ناول: ادھورے ستائس منٹ
ناول: ادھورے ستائس منٹ
Jan 17, 2023
بلال مختار کے ناول پر تبصرہ
ناول: ادھورے ستائس منٹ
مصنف : بلال مختار
تبصرہ: سبین علی
ذرا وقت کی نبض کو تھامیے اور دیکھیے کہ اس عہد میں انسان کن حالات و واقعات سے گزر رہا ہے۔ گلوبلائزیشن اور تیز تر مادی ترقی کے پس منظر میں کی گئی ہجرتوں کے انسانی فطرت پر اثرات کیا ہیں ۔ ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے باشندے نئی جگہوں پر کیسے اپنے اپنے لوکیل کے ثقافتی اثرات کے ساتھ ساتھ نئی عالمگیر ثقافت کے سائے میں بھی ڈھل رہے ہیں۔
ادھورے ستائس منٹ کی کہانی سیئول کوریا سے شروع ہوتی ہے جو روس اور منگولیا کے مرغزاروں سے ہوتی ہوئی آسٹریلیا اور پھر کوریا میں ہی عالمگیر وبا کے ہاتھوں ایک المیہ سے اختتام پزیر ہوتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار یوانگ ہی اس ناول کا راوی ہے۔ غزل پاکستانی نژاد آسٹریلین لڑکی ہے جبکہ لورین کا تعلق بھی کوریا سے ہی ہے۔ ان تینوں کی محبت کی تکون عجیب کشمکش سے گزرنے کے بعد یانگ کی کرونا کی وجہ سے موت پر ادھورے دائرے کی شکل میں رہ جاتی ہے۔ مجھے اس ناول میں بارٹر کا کردار سب سے طاقتور لگا۔ شروع کے پانچ چھ ابواب بارٹر کی کہانی اس کی مادر فطرت سے دوری کی کیفیات ، اپنے مرغزاروں سے بچھڑنے اور والدین کی تلاش کاسفر بہت ہی فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہاں ذہن توقع کر رہا تھا کہ کہانی بارٹر کے ڈایاسپورا مسائل کو لے کر ہی آگے بڑھے گی مگر بارٹر ایک ریلے کے کھلاڑی کی مانند بیٹن baton یانگ کے ہاتھ میں تھما کر اسے دوڑ میں لا کھڑا کرتا ہے۔
ناول کی زبان ہماری آج کی نسل کی اردو یے جس میں جا بجا انگریزی الفاظ کی آمیزش ہے ۔ ادبی نکتہ نظر سے یہ ایک قابل اعتراض پہلو ہو سکتا ہے مگر کہانی کے پس منظر میں ڈایاسپورا کمیونٹی کی بہترین تصویر کشی بھی کر رہی ہے۔
بلال مختار جو انگریزی ادب کے طالب علم رہے اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں ان کے عالمی گاؤں کے مشاہدات اس ناول کا حصہ ہیں۔ ناول قارئین کو چونکاتا ہے اور ڈایا سپورا ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے ۔
ناول: ادھورے ستائس منٹ
مصنف : بلال مختار
تبصرہ: سبین علی
ذرا وقت کی نبض کو تھامیے اور دیکھیے کہ اس عہد میں انسان کن حالات و واقعات سے گزر رہا ہے۔ گلوبلائزیشن اور تیز تر مادی ترقی کے پس منظر میں کی گئی ہجرتوں کے انسانی فطرت پر اثرات کیا ہیں ۔ ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے باشندے نئی جگہوں پر کیسے اپنے اپنے لوکیل کے ثقافتی اثرات کے ساتھ ساتھ نئی عالمگیر ثقافت کے سائے میں بھی ڈھل رہے ہیں۔
ادھورے ستائس منٹ کی کہانی سیئول کوریا سے شروع ہوتی ہے جو روس اور منگولیا کے مرغزاروں سے ہوتی ہوئی آسٹریلیا اور پھر کوریا میں ہی عالمگیر وبا کے ہاتھوں ایک المیہ سے اختتام پزیر ہوتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار یوانگ ہی اس ناول کا راوی ہے۔ غزل پاکستانی نژاد آسٹریلین لڑکی ہے جبکہ لورین کا تعلق بھی کوریا سے ہی ہے۔ ان تینوں کی محبت کی تکون عجیب کشمکش سے گزرنے کے بعد یانگ کی کرونا کی وجہ سے موت پر ادھورے دائرے کی شکل میں رہ جاتی ہے۔ مجھے اس ناول میں بارٹر کا کردار سب سے طاقتور لگا۔ شروع کے پانچ چھ ابواب بارٹر کی کہانی اس کی مادر فطرت سے دوری کی کیفیات ، اپنے مرغزاروں سے بچھڑنے اور والدین کی تلاش کاسفر بہت ہی فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہاں ذہن توقع کر رہا تھا کہ کہانی بارٹر کے ڈایاسپورا مسائل کو لے کر ہی آگے بڑھے گی مگر بارٹر ایک ریلے کے کھلاڑی کی مانند بیٹن baton یانگ کے ہاتھ میں تھما کر اسے دوڑ میں لا کھڑا کرتا ہے۔
ناول کی زبان ہماری آج کی نسل کی اردو یے جس میں جا بجا انگریزی الفاظ کی آمیزش ہے ۔ ادبی نکتہ نظر سے یہ ایک قابل اعتراض پہلو ہو سکتا ہے مگر کہانی کے پس منظر میں ڈایاسپورا کمیونٹی کی بہترین تصویر کشی بھی کر رہی ہے۔
بلال مختار جو انگریزی ادب کے طالب علم رہے اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں ان کے عالمی گاؤں کے مشاہدات اس ناول کا حصہ ہیں۔ ناول قارئین کو چونکاتا ہے اور ڈایا سپورا ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے ۔