نام میرا ہے گل بادشاہ
نام میرا ہے گل بادشاہ
Mar 26, 2018
جناب بابر تجمل صاحب کے گھر کی ایک ادبی محفل میں شاعرہ زہرا نگاہ صاحبہ اپنی دل سوز نظم "نام میرا ہے گل بادشاہ" سناتے ہوئے ۔جس میں ایک پوری قوم کا المیہ سنایا ہوا ہے
دیدبان شمارہ۔۷
نظم: گل بادشاہ
زہرا نگاہ
نام میرا ہے گل بادشاہ
عمر میری ہے تیرہ برس
اور کہانی
میری عمر کی طرح سے منتشر منتشر
مختصر مختصر
میری بے نام بے چہرہ ماں
بے دوا مر گئی
باپ نے اس کو برقعے میں دفنا دیا
اس کو ڈر تھا کہ منکر نکیر
میری اماں کا چہرہ نہ دیکھیں
ویسے زندہ تھی، جب بھی وہ مدفون تھی
باپ کا نام زر تاج گل
عمر بتیس برس
وہ مجاہد شہادت کا طالب راہ حق کا مسافر ہوا
اور جام شہادت بھی اس نے
اپنے بھائی کے ہاتھوں پیا
جو شمالی مجاہد تھا
اور پنج وقتہ نمازی بھی تھا
مسئلہ اس شہادت کا پیچیدہ ہے
اس کو بہتر یہی ہے یہیں چھوڑ دیں
اب بہرحال بابا تو جنت میں ہے
اس کے ہاتھوں میں جام طہور
اس کی بانہوں میں حور و قصور
میری تقدیر میں بم دھماکے دھواں
پگھلتی ہوئی یہ زمین
بکھرتا ہوا آسماں
بعد از مرگ وہ زندہ ہے
زندگی مجھ سے شرمندہ ہے
کل سر شام دشمن نے آتے ہوئے
بم کے ہم راہ برسا دیے
مجھ پہ کچھ پیلے تھیلے
جن سے مجھ کو ملے
گول روٹی کے ٹکڑے
ایک مکھن کی ٹکیا
ایک شربت کی بوتل
مربے کا ڈبا
اس کے بدلے میں وہ لے گئے
میرے بھائی کا دست مشقت
جس میں منت کا ڈورا بندھا تھا
میری چھوٹی بہن کا وہ پاؤں
جس سے رنگ حنا پھوٹتا تھا
لوگ کہتے ہیں یہ امن کی جنگ ہے
امن کی جنگ میں حملہ آور
صرف بچوں کو بے دست و پا چھوڑتے ہیں
ان کو بھوکا نہیں چھوڑتے
آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے
میں دہکتے پہاڑوں میں تنہا
اپنے ترکے کی بندوق تھامے کھڑا ہوں
تماشائے اہل کرم دیکھتا تھا
تماشائے اہل کرم دیکھتا ہوں
زہرا نگاہ
دیدبان شمارہ۔۷
نظم: گل بادشاہ
زہرا نگاہ
نام میرا ہے گل بادشاہ
عمر میری ہے تیرہ برس
اور کہانی
میری عمر کی طرح سے منتشر منتشر
مختصر مختصر
میری بے نام بے چہرہ ماں
بے دوا مر گئی
باپ نے اس کو برقعے میں دفنا دیا
اس کو ڈر تھا کہ منکر نکیر
میری اماں کا چہرہ نہ دیکھیں
ویسے زندہ تھی، جب بھی وہ مدفون تھی
باپ کا نام زر تاج گل
عمر بتیس برس
وہ مجاہد شہادت کا طالب راہ حق کا مسافر ہوا
اور جام شہادت بھی اس نے
اپنے بھائی کے ہاتھوں پیا
جو شمالی مجاہد تھا
اور پنج وقتہ نمازی بھی تھا
مسئلہ اس شہادت کا پیچیدہ ہے
اس کو بہتر یہی ہے یہیں چھوڑ دیں
اب بہرحال بابا تو جنت میں ہے
اس کے ہاتھوں میں جام طہور
اس کی بانہوں میں حور و قصور
میری تقدیر میں بم دھماکے دھواں
پگھلتی ہوئی یہ زمین
بکھرتا ہوا آسماں
بعد از مرگ وہ زندہ ہے
زندگی مجھ سے شرمندہ ہے
کل سر شام دشمن نے آتے ہوئے
بم کے ہم راہ برسا دیے
مجھ پہ کچھ پیلے تھیلے
جن سے مجھ کو ملے
گول روٹی کے ٹکڑے
ایک مکھن کی ٹکیا
ایک شربت کی بوتل
مربے کا ڈبا
اس کے بدلے میں وہ لے گئے
میرے بھائی کا دست مشقت
جس میں منت کا ڈورا بندھا تھا
میری چھوٹی بہن کا وہ پاؤں
جس سے رنگ حنا پھوٹتا تھا
لوگ کہتے ہیں یہ امن کی جنگ ہے
امن کی جنگ میں حملہ آور
صرف بچوں کو بے دست و پا چھوڑتے ہیں
ان کو بھوکا نہیں چھوڑتے
آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے
میں دہکتے پہاڑوں میں تنہا
اپنے ترکے کی بندوق تھامے کھڑا ہوں
تماشائے اہل کرم دیکھتا تھا
تماشائے اہل کرم دیکھتا ہوں
زہرا نگاہ