نظم : شیزوفرینیا

نظم : شیزوفرینیا

May 17, 2021

اردو نظم ہانی السعید کے عربی ترجمے کے ساتھ

مصنف

وجيه وارثي

شمارہ

شمارہ - ١٤


وجہیہ وارثی کی اردو نظم ہانی السعید کے عربی ترجمے کے ساتھ

شیزوفرینیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایسے قبیلے میں پیداہوا

جہاں سوچناجرم تھا

سوچنے والوں کوزندہ گاڑدیاجاتاتھا

میں سوچتے ہوئے فرارہوا

اس قبیلے کی شہزادی کی محبت میں

جہاں محبت فروخت ہوتی تھی

عشاق کاجشن ہوتاتھا

میں خالی ہاتھ پیداہونے والاشاعر

دوربیٹھا

موج مستی،جام وسبواور

انزال کی آوازیں سنتارہتاتھا

ایک دن میری پشت پر

نامردگی کی مہر لگادی گئی

نکال دیاگیا

میں مہذب سماج میں آیا

جہاں سب

ایک دوسرے کی بوٹیاِں نوچ رہے تھے

مجھے ایک کتے کی بیلٹ پکڑادی

جسے ہڈیوں سے وحشت تھی

ایک دن کتے نے کہا

"میں انسان ہوں "

اورمیں

"کتا"

اس دن کے بعد

میں چاردیواری سے نہیں نکلا

مغربی دیوارمیری محبت میں گرفتارہوگئی

تڑخ گئی

بولی

"تم نے میرادل توڑدیا"

مشرقی دیوارمجھ سے نفرت کرنے لگی

"میں کسی دن تم پرگرجائوں گی"

مشرقی دیواراندرسے ننگی ہے

باہرپردہ پڑاہے

ایک دن ایک آوارہ گرددیوار

کہیں سے آئی اورمیرے سائے میں بیٹھ گئی

مغربی دیوارکی دراڑکودیکھ کرنعرے لگانے لگی

"گرتی ہوئی دیواروکوایک دھکااوردو"

جنوبی اورشمالی دیواریں

جوخاموش تھیں

جھوم جھوم کرنعرے لگانے لگیں

"ایشیاسرخ ہے"

ایشیاسبزہے"

آوارہ گرددیوارچیخی

"نہ ایشیاسرخ ہے نہ ایشیاسبزہے

ایشیاکوقبض ہے"

ساری دیواریں قہقہے لگانے لگیں

میں پھربھی چپ رہا

پانچوں دیواریں

مجھے دیوارسمجھتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجیہہ وارثی

شيزوفرينيا

.

ولدتُ في قبيلةٍ

كان التفكير فيها جريمة

ويُدفن المفكرون أحياءً

فهربتُ وأنا أفكر

في حبِ أميرةِ قبيلةٍ

كان يُباع فيها الحب

ويُحتفل بالعشاق

أنا الشاعر المولود صفر اليدين

جلستُ بعيدًا

أواصل الاستماع إلى أصوات الاحتفالات، والقذف،

وكؤوس النبيذ

ذات يوم خُتم على ظهري

بختم الخلود

وطُردتُ من هناك

فجئت إلى مجتمع متحضر

ينهش فيه الجميع

لحم الجميع

وسُلِّمتُ حزامَ كلبٍ

كان يفزع من العظام

وذات يوم قال لي الكلب:

"أنا إنسان"

وأنا

"كلب"

بعد ذاك اليوم

لم أخرج من بين أربعة جدران

وقع الجدار الغربي في حبي

فطقطق

قائلًا:

"لقد حطمتَ قلبي"

بينما كرهني الجدار الشرقي:

"سأقع عليك يومًا ما"

الجدار الشرقي عارٍ من الداخل

وعليه ستارة من الخارج

وذات يوم جاء جدار متشرد

من مكان ما وجلس تحت ظلي

فلما رأى شقوق الجدار الغربي، أخذ يهتف:

"ادفعو الجدار الآيل للسقوط دفعة أخرى"

أما الجداران الشمالي والجنوبي

اللذان كانا صامتين

فقد راحا يهتفان متمايلين:

"آسيا حمراء"

"آسيا خضراء"

فصاح الجدار المتشرد:

"آسيا ليست حمراء ولا خضراء"

"آسيا مصابة بالإمساك"

فقهقه جميع الجدران

ومع ذلك بقيتُ أنا صامتًا

فالجدران الخمسة

تحسبني جدارًا

.

الشاعر الباكستاني: وجيه وارثي

ترجمة عن الأردية: هاني السعيد


وجہیہ وارثی کی اردو نظم ہانی السعید کے عربی ترجمے کے ساتھ

شیزوفرینیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایسے قبیلے میں پیداہوا

جہاں سوچناجرم تھا

سوچنے والوں کوزندہ گاڑدیاجاتاتھا

میں سوچتے ہوئے فرارہوا

اس قبیلے کی شہزادی کی محبت میں

جہاں محبت فروخت ہوتی تھی

عشاق کاجشن ہوتاتھا

میں خالی ہاتھ پیداہونے والاشاعر

دوربیٹھا

موج مستی،جام وسبواور

انزال کی آوازیں سنتارہتاتھا

ایک دن میری پشت پر

نامردگی کی مہر لگادی گئی

نکال دیاگیا

میں مہذب سماج میں آیا

جہاں سب

ایک دوسرے کی بوٹیاِں نوچ رہے تھے

مجھے ایک کتے کی بیلٹ پکڑادی

جسے ہڈیوں سے وحشت تھی

ایک دن کتے نے کہا

"میں انسان ہوں "

اورمیں

"کتا"

اس دن کے بعد

میں چاردیواری سے نہیں نکلا

مغربی دیوارمیری محبت میں گرفتارہوگئی

تڑخ گئی

بولی

"تم نے میرادل توڑدیا"

مشرقی دیوارمجھ سے نفرت کرنے لگی

"میں کسی دن تم پرگرجائوں گی"

مشرقی دیواراندرسے ننگی ہے

باہرپردہ پڑاہے

ایک دن ایک آوارہ گرددیوار

کہیں سے آئی اورمیرے سائے میں بیٹھ گئی

مغربی دیوارکی دراڑکودیکھ کرنعرے لگانے لگی

"گرتی ہوئی دیواروکوایک دھکااوردو"

جنوبی اورشمالی دیواریں

جوخاموش تھیں

جھوم جھوم کرنعرے لگانے لگیں

"ایشیاسرخ ہے"

ایشیاسبزہے"

آوارہ گرددیوارچیخی

"نہ ایشیاسرخ ہے نہ ایشیاسبزہے

ایشیاکوقبض ہے"

ساری دیواریں قہقہے لگانے لگیں

میں پھربھی چپ رہا

پانچوں دیواریں

مجھے دیوارسمجھتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجیہہ وارثی

شيزوفرينيا

.

ولدتُ في قبيلةٍ

كان التفكير فيها جريمة

ويُدفن المفكرون أحياءً

فهربتُ وأنا أفكر

في حبِ أميرةِ قبيلةٍ

كان يُباع فيها الحب

ويُحتفل بالعشاق

أنا الشاعر المولود صفر اليدين

جلستُ بعيدًا

أواصل الاستماع إلى أصوات الاحتفالات، والقذف،

وكؤوس النبيذ

ذات يوم خُتم على ظهري

بختم الخلود

وطُردتُ من هناك

فجئت إلى مجتمع متحضر

ينهش فيه الجميع

لحم الجميع

وسُلِّمتُ حزامَ كلبٍ

كان يفزع من العظام

وذات يوم قال لي الكلب:

"أنا إنسان"

وأنا

"كلب"

بعد ذاك اليوم

لم أخرج من بين أربعة جدران

وقع الجدار الغربي في حبي

فطقطق

قائلًا:

"لقد حطمتَ قلبي"

بينما كرهني الجدار الشرقي:

"سأقع عليك يومًا ما"

الجدار الشرقي عارٍ من الداخل

وعليه ستارة من الخارج

وذات يوم جاء جدار متشرد

من مكان ما وجلس تحت ظلي

فلما رأى شقوق الجدار الغربي، أخذ يهتف:

"ادفعو الجدار الآيل للسقوط دفعة أخرى"

أما الجداران الشمالي والجنوبي

اللذان كانا صامتين

فقد راحا يهتفان متمايلين:

"آسيا حمراء"

"آسيا خضراء"

فصاح الجدار المتشرد:

"آسيا ليست حمراء ولا خضراء"

"آسيا مصابة بالإمساك"

فقهقه جميع الجدران

ومع ذلك بقيتُ أنا صامتًا

فالجدران الخمسة

تحسبني جدارًا

.

الشاعر الباكستاني: وجيه وارثي

ترجمة عن الأردية: هاني السعيد

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024