نظمیں : علی محمد فرشی
نظمیں : علی محمد فرشی
Mar 31, 2021
دو نظمیں
ضرورت کا خدا
کیا محبت کا ترجمہ
کسی دوسری زبان میں کیا جاسکتا ہے؟
سورج مکھی نے پوچھا
کوئی مجھے کنول میں ترجمہ کر سکتا ہے؟
چڑیا بولی
پہاڑ کو آسمان میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے!
شاعر نے تائید کی
سچ کہتے ہو،خوشبو کی طرح سچ!
سچ کو بھی،کسی زبان میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا
بلکہ محبت اور صداقت کو
کسی زبان میں ترجمے کی ضروت ہی نہیں ہوتی!
محبت اور صداقت
کسی ضرورت کے تحت ایجاد نہیں ہوئیں
جیسے ہم ضرورت کے وقت
کسی مشکل گھڑی میں
جب ہماری ماں، بیٹا یا ہم خود
’’آئی سی یو‘‘ میں ہوں
توخدا کو ایجاد کرلیتے ہیں
یعنی یاد کرنے لگتے ہیں
اور جیسے ہی مشکل کی موت واقع ہوتی ہے
اُس کی تدفین سے پہلے ہی
ہم خدا کوبھول جاتے ہیں
یا سنبھال کر رکھ لیتے ہیں
آئندہ کسی مشکل گھڑی کے لیے!
علی محمد فرشی
۔۔۔۔۔۔۔۔
2
ہنسی کی موت
جب ہم ایک دوسرے میں چھپے ہوتے
تو،کوئی ہمیں ڈھونڈ نہ پاتا
کتنا مزا آتاتھا
اُس کھیل میں تمھیں
جسے ہم دونوں نے مل کر ایجاد کر لیا تھا
اپنے اندر چھپ کر سوجانے کی عادت سے
جب دیر تک آنکھ مچولی کھیلنے کے بعد
ہم گھر جاتے
تو کسی کو پتا بھی نہ چلتا
کہ ہم وہ نہیں ہیں
البتہ تمھاری ہنسی کودبانے کے لیے
مجھے اپنا سانس روکنا پڑتا
جس دن ہم
ہوا پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف
جلوس میں شرکت کے لیے
آزادی چوک پہنچے تو
وہاں لاکھوں کی تعداد میں
مسلح وردی پوش جمع تھے
ہمارا ایک آدمی بھی گھر سے نہیں نکلا!
میں نے حیرت کا اظہار کیا
لیکن عین اُسی وقت
تمھاری نظر ایک ناتواں سپاہی پر جا پڑی
جو اپنی مشین گن کے بوجھ سے
کبڑا ہوا جارہا تھا
تمھاری ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا
میں تمھاری گدگدی
روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ
کبڑے سپاہی نے فائر کھول دیا
یاد نہیں زیادہ گولیاں کسے لگی تھیں
لیکن ہم دونوں کی سانسیں
ایک ساتھ ختم ہوئیں
پتا نہیں
ہواکی قلت سے کتنے لوگ مرے
اور کتنے گولیوں کی آواز سے
علی محمد فرشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت کا خدا
کیا محبت کا ترجمہ
کسی دوسری زبان میں کیا جاسکتا ہے؟
سورج مکھی نے پوچھا
کوئی مجھے کنول میں ترجمہ کر سکتا ہے؟
چڑیا بولی
پہاڑ کو آسمان میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے!
شاعر نے تائید کی
سچ کہتے ہو،خوشبو کی طرح سچ!
سچ کو بھی،کسی زبان میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا
بلکہ محبت اور صداقت کو
کسی زبان میں ترجمے کی ضروت ہی نہیں ہوتی!
محبت اور صداقت
کسی ضرورت کے تحت ایجاد نہیں ہوئیں
جیسے ہم ضرورت کے وقت
کسی مشکل گھڑی میں
جب ہماری ماں، بیٹا یا ہم خود
’’آئی سی یو‘‘ میں ہوں
توخدا کو ایجاد کرلیتے ہیں
یعنی یاد کرنے لگتے ہیں
اور جیسے ہی مشکل کی موت واقع ہوتی ہے
اُس کی تدفین سے پہلے ہی
ہم خدا کوبھول جاتے ہیں
یا سنبھال کر رکھ لیتے ہیں
آئندہ کسی مشکل گھڑی کے لیے!
علی محمد فرشی
۔۔۔۔۔۔۔۔
2
ہنسی کی موت
جب ہم ایک دوسرے میں چھپے ہوتے
تو،کوئی ہمیں ڈھونڈ نہ پاتا
کتنا مزا آتاتھا
اُس کھیل میں تمھیں
جسے ہم دونوں نے مل کر ایجاد کر لیا تھا
اپنے اندر چھپ کر سوجانے کی عادت سے
جب دیر تک آنکھ مچولی کھیلنے کے بعد
ہم گھر جاتے
تو کسی کو پتا بھی نہ چلتا
کہ ہم وہ نہیں ہیں
البتہ تمھاری ہنسی کودبانے کے لیے
مجھے اپنا سانس روکنا پڑتا
جس دن ہم
ہوا پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف
جلوس میں شرکت کے لیے
آزادی چوک پہنچے تو
وہاں لاکھوں کی تعداد میں
مسلح وردی پوش جمع تھے
ہمارا ایک آدمی بھی گھر سے نہیں نکلا!
میں نے حیرت کا اظہار کیا
لیکن عین اُسی وقت
تمھاری نظر ایک ناتواں سپاہی پر جا پڑی
جو اپنی مشین گن کے بوجھ سے
کبڑا ہوا جارہا تھا
تمھاری ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا
میں تمھاری گدگدی
روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ
کبڑے سپاہی نے فائر کھول دیا
یاد نہیں زیادہ گولیاں کسے لگی تھیں
لیکن ہم دونوں کی سانسیں
ایک ساتھ ختم ہوئیں
پتا نہیں
ہواکی قلت سے کتنے لوگ مرے
اور کتنے گولیوں کی آواز سے
علی محمد فرشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔