Struggling, she opened her eyes…not a single comment popped up there. But people were constantly sending ’tear-shedding’ smileys.
The following day…the same figurines came to shoulder the funeral – as they all were fully trained and equipped to lay the victims of the plague to rest. The number of condolences and prayers for salvation had reached countless.
The crowd is diving into the holy water with more fervour than ever before. Their implorations have intensified. Another mob on the streets, wearing turbans, is now hitting unseen enemy with sticks and canes, in effect harming themselves.
And the invisible octopus has now turned into a monster with countless arms – the moment someone dies, another arm is added to
its body which is spreading
for miles and miles.
مائکرو فکشن آکٹوپس انگریزی ترجمہ کے ساتھ
تحریر : سلمیٰ جیلانی ( نیوزی لینڈ )
انگریزی ترجمہ : سروش لطیف (پاکستان )
ماحول میں عجیب سی بو رچی تھی -
نئی قسم کی جراثیم کش ادویہ کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا ، انہیں امید تھی کہ وہ جلد ہی اسے سدھا لیں گے -
وہ سب اکھٹا ہو کر دعاؤں میں مصروف ہو گئے،
گروہ در گروہ اپنے اپنے انداز میں اندیکھے دشمن سے نمٹنے کے لئے اپنی روحوں کو صیقل کرنے کے ہتھیار اٹھائے آگے بڑھ رہے تھے-
اذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں
کہیں گرجا گھروں کی گھنٹیاں بجائی جا رہی تھیں-
پوتر پانی میں غوطے لگانے والے پوری طرح تیار تھے-
کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ بے ضرر چیونٹیاں کھا کر گزارا کرتا تھا، چند دن پہلے ہی ایک ویران جزیرے سے نکلا اور اب کسی آکٹوپس کی طرح لجلجاتا بل کھاتا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ایک سے دس اورپھر سو سے ہزار کی گنتی پوری کرتا مسلسل تقسیم در تقسیم تھا اتنی تیزی سے سروں کو جکڑتا ، چھلانگیں لگاتا ہوا پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوتا جا رہا تھا-
اب تو اس کے تیور پہلے سے کہیں زیادہ خطرنا ک تھے -
کسی نے کہا صرف بوڑھے آدمیوں کو کھاتا ہے-
کچھ اسے خیالی ہیولا سمجھ رہے تھے-
وہ مطمین تھی-
ابھی تیس سال ہی کی تھی ، چھوٹا بھائی تو اس سے بھی پانچ سال چھوٹا تھا
احتیاط کا دامن تھامنے کی کیا پڑی ۔ میلے ٹھیلوں سے لطف اندوز ہونے کے دن یہی تو ہیں-
پھر
غم کی پہلی ضرب لگی گو بہت کاری تھی پر جھیل گئے وہ۔۔
امی ۔۔۔۔ دو دن پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے دفن کر کے آیا تھا -
پتا ہی نہیں چلا کب وہ اس کے اپنے پھپھڑوں کو کھانے لگا-
وہ ہواؤں میں تیر چلا رہے تھے ، کوئی نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس کے کاری وار انہیں بے حال کرتے جا رہے تھے -
آنا ً فانا ً سر سے پاؤں تک پلاسٹک کے تھیلوں سے بنے ملبوس میں خلائی مخلوق دکھائی دینے والے کچھ ہیولے اس کے سر پر کھڑے تھے -
کہیں سے آواز آئی-
یہ آخری دور ہے اس کے آگے کچھ نہیں -
اسے لگا کلمہ پڑھ لے فرشتے لینے آ گئے ہیں-
اس کی بند ہوتی آنکھوں اور کانوں کی درزوں سے ہوا کا ارتعاش کچھ اور کہہ رہا تھا -
ہم تمہیں ہسپتال لے جانے آئے ہیں -
لیکن یہاں تو کوئی وینٹی لیٹر ہی نہیں آکسیجن کے ٹینک خالی پڑے ہیں -
آپ انہیں کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں -
حفاظتی غلاف والے جیسے بے جان گڈوں میں تبدیل ہو گئے ،ان کی ساری محنت اکارت چلی گئی تھی -
اس نے خود ہی ہمت کی ،کانپتے ہاتھوں سے فون تھاما - آنکھیں بوجھل تھیں اور سانس رک رک کر آ رہی تھی -
سوشل میڈیا پر اتنے چاہنے والے ہیں کوئی تو مدد کرے گا - لرزتی انگلیوں سے لکھا
کوئی ہے؟ جو مجھے بتائے ، ایسے ہسپتال کا پتا، جہاں آکسجن مل جائے مجھے سانس نہیں آ رہی ہے -
بے ربط سانسوں کے درمیان ایک پل سکون کا ڈھونڈنے کی کو شش کی - زور لگا کر آنکھیں کھولیں
کوئی کمنٹ نہیں آیا
البتہ لائیک کرنے والے مسلسل ٹسوے بہاتی اسمائیلی بھیج رہے تھے -
دوسرے دن
اس کے جنازے کو کندھا دینے وہی چار پلاسٹک کے گڈے نما انسان آچکے تھے -
وباء سے مرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کی بیرون ملک سے خصوصی تربیت لے کر آئے تھے -
افسوس اور دعائے مغفرت کے کمنٹس کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں پہنچ گئی -
ہجوم پہلے سے بھی زیادہ جوش سے پوتر پانی میں اتر رہا ہے ان کے نعروں میں تیزی آ چکی ہے-
سڑکوں پر ایک دوسرا ہجوم جن کے سر پر دستاریں ہیں - ڈنڈے اور لاٹھیاں لئے اپنے اوپر ہی وار کر رہا ہے -
اندیکھا آکٹوپس اب لا تعداد بازؤوں والا عفریت بن چکا ہے - جوں ہی کوئی مرتا ہے اس کے جسم پر ایک اور بازو کا اضافہ
ہو جاتا ہے جو میلوں پر پھیلتا جا رہا ہے
Micro Fiction: The Octopus
Writer: Salma Jilani (original in Urdu)
Translated into English by Sarosh Latif
A strange stink lingered in the air. Some new disinfectant was being sprayed; they would soon tame it was what they believed. They all busied themselves in communal prayers. Myriads of crowds, in their own ways and well-armed, were advancing to refine their souls to push around the invisible enemy. The Azans were resonating all over. The church bells were being rung somewhere. To immerse into the holy water, the divers were all togged up.
No one could foresee that the one who fed on innocuous and lowly ants came out of a desolate island, swaying clammily like an octopus, and had suddenly entangled the entire world. From one to ten and then to hundreds and thousands, it kept on multiplying. Gripping heads and bouncing over, it was gaining strength steadily. Now its tactics were more dangerous than ever. Someone said that this demon only preys on old people. Some were taking it as an illusory monster.
Like others she was not a bit ruffled, as she was merely thirty, and her brother was even five years younger. Why to bother about taking any preventive measures? It was the prime time of their lives to cherish festivities... And then came the first blow of grief. It hit them hard, but somehow they endured. The mother…he buried her with his own hands two day back. He didn’t even notice when it started feeding on his lungs. They were shooting in the dark. Their enemy was not visible, but its fatal blows had been turning them helpless.
Out of nowhere some silhouettes appeared .... all wrapped up in plastic, like space dwellers, and stood around her bed. A deep voice surfaced from somewhere. This is the end of time…nothing is beyond it.
She had smelled her death; it was time to recite holy Kalmas …the angels had come to take her along. But the pulsating air around her nearly collapsing eyes and the corners of ears was whispering something else, " You must fight. Do not lose hope, we are here to take you to the hospital." But no ventilator was available. "The oxygen tanks are empty, take her to another hospital." Those wrapped up in protective coverings turned into lifeless figurines. All their efforts rolled into dust. As a last resort, she gathered up all her remaining strength and picked the phone in her tremulous hands with heavy eyes and broken breathing. She hoped
someone would surely turn up… lots of admirers follow her on social media. With quivering hands, she typed…. "Would someone share with me the address of the hospital where oxygen could be found? ... I cannot breathe." Between rambling breaths, she tried to find a moment of comfort. Struggling, she opened her eyes…not a single comment popped up there. But people were constantly sending ’tear-shedding’ smileys.
The following day…the same figurines came to shoulder the funeral – as they all were fully trained and equipped to lay the victims of the plague to rest. The number of condolences and prayers for salvation had reached countless.
The crowd is diving into the holy water with more fervour than ever before. Their implorations have intensified. Another mob on the streets, wearing turbans, is now hitting unseen enemy with sticks and canes, in effect harming themselves.
And the invisible octopus has now turned into a monster with countless arms – the moment someone dies, another arm is added to
its body which is spreading
for miles and miles.