ناول اور میخائل باختن کا کثیرالاصواتی نظریہ

ناول اور میخائل باختن کا کثیرالاصواتی نظریہ

May 24, 2020

مصنف

علی رفاد فتیحی

شمارہ

شمارہ - ١١

ناول اور میخائل باختن کا کثیرالاصواتی نظریہ

علی رفاد فتیحی

نثری  اصناف میں  ناول ایک اہم ترین صنف ہے۔مختلف ناقدین نے ناول کے حوالے سے اپنی مختلف رائیں پیش کی ہیں۔ اٹھارویں صدی  میں کلاراریونے اپنی کتاب

"Progress of Romance"۱۷۸۵ء) میں لکھا:

"The novel is a picture of real life and manners, and of time in which it is written."

اور اس کے ایک صدی بعد ہنری جیمز نے ۱۸۸۴ء میں اپنے مشہور مقالے ’’فکشن کافن‘‘ میں یہ رائے دی:

’’ناول کی وسیع ترین تعریف یہ ہے کہ وہ زندگی کا ذاتی اور براہ راست تاثر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اس کی قدر وقیمت مقرر کرتی ہے۔ اگریہ تاثر پوری شدت سے بیان ہو گیاتو ناول کام یاب ہے اور اگر کمزور رہا تو اسی اعتبار سے ناول کم زور اور ناکامیاب ہو گا۔

اور بیسویں صدی میں ڈی ایچ لارنس نے بھی اسی سے ملتی جلتی رائے دی:

’’ناول کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گردو پیش میں پائی جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے، اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے"۔

ناول کے دیگر مغربی نقادوں لباک، ای ایم فاسٹر، ہیری لیون، فرینک کرموڈ، آرسٹیگ آئن واٹ اور رینے ویلک وغیرہ نے بھی اسی قسم کی  تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان ناقدین کے  تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ناول  ہماری حقیقی زندگی کا ترجمان ہوتاہے۔ جو تجربات، سانحات اور واقعات ہمیں روز مرہ زندگی میں پیش آتے ہیں،  ناول  انھیں بیان کرتا ہے۔ یوں ہم ناول کے ذریعے اپنی گزری اور گزررہی زندگی کی باز آفرینی کرتے ہیں کیونکہ ناول ہمارے ماضی اور حال کا آئنہ ہوتا ہے۔

ناول کی تنقید کے ابتدائی نقوش یونانی تنقید میں ملتے ہیں۔ افلاطون نے ’جمہوریہ ‘‘میں نقل نگاری (Mimesis)اور واقعہ نگاری(Digesis)کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ افلاطون نقل سے مراد ایسا بیانیہ لیتا ہے جو کسی واقعے کی ٹھیک ٹھیک نمایندگی یا نقل کرے۔ ’’نقل‘‘پڑھتے ہوئے ہمارا دھیان نہ صرف واقعے پر برابر مرکوز رہے بلکہ اس کے حقیقی ہونے کا تاثر بھی ملے۔ دوسرے لفظوں میں ’’نقل‘‘ ایک قسم کی حقیقت نگاری ہے، جب کہ ’’واقعہ نگاری‘‘ ایک ایسے بیانیہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے جو اپنے تخیلی اور تشکیلی ہونے کا تاثر دے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کی توجہ بیانیے کی اپنی جداگا نہ کائنات پر مرکوز رہے۔

ہم کَہ سکتے ہیں کہ ’’نقل‘ ناول کو زندگی کے خارجی ،مانوس اور روز مرہ تجربات سے مربوط کرتی ہے اور واقعہ نگاری بیانئے کے خود مختار ، خود کفیل اور خود اپنے شعریاتی ضوابط کے تابع ہونے کا مفہوم  دیتا ہے۔ نقل ،واقعہ ہے اور واقعہ نگاری، بیان واقعہ۔ نیز یہ دو اصطلاحیں دو زاویہ ہائے نظر بھی ہیں جو  ناول کو زندگی کی نظر سے اور  ناول کو خود  ناول کی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہیں۔ ایک  ناول کے اصول  ناول سے باہر زندگی میں تلاش کرتا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ ناول  کے اصولوں کو خود  ناول کے اندر دریافت کرتا ہے۔ ۔

ان  تفصیلات کی روشنی میں اس مقالے میں ان سوالوں پرباختن کے نظریہ  اصنافکا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔

روسی ماہر لسانیات اور نقاد میخائل  باختن    کا خیال ہے کہ  روز اوّل سے  ادبی تنقید نے ان سوالوں کو الجھایا ہے۔  اور ایک طویل عرصے تک  ناول کی تنقید میں مائی می سس کا زاویہ نظر حاوی رہا اور ناول کو زندگی اور اس کے تجربات و مسائل کی ترجمانی کے حوالے سے سمجھنے اور جانچنے کا میلان غالب رہا اور اب ڈائی جی سس کے زوایہ نظر نے اپنی موزونیت کو باور کرایا ہے اور ناول  کی شعریات اور اس کی رسمیات و ضوابط کودریافت اور طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

روسی ہیئت پسندی اور ساختیات سے قبل فکشن کی تنقید میں یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی تھی کہ فکشن (بالخصوص ناول اور افسانے)کا زندگی سے گہرا ،اٹوٹ رشتہ ہے اور فکشن کا زندگی کے بغیر اور زندگی سے الگ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً افسانوی تنقید نے بیسویں صدی کے اوائل تک یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے ۔

 بالفاظ دیگر  روایتی تنقید نے   ناول کے تجزیہ میں مواد یا موضوع (یعنی نظریے )کو  فارم سے ہمیشہ الگ تھلگ رکھا  ہے.  لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیالات کا  زبان کے  بغیر کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس ضمن میں باختن کا خیال ہے کہ  فارم اور مواد کے درمیان خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا ۔  اس کی مزید وضاحت کے لیے وہ ناول اور بالخصوص دوستوواسکی کی ناول  پر توجہ مرکوز  کرتا ہے . اس  کا خیال ہے کہ  فارم نظریاتی ہوتا ہے  لیکن کوئ بھی نظریہ کسی فارم کے بغیر ممکن نہبں۔ یہی وجہ ہے کہ باختن  سماجی اسلوبیات  stylistics    کی پیروی کرتا ہے۔کیونکہ اس کی نظر میں نشان     ( سائن ) ایک مستحکم اکائ نہیں ہے۔بلکہ یہ  ایک خاص سماجی سیاق میں اپنی تعبیر پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باختن ناول کو بھی سیاسی سماجی اقتصادی نظامات کے ساتھ مختص کر کے دیکھتا ہے۔

اس کا خیال ہے کہ  ناول ایک واحد ، متحدہ  فارم پر مشتمل نہیں ہوتا  ہے۔ یعنی ناول ایک ایسی صنف ہے جس میں کئ اصناف کے فارم پوشیدہ ہوتے ہیں جسےوہ اپنے مخصوص لہجے میں            "several heterogeneous stylistic unities"   ، کہتا ہے مزید یہ کہ اس کی نظر میں  اس  شاعری کے بر عکس جو یک آوازی اور یک رو منطق کی حامل ہوتی ہے، ناول کثیر الاصواتی یعنی  Hetroglot ہوتا ہے۔ اور ناول کا کثیرالاصواتی ڈسکورس ناول کو کثیر فکری بناتا ہے۔  ناول کے کثیرالاصواتی لہجے کے لیے باختن نے بعض جگہوں پر ذو آوازی یعنی Polyphonic  یا   Dialogic  کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔  ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں‘‘ گویا  اس کی نظر میں یہ صنف شاعری کی طرح  monological  نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کثیر اظہاریت کا عمل کارفرمہ ہوتا ہے جس کے سبب ناول میں مستعمل آواز مصنف تک محدود نہیں ہوتی۔ اپنی اس تحریر میں باختن نے جن تین نمایاں آوازوں کا ذکر کیا ہے ان میں پہلی آواز    

• مصنف کی اپنی آواز ہے۔ یہ آواز  نام نہاد لیکن  براہ راست   مصنفی مداخلتوں یعنی    interventions    authorial کی آواز ہے

• راوی کی آواز ( راوی کی آواز عام طور پر ایک مخصوص ادبی سٹائل یا کنونشن کی آواز ہوتی ہے )؛

• مختلف  کردار کی آوازیں ( کردار کی آوازعام طور نیم ادبی انداز میں پیش کردہ آواز ہوتی ہے)۔

دوسرے الفاظ میں، مصنف کی آواز ناول کی کثیرالاصواتی آوازوں میں سے  محض ایک آواز  ہے۔ .               Bakhtin  کے لئے، یہ آواز وسیع تر طبقے کی آوازوں سے کم حیثیت رکھتی ہے۔ وسیع تر طبقے کی آواز کسی خاص طبقے کی نظریاتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے اور کثیرالاصواتی  آواز heteroglossia  کی وجہ بنتی ہے۔ کثیر الاصواتی متن میں ہر آواز کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے۔  ہیٹرو گلوسیا کی اصطلاح درون لسانی تکثیریت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ جو بعض اوقات اسلوبیاتی تنوع کی وجہ بنتی ہے۔ اور ناول میں داخل ہونے والی آوازوں مین کثیر جہتی پیدا کرتی ہے۔  ناول کا  مرکز گریز بکھراؤ   ( centrifugal Dispersion)    ناول میں  " dialogisation "ذوصوتیت تشکیل دیتا  ہے  اور تحریری علایم و اصطلاحات کی نشو و نما پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ اس طرح ناول رمزیاتی یامجازیاتی (Allegorical) اور خیالی تحریروں کو پیش کرتا ہے

چونکہ ناول کا مزاج کثیرالاصواتی ہے لہذا ناول کی تنقید کو یکساں طور پر فارمالسٹ اور سماجی ہونا چاہیے۔ باختن کا خیال ہے کہ چونکہ ناول کے ڈسکورس میں سماجی تکثیریت شامل ہوتی ہے لہذا ناول کے ڈسکورس کو بخوبی سمجھنے کے لیے ناول کے سماجی سیاق کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اسی سماجی سیاق کے زیر اثر ناول کا لسانی مزاج متشکل ہوتا ہے۔ اور  فارم اور مواد کا تعین کرتا ہے

وہ مانتا ہے کہ شاعری، وحدانی اور monologic  ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے شاعر اپنے ارادے کا " خالص اور براہ راست اظہار کرتا  ہے " مزید یہ کہ شاعری میں کثیرالاصواتی کیفیت نہیں ملتی۔ اس کے الفاظ میں غنائ شاعری neither multiform in style nor variform in voice.  ہوتی ہے۔

اس کے برعکس،  وہ یہ بھی مانتا ہے کہ کثیرالاصواتی یعنی heteroglossia  نثری اصناف مثلا ناول اور  افسانے کی غالب خصوصیت ہے۔ مزید وضاجت کے لیے وہ کہتا ہے کہ  تنقید کے روایتی  طریقہ کار  شاعری کی تشریح پر مبنی ہیں. نتیجتا ، وہ اکثر نظریاتی monologism اور شاعری کے اسلوبیاتی اتحاد کے مقابلے میں ناول کے نظریاتی اور  اسلوبیاتی تنوع کو کم کر کے آنکتے ہیں

مؤخر الذکر heteroglossia کی حقیقت کو نظر انداز  کرنے کی وجہ سے ناول کا مطالعہ تنقید کے  موجودہ فریم ورک میں فٹ  نہیں ہوتا ہے۔. اس نقطہ نظر سے، ناول سمیت کوئ بھی    نثری اظہار "ایک سماجی طور پر مخصوص ماحول میں اور  مخصوص تاریخی لمحے میں "  شکل لیتا ہے اور  " سماجی مکالمے میں شریک ہوتا ہے۔  باختن کے خیال میں، زبان بنیادی طور پر ذو آوازی ہے کیونکہ اس میں مختلف النوع آوازوں کو شریک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور یہ صرف غالب آواز یا غالب نقطہ نظر کے اظہار کا ذریعہ  نہیں بنتی  ہے۔

یہ تصور کہ ناول  شاعری کی طرح، یک آوازی اظہار یعنی  monological utterance ہے  ایک عرصے تک ادبی تنقید میں غالب رہا ہے کیونکہ یہ تصوّر تاریخی اعتبار سے اس فکر کی نمائندگی کرتا ہے جو اقتصادی، سیاسی، سماجی، اور ثقافتی مرکزیت کا قائل ہے، باختن  کا خیال ہے کہ  اسی وجہ سے  انیسویں صدی تک  ، شاعری کا صنف  سب سے زیادہ بورژوائ دلچسپی کا سامان تھا۔  اور اس دور کا ادبی سٹائل بن گیا تھا ۔

گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادبی تنقید نے عام طور پر ایک  طویل  عرصے تک زبان کے ذو آوازی لہجے اور ناول کے کثیرالاصواتی انداز کو نظر انداز کیا ہے. زبان کے کثیر لسانی لہجے سے ناواقفیت کی وجہ سے ناقدین نے ناول جیسے ان تمام اصناف  کو نظر انداز کیا جو  نظریاتی سطح پر ان  رجحانات کے  پیروکار تھے جو مرکز گریز یعنی  CENTRIPETAL قدروں کے حامل تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ غنائ شاعری کا مزاج یورپ کے بور‍‌ژوائ سوچ سے مطابقت رکھتا تھا۔ جو یورپ کے تہذیبی اور ثقافتی  وحدت کا قائل تھا۔  اس طرح  شاعری میں ہمیں بورژوائ شعور کی صورت گری  ملتی ہے ۔کیونکہ اس دور میں  شاعری بڑی حد تک جاگیردارانہ سرپرستی کی مرہون منت تھی لیکن  جاگیردانہ نظام  کے خاتمے کے بعد متوسط طبقے کی ترقی کی وجہ سے ایک پیراڈائم شفٹ کی صورت نظر آتی ہے جس کی وجہ سے  ناول کا صنف   لوک بیانیہ کے عوامی تہذیبی روایت کے  زیر اثر ظہور پذیر ہوتا ہے اور میلوں ٹھیلوں کے کارنیول روائتوں سے ہوتا ہوا یونانی رومان پاروں تک پہنچتا ہے۔  باختن کارنیول روائتوں اور یونانی رومان پاروں کی مثالوں سے یہ واضح کرتا ہے کہ ان اصناف کو ذو آوازی یا  ڈائ لوجک ہونا  ایک منطقی عمل تھا کیونکہ ان کے پلاٹ کا جا‎ۓ وقوع مختلف جغرافیائ حدوں میں پھیلا ہوتا ہے۔  ان اصناف  کے پلاٹ کے جا‎ۓ وقوع کی وسعت انھیں ذو آوازی یا  ڈائ لوجک بناتی ہے۔

ان تفصیلات کی روشنی میں، اس  بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ  ناول کے کثیر الاصواتی  heteroglot نوعیت پر Bakhtin کے خیالات حقیقت پسندی کے انسان دوستی اور مارکسی  تصورات کا تنقید پیش کرتے ہیں

ناول کا mimetic ماڈل ناول کے متعلق Georg Lukács کے نقطہ نظر  کو پیش کرتا ہے Bakhtin  کا دعوی ہے  کہ شاعری اس حقیقت کو بھول جاتی ہے کہ تخلیقی مواد کی اپنی تاریخ ہوتی ہے  ، اس کے برعکس، نثری اصناف سماجی کثیر الاصواتی آوازوں کا معترف  ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ زبان کی dialogic نوعیت کے مدنظر باختن کا خیال ہے کہ  دیگر چیزوں کے علاوہ مصنف  کو ممکنہ قارئین کے نقطہ نظر کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہیے کیونکہ تخلیق میں پیش کردہ اجنبی الفاظ  قاری کی ذہنی بالیدگی کے زیر اثر پروان چڑھتے ہیں۔ تفہیم کا عمل قاری کے  کاگنیٹو اور  تصوراتی نظام میں نشو نما پاتا ہے اور جذب و اختلاط  کی کیفیت سے گزر کر   تفہیم کا حصّہ بن جاتا ہے جس سے  اجنبی معنوی افق   تک رسائ ہوتی ہے۔

ناول کا کثیرالاصواتی heteroglot نوعیت ، قاری کی آواز کو شامل کرنے کے نۓ"امکانات "  ڈھونڈتا  ہے۔ گویا مصنف اور اس کے مقصد بیان  کے درمیان ایک  اور  intruding  یعنی تدخلی نقطہ نظر ہوتا  ہے". ناول نگار کے لیے  اس کے اپنے سماجی اور کثیرالاصواتی heteroglot   تصورات سے باہر کوئی دوسری  دنیا نہیں ہوتی۔  یعنی باختن کا خیا ل ہے کہ  ناول نگار بعض صورتوں میں اپنی تصوراتی دنیا کو  حقیقی دنیا تصور کرتا ہے کیونکہ اس کثیرالاصواتی  تصوراتی دنیا  کے اصول زبان کے ذو آوازی مزاج سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ گویا اس کا خیال ہے کہ ناول میں پیش کردہ دنیا حقیقی نہیں ہوتی بلکہ  کثیرالاصواتی  تصوراتی دنیا کی ایک ایسی تصویر ہوتی ہے جو زبان کی ذو آوازی قوت سے تخلیق ہوتی ہے۔ لہذا اس کی دلیل ہے کہ کثیرالاصواتی دنیا کی فنی اور لسانی نمائندگی ناول کا مرکزی مسلہ ہے۔

مزید یہ کہ ناول نہ صرف کردار اور ان طبقات کی جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں  کے ڈائ لیکٹیکل ( ذو آوازی)  ٹکراؤ کو پیش کرنے کا عمل ہے بلکہ  نظریاتی نقطہ ن‍ظر کا لا ینحل مناطرہ  بھی پیش کرتا ہےجس میں ' سچ ' ہمیشہ معطل اور ملتوی  رہتاہے۔

لہذا Bakhtin کہتا ہے کہ ناول کا ہر کردار اپنی منفرد نظریاتی  آواز رکھتا ہے کیونکہ ناول کا کردارہمیشہ ایک بولنے والا انسان ہوتا ہے۔  اس منفرد نظریاتی  آواز کو نظریاتی  ڈسکورس  کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

ناول بعض اوقات زبان کی مخلوط شکل پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے تاکہ مختلف سماجی بولیوں کی فنکارانہ تصویر تخلیق کی جا سکے۔ یہ کوشش قاری کے ذہن میں  سماجی لسانیاتی فرق کو واضح کرتی ہے۔  گویا ناول ایک ایسی صنف ہے جو  مختلف سماجی بولیوں کو یکجا کرنے کا منظم نظام پیش کرتا ہے۔ باختن کا خیال ہے کہ زبان کی فنکارانہ تصویر پیش کرنے کے تین بنیادی طریقہ کار ہیں۔ جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے با وجود ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں

مکالمہ

لسانی مخلوطیت:  مختلف لسانی consciousnesses

کے درمیان ایک  مکالمہ جہاں دو لسانی رویون کا براہ راست اختلاط ہوتا ہے

ذوآوازی لسانی ربط: دو یا دو سے زیادہ زبانوں  کی موجودگی۔  باختن اس کے لیے

parodic stylization

کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔

ان تفصیلات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باختن  نے  اپنے نظریہ اصناف میں  بین  المتونیت

intertextuality

کا ایک ایسا  ماڈل پیش کیا ہے جو فرڈی ننڈ ڈی  سسیور کے نظریہ پیرول اور  ذو عصریت کو   اس دور میں  اہمیت  دیتا ہے جب ساختیات کے ماہرین فرڈی ننڈ ڈی   سسیو ر کے نظریہ لانگ ، عصریت،  اور  غیر انفرادیت  '(مصنف کی موت') کی باتیں کر رہے تھے ۔ باختن کا خیال ہے کہ ہر مصنف  دوسرے مصنفین کو دہراتا ہے۔وہ  اس عمل کو

'parodying

 کہتا ہے ۔ اس کا یہ خیال حضرت علی کے اس قول کہ قریب نظر آتا ہے کہ لفظ کہناایک عہد کو دہرانے کے مترادف ہے  اس کے خیال میں یہ عمل   کبھی شعوری طور پر کبھی اتفاقی طور پر، کبھی واضح طور پر اور کبھی غیر واضح طور پر دہرایا جاتا ہے۔ ناول  کی اس بنیاد ی تخلیقی جہت کو نظر یاتی بنیاد اس کے کثیر الاصواتی

(   Hetroglot  )

نظریےنے مہیا کی۔ باختن  کا بنیادی مفروضہ یہ  ہے کہ ناول  معاصر زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتا ہے اورزندگی کی سچائیوں میں اس عہد کی سماجی، سیاسی، معاشرتی صداقتیں شامل ہوتی ہیں۔ یوں اس کا خیال ہے کہ  ناول ، زندگی سے متعلق آرزومندانہ تصورات کے بجائے حقیقی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو پیش کرتا ہے اور اصولی طور پر انسان کی تخیلی زندگی سے زیادہ اس کے خارجی احوال قلم بند کرنے پر زور دیتا ہے اور اس طرح باختن  ناول کو ذات کا اظہار نہیں،  بلکہ حیات کا بیانیہ قرار دیتا ہے۔

ناول اور میخائل باختن کا کثیرالاصواتی نظریہ

علی رفاد فتیحی

نثری  اصناف میں  ناول ایک اہم ترین صنف ہے۔مختلف ناقدین نے ناول کے حوالے سے اپنی مختلف رائیں پیش کی ہیں۔ اٹھارویں صدی  میں کلاراریونے اپنی کتاب

"Progress of Romance"۱۷۸۵ء) میں لکھا:

"The novel is a picture of real life and manners, and of time in which it is written."

اور اس کے ایک صدی بعد ہنری جیمز نے ۱۸۸۴ء میں اپنے مشہور مقالے ’’فکشن کافن‘‘ میں یہ رائے دی:

’’ناول کی وسیع ترین تعریف یہ ہے کہ وہ زندگی کا ذاتی اور براہ راست تاثر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اس کی قدر وقیمت مقرر کرتی ہے۔ اگریہ تاثر پوری شدت سے بیان ہو گیاتو ناول کام یاب ہے اور اگر کمزور رہا تو اسی اعتبار سے ناول کم زور اور ناکامیاب ہو گا۔

اور بیسویں صدی میں ڈی ایچ لارنس نے بھی اسی سے ملتی جلتی رائے دی:

’’ناول کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گردو پیش میں پائی جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے، اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے"۔

ناول کے دیگر مغربی نقادوں لباک، ای ایم فاسٹر، ہیری لیون، فرینک کرموڈ، آرسٹیگ آئن واٹ اور رینے ویلک وغیرہ نے بھی اسی قسم کی  تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان ناقدین کے  تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ناول  ہماری حقیقی زندگی کا ترجمان ہوتاہے۔ جو تجربات، سانحات اور واقعات ہمیں روز مرہ زندگی میں پیش آتے ہیں،  ناول  انھیں بیان کرتا ہے۔ یوں ہم ناول کے ذریعے اپنی گزری اور گزررہی زندگی کی باز آفرینی کرتے ہیں کیونکہ ناول ہمارے ماضی اور حال کا آئنہ ہوتا ہے۔

ناول کی تنقید کے ابتدائی نقوش یونانی تنقید میں ملتے ہیں۔ افلاطون نے ’جمہوریہ ‘‘میں نقل نگاری (Mimesis)اور واقعہ نگاری(Digesis)کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ افلاطون نقل سے مراد ایسا بیانیہ لیتا ہے جو کسی واقعے کی ٹھیک ٹھیک نمایندگی یا نقل کرے۔ ’’نقل‘‘پڑھتے ہوئے ہمارا دھیان نہ صرف واقعے پر برابر مرکوز رہے بلکہ اس کے حقیقی ہونے کا تاثر بھی ملے۔ دوسرے لفظوں میں ’’نقل‘‘ ایک قسم کی حقیقت نگاری ہے، جب کہ ’’واقعہ نگاری‘‘ ایک ایسے بیانیہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے جو اپنے تخیلی اور تشکیلی ہونے کا تاثر دے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کی توجہ بیانیے کی اپنی جداگا نہ کائنات پر مرکوز رہے۔

ہم کَہ سکتے ہیں کہ ’’نقل‘ ناول کو زندگی کے خارجی ،مانوس اور روز مرہ تجربات سے مربوط کرتی ہے اور واقعہ نگاری بیانئے کے خود مختار ، خود کفیل اور خود اپنے شعریاتی ضوابط کے تابع ہونے کا مفہوم  دیتا ہے۔ نقل ،واقعہ ہے اور واقعہ نگاری، بیان واقعہ۔ نیز یہ دو اصطلاحیں دو زاویہ ہائے نظر بھی ہیں جو  ناول کو زندگی کی نظر سے اور  ناول کو خود  ناول کی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہیں۔ ایک  ناول کے اصول  ناول سے باہر زندگی میں تلاش کرتا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ ناول  کے اصولوں کو خود  ناول کے اندر دریافت کرتا ہے۔ ۔

ان  تفصیلات کی روشنی میں اس مقالے میں ان سوالوں پرباختن کے نظریہ  اصنافکا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔

روسی ماہر لسانیات اور نقاد میخائل  باختن    کا خیال ہے کہ  روز اوّل سے  ادبی تنقید نے ان سوالوں کو الجھایا ہے۔  اور ایک طویل عرصے تک  ناول کی تنقید میں مائی می سس کا زاویہ نظر حاوی رہا اور ناول کو زندگی اور اس کے تجربات و مسائل کی ترجمانی کے حوالے سے سمجھنے اور جانچنے کا میلان غالب رہا اور اب ڈائی جی سس کے زوایہ نظر نے اپنی موزونیت کو باور کرایا ہے اور ناول  کی شعریات اور اس کی رسمیات و ضوابط کودریافت اور طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

روسی ہیئت پسندی اور ساختیات سے قبل فکشن کی تنقید میں یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی تھی کہ فکشن (بالخصوص ناول اور افسانے)کا زندگی سے گہرا ،اٹوٹ رشتہ ہے اور فکشن کا زندگی کے بغیر اور زندگی سے الگ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً افسانوی تنقید نے بیسویں صدی کے اوائل تک یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے ۔

 بالفاظ دیگر  روایتی تنقید نے   ناول کے تجزیہ میں مواد یا موضوع (یعنی نظریے )کو  فارم سے ہمیشہ الگ تھلگ رکھا  ہے.  لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیالات کا  زبان کے  بغیر کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس ضمن میں باختن کا خیال ہے کہ  فارم اور مواد کے درمیان خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا ۔  اس کی مزید وضاحت کے لیے وہ ناول اور بالخصوص دوستوواسکی کی ناول  پر توجہ مرکوز  کرتا ہے . اس  کا خیال ہے کہ  فارم نظریاتی ہوتا ہے  لیکن کوئ بھی نظریہ کسی فارم کے بغیر ممکن نہبں۔ یہی وجہ ہے کہ باختن  سماجی اسلوبیات  stylistics    کی پیروی کرتا ہے۔کیونکہ اس کی نظر میں نشان     ( سائن ) ایک مستحکم اکائ نہیں ہے۔بلکہ یہ  ایک خاص سماجی سیاق میں اپنی تعبیر پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باختن ناول کو بھی سیاسی سماجی اقتصادی نظامات کے ساتھ مختص کر کے دیکھتا ہے۔

اس کا خیال ہے کہ  ناول ایک واحد ، متحدہ  فارم پر مشتمل نہیں ہوتا  ہے۔ یعنی ناول ایک ایسی صنف ہے جس میں کئ اصناف کے فارم پوشیدہ ہوتے ہیں جسےوہ اپنے مخصوص لہجے میں            "several heterogeneous stylistic unities"   ، کہتا ہے مزید یہ کہ اس کی نظر میں  اس  شاعری کے بر عکس جو یک آوازی اور یک رو منطق کی حامل ہوتی ہے، ناول کثیر الاصواتی یعنی  Hetroglot ہوتا ہے۔ اور ناول کا کثیرالاصواتی ڈسکورس ناول کو کثیر فکری بناتا ہے۔  ناول کے کثیرالاصواتی لہجے کے لیے باختن نے بعض جگہوں پر ذو آوازی یعنی Polyphonic  یا   Dialogic  کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔  ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں‘‘ گویا  اس کی نظر میں یہ صنف شاعری کی طرح  monological  نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کثیر اظہاریت کا عمل کارفرمہ ہوتا ہے جس کے سبب ناول میں مستعمل آواز مصنف تک محدود نہیں ہوتی۔ اپنی اس تحریر میں باختن نے جن تین نمایاں آوازوں کا ذکر کیا ہے ان میں پہلی آواز    

• مصنف کی اپنی آواز ہے۔ یہ آواز  نام نہاد لیکن  براہ راست   مصنفی مداخلتوں یعنی    interventions    authorial کی آواز ہے

• راوی کی آواز ( راوی کی آواز عام طور پر ایک مخصوص ادبی سٹائل یا کنونشن کی آواز ہوتی ہے )؛

• مختلف  کردار کی آوازیں ( کردار کی آوازعام طور نیم ادبی انداز میں پیش کردہ آواز ہوتی ہے)۔

دوسرے الفاظ میں، مصنف کی آواز ناول کی کثیرالاصواتی آوازوں میں سے  محض ایک آواز  ہے۔ .               Bakhtin  کے لئے، یہ آواز وسیع تر طبقے کی آوازوں سے کم حیثیت رکھتی ہے۔ وسیع تر طبقے کی آواز کسی خاص طبقے کی نظریاتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے اور کثیرالاصواتی  آواز heteroglossia  کی وجہ بنتی ہے۔ کثیر الاصواتی متن میں ہر آواز کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے۔  ہیٹرو گلوسیا کی اصطلاح درون لسانی تکثیریت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ جو بعض اوقات اسلوبیاتی تنوع کی وجہ بنتی ہے۔ اور ناول میں داخل ہونے والی آوازوں مین کثیر جہتی پیدا کرتی ہے۔  ناول کا  مرکز گریز بکھراؤ   ( centrifugal Dispersion)    ناول میں  " dialogisation "ذوصوتیت تشکیل دیتا  ہے  اور تحریری علایم و اصطلاحات کی نشو و نما پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ اس طرح ناول رمزیاتی یامجازیاتی (Allegorical) اور خیالی تحریروں کو پیش کرتا ہے

چونکہ ناول کا مزاج کثیرالاصواتی ہے لہذا ناول کی تنقید کو یکساں طور پر فارمالسٹ اور سماجی ہونا چاہیے۔ باختن کا خیال ہے کہ چونکہ ناول کے ڈسکورس میں سماجی تکثیریت شامل ہوتی ہے لہذا ناول کے ڈسکورس کو بخوبی سمجھنے کے لیے ناول کے سماجی سیاق کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اسی سماجی سیاق کے زیر اثر ناول کا لسانی مزاج متشکل ہوتا ہے۔ اور  فارم اور مواد کا تعین کرتا ہے

وہ مانتا ہے کہ شاعری، وحدانی اور monologic  ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے شاعر اپنے ارادے کا " خالص اور براہ راست اظہار کرتا  ہے " مزید یہ کہ شاعری میں کثیرالاصواتی کیفیت نہیں ملتی۔ اس کے الفاظ میں غنائ شاعری neither multiform in style nor variform in voice.  ہوتی ہے۔

اس کے برعکس،  وہ یہ بھی مانتا ہے کہ کثیرالاصواتی یعنی heteroglossia  نثری اصناف مثلا ناول اور  افسانے کی غالب خصوصیت ہے۔ مزید وضاجت کے لیے وہ کہتا ہے کہ  تنقید کے روایتی  طریقہ کار  شاعری کی تشریح پر مبنی ہیں. نتیجتا ، وہ اکثر نظریاتی monologism اور شاعری کے اسلوبیاتی اتحاد کے مقابلے میں ناول کے نظریاتی اور  اسلوبیاتی تنوع کو کم کر کے آنکتے ہیں

مؤخر الذکر heteroglossia کی حقیقت کو نظر انداز  کرنے کی وجہ سے ناول کا مطالعہ تنقید کے  موجودہ فریم ورک میں فٹ  نہیں ہوتا ہے۔. اس نقطہ نظر سے، ناول سمیت کوئ بھی    نثری اظہار "ایک سماجی طور پر مخصوص ماحول میں اور  مخصوص تاریخی لمحے میں "  شکل لیتا ہے اور  " سماجی مکالمے میں شریک ہوتا ہے۔  باختن کے خیال میں، زبان بنیادی طور پر ذو آوازی ہے کیونکہ اس میں مختلف النوع آوازوں کو شریک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور یہ صرف غالب آواز یا غالب نقطہ نظر کے اظہار کا ذریعہ  نہیں بنتی  ہے۔

یہ تصور کہ ناول  شاعری کی طرح، یک آوازی اظہار یعنی  monological utterance ہے  ایک عرصے تک ادبی تنقید میں غالب رہا ہے کیونکہ یہ تصوّر تاریخی اعتبار سے اس فکر کی نمائندگی کرتا ہے جو اقتصادی، سیاسی، سماجی، اور ثقافتی مرکزیت کا قائل ہے، باختن  کا خیال ہے کہ  اسی وجہ سے  انیسویں صدی تک  ، شاعری کا صنف  سب سے زیادہ بورژوائ دلچسپی کا سامان تھا۔  اور اس دور کا ادبی سٹائل بن گیا تھا ۔

گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادبی تنقید نے عام طور پر ایک  طویل  عرصے تک زبان کے ذو آوازی لہجے اور ناول کے کثیرالاصواتی انداز کو نظر انداز کیا ہے. زبان کے کثیر لسانی لہجے سے ناواقفیت کی وجہ سے ناقدین نے ناول جیسے ان تمام اصناف  کو نظر انداز کیا جو  نظریاتی سطح پر ان  رجحانات کے  پیروکار تھے جو مرکز گریز یعنی  CENTRIPETAL قدروں کے حامل تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ غنائ شاعری کا مزاج یورپ کے بور‍‌ژوائ سوچ سے مطابقت رکھتا تھا۔ جو یورپ کے تہذیبی اور ثقافتی  وحدت کا قائل تھا۔  اس طرح  شاعری میں ہمیں بورژوائ شعور کی صورت گری  ملتی ہے ۔کیونکہ اس دور میں  شاعری بڑی حد تک جاگیردارانہ سرپرستی کی مرہون منت تھی لیکن  جاگیردانہ نظام  کے خاتمے کے بعد متوسط طبقے کی ترقی کی وجہ سے ایک پیراڈائم شفٹ کی صورت نظر آتی ہے جس کی وجہ سے  ناول کا صنف   لوک بیانیہ کے عوامی تہذیبی روایت کے  زیر اثر ظہور پذیر ہوتا ہے اور میلوں ٹھیلوں کے کارنیول روائتوں سے ہوتا ہوا یونانی رومان پاروں تک پہنچتا ہے۔  باختن کارنیول روائتوں اور یونانی رومان پاروں کی مثالوں سے یہ واضح کرتا ہے کہ ان اصناف کو ذو آوازی یا  ڈائ لوجک ہونا  ایک منطقی عمل تھا کیونکہ ان کے پلاٹ کا جا‎ۓ وقوع مختلف جغرافیائ حدوں میں پھیلا ہوتا ہے۔  ان اصناف  کے پلاٹ کے جا‎ۓ وقوع کی وسعت انھیں ذو آوازی یا  ڈائ لوجک بناتی ہے۔

ان تفصیلات کی روشنی میں، اس  بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ  ناول کے کثیر الاصواتی  heteroglot نوعیت پر Bakhtin کے خیالات حقیقت پسندی کے انسان دوستی اور مارکسی  تصورات کا تنقید پیش کرتے ہیں

ناول کا mimetic ماڈل ناول کے متعلق Georg Lukács کے نقطہ نظر  کو پیش کرتا ہے Bakhtin  کا دعوی ہے  کہ شاعری اس حقیقت کو بھول جاتی ہے کہ تخلیقی مواد کی اپنی تاریخ ہوتی ہے  ، اس کے برعکس، نثری اصناف سماجی کثیر الاصواتی آوازوں کا معترف  ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ زبان کی dialogic نوعیت کے مدنظر باختن کا خیال ہے کہ  دیگر چیزوں کے علاوہ مصنف  کو ممکنہ قارئین کے نقطہ نظر کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہیے کیونکہ تخلیق میں پیش کردہ اجنبی الفاظ  قاری کی ذہنی بالیدگی کے زیر اثر پروان چڑھتے ہیں۔ تفہیم کا عمل قاری کے  کاگنیٹو اور  تصوراتی نظام میں نشو نما پاتا ہے اور جذب و اختلاط  کی کیفیت سے گزر کر   تفہیم کا حصّہ بن جاتا ہے جس سے  اجنبی معنوی افق   تک رسائ ہوتی ہے۔

ناول کا کثیرالاصواتی heteroglot نوعیت ، قاری کی آواز کو شامل کرنے کے نۓ"امکانات "  ڈھونڈتا  ہے۔ گویا مصنف اور اس کے مقصد بیان  کے درمیان ایک  اور  intruding  یعنی تدخلی نقطہ نظر ہوتا  ہے". ناول نگار کے لیے  اس کے اپنے سماجی اور کثیرالاصواتی heteroglot   تصورات سے باہر کوئی دوسری  دنیا نہیں ہوتی۔  یعنی باختن کا خیا ل ہے کہ  ناول نگار بعض صورتوں میں اپنی تصوراتی دنیا کو  حقیقی دنیا تصور کرتا ہے کیونکہ اس کثیرالاصواتی  تصوراتی دنیا  کے اصول زبان کے ذو آوازی مزاج سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ گویا اس کا خیال ہے کہ ناول میں پیش کردہ دنیا حقیقی نہیں ہوتی بلکہ  کثیرالاصواتی  تصوراتی دنیا کی ایک ایسی تصویر ہوتی ہے جو زبان کی ذو آوازی قوت سے تخلیق ہوتی ہے۔ لہذا اس کی دلیل ہے کہ کثیرالاصواتی دنیا کی فنی اور لسانی نمائندگی ناول کا مرکزی مسلہ ہے۔

مزید یہ کہ ناول نہ صرف کردار اور ان طبقات کی جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں  کے ڈائ لیکٹیکل ( ذو آوازی)  ٹکراؤ کو پیش کرنے کا عمل ہے بلکہ  نظریاتی نقطہ ن‍ظر کا لا ینحل مناطرہ  بھی پیش کرتا ہےجس میں ' سچ ' ہمیشہ معطل اور ملتوی  رہتاہے۔

لہذا Bakhtin کہتا ہے کہ ناول کا ہر کردار اپنی منفرد نظریاتی  آواز رکھتا ہے کیونکہ ناول کا کردارہمیشہ ایک بولنے والا انسان ہوتا ہے۔  اس منفرد نظریاتی  آواز کو نظریاتی  ڈسکورس  کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

ناول بعض اوقات زبان کی مخلوط شکل پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے تاکہ مختلف سماجی بولیوں کی فنکارانہ تصویر تخلیق کی جا سکے۔ یہ کوشش قاری کے ذہن میں  سماجی لسانیاتی فرق کو واضح کرتی ہے۔  گویا ناول ایک ایسی صنف ہے جو  مختلف سماجی بولیوں کو یکجا کرنے کا منظم نظام پیش کرتا ہے۔ باختن کا خیال ہے کہ زبان کی فنکارانہ تصویر پیش کرنے کے تین بنیادی طریقہ کار ہیں۔ جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے با وجود ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں

مکالمہ

لسانی مخلوطیت:  مختلف لسانی consciousnesses

کے درمیان ایک  مکالمہ جہاں دو لسانی رویون کا براہ راست اختلاط ہوتا ہے

ذوآوازی لسانی ربط: دو یا دو سے زیادہ زبانوں  کی موجودگی۔  باختن اس کے لیے

parodic stylization

کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔

ان تفصیلات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باختن  نے  اپنے نظریہ اصناف میں  بین  المتونیت

intertextuality

کا ایک ایسا  ماڈل پیش کیا ہے جو فرڈی ننڈ ڈی  سسیور کے نظریہ پیرول اور  ذو عصریت کو   اس دور میں  اہمیت  دیتا ہے جب ساختیات کے ماہرین فرڈی ننڈ ڈی   سسیو ر کے نظریہ لانگ ، عصریت،  اور  غیر انفرادیت  '(مصنف کی موت') کی باتیں کر رہے تھے ۔ باختن کا خیال ہے کہ ہر مصنف  دوسرے مصنفین کو دہراتا ہے۔وہ  اس عمل کو

'parodying

 کہتا ہے ۔ اس کا یہ خیال حضرت علی کے اس قول کہ قریب نظر آتا ہے کہ لفظ کہناایک عہد کو دہرانے کے مترادف ہے  اس کے خیال میں یہ عمل   کبھی شعوری طور پر کبھی اتفاقی طور پر، کبھی واضح طور پر اور کبھی غیر واضح طور پر دہرایا جاتا ہے۔ ناول  کی اس بنیاد ی تخلیقی جہت کو نظر یاتی بنیاد اس کے کثیر الاصواتی

(   Hetroglot  )

نظریےنے مہیا کی۔ باختن  کا بنیادی مفروضہ یہ  ہے کہ ناول  معاصر زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتا ہے اورزندگی کی سچائیوں میں اس عہد کی سماجی، سیاسی، معاشرتی صداقتیں شامل ہوتی ہیں۔ یوں اس کا خیال ہے کہ  ناول ، زندگی سے متعلق آرزومندانہ تصورات کے بجائے حقیقی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو پیش کرتا ہے اور اصولی طور پر انسان کی تخیلی زندگی سے زیادہ اس کے خارجی احوال قلم بند کرنے پر زور دیتا ہے اور اس طرح باختن  ناول کو ذات کا اظہار نہیں،  بلکہ حیات کا بیانیہ قرار دیتا ہے۔

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024