نئے کرایہ دار
نئے کرایہ دار
Apr 8, 2020
قصہ ایک ماں بیٹی کا
نئے کرایہ دار
آغا جی نے علی پارک میں نئی کوٹھی بنائی تھی۔۔علی پارک ۔۔رسول پارک،،پیر غازی روڈ اچھرہ۔۔اور سمن آباد کے درمیان آبادی تھی۔۔ابھی صرف چند گھر ھی بنے تھے۔۔ایک دو پرچون کی دکانیں تھیں۔۔۔یہاں سب سے بڑا گھر ھمارا ھی تھا۔۔گیٹ کے سامنے گیراج۔۔۔بائیں طرف لان میں انار، امرود۔گلاب۔موتیا، رات کی رانی مہندی اور کچنار کے درخت اور پودے تھے۔۔۔برامدے کے ساتھ گلابی پھولوں والی بھوگن بیل اور برامدے کی تین سیڑھیوں پر پام کے گملے رکھے تھے
ھم شام کی چائے اس برامدے میں بیٹھ کر پیتے تھے۔۔ ساتھ گراموفون پر اپنی پسند کے ھیمنت کمار، مناڈے،محمد رفیع۔ ، بشیر احمد، فردوسی بیگم ، نورجہاں ، لتا اور کے ایک سہگل کے گیت سنتے۔۔۔۔یہاں سے سمن اباد کی طرف سے علی پارک آتی ھوئی سڑک دکھائی دیتی تھی جو ھمارے گھر کی دیوار کے ساتھ سے گزرتی ھوئی علی پارک کی اندرونی آبادی تک جاتی تھی۔۔۔ان دنوں چار دیواری زیادہ اونچی نھیں بنائی جاتی تھی گیٹ بھی اونچے نہیں ھوتے تھے اور دن بھر کھلے رہتے تھے۔۔ ۔۔نا تو دھشت گردی کا کوئی خطرہ تھا نا چوری ڈاکوں کی وارداتیں عام تھیں۔۔۔۔یوں ھم آنے جانے والوں کو بھی دیکھ سکتے تھے۔۔۔آبادی کے لوگ گزرتے رھتے،،،اگر آغا جی ھمارے ساتھ ھوتے تو وہ آغا جی اسلام و علیکم کہہ کر گزرتے۔۔۔ورنہ نظریں جھکا کر گزر جاتے۔۔۔موتیے اور رات کی رانی سے مہکتا یہ لان اور برامدہ کسی جنت سے کم نہیں تھا۔۔۔
ایک دن ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک نوجوان لڑکی جس کی عمر اٹھارہ بیس برس رھی ھوگی سڑک سے گزریں۔۔۔دوسرے روز وہ ایک گاڑی میں سامان کے ساتھ آ ئیں۔۔پتہ چلا محلے میں نئے کرایہ دار آئے ھیں۔۔صرف ماں بیٹی ھیں۔۔۔
لڑکی سانولی سلونی سی تھی مگر اس کے چہرے پر ملاحت اور معصومیت بلا کی تھی۔۔۔دونوں ماں بیٹی سر پر دوپٹہ اوڑھے نظریں جھکائے گزرتیں۔۔۔۔کبھی کبھی وہ لڑکی اکیلی ھوتی اور اس کے ساتھ ایک نہایت وجیہہ ،دراز قد لانبی زلفوں والا شخص دکھائی دیتا جس کے ھاتھ میں 555 سگریٹ کی ڈبیا ھوتی۔۔اور وہ ھمیشہ قیمتی لباس میں ملبوس ھوتا۔۔۔۔وہ کون تھا۔۔۔اس لڑکی سے اس کا کیا رشتہ تھا ؟ اس سے ھمیں کچھ سروکار نہیں تھا۔۔۔۔
انھی دنوں بڑے آغا جی یعنی ھمارے دادا جان کو فالج کا اٹیک ھوا اور پھر کچھ دن بعد ان کا انتقال ھو گیا۔۔ھم لوگ تدفین تک اپنے چچا کے گھر رھے۔۔۔۔۔جب گھر واپس آئے تو پورے محلے میں ایک ھلچل مچی دیکھی۔۔۔۔
شام کو کچھ معززین محلہ آغا جی سے ملنے آئے۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ" یہ ماں بیٹی بدکردار ھیں ۔محلہ کا ماحول خراب ھو رھا ھے۔۔ان کے ھاں پرائے مرد آتے ھیں۔۔ان کو محلے سے نکال دینا چاہئے۔"
آغا جی کھلے ذہن و دل کے مالک تھے۔۔انھوں نے محلہ والوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ غلط فہمی بھی ھوسکتی ھے۔۔۔پہلے ان کو بلا کر پوچھ لینا چاہئے۔۔۔لیکن وہ اس پر راضی نہ ھوئے۔۔۔آغا جی نے انھیں دلائل سے سمجھایا تو یہ طے ھوا کہ اس لڑکی اور اس کی ماں کو ھمارے گھر بلا کر ان کا موقف سنا جائے۔۔۔
وہ ایک عجیب شام تھی۔۔۔۔محلے کے بزرگ اور جوان جمع تھے۔۔کچھ باریش اور کچھ کلین شیو۔۔۔جن کے گھروں میں۔ماں، بہن، بیٹیاں موجود تھیں۔۔۔۔ان کے درمیان وہ دونوں کسی مجرم کی طرح بیٹھی تھیں۔۔۔ماں کہہ رھی تھی۔۔" ھم غریب ضرور ھیں۔۔مگر دھندہ نہیں کرتیں۔۔۔میری بیٹی فلموں میں کام کرتی ھے۔۔وہ لڑکا فلم ڈائرکٹر ھے۔۔جو کبھی کبھار اسے چھوڑنے یا لینے آتا ھے۔۔۔میں بیمار ھوں روزانہ اس کے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔" وہ رو رھی تھی گڑگڑا رھی تھی۔۔۔۔لڑکی نے دوپٹہ کے پلو میں منہ چھپا رکھا تھا۔۔مگر کسی کو ان کی معصومیت اور مجبوری پر یقین نہیں آ رھا تھا۔۔۔سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ محلہ چھوڑ کر چلی جائیں۔۔کیونکہ ان کی موجودگی سے محلہ کا ماحول خراب ھونے کا خطرہ تھا۔۔۔۔۔۔آغا جی اکثریت کی رائے کے آگے بے بس تھے۔۔۔
لڑکی کے آنسو ھچکیوں میں تبدیل ھو گئے۔۔دونوں ماں بیٹی نے ایک دوجے کا ھاتھ تھاما اور گھر سے باھر
نکل گئیں۔۔۔۔۔میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رھی تھی۔۔۔۔۔لڑکی نے جاتے ھوئے پلٹ کر دیکھا۔۔۔۔اس کی بھیگی ھوئی آنکھوں کے سرخ ڈورے۔۔۔میرے دل میں کسی تیز دھار خنجر کی طرح اتر گئے۔۔۔۔۔۔
پھر میں نے کبھی اس برآمدے میں بیٹھ کر چائے نہیں پی۔۔۔۔موتیے اور رات کی رانی کی خوشبو عجب وحشت ناک بدبو میں بدل گئی۔۔۔۔مجھے اپنے گھر سے خوف آنے لگا تھا۔۔۔۔
نیلما ناھید درانی
نئے کرایہ دار
آغا جی نے علی پارک میں نئی کوٹھی بنائی تھی۔۔علی پارک ۔۔رسول پارک،،پیر غازی روڈ اچھرہ۔۔اور سمن آباد کے درمیان آبادی تھی۔۔ابھی صرف چند گھر ھی بنے تھے۔۔ایک دو پرچون کی دکانیں تھیں۔۔۔یہاں سب سے بڑا گھر ھمارا ھی تھا۔۔گیٹ کے سامنے گیراج۔۔۔بائیں طرف لان میں انار، امرود۔گلاب۔موتیا، رات کی رانی مہندی اور کچنار کے درخت اور پودے تھے۔۔۔برامدے کے ساتھ گلابی پھولوں والی بھوگن بیل اور برامدے کی تین سیڑھیوں پر پام کے گملے رکھے تھے
ھم شام کی چائے اس برامدے میں بیٹھ کر پیتے تھے۔۔ ساتھ گراموفون پر اپنی پسند کے ھیمنت کمار، مناڈے،محمد رفیع۔ ، بشیر احمد، فردوسی بیگم ، نورجہاں ، لتا اور کے ایک سہگل کے گیت سنتے۔۔۔۔یہاں سے سمن اباد کی طرف سے علی پارک آتی ھوئی سڑک دکھائی دیتی تھی جو ھمارے گھر کی دیوار کے ساتھ سے گزرتی ھوئی علی پارک کی اندرونی آبادی تک جاتی تھی۔۔۔ان دنوں چار دیواری زیادہ اونچی نھیں بنائی جاتی تھی گیٹ بھی اونچے نہیں ھوتے تھے اور دن بھر کھلے رہتے تھے۔۔ ۔۔نا تو دھشت گردی کا کوئی خطرہ تھا نا چوری ڈاکوں کی وارداتیں عام تھیں۔۔۔۔یوں ھم آنے جانے والوں کو بھی دیکھ سکتے تھے۔۔۔آبادی کے لوگ گزرتے رھتے،،،اگر آغا جی ھمارے ساتھ ھوتے تو وہ آغا جی اسلام و علیکم کہہ کر گزرتے۔۔۔ورنہ نظریں جھکا کر گزر جاتے۔۔۔موتیے اور رات کی رانی سے مہکتا یہ لان اور برامدہ کسی جنت سے کم نہیں تھا۔۔۔
ایک دن ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک نوجوان لڑکی جس کی عمر اٹھارہ بیس برس رھی ھوگی سڑک سے گزریں۔۔۔دوسرے روز وہ ایک گاڑی میں سامان کے ساتھ آ ئیں۔۔پتہ چلا محلے میں نئے کرایہ دار آئے ھیں۔۔صرف ماں بیٹی ھیں۔۔۔
لڑکی سانولی سلونی سی تھی مگر اس کے چہرے پر ملاحت اور معصومیت بلا کی تھی۔۔۔دونوں ماں بیٹی سر پر دوپٹہ اوڑھے نظریں جھکائے گزرتیں۔۔۔۔کبھی کبھی وہ لڑکی اکیلی ھوتی اور اس کے ساتھ ایک نہایت وجیہہ ،دراز قد لانبی زلفوں والا شخص دکھائی دیتا جس کے ھاتھ میں 555 سگریٹ کی ڈبیا ھوتی۔۔اور وہ ھمیشہ قیمتی لباس میں ملبوس ھوتا۔۔۔۔وہ کون تھا۔۔۔اس لڑکی سے اس کا کیا رشتہ تھا ؟ اس سے ھمیں کچھ سروکار نہیں تھا۔۔۔۔
انھی دنوں بڑے آغا جی یعنی ھمارے دادا جان کو فالج کا اٹیک ھوا اور پھر کچھ دن بعد ان کا انتقال ھو گیا۔۔ھم لوگ تدفین تک اپنے چچا کے گھر رھے۔۔۔۔۔جب گھر واپس آئے تو پورے محلے میں ایک ھلچل مچی دیکھی۔۔۔۔
شام کو کچھ معززین محلہ آغا جی سے ملنے آئے۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ" یہ ماں بیٹی بدکردار ھیں ۔محلہ کا ماحول خراب ھو رھا ھے۔۔ان کے ھاں پرائے مرد آتے ھیں۔۔ان کو محلے سے نکال دینا چاہئے۔"
آغا جی کھلے ذہن و دل کے مالک تھے۔۔انھوں نے محلہ والوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ غلط فہمی بھی ھوسکتی ھے۔۔۔پہلے ان کو بلا کر پوچھ لینا چاہئے۔۔۔لیکن وہ اس پر راضی نہ ھوئے۔۔۔آغا جی نے انھیں دلائل سے سمجھایا تو یہ طے ھوا کہ اس لڑکی اور اس کی ماں کو ھمارے گھر بلا کر ان کا موقف سنا جائے۔۔۔
وہ ایک عجیب شام تھی۔۔۔۔محلے کے بزرگ اور جوان جمع تھے۔۔کچھ باریش اور کچھ کلین شیو۔۔۔جن کے گھروں میں۔ماں، بہن، بیٹیاں موجود تھیں۔۔۔۔ان کے درمیان وہ دونوں کسی مجرم کی طرح بیٹھی تھیں۔۔۔ماں کہہ رھی تھی۔۔" ھم غریب ضرور ھیں۔۔مگر دھندہ نہیں کرتیں۔۔۔میری بیٹی فلموں میں کام کرتی ھے۔۔وہ لڑکا فلم ڈائرکٹر ھے۔۔جو کبھی کبھار اسے چھوڑنے یا لینے آتا ھے۔۔۔میں بیمار ھوں روزانہ اس کے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔" وہ رو رھی تھی گڑگڑا رھی تھی۔۔۔۔لڑکی نے دوپٹہ کے پلو میں منہ چھپا رکھا تھا۔۔مگر کسی کو ان کی معصومیت اور مجبوری پر یقین نہیں آ رھا تھا۔۔۔سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ محلہ چھوڑ کر چلی جائیں۔۔کیونکہ ان کی موجودگی سے محلہ کا ماحول خراب ھونے کا خطرہ تھا۔۔۔۔۔۔آغا جی اکثریت کی رائے کے آگے بے بس تھے۔۔۔
لڑکی کے آنسو ھچکیوں میں تبدیل ھو گئے۔۔دونوں ماں بیٹی نے ایک دوجے کا ھاتھ تھاما اور گھر سے باھر
نکل گئیں۔۔۔۔۔میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رھی تھی۔۔۔۔۔لڑکی نے جاتے ھوئے پلٹ کر دیکھا۔۔۔۔اس کی بھیگی ھوئی آنکھوں کے سرخ ڈورے۔۔۔میرے دل میں کسی تیز دھار خنجر کی طرح اتر گئے۔۔۔۔۔۔
پھر میں نے کبھی اس برآمدے میں بیٹھ کر چائے نہیں پی۔۔۔۔موتیے اور رات کی رانی کی خوشبو عجب وحشت ناک بدبو میں بدل گئی۔۔۔۔مجھے اپنے گھر سے خوف آنے لگا تھا۔۔۔۔
نیلما ناھید درانی