نظم:؛ خوشی کا ایک لمحہ
نظم:؛ خوشی کا ایک لمحہ
Dec 10, 2025
اسرار فاروقی


مصنف
حنا بابر چوہدری
حنا بابر ہے پیشے کے لحاظ سے لیکچرار ہیں- شعبہ اردو سے منسلک ہیں- پچھلے دس سال سے ادبی سرگرمیوں اور ادبی حلقوں (حلقہ ارباب ذوق) میں شرکت ہوتی رہتی ہے۔
دیدبان شمارہ 30 نومبر
نظم
"وہ خوشی کا ایک لمحہ"
وہ خوشی کا ایک لمحہ بھی
کیا کم عجب کہانی تھا،
جیسے صحرا میں کسی مسافر کو
اچانک شجر کا گمان ہو
یا جیسے رات کے سینے پر
دور کسی جگنو کی ہلکی سی آنچ
اندھیروں کو نرم سا گرداب بنا دے۔
وہ لمحہ
کب آیا، کیسے آیا
یہ بھی کوئی ٹھیک سے یاد نہیں
بس اتنا یاد ہے کہ
دل کے سنّاٹے میں
ایک نرمی اُتری تھی
ہوا نے کانوں میں
اک میٹھی سرگوشی کی تھی
اور جیسے رُک رُک کر چلتی زندگی
اچانک ٹھہر کر مسکرا دی تھی۔
اس لمحے میں
وقت کی چال بدل گئی تھی
جیسے موسم پلک جھپکتے
بہار کی آغوش میں آ جائے
اور تھکے ہارے دنوں کی پیاس
ایک گھونٹ میں بجھ جائے
آسمان پر بادل تھے، مگر
ان کے پیچھے چھپی روشنی
دل کی دیواروں پر اترتی رہی
بالکل ایسے جیسے
کسی پرانی دعا کا اثر
اچانک لوٹ آئے۔
اس لمحے میں
دل نے اپنی دھڑکن کو
شکر کے سجدے میں جھکتے محسوس کیا،
ہتھیلیاں لمحہ بھر کو
کسی نامعلوم نعمت کے لمس سے بھر گئیں،
اور آنکھوں کے کنارے
بے سبب نم ہو گئے
یہ خوشی کا وہ لمحہ تھا
جو آنے سے پہلے اذن نہیں لیتا،
اور جانے کے بعد بھی
یادوں کے دروازے پر
اپنی خوشبو چھوڑ جاتا ہے۔
میں نے سوچا،
کیا خوشی ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہے؟
بالکل بے آواز،
بالکل غیر متوقع،
بالکل نرم،
اتنی گہری
جیسے دل کے اندر
کوئی چھپا ہوا چراغ
اچانک جل اٹھے،
اور ہم خود کو
ہَوا کے ساتھ ہلکے ہلکے
اڑتا ہوا محسوس کریں
وہ لمحہ طویل نہیں تھا
لیکن اس کی عمر
ماہ و سال سے بڑی تھی
وہ ایک پل تھا
مگر اس پل نے
کئی زندگیوں کا بوجھ ہلکا کر دیا
جیسے زخم پر رکھے
ٹھنڈے پانی کا پہلا قطرہ
بہت مہین ، مگر بہت ضروری
وقت آگے بڑھتا رہا
زندگی اپنی گرد میں لپٹی رہی،
غم نے پھر دستکیں دی
اور دنوں نے اپنا سخت چہرہ
واپس پہن لیا
مگر دل کے ایک کونے میں
وہ لمحہ آج بھی سانس لیتا ہے
آہستہ آہستہ
خاموشی سے
جیسے کہہ رہا ہو
"تھک جاؤ تو ادھر آ جانا،
میں ابھی بھی وہیں ہوں۔"
وہ خوشی کا ایک لمحہ
جو آیا تو ایک پل تھا
مگر ٹھہرا
ہمیشہ کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنا بابر چوہدری
دیدبان شمارہ 30 نومبر
نظم
"وہ خوشی کا ایک لمحہ"
وہ خوشی کا ایک لمحہ بھی
کیا کم عجب کہانی تھا،
جیسے صحرا میں کسی مسافر کو
اچانک شجر کا گمان ہو
یا جیسے رات کے سینے پر
دور کسی جگنو کی ہلکی سی آنچ
اندھیروں کو نرم سا گرداب بنا دے۔
وہ لمحہ
کب آیا، کیسے آیا
یہ بھی کوئی ٹھیک سے یاد نہیں
بس اتنا یاد ہے کہ
دل کے سنّاٹے میں
ایک نرمی اُتری تھی
ہوا نے کانوں میں
اک میٹھی سرگوشی کی تھی
اور جیسے رُک رُک کر چلتی زندگی
اچانک ٹھہر کر مسکرا دی تھی۔
اس لمحے میں
وقت کی چال بدل گئی تھی
جیسے موسم پلک جھپکتے
بہار کی آغوش میں آ جائے
اور تھکے ہارے دنوں کی پیاس
ایک گھونٹ میں بجھ جائے
آسمان پر بادل تھے، مگر
ان کے پیچھے چھپی روشنی
دل کی دیواروں پر اترتی رہی
بالکل ایسے جیسے
کسی پرانی دعا کا اثر
اچانک لوٹ آئے۔
اس لمحے میں
دل نے اپنی دھڑکن کو
شکر کے سجدے میں جھکتے محسوس کیا،
ہتھیلیاں لمحہ بھر کو
کسی نامعلوم نعمت کے لمس سے بھر گئیں،
اور آنکھوں کے کنارے
بے سبب نم ہو گئے
یہ خوشی کا وہ لمحہ تھا
جو آنے سے پہلے اذن نہیں لیتا،
اور جانے کے بعد بھی
یادوں کے دروازے پر
اپنی خوشبو چھوڑ جاتا ہے۔
میں نے سوچا،
کیا خوشی ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہے؟
بالکل بے آواز،
بالکل غیر متوقع،
بالکل نرم،
اتنی گہری
جیسے دل کے اندر
کوئی چھپا ہوا چراغ
اچانک جل اٹھے،
اور ہم خود کو
ہَوا کے ساتھ ہلکے ہلکے
اڑتا ہوا محسوس کریں
وہ لمحہ طویل نہیں تھا
لیکن اس کی عمر
ماہ و سال سے بڑی تھی
وہ ایک پل تھا
مگر اس پل نے
کئی زندگیوں کا بوجھ ہلکا کر دیا
جیسے زخم پر رکھے
ٹھنڈے پانی کا پہلا قطرہ
بہت مہین ، مگر بہت ضروری
وقت آگے بڑھتا رہا
زندگی اپنی گرد میں لپٹی رہی،
غم نے پھر دستکیں دی
اور دنوں نے اپنا سخت چہرہ
واپس پہن لیا
مگر دل کے ایک کونے میں
وہ لمحہ آج بھی سانس لیتا ہے
آہستہ آہستہ
خاموشی سے
جیسے کہہ رہا ہو
"تھک جاؤ تو ادھر آ جانا،
میں ابھی بھی وہیں ہوں۔"
وہ خوشی کا ایک لمحہ
جو آیا تو ایک پل تھا
مگر ٹھہرا
ہمیشہ کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

