نظم :رابعہ رشید
نظم :رابعہ رشید
Jan 17, 2023
نظم : دوسری عورت
رابعہ رشید
گوتم !
یہ تم کیا کہتے پھرتے ہو ؟
دکھ۔۔۔ کون سا دکھ ۔۔۔
لمحہ ، گھڑی ، سانس ، جسم
رگ رگ ، نس نس سب دکھ ہے
ناتمام سے تمام تک کا سفر تمام دکھ ہے
امکان سے یقین تک
عالم سکون پریشان ہے
اور پریشان کن لمحات دکھ ہیں
گوتم میاں !
اس زندہ لاش سے تم بھی واقف ہو
وہ جو اپنے ہونے کا دکھ سنبھالے
ناتمام صدیوں کا سفر طے کرتی رہی
نامعلوم باپ کی ادھوری اجازت سے
کسی اور کے حوالے کی گئی
گو یہ انتخاب بھی اس کا اپنا تھا
گوتم ذرا مجھے بتاؤ !
دکھ کی کیا حیثیت ہے ۔۔۔۔
کیا التوائے دکھ کا بھی کوئی وجود ہے ۔۔۔
رشتوں سے ہاری دیوی ۔۔۔۔
دکھ کی کوئی قسم ہے یا توہین احساس
میرے محترم بدھا !
یہ کم بخت نروان کہاں سے ملتا ہے
خود فریب قہقہوں کے سائے تلے عمر کاٹنے سے
یا پھر ۔۔۔
دوسری عورت کی شکل میں قبولیت کا شرف ملنے پر
گوتم مجھے بتاؤ !
میرے حصے کا نروان کہاں ہے ۔۔۔
میری ذات میں میں کچھ نہیں تلاش کر سکی
ہاں وہ ۔۔۔۔
چند الجھنیں رکھی ہیں
کیا یہی نروان ہے ۔۔۔
مگر سنو ! میرے احساس کو سمجھو
میری ذات مجھ سے گر کر کہیں بکھر چکی ہے
میرے ٹکڑے مجھ پر بوجھ ہیں
کہ معاشرے کی باغی عورت ۔۔۔
نروان تو حاصل کر سکتی ہے مگر عزت نہیں
شہرت حاصل کر سکتی ہے محبت نہیں
گوتم میرے پیارے !
تم بھی تو کبھی میری طرح الجھے ہوں گے
تم امر ہوئے۔۔۔ مگر میں ۔۔۔
اور میرا ناتمام وجود ۔۔۔ ناجانے کس تلاش میں ہے
کسی نا معلوم دکھ کی تلاش
احساس کی موت ۔۔۔۔
یا شاید ۔۔۔۔۔۔
رابعہ رشید
نظم : دوسری عورت
رابعہ رشید
گوتم !
یہ تم کیا کہتے پھرتے ہو ؟
دکھ۔۔۔ کون سا دکھ ۔۔۔
لمحہ ، گھڑی ، سانس ، جسم
رگ رگ ، نس نس سب دکھ ہے
ناتمام سے تمام تک کا سفر تمام دکھ ہے
امکان سے یقین تک
عالم سکون پریشان ہے
اور پریشان کن لمحات دکھ ہیں
گوتم میاں !
اس زندہ لاش سے تم بھی واقف ہو
وہ جو اپنے ہونے کا دکھ سنبھالے
ناتمام صدیوں کا سفر طے کرتی رہی
نامعلوم باپ کی ادھوری اجازت سے
کسی اور کے حوالے کی گئی
گو یہ انتخاب بھی اس کا اپنا تھا
گوتم ذرا مجھے بتاؤ !
دکھ کی کیا حیثیت ہے ۔۔۔۔
کیا التوائے دکھ کا بھی کوئی وجود ہے ۔۔۔
رشتوں سے ہاری دیوی ۔۔۔۔
دکھ کی کوئی قسم ہے یا توہین احساس
میرے محترم بدھا !
یہ کم بخت نروان کہاں سے ملتا ہے
خود فریب قہقہوں کے سائے تلے عمر کاٹنے سے
یا پھر ۔۔۔
دوسری عورت کی شکل میں قبولیت کا شرف ملنے پر
گوتم مجھے بتاؤ !
میرے حصے کا نروان کہاں ہے ۔۔۔
میری ذات میں میں کچھ نہیں تلاش کر سکی
ہاں وہ ۔۔۔۔
چند الجھنیں رکھی ہیں
کیا یہی نروان ہے ۔۔۔
مگر سنو ! میرے احساس کو سمجھو
میری ذات مجھ سے گر کر کہیں بکھر چکی ہے
میرے ٹکڑے مجھ پر بوجھ ہیں
کہ معاشرے کی باغی عورت ۔۔۔
نروان تو حاصل کر سکتی ہے مگر عزت نہیں
شہرت حاصل کر سکتی ہے محبت نہیں
گوتم میرے پیارے !
تم بھی تو کبھی میری طرح الجھے ہوں گے
تم امر ہوئے۔۔۔ مگر میں ۔۔۔
اور میرا ناتمام وجود ۔۔۔ ناجانے کس تلاش میں ہے
کسی نا معلوم دکھ کی تلاش
احساس کی موت ۔۔۔۔
یا شاید ۔۔۔۔۔۔
رابعہ رشید