نعیم بیگ کے افسانوں کا مختصر جائزہ

نعیم بیگ کے افسانوں کا مختصر جائزہ

Feb 7, 2018

نعیم بیگ جدید اسلوب اور عصری شعور سے جڑت رکھتے والے منفرد افسانہ نگار ہیں

دیدبان شمارہ ۔۱

نعیم بیگ کے افسانوی مجموعے "پیچھا کرتی آوازیں" کے افسانوں کا مختصر جائزہ

نسترن احسن فتیحی

نعیم بیگ جدید اسلوب اور  عصری شعور  سے جڑت رکھتے والے منفرد افسانہ نگار ہیں. ان کے ہاں ترقی پسندی ،جدیدیت ڈایا سپورا  اور پوسٹ کالونیل رجحانات  بیک وقت نظر آتے ہیں. اس تناظر میں دیکھیں تو ان کا ادبی سفر  عصری تقاضوں کے مطابق اپنی الگ سمتیں متعین کرتا نظر آتا ہے.

نعیم بیگ کو  اپنے پروفیشنل کیرئیر میں کئی ممالک اور کئی تہذیبوں کے مشاہدے کا موقع ملا. یہ مشاہدات ان کی تحریروں میں بھی جھلکتے ہیں. ان کے  افسانوں کے موضوعات متنوع ہوتے ہیں جن میں رومان سے لے کر سائینسی بیانیہ، کورٹ روم سے لے کر شمال علاقہ جات کی جنگ اور انسان کے  نفسیاتی مسائل سے لے کر فرد اور سماج کے باہمی تعامل پر فکر انگیز تحریریں شامل ہیں.

 محمد حمید شاہد اپنی کتاب اردو افسانہ اور افسانے کی تنقید میں لکھتے ہیں ہر کامیاب کہانی  مکمل ہونے کے بعد علامت کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہوتی ہے. اس تناظر میں دیکھیں تو  نعیم بیگ کے بیشتر افسانے اس پیمانے پر پورا اترتے ہیں. اگرچہ ان کے افسانوں میں کردار نگاری  اور بیانوی تکنیک بھی نمایاں ہے مگر ان کے اسلوب کا نمایاں رجحان  پلاٹ اور  کہانی کے مجموعی علامتی نظام کی جانب نظر آتا ہے. ان کا افسانہ عموما دو پرتوں پر استوار ہوتا ہے پہلی بیانوی یا موضوعاتی پرت اپنے پلاٹ میں مکمل ہوتی یے جبکہ دوسری پرت ایک الگ اور مکمل علامتی مفہوم لیے ہوئے ہوتی ہے. نعیم بیگ کے افسانوں میں علامت کا استعمال مارشل لاء دور کی  علامتی تحریک کی مانند گنجلگ نہیں بلکہ پورا بیانیہ ایک ہی  علامت میں ڈھلتا ہے.    تکنیکی لوازمات سے ہٹ کر موضوعات کا جائزہ لیں تو ان کے افسانوں کے موضوعات نہ صرف متنوع ہیں بلکہ روایتی اور رومانوی موضوعات سے لے کر گلوبلائزیشن جنگوں کے پس منظر،  دہشت گردی اور معروضی حالات سے متاثرہ  بڑے فریم کے موضوعات بھی ملتے ہیں.  

نعیم کے افسانوں میں  انسان معاشرہ اور جدید دور کے ساتھ جنم لیتے مسائل کا وہ امتزاج ملتا یے جو  ان کے عمیق مشاہدے وسیع مطالعے، ذہانت اور  عقل پر دلالت کرتا  ہے

نعیم بیگ کے افسانوں میں جہاں تخلیقی وفور کے زیر اثر  آمد یا کیفیت کی خوبصورتی پینٹ کی ہوئی نظر آتی ہے وہیں ہر افسانہ عصری مسائل  سے  جڑا متحرک بیانیہ کی مانند مستقبل کی تصویر کشی بھی کرتا ہے.

چھتا، آخری معرکہ،  جہاز کب آئیں گے جیسے افسانے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے پس منظر میں فوج اور  بہادر قبائلیوں کی قربانیوں کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں ان افسانوں میں جہاں فوج اور عوام کی مشکلات اور قربانیوں کا تذکرہ ملتا ہے وہیں شمال کی جنگ میں بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت مفادات کا کھیل اور دیگر عوامل کو بھی متنایا گیا ہے.  "چھتا" میں   شہد کی مکھیوں  کی اپنے چھتے کی حفاظت کے لیے لڑی جانی والی لڑائی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے. آخری معرکہ میں نہ صرف یو ٹرن لیتے حالات میں فوج اور عوام کی قربانیوں کا زکر ہے بلکہ فرائض اور خونی رشتوں میں جاری کشمکش بھی عروج پر نظر آتی ہے. گل بانو   آرمی کے کیمپ کی طرف جاتے ہوئے بے خوف ہے. اس نے شوہر کی وفاداری میں منحرف لوگوں کا ساتھ تو دیا مگر دھرتی سے غداری نہیں کی.

انجیلا کا کردار قاری پر متضاد انداز میں کھلتا ہے. جہاں وار کورسپونڈنٹ دنیا کے دس خطرناک ترین پیشوں میں سے ہے وہیں ایسے کئی صحافی ، صحافت کی بجائے  دیگر مقاصد کے تحت  ان جگہوں پر موجود رہے. انجیلا جانتی تھی کہ ائیر ریڈ سے کیسی تباہی آتی ہے. بہت معنی خیز جملہ ہے.

افسانے کو آگے  بڑھاتے ہوئے مصنف نے جہاں گلریز اور کمانڈنٹ ( دونوں بھائیوں) کو آمنے سامنے دکھایا وہ منظر اس افسانے کا اصل جوہر ہے.  

’’صرف میری ماں تک یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ گلریز خان نے بھی مادر وطن کے لیئے جان دے دی ہے۔

"جہاز کب آئیں گے " بھی شمال کی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے جس میں آئی ڈی پیز کے مصائب اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کا جائزہ لیا گیا ہے.

"تسخیر " افسانے میں سائینس اور فطرت کی باہمی کشمکش کو بہت مہارت سے متن کا حصہ بنایا گیا ہے. انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک موت کو شکست نہیں دے سکا اور بالآخر موت زندگی کو تسخیر کر لیتی ہے. اسی پس منظر میں دیکھیں تو کچھ عرصے بعد ان کا اسی موضوع کی وسعت میں لکھا گیا افسانہ خط استوا مرسی کلنگ کے پس منظر میں نئے مباحث کے در وا کر رہا ہے. چند ایک ممالک میں  مرسی کلنگ کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے جبکہ  پچھلے دنوں کینیڈا کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث بھی ہوئی اس تناظر میں دیکھیں تو مغربی اقوام سے سماجی طور پر پچھڑے ہونے کے باوجود مشرقی معاشرے میں مرسی کلنگ پر اہل دانش کیا سوچتے ہیں اور ہماری معاشرتی و مذہبی اقدار کیا کہتی ہیں؟ افسانہ ان سب نازک سوالات کو اٹھاتا ہے.

خط استوا کی مانند لکڑی کی دیوار افسانہ بھی  علامتی بیانیہ ہے جو انسانی جبلی خواہشات اور مذہب کی کشمکش پر بحث کرتا ہے.

حلف  جرم و سزا اور کورٹ روم کے مناظر پر لکھا گیا افسانہ ہے .  زرد پتے اور ہوک لطیف انسانی احساسات سے لبریز  عمدہ رومانوی افسانے ہیں. نعیم بیگ کی تخلیقات میں رومان حسن فطرت سے کشید کیا جاتا ہے. جس میں بناوٹ اور مصنوعی پن نہیں.  

ان کے  افسانوں کے تکنیکی اور فنی لوازمات موضوعات کی نسبت سے بدلتے رہتے ہیں. کہیں منظر نگاری پر توجہ مرکوز نظر آتی ہے تو کہیں کہانی کی مناسبت سے  پلاٹ کی مضبوطی نمایاں پہلو کے طور پر ابھرتی ہے. کہیں تھیسس اور اینٹی تھیسس اہم ہیں تو کہیں مکالمہ. مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نعیم بیگ  اپنے ہر افسانے کے لیے الگ تکنیکی سانچہ وضع کرتے ہیں  لیکن مجموعی طور پر ان کا اسلوب  اپنی ہیت میں اسی طرح قائم رہتا ہے.

ان کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت اختصار ہے جہاں کوئی لفظ  تحریر میں فالتو  شامل نہیں کیا جاتا.  بلکہ کرداروں کے نام اور مناظر بھی افسانے کی معنویت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں.  ان کے افسانے بڑے کینوس پر بنائی گئی پینٹینگز کی مانند ہیں جن کا ہر اسٹروک بڑی مہارت اور دلجمعی سے لگایا گیا ہے. متنوع اور نادر تحریریوں سے مزین اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف قاری کو عصری ادبی رجحانات سے روشناس کرائے گا بلکہ یہ افسانے اردو ادب کے سرمایے میں بھی اضافے کا باعث ہیں

دیدبان شمارہ ۔۱

نعیم بیگ کے افسانوی مجموعے "پیچھا کرتی آوازیں" کے افسانوں کا مختصر جائزہ

نسترن احسن فتیحی

نعیم بیگ جدید اسلوب اور  عصری شعور  سے جڑت رکھتے والے منفرد افسانہ نگار ہیں. ان کے ہاں ترقی پسندی ،جدیدیت ڈایا سپورا  اور پوسٹ کالونیل رجحانات  بیک وقت نظر آتے ہیں. اس تناظر میں دیکھیں تو ان کا ادبی سفر  عصری تقاضوں کے مطابق اپنی الگ سمتیں متعین کرتا نظر آتا ہے.

نعیم بیگ کو  اپنے پروفیشنل کیرئیر میں کئی ممالک اور کئی تہذیبوں کے مشاہدے کا موقع ملا. یہ مشاہدات ان کی تحریروں میں بھی جھلکتے ہیں. ان کے  افسانوں کے موضوعات متنوع ہوتے ہیں جن میں رومان سے لے کر سائینسی بیانیہ، کورٹ روم سے لے کر شمال علاقہ جات کی جنگ اور انسان کے  نفسیاتی مسائل سے لے کر فرد اور سماج کے باہمی تعامل پر فکر انگیز تحریریں شامل ہیں.

 محمد حمید شاہد اپنی کتاب اردو افسانہ اور افسانے کی تنقید میں لکھتے ہیں ہر کامیاب کہانی  مکمل ہونے کے بعد علامت کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی ہوتی ہے. اس تناظر میں دیکھیں تو  نعیم بیگ کے بیشتر افسانے اس پیمانے پر پورا اترتے ہیں. اگرچہ ان کے افسانوں میں کردار نگاری  اور بیانوی تکنیک بھی نمایاں ہے مگر ان کے اسلوب کا نمایاں رجحان  پلاٹ اور  کہانی کے مجموعی علامتی نظام کی جانب نظر آتا ہے. ان کا افسانہ عموما دو پرتوں پر استوار ہوتا ہے پہلی بیانوی یا موضوعاتی پرت اپنے پلاٹ میں مکمل ہوتی یے جبکہ دوسری پرت ایک الگ اور مکمل علامتی مفہوم لیے ہوئے ہوتی ہے. نعیم بیگ کے افسانوں میں علامت کا استعمال مارشل لاء دور کی  علامتی تحریک کی مانند گنجلگ نہیں بلکہ پورا بیانیہ ایک ہی  علامت میں ڈھلتا ہے.    تکنیکی لوازمات سے ہٹ کر موضوعات کا جائزہ لیں تو ان کے افسانوں کے موضوعات نہ صرف متنوع ہیں بلکہ روایتی اور رومانوی موضوعات سے لے کر گلوبلائزیشن جنگوں کے پس منظر،  دہشت گردی اور معروضی حالات سے متاثرہ  بڑے فریم کے موضوعات بھی ملتے ہیں.  

نعیم کے افسانوں میں  انسان معاشرہ اور جدید دور کے ساتھ جنم لیتے مسائل کا وہ امتزاج ملتا یے جو  ان کے عمیق مشاہدے وسیع مطالعے، ذہانت اور  عقل پر دلالت کرتا  ہے

نعیم بیگ کے افسانوں میں جہاں تخلیقی وفور کے زیر اثر  آمد یا کیفیت کی خوبصورتی پینٹ کی ہوئی نظر آتی ہے وہیں ہر افسانہ عصری مسائل  سے  جڑا متحرک بیانیہ کی مانند مستقبل کی تصویر کشی بھی کرتا ہے.

چھتا، آخری معرکہ،  جہاز کب آئیں گے جیسے افسانے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے پس منظر میں فوج اور  بہادر قبائلیوں کی قربانیوں کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں ان افسانوں میں جہاں فوج اور عوام کی مشکلات اور قربانیوں کا تذکرہ ملتا ہے وہیں شمال کی جنگ میں بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت مفادات کا کھیل اور دیگر عوامل کو بھی متنایا گیا ہے.  "چھتا" میں   شہد کی مکھیوں  کی اپنے چھتے کی حفاظت کے لیے لڑی جانی والی لڑائی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے. آخری معرکہ میں نہ صرف یو ٹرن لیتے حالات میں فوج اور عوام کی قربانیوں کا زکر ہے بلکہ فرائض اور خونی رشتوں میں جاری کشمکش بھی عروج پر نظر آتی ہے. گل بانو   آرمی کے کیمپ کی طرف جاتے ہوئے بے خوف ہے. اس نے شوہر کی وفاداری میں منحرف لوگوں کا ساتھ تو دیا مگر دھرتی سے غداری نہیں کی.

انجیلا کا کردار قاری پر متضاد انداز میں کھلتا ہے. جہاں وار کورسپونڈنٹ دنیا کے دس خطرناک ترین پیشوں میں سے ہے وہیں ایسے کئی صحافی ، صحافت کی بجائے  دیگر مقاصد کے تحت  ان جگہوں پر موجود رہے. انجیلا جانتی تھی کہ ائیر ریڈ سے کیسی تباہی آتی ہے. بہت معنی خیز جملہ ہے.

افسانے کو آگے  بڑھاتے ہوئے مصنف نے جہاں گلریز اور کمانڈنٹ ( دونوں بھائیوں) کو آمنے سامنے دکھایا وہ منظر اس افسانے کا اصل جوہر ہے.  

’’صرف میری ماں تک یہ پیغام پہنچا دیا جائے کہ گلریز خان نے بھی مادر وطن کے لیئے جان دے دی ہے۔

"جہاز کب آئیں گے " بھی شمال کی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے جس میں آئی ڈی پیز کے مصائب اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کا جائزہ لیا گیا ہے.

"تسخیر " افسانے میں سائینس اور فطرت کی باہمی کشمکش کو بہت مہارت سے متن کا حصہ بنایا گیا ہے. انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک موت کو شکست نہیں دے سکا اور بالآخر موت زندگی کو تسخیر کر لیتی ہے. اسی پس منظر میں دیکھیں تو کچھ عرصے بعد ان کا اسی موضوع کی وسعت میں لکھا گیا افسانہ خط استوا مرسی کلنگ کے پس منظر میں نئے مباحث کے در وا کر رہا ہے. چند ایک ممالک میں  مرسی کلنگ کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے جبکہ  پچھلے دنوں کینیڈا کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث بھی ہوئی اس تناظر میں دیکھیں تو مغربی اقوام سے سماجی طور پر پچھڑے ہونے کے باوجود مشرقی معاشرے میں مرسی کلنگ پر اہل دانش کیا سوچتے ہیں اور ہماری معاشرتی و مذہبی اقدار کیا کہتی ہیں؟ افسانہ ان سب نازک سوالات کو اٹھاتا ہے.

خط استوا کی مانند لکڑی کی دیوار افسانہ بھی  علامتی بیانیہ ہے جو انسانی جبلی خواہشات اور مذہب کی کشمکش پر بحث کرتا ہے.

حلف  جرم و سزا اور کورٹ روم کے مناظر پر لکھا گیا افسانہ ہے .  زرد پتے اور ہوک لطیف انسانی احساسات سے لبریز  عمدہ رومانوی افسانے ہیں. نعیم بیگ کی تخلیقات میں رومان حسن فطرت سے کشید کیا جاتا ہے. جس میں بناوٹ اور مصنوعی پن نہیں.  

ان کے  افسانوں کے تکنیکی اور فنی لوازمات موضوعات کی نسبت سے بدلتے رہتے ہیں. کہیں منظر نگاری پر توجہ مرکوز نظر آتی ہے تو کہیں کہانی کی مناسبت سے  پلاٹ کی مضبوطی نمایاں پہلو کے طور پر ابھرتی ہے. کہیں تھیسس اور اینٹی تھیسس اہم ہیں تو کہیں مکالمہ. مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نعیم بیگ  اپنے ہر افسانے کے لیے الگ تکنیکی سانچہ وضع کرتے ہیں  لیکن مجموعی طور پر ان کا اسلوب  اپنی ہیت میں اسی طرح قائم رہتا ہے.

ان کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت اختصار ہے جہاں کوئی لفظ  تحریر میں فالتو  شامل نہیں کیا جاتا.  بلکہ کرداروں کے نام اور مناظر بھی افسانے کی معنویت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں.  ان کے افسانے بڑے کینوس پر بنائی گئی پینٹینگز کی مانند ہیں جن کا ہر اسٹروک بڑی مہارت اور دلجمعی سے لگایا گیا ہے. متنوع اور نادر تحریریوں سے مزین اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف قاری کو عصری ادبی رجحانات سے روشناس کرائے گا بلکہ یہ افسانے اردو ادب کے سرمایے میں بھی اضافے کا باعث ہیں

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024