نصیر احمد ناصر کی نظمیں
نصیر احمد ناصر کی نظمیں
Aug 7, 2018
دیدبان شمارہ۔۸
نصیر احمد ناصر کی نظمیں
ریحانہ جباری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے قتل کیا ہے
ایک مرد کو
جو میرے جسم میں چھید کرنا چاہتا تھا
نہیں، ایک مرد کی پرچھائیں کو
میں نے قتل کیا ہے
ہاں میں نے قتل کیا ہے
تیز دھار چاقو سے
تا کہ خون بہے
اور بہتا رہے
چوتھی منزل سے
تفتیش گاہ کے تہہ خانے تک
جہاں مجھے کئی بار زندہ مار ڈالا گیا
اور میں نے لکھ دیا
بیانِ حلفی میں
جو انہوں نے کہا
تا کہ بادوک زندہ رہے
اور کسی اور ٹین ایجر کو چیرا توڑا نہ جا سکے
جیل میں اور عدالت میں
موجود ہونے کے باوجود
خدا مجھے نہیں بچا سکا
خدا انسانوں کے لیے بنائے ہوئے قانون کے ہاتھوں مجبور ہے
آنکھ کے بدلے آنکھ
کان کے بدلے کان
جسم کے بدلے جسم
لیکن پرچھائیں کے بدلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری، بادلوں کی چھاؤں جیسی،
کم سِن روح کو پھانسی دے دی گئی
دیکھو تو، شب ختم ہونے سے قبل
میری صبح دار پر طلوع ہو چکی ہے
میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاں کا محتاج نہیں رہا
ماں! مجھے دفن مت کرنا
قبروں کے شہر میں
ہوا کو دفن مت کرنا
اور ماتمی لباس پہن کر
رونا مت!
میں بے نشان رہنا
اور بے اشک بہنا چاہتی ہوں
اس زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں
جہاں ہوا، ابر اور آنسوؤں کی قبر بنائی جا سکے
مٹی میرا جوف، میرا اُطاق نہیں
ماں! دروازہ کھول
میرا راستہ ختم ہو گیا ہے!!
دکھ گوتم سے بڑا ہے
نصیر احمد ناصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ برگد سے گھنا ہے
دھیان کی اوجھل تا میں
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
کہ دکھ کا انکھوا عورت کی کوکھ سے پھوٹتا ہے
وہ عورت ہی تھی
جس نے اسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
اور وہ بھی
جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
عورت تھی
اور حالتِ مرگ میں اسے
دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی
وہ، کپل وستو کا شہزادہ
دو پہیوں پر چلتی بیل گاڑی
اور گاڑی وان کو دکھ سمجھتا رہا
اور بڑھاپے، بیماری اور موت پر
قابو پانے کی کوشش کرتا رہا
لیکن اتنا نہ جان سکا
کہ گیان دھیان انچاس دنوں کا نہیں
ساری عمر پر محیط ہوتا ہے
اور عرفان و آگہی کا دریا
حقیقی زندگی کے کناروں سے پھوٹتا ہے
گوتم نے غزہ نہیں دیکھا
وہ عراق، افغانستان اور شام نہیں گیا
اُس نے تو کراچی اور کوئٹہ بھی نہیں دیکھے
بوری بند لاشیں
اور خود کش دھماکوں میں اُڑتے ہوئے
انسانی اعضا نہیں دیکھے
بحرِ متوسط کے ساحل پر اوندھے پڑے ہوئے ایلان کردی
اور دریائے ناف کے کنارے
کیچڑ میں لت پت شو حیات کو نہیں دیکھا
افریقہ میں دودھ سے عاری ڈھلکی ہوئی سیاہ رنگ چھاتیاں
اور مرتے ہوئے آبنوسی ڈھانچے نہیں دیکھے
گوتم نے عظیم جنگیں
اور آبدوزوں میں مرنے والوں کی آبی قبریں نہیں دیکھیں
گوتم نے مارکسی ادب نہیں پڑھا
وہ پانچ اور سات ستارہ ہوٹلوں کا دربان بھی نہیں رہا
ورنہ نروان کے لیے کبھی فاقے نہ کرتا
آج گوتم اگر زندہ ہوتا
تو دکھ کا انتم سرا کھوجتے ہوئے
واڈکا پی کر
کسی غیر ملکی محبوبہ کے نیم برہنہ پہلو میں
شانتی کی نیند سو رہا ہوتا !!
دیدبان شمارہ۔۸
نصیر احمد ناصر کی نظمیں
ریحانہ جباری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے قتل کیا ہے
ایک مرد کو
جو میرے جسم میں چھید کرنا چاہتا تھا
نہیں، ایک مرد کی پرچھائیں کو
میں نے قتل کیا ہے
ہاں میں نے قتل کیا ہے
تیز دھار چاقو سے
تا کہ خون بہے
اور بہتا رہے
چوتھی منزل سے
تفتیش گاہ کے تہہ خانے تک
جہاں مجھے کئی بار زندہ مار ڈالا گیا
اور میں نے لکھ دیا
بیانِ حلفی میں
جو انہوں نے کہا
تا کہ بادوک زندہ رہے
اور کسی اور ٹین ایجر کو چیرا توڑا نہ جا سکے
جیل میں اور عدالت میں
موجود ہونے کے باوجود
خدا مجھے نہیں بچا سکا
خدا انسانوں کے لیے بنائے ہوئے قانون کے ہاتھوں مجبور ہے
آنکھ کے بدلے آنکھ
کان کے بدلے کان
جسم کے بدلے جسم
لیکن پرچھائیں کے بدلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری، بادلوں کی چھاؤں جیسی،
کم سِن روح کو پھانسی دے دی گئی
دیکھو تو، شب ختم ہونے سے قبل
میری صبح دار پر طلوع ہو چکی ہے
میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاں کا محتاج نہیں رہا
ماں! مجھے دفن مت کرنا
قبروں کے شہر میں
ہوا کو دفن مت کرنا
اور ماتمی لباس پہن کر
رونا مت!
میں بے نشان رہنا
اور بے اشک بہنا چاہتی ہوں
اس زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں
جہاں ہوا، ابر اور آنسوؤں کی قبر بنائی جا سکے
مٹی میرا جوف، میرا اُطاق نہیں
ماں! دروازہ کھول
میرا راستہ ختم ہو گیا ہے!!
دکھ گوتم سے بڑا ہے
نصیر احمد ناصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ برگد سے گھنا ہے
دھیان کی اوجھل تا میں
گوتم کو عمر بھر پتا نہ چلا
کہ دکھ کا انکھوا عورت کی کوکھ سے پھوٹتا ہے
وہ عورت ہی تھی
جس نے اسے جنم دے کر موت کو گلے لگا لیا
اور وہ بھی
جسے وہ بستر میں سوتا چھوڑ آیا تھا
عورت تھی
اور حالتِ مرگ میں اسے
دودھ اور چاول کی بھینٹ دینے والی بھی ایک عورت تھی
وہ، کپل وستو کا شہزادہ
دو پہیوں پر چلتی بیل گاڑی
اور گاڑی وان کو دکھ سمجھتا رہا
اور بڑھاپے، بیماری اور موت پر
قابو پانے کی کوشش کرتا رہا
لیکن اتنا نہ جان سکا
کہ گیان دھیان انچاس دنوں کا نہیں
ساری عمر پر محیط ہوتا ہے
اور عرفان و آگہی کا دریا
حقیقی زندگی کے کناروں سے پھوٹتا ہے
گوتم نے غزہ نہیں دیکھا
وہ عراق، افغانستان اور شام نہیں گیا
اُس نے تو کراچی اور کوئٹہ بھی نہیں دیکھے
بوری بند لاشیں
اور خود کش دھماکوں میں اُڑتے ہوئے
انسانی اعضا نہیں دیکھے
بحرِ متوسط کے ساحل پر اوندھے پڑے ہوئے ایلان کردی
اور دریائے ناف کے کنارے
کیچڑ میں لت پت شو حیات کو نہیں دیکھا
افریقہ میں دودھ سے عاری ڈھلکی ہوئی سیاہ رنگ چھاتیاں
اور مرتے ہوئے آبنوسی ڈھانچے نہیں دیکھے
گوتم نے عظیم جنگیں
اور آبدوزوں میں مرنے والوں کی آبی قبریں نہیں دیکھیں
گوتم نے مارکسی ادب نہیں پڑھا
وہ پانچ اور سات ستارہ ہوٹلوں کا دربان بھی نہیں رہا
ورنہ نروان کے لیے کبھی فاقے نہ کرتا
آج گوتم اگر زندہ ہوتا
تو دکھ کا انتم سرا کھوجتے ہوئے
واڈکا پی کر
کسی غیر ملکی محبوبہ کے نیم برہنہ پہلو میں
شانتی کی نیند سو رہا ہوتا !!