نظم : دو باغی
نظم : دو باغی
May 21, 2020
نظم : دو باغی
شاعر : سعید الدین
پریڈ سے نکلا ہوا ادمی
بے ترتیب پیر مارتا ہوا
پیچھے رہ گیا
دُھن بدستور جاری ہے
اور اس دُھن پر
پریڈ میں شامل
سب ایک ساتھ پیر مارتے
ایک ساتھ قدم اُٹھاتے ہیں
دُھن بدستور جاری ہے
پریڈ سے نکلا ہوا آدمی
ایک انہماک کے ساتھ
بے ترتیب پیر مارنے میں مگن ہے
دُھن دھیمی ہو گئی ہے
یا دُور بجنے لگی ہے
پریڈ والے پریڈ کر رہے ہیں
اور پریڈ سے باہر آدمی
ایک یقین کے ساتھ
کسی ترتیب میں حرکت کر رہا ہے
یا شاید پریڈ کر رہا ہے
شاید کسی اور دُھن پر
جو اس کے اندر بج رہی ہے
پریڈکے لوگ شایداب اپنی دُھن نہیں سُن رہے ہیں
اُن کے پیروں کی ترتیب بدل گئی ہے
یا اُن کے پریڈ کی دُھن بند ہو گئی ہے
سب اُلٹے سیدھے پاؤں مار رہے ہیں
پریڈ سے نکلا ہوا ادمی
پریڈ کر رہا ہے
ایک اور آدمی دُھن سُننے لگتا ہے
دو آدمی پریڈ کر رہے ہیں
دوسرا میں ہوں
سعید الدین
-------------
نظم : دو باغی
شاعر : سعید الدین
پریڈ سے نکلا ہوا ادمی
بے ترتیب پیر مارتا ہوا
پیچھے رہ گیا
دُھن بدستور جاری ہے
اور اس دُھن پر
پریڈ میں شامل
سب ایک ساتھ پیر مارتے
ایک ساتھ قدم اُٹھاتے ہیں
دُھن بدستور جاری ہے
پریڈ سے نکلا ہوا آدمی
ایک انہماک کے ساتھ
بے ترتیب پیر مارنے میں مگن ہے
دُھن دھیمی ہو گئی ہے
یا دُور بجنے لگی ہے
پریڈ والے پریڈ کر رہے ہیں
اور پریڈ سے باہر آدمی
ایک یقین کے ساتھ
کسی ترتیب میں حرکت کر رہا ہے
یا شاید پریڈ کر رہا ہے
شاید کسی اور دُھن پر
جو اس کے اندر بج رہی ہے
پریڈکے لوگ شایداب اپنی دُھن نہیں سُن رہے ہیں
اُن کے پیروں کی ترتیب بدل گئی ہے
یا اُن کے پریڈ کی دُھن بند ہو گئی ہے
سب اُلٹے سیدھے پاؤں مار رہے ہیں
پریڈ سے نکلا ہوا ادمی
پریڈ کر رہا ہے
ایک اور آدمی دُھن سُننے لگتا ہے
دو آدمی پریڈ کر رہے ہیں
دوسرا میں ہوں
سعید الدین
-------------