نظمیں ۔۔ پرتپال سنگھ بیتاب

نظمیں ۔۔ پرتپال سنگھ بیتاب

Oct 27, 2020

تین نظمیں

نظمیں ۔۔ پرتپال سنگھ بیتاب

نظم:آنے والے دنوں کے لئے

یہ الاو جلاکرجوبیٹھے ہیں ہم

یہ بھی سوچاکھی ہے کسی نے؟

لمحہ لمحہ یہ اٹھتا دھواں

آسماں پر اکٹھا  ہوتارہیگا یونہی

تو پھر ایک دن اس کی تہ

راستہ دھوپ کا روک لےگی

ہاتھ الاؤپہ رکھے ہوئے

آنے والے دنوں کے لئے ہم

اندھے سورج کا نوحہ پڑھیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔  

نظم:رام کار  یا لکشمن ریکھا

میں نے تو موجود اور غیر موجود طاقتوں سے

اپنی حفاظت کرنے کے لئے

اپنے ارد گرد ایک رام کار کھینچی تھی لیکن

یہی رام کار میرے لئے لکشمن ریکھا بن چکی ہے

باہر میں نہیں نکلتا،اندر کوئ آتا نہیں

کٹا کٹا جدا جدا

اپنے ہی تضادات میں گھرا رہتا ہوں

کوئ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کی بڑی لکیر کو

چھوٹا کرنے کے لئے یہ لکیر کھینچی ہے

تو کوئ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے

اس کی لکیر کے مقابلے میں

ایک نئ لکیر کھڑی کر دی ہے

اپنی روداد کسے سناؤں

باہر میں نہیں جا سکتا

بس یہی اک رام کار یا لکشمن ریکھا ہے

اور میں ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

نظم: اکیسویں صدی

ہم جوپاش پاش ہیں

کسی مہیب غار کی تلاش میں ہیں گامزن

ہم جو پل صراط سے گزر گئے

تو یہ صدی تمام پیچ و تاب کو سمیٹ کر

سیہ سفید میں نمود پائے گی

اور ہم جو آتشیں سراب میں بھٹک گئے

تو دیکھنا یہ دھوپ

سات سلسلوں میں ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظمیں ۔۔ پرتپال سنگھ بیتاب

نظم:آنے والے دنوں کے لئے

یہ الاو جلاکرجوبیٹھے ہیں ہم

یہ بھی سوچاکھی ہے کسی نے؟

لمحہ لمحہ یہ اٹھتا دھواں

آسماں پر اکٹھا  ہوتارہیگا یونہی

تو پھر ایک دن اس کی تہ

راستہ دھوپ کا روک لےگی

ہاتھ الاؤپہ رکھے ہوئے

آنے والے دنوں کے لئے ہم

اندھے سورج کا نوحہ پڑھیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔  

نظم:رام کار  یا لکشمن ریکھا

میں نے تو موجود اور غیر موجود طاقتوں سے

اپنی حفاظت کرنے کے لئے

اپنے ارد گرد ایک رام کار کھینچی تھی لیکن

یہی رام کار میرے لئے لکشمن ریکھا بن چکی ہے

باہر میں نہیں نکلتا،اندر کوئ آتا نہیں

کٹا کٹا جدا جدا

اپنے ہی تضادات میں گھرا رہتا ہوں

کوئ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کی بڑی لکیر کو

چھوٹا کرنے کے لئے یہ لکیر کھینچی ہے

تو کوئ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے

اس کی لکیر کے مقابلے میں

ایک نئ لکیر کھڑی کر دی ہے

اپنی روداد کسے سناؤں

باہر میں نہیں جا سکتا

بس یہی اک رام کار یا لکشمن ریکھا ہے

اور میں ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

نظم: اکیسویں صدی

ہم جوپاش پاش ہیں

کسی مہیب غار کی تلاش میں ہیں گامزن

ہم جو پل صراط سے گزر گئے

تو یہ صدی تمام پیچ و تاب کو سمیٹ کر

سیہ سفید میں نمود پائے گی

اور ہم جو آتشیں سراب میں بھٹک گئے

تو دیکھنا یہ دھوپ

سات سلسلوں میں ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024