میرو۔۔۔
میرو۔۔۔
Mar 29, 2020
ایک مجذوب کی داستان
میرو۔۔۔
عینی علی
اسلام علیکم جی! فون اٹھاتے ہی بولنے والا بڑی عجلت میں لگتا تھا ۔
وعلیکم اسلام - جی
میں گنکا رام ہسپتال گردہ سنٹر سے بول رہا ہوں
آپ قرتو لین بول رہی ہیں؟
جی ی ی ی۔۔۔ میں اس کے منہ سے اپنے ٹھیٹھ عربی نام کا پنجابی ترجمہ سن کر جز بز ہو گئی۔
آپ کا مریض گزر گیا ہے آ کر ڈیڈ باڈی لے جایئں۔
جی کیا؟ کون؟ کیسے ۔۔ کیا کہ رہے ہیں آپ۔ میرا دل جیسے مٹھی میں آ گیا۔
محمد معراج دین کی میت لے جائیں جی۔ اس کے سامان سے آپ کے نام کا کارڈ نکلا ہے۔ مرنے سے پہلے اس نے حمید خاکروب کو بھی یہی تاکید کی تھی کہ آپ کو اطلاع کر دیں-
اور ایمبولینس کا بندوبست خود کرنا- ہسپتال کے وسائل نہیں ہیں- کہنے والے نے تو کہ کر فون بند کر دیا پر میرے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔
میرو !
میرو چلا گیا-
اور جاتے جاتے اپنا آخری وعدہ نبھا گیا۔
میں کیسے بھول سکتی تھی وہ لاہور میں دسمبر کی خنک شام جب بھیگتے لہجے میں اس نے مجھ سے سوال کیا تھا۔
جب میں مر جاؤں گا تو مجھے دفنا دو گی پری؟
یہیں اسی درخت کے نیچے-
بس کرو میرو مرنے کی باتیں نا کرو مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا
ابھی بچی ہو نا مرنے کی باتوں سے ڈرتی ہو
بڑی ہو جاو گی تو خود مرنے کی باتیں کرنے کیلئے لوگ ڈھونڈو گی-
پر میں کہاں ہوں گا پر-
میں اب کہاں ہوں پر؟
وہ اکثر بولتے بولتے ایسے ہی پوچھ بیٹھتا تھا-
پہلے تو میں اسے ذہنی مریض سمجھ کر بڑے التزام سے سمجھانے لگتی تھی کہ ہم لاہور میں ہیں میاں میر کے مزار پر۔ مگر اس سے ملنے کے قریبا ایک برس بعد میں جان گئی تھی کہ یہ جملہ اس کے تحت الشعور میں چلنے والی فلم کے ڈایرکٹر کا "کٹ" ہے جہاں سے کسی بھی اداکار کو ایک جھٹکے سے اپنے آپ کو تخیل سے امکانات کی دنیا میں واپس دھکیل لانا پڑتا ہے –
میاں میر دربار سے میرا تعلق اس وقت بنا جب میں سکول میں پڑھتی تھی اور لوڈر وین میں آتی جاتی تھی۔ چونکہ ہمارا سکول گھر سے بہت دور تھا اس لیے وین بہت سے بچوں کو لے کر بہت لمبے روٹ سے دیوڑنڈ روڈ سے ماڈل ٹاؤن پہنچتی تھی۔
ہمارے خاندان میں مزاروں پر جانے سے کسے کو کوئی خاص نسبت نا تھی سو اس وقت میرے حافظے میں مزار کا تصور داتا صا حب کے مزار کی رونق اور چہل پہل تک ہی محدود تھا جسے دیکھنے کا موقعہ سال میں ایک ہی بارملتا تھا جب واربرٹن والی بڑی ممانی اپنے ہاتھ سے کڑہائی کی گئی چادر اور ایک ایک متنجن اور چنا پلاو کی دیگ داتا صاحب پر چڑھانے آتی تھیں-
بڑی ممانی صاحب ہمارے دادا کی واحد سگی اور نہایت لاڈلی ممانی تھیں اور ہر سال بس بھر کر بڑے اہتمام سے خاندان کے تمام بچوں کو داتا صاحب کے مزار پر دعا کروانے ساتھ لے کر جاتی تھیں- اللہ بخشے کہتی تھیں کہ داتا کا پیر دستگیر محبوب الہی ﷺ ہے اور آُپﷺ کو بچے بڑے پسند ہیں اور اسی لیے ان کے ننھے ننھے ہاتھوں سے کی گئی دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہے۔
ممانی صاحب کو اللہ کی طرف سے دین و دنیا کی کسی چیز کی کمی نا تھی- سات بیٹوں کی ماں تھیں- شوہر بے تحاشہ زمین جائیداد کے مالک تھے اور ممانی صاحب کے پاوں دھو دھو کر پیتے تھے۔ بڑے فخر سے بتاتیں کہ ان کے پاس اصلی نسلی سادات ہونے کا سلطنت عثمانیہ کے کسی سلطان کا دیا ہوا سرٹیفیکیٹ بھی موجود تھا۔
وہ ہمیں مزار پر لے جا کر کھڑا کرتیں اور دعا منگواتیں کہ سب بچے اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ سفیرہ کا شیخوپورہ کے میلے میں گم ہو گیا بھائی کامران عرف کامی خیریت سے گھر واپس آ جائے۔ آمین۔ سب بچے زور زور سے یہ دعا مانگتے تو سفیرہ بیگم عرف ممانی صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں بہنے لگتی اور آہ کامی کہ کر زمین پر بیٹھ جاتی۔ ایسے میں مزار کے تمام زائیرین کو ان کے دکھ کا اندازہ ہو جاتا اور سب مقدور بھر اپنا اپنا حصہ لینے یا دینے پہنچ جاتے۔ خوب رونق اور چہل پہل مچ جاتی اور ان کے ساتھ آئی ملازمایئں وہیں احاطے میں لنگر اور بتاشے تقسیم کرتیں-
ہر سال جب وہ واپس چلی جاتیں تو میری دادی خاندان کے تمام لوگوں بشمول دادا کو سامنے بٹھا کر کہتیں کہ ارے بھئی یہ ممانی صاحب کو کوئی بتاتا کاہے کو نہیں کہ کامی تو بچپن میں ہی ہیضے سے گزر گیا تھا جب یہ کوئی تین چار سال کی تھیں- انہوں نے چھوٹے بھائی کو موت کا اتنا اثر لیا کہ کئی دنوں کچھ کھایا پیا نہیں اور بستر سے لگ گئیں، تو بڑی اماں نے ان کو بہلانے کو کہ دیا کہ کامی میلہ دیکھنے گیا تھا لوٹا نہیں، تم کھانا کھا لو تو جلد ہی لوٹ آئے گا۔ کامی کے زندہ ہونے اور مل جانے کی امید نے ان میں نئی جان سی ڈال دی اور یو ں ان کی نعمتوں بھری زندگی کی کھڑی ہوئی بگھی میں کامی کے مل جانے کی امید کا تیز رفتارگھوڑا جوت دیا گیا۔ میں بچی سے بڑی ہو گئی پر یہ بات کبھی نا سمجھ سکی کہ تمام خاندان کو پتہ ہونے کے باوجود ممانی جان یہ بات کیوں نا جان پائیں ؟ شاید وہ جاننا ہی نہ چاہتی ہوں۔
بات ہو رہی تھی میاں میر کے دربار سے تعلق بننے کی- اس دن گرمیوں کی دوپہر میں ہماری سکول وین دھرم پورے نہر کے پل کے پاس خراب ہوگئی- وین والے با با جی نے تمام بچوں کو وین کو دھکا لگا نےکا حکم دیا اور خود ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ کر سلف مارنے لگے۔ ہم کینٹ جانے والی سڑک پر پندرہ منٹ تک گاڑی کو دھکا لگا کر ہانپنے لگے مگر نہ گاڑی کو سٹارٹ ہونا تھا نا ہوئی۔
پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔ بابا جی مکینک ڈھونڈنے کی غرض سے قریبی گلی میں گھسے تو ہم بھی پیچھے پیچھے چل دیے۔ گلی نے ایک جونہی ایک انگڑائی لیتا ہوا قوس بنایا تو مانو ماحول ہی بدل گیا۔
سامنے ایک کھلا سا پکا احاطہ جس کے دونوں طرف چادروں، بتاشوں ،پھولوں اور کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں تھیں۔ بائیں طرف سبزہ ، سامنے ایک لال دیوار اور دائیں طرف مڑتی ایک سڑک۔ سبزے میں ایک عجیب سی ٹھنڈک کا احساس تھا جیسے تازہ تازہ پانی کا چھڑکاو کیا گیا ہو۔ سامنے ہی ایک ہینڈ پمپ لگا تھا جسے دیکھتے ہیں مجھ سمیت سب بچوں کو ماحول پر غور کرنا یاد نہ رہا اور ہم پانی پینے دوڑے۔پا نی پینے کے بعد جونہی میں پیچھے ہٹنے لگی تو ایک کرخت سی زنانہ آواز میں حکم ہوا۔
نی کاکیے ، ٹھوڑا جیا ہور گیڑیں ۔۔۔
میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک پکی عمر کی، سیاہ تپتے ہوئی رنگت والی ٹھگنی سی عورت ایک چمڑے کی مشک کا منہ ہینڈ پمپ کے آگے رکھ کر کھڑی تھی۔ میں نے گھبرا کر ہینڈ پمپ چلانا شروع کر دیا۔ لیکن چونکہ مجھے ہینڈ پمپ چلانے کا کوئی تجربہ نا تھا تو دو چار ہاتھ مار کر میں تھکنے لگی۔
رہن دے توں ، پراں ہو، اینج تے اے سویر ای بھر سی
میں کسی معمول کی طرح پیچھے ہٹی
وے مےےے کل۔۔۔ ایتھے آ۔ پھڑ اینوں
اس نے اپنی مشک لہراتے ہوئے کسی کو آواز دی
میں سامنے سے آتے چھ فٹے کالے کلوٹے مائکل کو دیکھ کر منظر سے ہٹنے کی کوشش میں پمپ کے پاس بنے کیچڑ کے جوہڑ میں کمر کے بل گر گئی۔ میری ساری سہیلیاں ہنسنے لگیں ۔جلدی سے کھڑا ہونے کی غیر ارادی کوشش میں میرا سفید فراک اور لیگنگ کیچڑ سے مزید گندہ ہو گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر گئے اور شرم اور بے عزتی کے احساس سے میری ٹانگیں کانپنے لگی۔ پھر میں نے دنیا کی سب سے خوبصورت ٹرانسفورمیشن آبزرو کی۔ وہ سیا ہ تپتی رنگت والی ماشکی عورت جیسے اچانک ہی کسی فیری گاڈ مدر میں ڈھل گئی اس نے اپنی مشک رکھی مایکل کو واپس بھیجا اور مجھے اٹھانے کو آگے بڑھی۔
نا ں میری دھی ناں ،کوئی گل نیئں۔ کج نیئں ہویا۔
اس کا کرخت لہجہ مایا اینجلو کی سی نرم آواز میں ڈھل گیا۔
اس نے بڑے پیار سے مجھے اٹھایا، اور ہینڈ پمپ کے آگے لے جا کر کھڑا کر دیا، ایک ہاتھ سے ہینڈ پمپ چلاتی جاتی تھی دوسرے سے ہاتھ کا چلو بنا کر اس میں پانی بھر کر مجھے رگڑ رگڑ کر صاف کرتی جاتی تھی۔
نہ پتر ناں۔۔۔گھبراندے نئیں آں، رون دی کی گل اے زرا جیئ مٹی تے لگی اے ہن ای صاف ہو جاندی اے۔
پانچ ساتھ منٹ میں اس نے کسی چھ بچے پالنے والی ماہر ماں کی طرح مجھے صاف کر کے کیچڑ سے دور لا کھڑا کیا۔
ہن خوش اے؟ جا ۔کھیڈ اوتھے پنجاں منٹاں وچ خشک ہو جا سی
میں جیسے ایلس(Alice) کی طرح ابھی ریبٹ ہول(rabbit hole) سے گر کر اٹھی تھی ایک عجیب سی کیفیت میں پوچھ بیٹھی۔
یہ کونسی جگہ ہے۔ آنٹی آپ کون لوگ ہیں؟
اے۔۔۔ میاں میر دا احاطہ اے تے اسی۔۔۔۔ وہ ہنسی۔۔۔ جا پت کھیل اودروں، جد بڑی ہو سی آپے ول پتا لگ جائے گا کون آں اسی۔
اس جادوئی دن کی اور کوئی بات خاص نہ تھی سو یاد نا رہی پر میاں میر جیسے ایک طلسم کدہ بن گیا جہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
----------------------------------
میرو چلا گیا تھا !
میں اپنی یادوں کی کومل پٹاری سمیٹ کر خود کو حقیقت کی تلخ نوکیلی چٹانوں کا سامنا کرنے کو تیار کرنے لگی۔ مجھے میرو کے جسد خاکی کو میاں میر احاطے میں دفنانے کے لیے تگ و دو کرنی تھی۔
آفس سے جلدی سے نکل کر میو ہسپتال پہنچی اور پوچھتی پاچھتی مردہ خانے کے باہر موجود دفتر پہنچ کر سانسیں بحال کیں- میز پر بیٹھے کلرک نے پوچھا
جی کس کی باڈی چاہیے؟
مم معراج دین صاحب کی
آپ کون ہیں ان کی ؟
جی میں ان کی۔۔۔ میں گڑبڑائی
میڈم این جی او سے ہیں ؟
نہیں
میں ان کی دور کی رشتہ دار ہوں
میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ پوری تیاری کر کے کیوں نہیں آئی؟
چلوجی جو بھی ہو –
میڈم ان کا شناختی کارڈ دکھایئں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ بنوانا ہے۔
جی وہ تو میرے پاس نہیں ہے-
میڈم جی باڈی ادھر رکھنے کا کرایہ ایک ہزار روپیے یومیہ ہے
اچھا –
پھر سرٹیفیکیٹ اس کے آبائی علاقے سے بنے گا-
اوہ – تو وہ میں کیسے بنواؤں گی؟
اب میں واقعی گھبرا گئی تھی۔
میڈم جی پانچ ہزار دو باڈی لے جاو کن رپھڑوں میں پڑ رہے ہو۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں گھما کر کہا
پانچ ہزار ۔۔۔کچھ کم کریں میں نے گھبرا کر کہا۔
او میڈم جی آپ جاو جی اپنا کام کرو اس کے گھر کسی کو اطلا ع کر دو خود ہی کر لیں گے جو کرنا ہے۔ کلرک نے میری شکل دیکھ کر کہا
جی اس کا گھر۔۔مجھے پتہ نہیں ہے۔ میں احمقوں کی طرح گویا ہوئی۔
میڈم جی آپ جاو شاباش ، پولیس والے خود ہی لاوارث سمجھ کے دفنا دیں گے۔ اس نے گویا میری مشکل کے حل کا فیصلہ سنایا۔
میں نے اپنے چہرے سے خون جیسے نچڑتا محسوس کیا اور ایک معمول کی طرح پرس سے پانچ ہزار نکالے اور کلرک کو دے دیے۔
پھر مجھے یاد نہیں کب اس نے مجھ سے کوئی سائن کروایے یا کیا کیا بس ایک سٹریچر لایے اور مجھے ایک شاپر پکڑا کر اس کے سرہانے کھڑا کر دیا۔
یہ لیں اس کا سامان اور جلدی ایمبولینس لایئں جی؟
میرے سامنے سرکاری ہسپتال کے زنگ آلود سالخوردہ سٹریچر پر میرے سب سے اچھے دوست میرے غمگسار اور میری نہایت آرام دہ تحفظ بھری زندگی سے پوشیدہ میری وحشتوں کی دنیا کے دیرینہ ساتھی میرو کا ساکت بے جان جسم پڑا تھا۔
میرو چلا گیا !
------------------------------------
وہ بھی جون کی گرمیوں کا ایک تپتا ہوا دن تھا جب میں احاطہ میاں میر میں میرو سے ملی۔ اب میں آٹھ سال کی معصوم بچی نہیں تھی جو پانی کی تلاش میں تھی بلکہ بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی جو انتہائی جھنجھلاہٹ اور غصے کا شکار تھی۔ ہمارے معاشرے کی ہر اس مڈل کلاس کی بیس سال کی لڑکی کی طرح جس کے خواب اس کے ابو کی سکت سے بڑے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ دنیا صرف میرے حالات اور ان کی الجھنوں سے ہی گندھی ہے۔ سب اچھا جیسے آسمان کی وہ اونچائی ہے جس کا تصور بھی ہم ایسے رینگنے والے کیڑوں کے لیے قابل سزا ہے۔ اور میں اپنے آپ کو وہ سزا دینے پہ تل گئی تھی۔
اس دن میں دنیا کی بہترین یونیورسٹی کا آفر لیٹر ملنے پر بھی،باہر جا کر مزید پڑھنے کے مطالبے کو بری طرح رد کیے جانے پر بہت مایوسی کا شکار تھی۔ نہ جانے دل میں کیا آئی کہ بیگ اٹھا یا اور بس سٹاپ کی طرف چل پڑی۔ اسی ذہنی کشمکش میں بسیں بدلتی میں وہیں احاطہ میاں میر کے سامنے کھڑی تھی۔ باہر کی دنیا میں اتنا سب کچھ بدلنے پر بھی یہ جگہ اب بھی ویسی ہی پرسکون اور جادوئی تھی۔ میں دل میں گھر سے بھاگ جانے کے ارادے لیے اپنی سکیچ بک، پنسلوں اور نمکو کے پیکٹ سے بھرا بیگ اٹھایے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے ایک غائب دماغی کی کیفیت میں جوتوں سمیت مزار کے زیریں احاطے کو جانے والا دروازہ الانگ گئی۔
بالڑیے ۔۔۔ جتی تے لا دیو --- بایئں طرف سے آواز آئی
میں ٹھٹھک کر رکی اور جوتے اتارنے کو جھکی
چلو کوئی نئی اینج ای ٹرے جاو - ایک میلے سے قالین پر پھٹے کے تختوں سے پرے جوتے سنبھالنے والے نے کہا۔
پریاں کدی جتیاں وی لاوندیاں نے؟
وہ جیسے خود سے گویا ہوا۔
میں ایسے لوگوں سے بہت تنگ ہوتی ہوں جو خواتین کو اکیلا دیکھ کر جملہ کسنے سے باز نہیں رہ سکتے-
کچھ اپنے اندر کی گھٹن اور کچھ ان صاجب کے کھٹے میٹھےلہجے کی وجہ سے مجھے یکدم پتہ نہیں کیا ہوا کہ اچانک ہی میں شدید غصے میں آ گئی۔
جاہل انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی؟
میں نے اسی عالم جھنجھلاہٹ میں اسے بے نقط سنانے کی غرض سے پھٹے کو زوردار ٹھڈا مارا۔
وہ کمزور سا دو پھٹوں، کچھ بانسوں اور ایک جھلنگی سی ترپال کا بنا ہوا عارضی سا چھجا یکدم سے سارا کا سارا اس جوتے رکھنے والے کے اوپر آن گرا۔
میں گھبرا گئی- ارد گرد دیکھا شاید کوئی ہو جو مدد کرنے آئے مگر لنگر بٹنے کا وقت تھا ارد گرد کوئی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر ساکت کھڑی رہی کہ اندر والا نمونہ خود نکلنے کی تکلیف کرنا پسند کرے گا۔
طوعا و کرہا آواز دی
آپ ٹھیک ہیں جناب ؟
اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔
سنیں بھائی ۔۔۔میں ترپال اٹھانے کو آگے بڑھی کہ اندر سے ہیر وارث شاہ پڑھنے کی نہایت ہی خوبصورت آواز سنائی دی۔
جیہڑا کن لپیٹ کے نس جائے مگر لک کے اوس نوں دھسیے کیوں
وارثؔ شاہ اُجاڑ کے وسدیاں نوں آپ خیر دے نال پھیرو سیے کیوں
نی جانے ان لاینوں کا اثر تھا یا میاں میر احاطے کے جادوئی ماحول کا ، میرے چہرے کےتنے ہویے عظلات ایک دم ہی نارمل ہو گیے- میں نے آگے بڑھ کرمسکراتے ہوئے ترپال اٹھائی تو مانو منظر ہی بدل گیا-
وہ پچیس تیس سال کا گھنگریالے بالوں والانوجوان بے ترتیب پڑی جوتیوں کے ڈھیر پہ سر کے نیچے ہاتھ رکھے انکھیں بند کیے آرام سے ہیر گا رہا تھا۔ اس کے چہرے پہ پوٹھوہاری لوگوں جیسی نمکین سی چمک تھی- شیو گو کئی دنوں سے بڑھی تو نا تھی پر بے ترتیبی سے بنایے جانے کی وجہ سے اس کے چہرے کے تیکھے نین نقشوں کو بھدا بنا رہی تھی۔ وہ چاندی کے بٹنوں کے کاج والے اڑی رنگت کے ہرے کرتے میں ملبوس تھا جس میں بٹنوں کی جگہ کامن پنیں لگیں تھیں- گلے میں رنگ برنگے دھاگے اور تعویز کرتے کے نیچے پرانی سی جینز اور پیروں میں پیتل کے کڑے۔مگر اس حلیے میں بھی وہ مراثی نہیں کسی گاوں کا چودھری ہی لگ رہا تھا۔ کم از کم جوتے سنبھالنے والا تو ہر گز نہیں لگ رہا تھا-
معاف کیجیے گا آپ خود اٹھیں گے یا کھیڑے آ کر اٹھایئں گے؟
میں نے جل کر پوچھا۔
پھر اس نے آنکھیں کھول دیں اور جیسے کسی ستر کی دہائی کی فلم کے ٹوسٹ(twist) والے سین کا شیشہ کرچا ۔
اتنی ویران آنکھیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔
آنکھیں کھولتے ہی اس کے چہرے کا تاثر یکدم ہی بدل گیا۔ پتہ نہیں کیا ہوا میں گھبرا گئی اور تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے اندر مزار کی طرف چل پڑی ۔
میں مزار کے سامنے بنے چبوترے پر بیٹھ گئی اور سکیچ بک کھول کر کورے صفحے کو دیکھنے لگی۔ کتنا عجیب سا شخص تھا وہ۔ اور اس کی آنکھیں اف۔۔۔
میرے سامنے صفحے پر وہ آنکھیں کھل گیئں- میں ارد گرد سے بے پرواہ ہو کر بڑے انہماک سے آنکھیں تراشنے لگی۔
کاگا سب تن کھائیو میرا چن چن کھائیو ماس
دو نینا مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس
ان بولوں کو مدھر آواز میں گنگناتا وہ میرے سر پر کھڑا تھا-
میں ایک دم چونکی
میں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب وحشت اور جھنجھلاہٹ کی جگہ میری خاتون ہونے کی اس حس نے لے لی تھی جہاں سے آپکے دماغ میں حفظ ما تقدم کی گھنٹیان زور و شور سے بجنے لگتی ہیں۔ میں نے ارد گرد دیکھا۔ مزار پر بہت زیادہ رش نہیں تھا- اکا دکا خواتین اور کچھ مرد ٹھوڑا دور بیٹھے تھے۔
کیا بنا رہی ہو پری ؟ مجھے اس کے پوچھنے کا انداز بڑا بچگانہ لگا۔
تمہیں کیا- اور میں پری نہیں ہوں- میں نے غصے سے کہا۔
نہیں تم پری ہو-
ہو تم پری-
بس تم پری ہو۔ اس نے بچوں کی طرح ضد کی۔
مجھے اس سے بات کر کے کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا کہ یہ کوئی مجذوب یا نیم پاگل ہے۔
بس پھر یکدم جیسے میرا سارا ڈر جاتا رہا۔
سنو نمکو کھاو گےَ ؟
پہلے بتاو کیا بنا رہی ہو ؟
تمہاری آنکھیں۔
تم اللہ میاں ہو ؟
اس کی ویران آنکھوں میں جیسے صدیوں بعد دریافت ہونے والے کسی مرقد کےپہلی بار کھلنے والے دروازے کی چرچراہٹ گونجی۔
میں ہنس پڑی – نہیں میں آرٹسٹ ہوں ۔ وہ مجھے بہت بے ضرر اور معصوم سا لگا۔
نہیں! بیٹھو یہ لو نمکو کھاؤ-
کیا نام ہے تمہارا ؟
میرو-
کہاں رہتے ہو
میاں میر کے گھر میں -
اچھا ۔ یہ بتاو ہیر پڑھنا کہاں سے سیکھی ؟
اوووو بابے کرم دین سے-
اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا-
میں ابھی بلا کر لاتا ہوں۔ وہ جلدی سے کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور اٹھ کر وہاں سے نکل آئی- نہ جانے کیا ہوا میں بہت ہلکا اور مطمئین محسوس کر رہی تھی- گھر پہنچ کر ایسے روٹین کے کاموں میں لگ گیئ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں – ویسے بھی ہمارے یہاں روائیتی گھرانوں میں کانچ کے سستے برتن ٹوٹنے کا غم تو منایا جاتا ہے پر کسی کے خوابوں کے ٹوٹنے کا نہیں۔
------------------------------------------------------
باجی جی ایمبولینس لاؤں؟۔
ایک آدمی میرے پاس آ کر پوچھنے لگا۔
آں ہاں لاؤ۔
میرو چلا گیا
اور وارثان میں میرا نام دے گیا۔
باجی کسی کو بلا لیں قبر وغیرہ کا انتظام بھی کرنا ہے- ایمبولینس والے نے ایک ہمدردانہ مشورہ دیا-
ہاں ایک منٹ- میں نے فون اٹھایا۔ کس کو فون کروں کیا کہوں کیسے کہوں۔
بابا نور دین – ان کا تو کوئی نمبر نہیں میرے پاس- اور کون تھا میرو کا ہم دونوں کے علاوہ۔ آجکل تو جن کے وارثان ہیں ان کو کندھے نصیب نہیں ہوتے تو اس غریب مسکین کا کون ہو سکتا ہے۔
چلو تم احاطہ میاں میر چلو -میں نے ایمبیولینس والے کو کہا۔
باجی آٹھ سو روپیہ ہے کرایہ اور وہ بھی پھُل ایڈ ونس۔ اطلاع دی گئی
ہاں لے لینا- میں نے جھلا کر کہا
تے دیو فیر۔
اچھا چلو تو سہی ۔وہاں جا کر لے لینا۔
میرے سامنے انہوں نے اس کے بے جان جسم کو گاڑی میں ڈالا۔ میں چاہ کر بھی اس کے چہرے سے چادر نا اٹھا پائی جو میلی چیکٹ ہو کر اس ترپال کی طرح لگ رہی تھی جس کو ہٹا کر میں نے اس کا سب سے وجیہہ روپ دیکھا تھا۔ میں زندگی بھر اس کا وہ روپ دوبارہ نہیں دیکھ سکی اور اب ۔۔۔
------------------------------------------
اس دن کے بعد میں اکثر میاں میر جانے لگی۔ مجھے وہاں بیٹھ کر پڑھنے اور سکیچ بنانے کا بڑا مزہ آتا تھا۔
میرو نے اگلی ملاقات میں مجھے بابا کرم دین سے بھی ملوایا جو وہاں قبرستان کے گورکن تھے- بابا نے بتایا چھ مہینے پہلے یہ مزار پر بخار میں دھت ملا تھا۔ با با اسے قریب واقع سرکاری ہسپتال میں چھوڑ آئے۔ شائد سردی اور بارش میں رات بھر باہر رہنے سے اسے نمونیہ یا ٹائیفائڈ ہوا تھا۔ اسی سے اس کا دماغ تھوڑا ہل گیا تھا۔ یہ ہسپتال سے نکل کر پھر کسی قبر پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔ بابا کرم دین کئی نسلوں سے گورکن کا کام کرتا تھا مگر اب اس کی اولاد کریانے کی دکانیں ڈال کر اس کام سے دست بردار ہو گئی تھی۔ بابا کو اس عمر میں کسی مددگار کی ضرورت تھی یہ بنا کچھ کہے سارا دن بابا کے ساتھ قبروں کی دیکھ بھال میں مدد کرتا اور رات کو مزار کے ساتھ ملحق با با کی کوٹھری میں سو جاتا۔ مزار پر بٹنے والے لنگر سے اسے بھی کھانا مل جاتا۔ بابا کہ رہے تھے شروع میں کچھ نہیں بولتا تھا اور سر جھکائے رکھتا تھا پھر آہستہ آہستہ بابا کے ساتھ ہیر گنگنانے لگا- اب تم آ گئی ہو تو بچوں جیسی حرکتیں بھی کرنے لگا ہے۔
پھر با با نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے
کسی اچھے گھر کا لگتا ہے۔ پتہ نہیں کس ماں کا کلیجہ ہے جو یہاں رلتا پھرتا ہے۔بہت محنتی ہے اورکبھی کبھی تو مجھے پچھتاوا ہوتا ہے کہ کس باپ کی خدمت گزاری کی بیگار ہے جو میں اس سے لے رہا ہوں۔
مجھے میاں میر کے سامنے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر میرو سے باتیں کرنے کا بہت مزا آتا تھا۔ اس کے معصومانہ بچوں جیسے سوال مجھے بہت کچھ کھوجنے پر لگا دیتے اور یوں باتوں باتوں میں زندگی کی بڑی بڑی گھتیاں سلجھ جاتیں۔ وہ مجھ سے پوچھتا
پری یہ لوگ یہاں کیا لینے آتے ہیں؟
یہ اپنے لیے ، اپنے پیاروں کے لیے دعا ئیں مانگنے آتے ہیں-
کس سے ؟
اللہ سے۔ میں کہتی۔
اللہ کا گھر تو مکہ میں ہے ؟ وہ حیرانی سے کہتا
یہ تو میاں میر کا گھر ہے۔
نہیں اللہ ہر جگہ ہے اور یہ میاں میر کا مزار ہے یہاں میاں میر دفن ہیں۔
پھر ان کو کیا ملتا ہے یہاں ؟
پھر ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے-
بے وقوف لوکاں ۔۔۔ اتنا بھی نیئں پتہ جو دل خود دھڑکنا چھوڑ گیے ان سے دھڑکتے دلوں کو سکون کیسے ملے؟ وہ آہ بھر کر کہتا
میرو تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں اس کا دھیان بٹانے کو پوچھتی۔
بس یہ پوچھنا تو گویا قیامت ہوتا۔
میرو کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ عضلات کھنچ جاتے مٹھیاں بھینچ جاتیں اور زور زور سے چلانے لگتا۔
بابا ۔۔۔ بابا!
قبریں ٹوٹ رہی ہیں
بڑے بڑے سوراخ ہو رہے ہیں
مٹی بہ گئی ہے
سب رشتے خون پیتے ہیں
سب جھوٹ ہے
سب مر گیے جیتے جی مر گیے
مار دیا بدبختی نے۔ کچھ نہیں چھوڑا
------------------------------------------
ایمبیولینس احاطے کے باہر رک گیئ۔ میں بھی پیچھے ہی آن رکی۔ ڈرایئور کے تیور ذرا دیر بھی ٹہرنے والے نہیں لگ رہے تھے۔ میں نے منت کرنے والے انداز سے کہا۔
ذرا دیر ٹھہرو میں انتظام کر کے آتی ہوں۔ پتہ نہیں کس دل سے اس نے سر ہلایا اور میں موقع غنیمت جان کر اندر بھاگی۔ لائبریری کے قریب آفس میں پہنچ کر با با نور دین کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوئے کچھ سال ہو گیے۔ جانے کس لہر میں پوچھ بیٹھی۔
ان کی قبر تو یہیں ہو گی نہ؟
کیوں جی یہاں کیوں۔ وہ کونسے لاٹ صا حب تھے؟ جواب ملا
جی وہ یہاں قبر بنوانی ہے کسی کی ؟ کیا طریقہ کار ہے؟ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
کس کی؟
جی ایک بندہ ہے-
کہاں کا رہایشی ہے؟
ش ۔۔۔شاید ایمن آباد کا۔
آپ کا کون ہے؟
کوئی نہیں-
ڈومیسایل کہاں کا ہے؟
پتہ نہیں-
بی بی کیوں دماغ کھوٹا کرتی ہو۔ یہاں اول تو جگہ نہیں ہے اور اگر کہیں ہو گی بھی تو یہاں قریب کے مستقل پتے والوں کو ملے گی۔ اس نے جھلا کر کہا۔
جی وہ زیبا جی نے بھی تو محمد علی صاحب کے ساتھ والی جگہ رکھی ہوئی ہے۔ زرا چیک کریں کہیں با با نور دین نے بھی میرو کی جگہ رکھی ہو گی ۔ میں منمنائی۔
اس بات پر اس نے مجھے اس طرح دیکھا گویا میں پاگل خانے سے ابھی چھوٹ کر آئی ہوں، اور بولا
اوہ بی بی !انہوں نے ایک لاکھ روپیہ دیا ہے۔ آپ دیں میں ابھی بک کر دیتا ہوں آپ کی قبر۔ وہ غرایا۔
مم میری قبر ۔۔۔جی ۔۔۔ وہ باہر ایمبیولینس میں میرو ہے میں کیا کروں ؟ میں نے روہانسی ہو کر پوچھا؟
آپ کے گھر میں کوئی نہیں ہے کیا ان سے مشورہ کریں۔ میں کیا کروں؟ جواب ملا
کس سے مشورہ کروں صرف یہ مسئلہ نہیں ہے۔ کیا کروں؟ یہ مصیبت ہے۔ میں نے سوچا۔ پھر اپنے دفتر کے اکاونٹنٹ شفیق صا حب کا خیال آیا ۔
شفیق صاحب ہمارے بہت پرانے اور قابل بھروسہ ملازمین میں سے ایک ہیں ۔ ان کا نمبر ملایا اور ان سے جتنی جلدی ممکن ہو یہاں آنے کی درخواست کی۔
کون تھا وہ میرا؟ ایک نیم پاگل مجذوب دوست جس کی زندگی کا سب سے بڑا راز میرے پاس امانت تھا۔ میں نے کرب سے سوچا۔
میں بوجھل قدموں سے باہر نکلی اور مزار کے دروازے کے سامنے لگے بڑے سے بوہڑ کے درخت کے نیچے بنے چبوترے پہ بیٹھ کر رونے لگی۔ اوہ ہاں میں تو ابھی تک کھل کے رو بھی نہیں سکی تھی۔ میں نے سسکیاں بھرتے ہوئے سوچا۔
------------------------------------------
ہم اکثر میاں میر احاطے میں مزار کی پائنتی کی طرف لگے بڑے سے بوہڑ کے درخت کے نیچے بیٹھا کرتے تھے-
میں اپنی سکیچ بک کھول لیتی اور میرو اپنی یادوں کی پٹاری۔ میری سکیچ بک پر لکیریں بہکنے لگتیں اور اس کی یادوں کے کینوس پر سکینہ سے محبت کے رنگ۔
سکینہ کو پہلی بار دیکھنا۔ اس سے ملنا، باتیں کرنا، تحفے دینا ، چھونا ، گلے لگانا ، غصہ کرنا، لڑنا جھگڑنا۔۔۔ ہر محبت کی کہانی میں کم و بیش یہی باتیں ہوتی ہیں مگر میں اس بات کی قائل ہوں کہ جب کوئی آپ کو محبت کی کہانی سنائے تو کہانی کی تفصیلات نہیں بلکہ محب کے چہرے کی جزیات پہ غور کیجیے ۔۔۔ یہ جزیات ہر انسان کے فنگر پرنٹس کی طرح مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے ترقی پسند اقوام ان فنگر پرنٹس کے علم سے شناخت کا نظام بنا لیتی ہیں، مولوی صاحبان اللہ کی شان ڈھونڈ کر سبحان اللہ کے ورد کی لڑیاں چلا لیتے ہیں، ہم اہل فن محب کے چہرے کے تاثرات سے محبوب کی شناخت اور شان دونوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں-
وہ سکینہ کی بات نہ کرتا اگر میں اس دن شاہنواز کے گھر والوں کی طرف سے رشتہ توڑ دینے پر دکھی ہو کر میاں میر کا رخ نہ کرتی۔ وہ سردیوں کی ایک کہریلی سی دوپہر تھی اور میں ایم اے کا آخری پرچہ نہ جانے کس طرح دے کر میاں میر کی طرف جانے والی بس میں سوار ہوئی تھی۔ احاطے میں پہنچ کربوہڑ کے درخت کے نیچے سکیچ بک کھول کر بیٹھی تو کچھ بھی نہ بنا سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اور پھر وہی جادوئی آواز میرے کانوں میں پڑی:
جے ٹک رانجھا درس دکھاوے' تاں ہیر عذابوں چھُٹے
شاہ حسین فقیر سناوے' رانجھے باجھوں برہوں ستاوے
ویکھو وئی ویکھو ۔۔۔ پریاں وی کدی روندیاں جے؟ وہ میرے پاس آ کر بولا۔
نہیں میرو آج نہیں ۔ آج جاو تم بابا نور دین کے پاس ۔ میں نے تنگ آ کر کہا
نہیں آج آنکھیں بناؤ ۔ سکینہ کی آنکھیں ۔ میں بتاتا ہوں تم بناؤ۔
کون سکینہ ؟ میں نے پوچھا
میری منگ ، میری جان سکینہ ۔۔۔ میری سکینہ ۔۔۔ معراج دین کی سکینہ۔ وہ گویا اک سرور میں کہتا چلا گیا۔
نہیں ۔ میں نے حتمی لہجہ اختیار کیا ۔
چلو پھر دونوں مل کے روتے ہیں ۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور زار و قطا ر رونے لگا۔
اوفو ۔۔۔میں جھلا کر اٹھی۔۔۔ یہاں تو سکون لینے دو ۔ جاؤ یہاں سے۔
چھوڑ گیا نا وہ تمہیں ؟ جیسے میں چھوڑ آیا تھا سکینہ کو۔ اس نے پیچھے سے آواز دی -
میں چلتے چلتے رک گئی اور شاید ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میرے دماغ نے یہ فیصلہ کیا کہ میرو کے سکینہ سے بھاگنے اور شاہنواز کے مجھ سے بھاگنے میں کوئی تعلق ضرور ہے ۔
اب میں اس کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔ اچھا بتاؤ کون تھی سکینہ؟
پہلے تم بتاو کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا
کچھ میرا اپنا دل بھرا ہوا تھا اور کچھ اس کی آنکھوں میں ایسی ضد تھی کہ مجھے بتاتے ہی بنی ۔
میرو تم جانتے ہو اس دن پہلا پرچہ تھا جب شاہنواز کی امی اور بہن ہمارے گھر رشتہ ختم کرنے آیئں تھیں۔ انہوں نے آنے سے پہلے کوئی اطلاع بھی نہیں دی تھی اور جب میں گھر واپس پہنچی تو وہ نکل رہیں تھیں۔ میں انہیں دیکھ کر حیران ہوئی اور سلام کرنے لپکی مگر ان کی آنکھوں سے جھلکتا کروفر اور اپنی امی کی آنکھوں میں التجائیہ امڈتے ہویے آنسو دیکھ کو مجھے ایک سیکنڈ میں اندازہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے شاہنواز کی بہن کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے ایسی فاتحانہ نظرسے دیکھا جیسے اس کا بھائی کسی چڑیل کا اسیر تھا اور وہ اسے جلا کر خاکستر کیے جا رہی ہے۔ نہ جانے کیوں اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی کیونکہ رشتہ ٹوٹنے کی اصل وجہ میں جانتی تھی امی نہیں ورنہ ان کی آنکھوں میں بھی شکرانے کے آنسو ہوتے رحم کی بھیک مانگنے کے نہیں۔ شاہنواز جو اپنی انا کا غلام تھا اتنا سا وار نہ سہ سکا، جب میں نے اسے برطانیہ کی کسی یونیورسٹی میں پڑھنے کے اپنے خواب کی جزیات سے پورے دل سے آگاہ کیا-
میری حقیقت جان کرپہلے تو وہ نہایت دل برداشتہ ہوا پھر اس نے مجھے سمجھایا کہ وہ مجھے میرے ان خطرناک خوابوں کے ساتھ اپنے نیک نام خاندان کا حصہ نہیں بنا سکتا۔ میں اپنے خواب اس کے لیے تج دوں تو ہی وہ مجھے اپنی بے مثال ہمسفری کا تمغہ دے سکتا ہے-
یہ کیا سودا ہوا؟ میرے دل نے سرگوشی کی۔ اگر انسان کی روح سے خواب نکال لیں تو بچتا کیا ہے بھلا؟
ایک کھوکھلا وجود جیسے حنوط شدہ جانور کی کھال۔ اس میں بھس بھر لو یا اطلس و کمخواب کی اترنیں، کیا فرق پڑتا ہے۔
اگر میرا ساتھ چاہتی ہو توایم اے کے مزید پرچے نہیں دو گی۔ شاہنواز کا انداز حاکمانہ تھا۔
ایک لمحے کو میرا دل دہل گیا۔ امی ابو بہن بھائی اور رشتہ داروں کی شکلیں دماغ میں گھومنے لگیں۔ ان سب کی شکرانے کے آنسووں سے بھری آنکھوں کی اوٹ میں اپنا بھس بھرا وجود لاکھوں کے جوڑے میں لپٹا قران پاک کے سایے سے رخصت ہوتے دیکھا- ابو کے جھکے کندھوں کو نرم پڑتے دیکھا اور امی کو اپنی تین بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم سے کچھ باعزت بری ہوتے دیکھا۔
پھر نہ جانے کیا ہوا جونہی میں نے اپنی رگوں میں ڈوڑتے خوابوں کو محسوس کیا تو ان کے دباؤ سے یہ مستقبل کی پیش گوئی کرنے والا شیشے کا روشن گولا ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
شاہنواز میں اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جاتی ہوں۔ تم بھی ہو جاؤ- میں ایگزام نہیں دوں گی، اور تم فوج کی نوکری سے استعفی دے دو۔ ۔ میں نے پتھریلے لہجے میں کہا۔
شکر ہے میرو میں فون پہ بات کر رہی تھی! سامنے ہوتی تو اس نے مجھے ٹوٹے ٹوٹے کر کے کتوں کو کھلا دینا تھا۔ میں خود ہی ہنس دی کیونکہ میں جانتی تھی کہ میرو کو یہ سب کیا سمجھ آنا مگر اسے بتانے سے کم از کم میرے دل کا بوجھ تو ہلکا ہوا۔
ہا ہا ہا ۔۔۔کتے ٹوٹے کھایئں گے ۔ لو جی بھلا کتے کب پریاں کھاتے ہیں ۔ نہ جی نہ ۔وہ ہنسا تو مجھے اس کا انداز کچھ کھوکھلا لگا۔
اب سکینہ کے بارے میں بتاؤ؟ میں نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا اور مٹھیاں بھینچنے لگیں ۔
نہیں آج ڈرامہ نہیں ۔ میں نے غرا کر کہا۔ آج تمہیں سب بتانا ہو گا۔ میں جانتی ہوں تم بہت کچھ بتانا چاہتے ہو۔ میں نے اصرار کیا۔
نہیں! وہ قطعیت سے کہتا ہوا کھڑا ہوا ۔
ٹھیک ہے خدا حافظ۔ مجھے بابا میاں میر کی قسم اگر آج تم نے نہیں بتایا تو میں پھر یہاں کبھی نہیں آوں گی۔ کبھی نہیں۔
میں اٹھی اور بیرونی دروازے کی جانب چلنے لگی۔
پری ۔۔۔ رک جاؤ! بتاتا ہوں - وہ ہار ماننے والے لہجے میں گویا ہوا
اس دن مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ کوئی پاگل یا مجذوب نہیں ہے، بس کوئی بہت گہرا گھاؤہے جس کی رکھوالی کرتا ہے۔
اور بس پھر تو جیسے سکینہ ایک جیتا جاگتا کردار بن کر اس کے دل کے نہاں جھروکوں اورمیری رنگین ٹیوبوں سے پھسل کر ادھر ادھر اٹھکھیلیاں کرنے لگی۔
میرے سکیچز بلیک اینڈ وایٹ سے رنگین پینٹنگز میں بدل گئے اور اس کی یادوں کی وحشت کو کچھ کچھ قرار آنے لگا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ میں اس دن کے کہرے میں یہ دونوں سوال دفن کر آئی کہ شاہنواز نے مجھے اور میرو نے سکینہ کو کیوں چھوڑا۔
-------------------------------------
باجی جی وہ لڑکا بلا رہا ہے باہر۔ صفائی کرنے والے نے میرے کان کے پاس آ کر کہا ۔
اوہ اچھا میں آنسو پونچھ کر اٹھی اور ایمبیولینس والے کے پاس گئی۔
بھائی دس منٹ اور میرے چچا آ رہے ہیں۔ ۔ میں نے کہا
باجی میرے پیسے دو میں جاؤں۔ اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
بھائی لے لینا پیسے کچھ تو صبر کرو ۔ میں روہانسی ہو کر بولی-
کیا باجی ۔کس رپھڑ میں پھنس گیے ہو۔ رہن دیتے ادھر ہسپتال میں۔ اچھا اب کیا کرنا ہے ؟
بھائی کوئی ایسی جگہ بتاؤ جہاں ان کو عزت سے دفنایا جا سکے ؟ یہاں تو بات نہیں بنی ۔
ہممم۔۔۔ فیر وہ شہر سے باہر سرکاری قبرستان میں لے جاتے ہیں ۔ ادھر مسجد ہے اور دفتر بھی ۔ انتظام ہو جائے گا۔
اچھا باجی پورے دن کی ڈرایئوری کے تین ہزار ہوتے ہیں ۔ منظور؟
ہاں ہاں منظور ہے ۔
اتنے میں شفیق صاحب بھی آ گئے اور ایک سمجھدار ملازم کی طرح انہوں نے سارا انتظام سمجھ کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
بیٹا اب آپ گھر جائیں میں سنبھال لوں گا۔ شفیق صاحب نے مجھے تسلی دی ۔
نہیں انکل میں ساتھ ہی رہوں گی ۔ میں نے خاموشی سے کہا۔
اور یوں ہمارا مختصر سا قافلہ شہر خموشاں کی طرف روانہ ہوا ۔
--------------------------
چند سال پہلےدسمبر کی اس خنک شام جب میں میرو سے آخری بار ملی تو جان گئی تھی کہ جدائی کے دکھ کا بوجھ کتنا جان لیوا ہوتا ہے۔ بابا نے بتایا وہ گردوں کی بیماری کی وجہ سے بہت دن ہسپتال میں رہ کر آیا ہے اور بہت کمزور ہو گیا ہے۔ اس دن وہ مجھے وہیں ملا بوہڑ کے درخت تلے۔ وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا اور ہاتھ میں کچھ پھولوں کی پتیاں لے کر ان کو مسل رہا تھا۔
میرو کیا ہوا ؟ میں نے گھبرا کر پوچھا ۔
پری سکینہ ایسی نہیں تھی جیسی میں بتاتا ہوں اور تم بناتی ہو۔ وہ اس سے بہت خوبصورت تھی ۔ پچپن سے میری منگ تھی وہ۔ پورا گاوں جانتا تھا وہ میری لیلی تھی اور میں اس کا مجنوں۔ اور ہمارے گاوں میں تو کوئی کیدو بھی نہیں تھا اور نہ ہی دور پار کوئی کھیڑے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے اور ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ میں گویا کوئی جن تھا اور وہ بلبل ،جس میں میری جان تھی ۔ پھر بھی پری جانتی ہو میں نے اس کو کیوں چھوڑ دیا ؟
میرو تم آرام کرو ۔ میں نے اسے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔
نہیں پری مجھ پہ آج ایک احسان کرو کہ یہ پھانس میری روح سے نکال دو تا کہ سکون سے میری جان نکلے۔
کیا ہوا میرو بتاؤ تو۔ ایسی کون سی بات ہے کہ تم دنیا و مافیہا سے اتنی دور نکل آئے اور کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا؟
پری وہ میری ہو کر بھی میری نہ تھی اس لیے چھوڑ دیا میں نے اسے ،-جیسے تم اپنی ہو کر شاہنواز کی نہ رہی ۔ وہ بے تحاشہ رو رہا تھا کہ اس کی بات سمجھنا مشکل تھا۔
کیوں میرو کیا ہوا ایسا ؟ بتاو مجھے ۔
پری جب مجھے معلوم ہوا کہ میری محبوبہ میرے باپ کا گناہ ہے تو اور کیا کرتا میں ۔ کیا کہتا اس سے ، سب سے ، اپنے آپ سے۔ قسمت سے کون لڑ سکا ہے پری ؟ میں بھی نہ لڑ سکا ۔بھاگتا گیا ، گم ہوتا گیا ، کبھی نہ واپس جانے کے لیے۔ پری مجھ سے وعدہ کرو مجھے یہیں دفناؤ گی اسی درخت کے نیچے۔ اسی طرح بے نام و نشان بنا تعویز کے۔ وہ بری طرح سسکیاں لے رہا تھا ۔
میرو ہو سکتا ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو ۔ تم بتاو کہاں کے رہنے والے ہو تم۔ میں کوشش کروں گی تمہارے گھر والوں کا پتہ کرنے کی۔ تمہیں واپس جانا چاہیے، تمہارے کوئی ماںباپ ہوں گے ، بہن بھائی ہوں گے۔ بتاؤ میرو بتاؤ۔۔۔
وہ میرے باپ کا پتہ پوچھتی آئی تھی ہمارے گاؤں، سکینہ کی اصلی ماں ۔ اس کے پاس سرٹیفیکیٹ تھا ۔ میں اسے جھوٹا ثابت کرنے ابا کے پاس لے گیا۔ ابا نے مجھے جھوٹا ثابت کر دیا۔ ابا نے مار دیا اسے اور دبا کر مجھ سے بولا، جا پتر ایسے ہو جا جیسے توں کچھ دیکھیا ای نئیں۔
ابا اور سکینہ؟ میں نے بوکھلا کر ابا کی طرف دیکھا۔ جا پتر بھول جا۔ شاباش عیش کر۔ بادشاہوں کی غلطیاں شہزادوں کی وراثت ہوتی ہیں۔ جا موج کر۔ ابا کے منہ سے خون ابلنے لگا۔ میرا اپنا سگا خون۔ ۔۔
پری میں گھبرا کر بھاگا ۔ راستے میں قبرستان پڑتا تھا ۔ میرے پاوں کے نیچے خون بہ رہا تھا ۔ میرا اپنا سگا خون ۔ سب قبریں بہ گئیں ۔ سب مردے نکل کر چیخنے لگے۔ ۔ ہنسنے لگے۔ بدبختی سب کھا گئی پری ۔ سب کھا گئی۔ وہ تڑپ رہا تھا۔
میں بھاگا - جدھر منہ لگا بھاگا ۔ بھاگتا چلا گیا ۔ میاں میر نے دامن پھیلایا ۔ سمیٹ لیا۔ پری اب میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہیں رہوں گا۔ یہاں قبریں نہیں پھٹتی ۔ پری مجھے یہیں سلا دو گی نہ اسی پیڑ کے نیچے، وعدہ کرو پری؟ وعدہ کرو نہ۔ کرو نہ وعدہ۔ اس کی آنکھیں سے ویرانی نکل کر کہرے کو کھانے لگی ۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ، میں تو اپنی سکالرشپ مل کر پڑھنے کی خواہش کی تکمیل کی خوشی اس سے بانٹنے آئی تھی اور اس کے سینے کا بوجھ خود پر لاد بیٹھی۔
با با نور دین نے آ کر اسے سہارا دیا اور اندر کوٹھری میں لے گیے۔ پر جاتے جاتے میرا دل چاہا کی اس کی چادر اٹھا کر اس کی آنکھیں دیکھ لوں ، شاید یہ راز بتا کر ان کی ویرانی کچھ کم ہوئی ہو۔
پھر میں پڑھنے چلی گئی ، شادی ہو گئی اور کئی سالوں بعد لاہور آنا ہوا ۔ ایک دو بار میاں میر سلام کرنے گئی پر میرو یا بابا نور دین کا کسی سے پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی ۔
----------------------------------------
گاڑیاں فیروزپور روڈ پر کاہنے کے پاس سے ایک قوس بناتی ہوئی شہر خموشاں کے بورڈ کے ساتھ اندر مڑیں تو کہیں کچھ منظر نہیں بدلا۔
ایک سیاہ اور سنہری دروازے سے گزرتے ہوئے ہم اندر داخل ہوئے تو کچھ آفس ، جنازہ گا ہ اور بہت بڑی خالی اراضی تھی۔ ایک جگہ کچھ قبریں بڑے قرینے سے بنی تھیں۔ کچھ آیات لکھے ستون ساکت کھڑے تھے جن کے ارد گرد صاف ستھرے ملازمین اپنا کام کر رہے تھے۔ جگہ جگہ رہنمائی کے بورڈ لگے تھے جیسے کہیں کوئی غلطی سے کسی ریبٹ ہول (rabbit hole) ہی میں نہ گر جائے۔ ہر جگہ صاف لکھا تھا " عزت سے دفنائیے اور جائیے"۔ نہ جانے کیوں میرا دل ایک دم غم سے بھر گیا۔ نہ جانے یہاں کتنی ان کہی کہانیاں دفن ہیں۔ کتنی قبریں ہیں جو بہ کر یہاں پہنچی ہیں۔
بیٹا سب انتظام ہو گیا ہے ۔ شفیق صاحب نے آ کر اطلاع دی ہم جنازہ پڑھ کر قبر میں دفنا کر آتے ہیں آپ یہیں بیٹھ کر قرآن پڑھیں۔
میں نے سر ہلایا اور ارد گرد دیکھنے لگی ۔ شہر خموشاں نام کی یہ جگہ ذرا بھی طلسماتی نہ تھی ۔ خاموش ، اجاڑ اور جذبات سے عاری ۔ میں نے ڈوبتے سورج کی اداسی کو اپنے اندر سمیٹتے ہوئے خود کلامی کی۔۔۔
"معاف کرنا میرو میں چاہ کر بھی تمہیں احاطہ میاں میر میں نہ دفنا سکی۔ تمہاری تو سب ہی خواہشیں ادھوری رہ گئیں۔۔۔"
( عینی علی ، ستمبر 2019 )
میرو۔۔۔
عینی علی
اسلام علیکم جی! فون اٹھاتے ہی بولنے والا بڑی عجلت میں لگتا تھا ۔
وعلیکم اسلام - جی
میں گنکا رام ہسپتال گردہ سنٹر سے بول رہا ہوں
آپ قرتو لین بول رہی ہیں؟
جی ی ی ی۔۔۔ میں اس کے منہ سے اپنے ٹھیٹھ عربی نام کا پنجابی ترجمہ سن کر جز بز ہو گئی۔
آپ کا مریض گزر گیا ہے آ کر ڈیڈ باڈی لے جایئں۔
جی کیا؟ کون؟ کیسے ۔۔ کیا کہ رہے ہیں آپ۔ میرا دل جیسے مٹھی میں آ گیا۔
محمد معراج دین کی میت لے جائیں جی۔ اس کے سامان سے آپ کے نام کا کارڈ نکلا ہے۔ مرنے سے پہلے اس نے حمید خاکروب کو بھی یہی تاکید کی تھی کہ آپ کو اطلاع کر دیں-
اور ایمبولینس کا بندوبست خود کرنا- ہسپتال کے وسائل نہیں ہیں- کہنے والے نے تو کہ کر فون بند کر دیا پر میرے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔
میرو !
میرو چلا گیا-
اور جاتے جاتے اپنا آخری وعدہ نبھا گیا۔
میں کیسے بھول سکتی تھی وہ لاہور میں دسمبر کی خنک شام جب بھیگتے لہجے میں اس نے مجھ سے سوال کیا تھا۔
جب میں مر جاؤں گا تو مجھے دفنا دو گی پری؟
یہیں اسی درخت کے نیچے-
بس کرو میرو مرنے کی باتیں نا کرو مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا
ابھی بچی ہو نا مرنے کی باتوں سے ڈرتی ہو
بڑی ہو جاو گی تو خود مرنے کی باتیں کرنے کیلئے لوگ ڈھونڈو گی-
پر میں کہاں ہوں گا پر-
میں اب کہاں ہوں پر؟
وہ اکثر بولتے بولتے ایسے ہی پوچھ بیٹھتا تھا-
پہلے تو میں اسے ذہنی مریض سمجھ کر بڑے التزام سے سمجھانے لگتی تھی کہ ہم لاہور میں ہیں میاں میر کے مزار پر۔ مگر اس سے ملنے کے قریبا ایک برس بعد میں جان گئی تھی کہ یہ جملہ اس کے تحت الشعور میں چلنے والی فلم کے ڈایرکٹر کا "کٹ" ہے جہاں سے کسی بھی اداکار کو ایک جھٹکے سے اپنے آپ کو تخیل سے امکانات کی دنیا میں واپس دھکیل لانا پڑتا ہے –
میاں میر دربار سے میرا تعلق اس وقت بنا جب میں سکول میں پڑھتی تھی اور لوڈر وین میں آتی جاتی تھی۔ چونکہ ہمارا سکول گھر سے بہت دور تھا اس لیے وین بہت سے بچوں کو لے کر بہت لمبے روٹ سے دیوڑنڈ روڈ سے ماڈل ٹاؤن پہنچتی تھی۔
ہمارے خاندان میں مزاروں پر جانے سے کسے کو کوئی خاص نسبت نا تھی سو اس وقت میرے حافظے میں مزار کا تصور داتا صا حب کے مزار کی رونق اور چہل پہل تک ہی محدود تھا جسے دیکھنے کا موقعہ سال میں ایک ہی بارملتا تھا جب واربرٹن والی بڑی ممانی اپنے ہاتھ سے کڑہائی کی گئی چادر اور ایک ایک متنجن اور چنا پلاو کی دیگ داتا صاحب پر چڑھانے آتی تھیں-
بڑی ممانی صاحب ہمارے دادا کی واحد سگی اور نہایت لاڈلی ممانی تھیں اور ہر سال بس بھر کر بڑے اہتمام سے خاندان کے تمام بچوں کو داتا صاحب کے مزار پر دعا کروانے ساتھ لے کر جاتی تھیں- اللہ بخشے کہتی تھیں کہ داتا کا پیر دستگیر محبوب الہی ﷺ ہے اور آُپﷺ کو بچے بڑے پسند ہیں اور اسی لیے ان کے ننھے ننھے ہاتھوں سے کی گئی دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہے۔
ممانی صاحب کو اللہ کی طرف سے دین و دنیا کی کسی چیز کی کمی نا تھی- سات بیٹوں کی ماں تھیں- شوہر بے تحاشہ زمین جائیداد کے مالک تھے اور ممانی صاحب کے پاوں دھو دھو کر پیتے تھے۔ بڑے فخر سے بتاتیں کہ ان کے پاس اصلی نسلی سادات ہونے کا سلطنت عثمانیہ کے کسی سلطان کا دیا ہوا سرٹیفیکیٹ بھی موجود تھا۔
وہ ہمیں مزار پر لے جا کر کھڑا کرتیں اور دعا منگواتیں کہ سب بچے اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ سفیرہ کا شیخوپورہ کے میلے میں گم ہو گیا بھائی کامران عرف کامی خیریت سے گھر واپس آ جائے۔ آمین۔ سب بچے زور زور سے یہ دعا مانگتے تو سفیرہ بیگم عرف ممانی صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں بہنے لگتی اور آہ کامی کہ کر زمین پر بیٹھ جاتی۔ ایسے میں مزار کے تمام زائیرین کو ان کے دکھ کا اندازہ ہو جاتا اور سب مقدور بھر اپنا اپنا حصہ لینے یا دینے پہنچ جاتے۔ خوب رونق اور چہل پہل مچ جاتی اور ان کے ساتھ آئی ملازمایئں وہیں احاطے میں لنگر اور بتاشے تقسیم کرتیں-
ہر سال جب وہ واپس چلی جاتیں تو میری دادی خاندان کے تمام لوگوں بشمول دادا کو سامنے بٹھا کر کہتیں کہ ارے بھئی یہ ممانی صاحب کو کوئی بتاتا کاہے کو نہیں کہ کامی تو بچپن میں ہی ہیضے سے گزر گیا تھا جب یہ کوئی تین چار سال کی تھیں- انہوں نے چھوٹے بھائی کو موت کا اتنا اثر لیا کہ کئی دنوں کچھ کھایا پیا نہیں اور بستر سے لگ گئیں، تو بڑی اماں نے ان کو بہلانے کو کہ دیا کہ کامی میلہ دیکھنے گیا تھا لوٹا نہیں، تم کھانا کھا لو تو جلد ہی لوٹ آئے گا۔ کامی کے زندہ ہونے اور مل جانے کی امید نے ان میں نئی جان سی ڈال دی اور یو ں ان کی نعمتوں بھری زندگی کی کھڑی ہوئی بگھی میں کامی کے مل جانے کی امید کا تیز رفتارگھوڑا جوت دیا گیا۔ میں بچی سے بڑی ہو گئی پر یہ بات کبھی نا سمجھ سکی کہ تمام خاندان کو پتہ ہونے کے باوجود ممانی جان یہ بات کیوں نا جان پائیں ؟ شاید وہ جاننا ہی نہ چاہتی ہوں۔
بات ہو رہی تھی میاں میر کے دربار سے تعلق بننے کی- اس دن گرمیوں کی دوپہر میں ہماری سکول وین دھرم پورے نہر کے پل کے پاس خراب ہوگئی- وین والے با با جی نے تمام بچوں کو وین کو دھکا لگا نےکا حکم دیا اور خود ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ کر سلف مارنے لگے۔ ہم کینٹ جانے والی سڑک پر پندرہ منٹ تک گاڑی کو دھکا لگا کر ہانپنے لگے مگر نہ گاڑی کو سٹارٹ ہونا تھا نا ہوئی۔
پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔ بابا جی مکینک ڈھونڈنے کی غرض سے قریبی گلی میں گھسے تو ہم بھی پیچھے پیچھے چل دیے۔ گلی نے ایک جونہی ایک انگڑائی لیتا ہوا قوس بنایا تو مانو ماحول ہی بدل گیا۔
سامنے ایک کھلا سا پکا احاطہ جس کے دونوں طرف چادروں، بتاشوں ،پھولوں اور کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں تھیں۔ بائیں طرف سبزہ ، سامنے ایک لال دیوار اور دائیں طرف مڑتی ایک سڑک۔ سبزے میں ایک عجیب سی ٹھنڈک کا احساس تھا جیسے تازہ تازہ پانی کا چھڑکاو کیا گیا ہو۔ سامنے ہی ایک ہینڈ پمپ لگا تھا جسے دیکھتے ہیں مجھ سمیت سب بچوں کو ماحول پر غور کرنا یاد نہ رہا اور ہم پانی پینے دوڑے۔پا نی پینے کے بعد جونہی میں پیچھے ہٹنے لگی تو ایک کرخت سی زنانہ آواز میں حکم ہوا۔
نی کاکیے ، ٹھوڑا جیا ہور گیڑیں ۔۔۔
میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک پکی عمر کی، سیاہ تپتے ہوئی رنگت والی ٹھگنی سی عورت ایک چمڑے کی مشک کا منہ ہینڈ پمپ کے آگے رکھ کر کھڑی تھی۔ میں نے گھبرا کر ہینڈ پمپ چلانا شروع کر دیا۔ لیکن چونکہ مجھے ہینڈ پمپ چلانے کا کوئی تجربہ نا تھا تو دو چار ہاتھ مار کر میں تھکنے لگی۔
رہن دے توں ، پراں ہو، اینج تے اے سویر ای بھر سی
میں کسی معمول کی طرح پیچھے ہٹی
وے مےےے کل۔۔۔ ایتھے آ۔ پھڑ اینوں
اس نے اپنی مشک لہراتے ہوئے کسی کو آواز دی
میں سامنے سے آتے چھ فٹے کالے کلوٹے مائکل کو دیکھ کر منظر سے ہٹنے کی کوشش میں پمپ کے پاس بنے کیچڑ کے جوہڑ میں کمر کے بل گر گئی۔ میری ساری سہیلیاں ہنسنے لگیں ۔جلدی سے کھڑا ہونے کی غیر ارادی کوشش میں میرا سفید فراک اور لیگنگ کیچڑ سے مزید گندہ ہو گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر گئے اور شرم اور بے عزتی کے احساس سے میری ٹانگیں کانپنے لگی۔ پھر میں نے دنیا کی سب سے خوبصورت ٹرانسفورمیشن آبزرو کی۔ وہ سیا ہ تپتی رنگت والی ماشکی عورت جیسے اچانک ہی کسی فیری گاڈ مدر میں ڈھل گئی اس نے اپنی مشک رکھی مایکل کو واپس بھیجا اور مجھے اٹھانے کو آگے بڑھی۔
نا ں میری دھی ناں ،کوئی گل نیئں۔ کج نیئں ہویا۔
اس کا کرخت لہجہ مایا اینجلو کی سی نرم آواز میں ڈھل گیا۔
اس نے بڑے پیار سے مجھے اٹھایا، اور ہینڈ پمپ کے آگے لے جا کر کھڑا کر دیا، ایک ہاتھ سے ہینڈ پمپ چلاتی جاتی تھی دوسرے سے ہاتھ کا چلو بنا کر اس میں پانی بھر کر مجھے رگڑ رگڑ کر صاف کرتی جاتی تھی۔
نہ پتر ناں۔۔۔گھبراندے نئیں آں، رون دی کی گل اے زرا جیئ مٹی تے لگی اے ہن ای صاف ہو جاندی اے۔
پانچ ساتھ منٹ میں اس نے کسی چھ بچے پالنے والی ماہر ماں کی طرح مجھے صاف کر کے کیچڑ سے دور لا کھڑا کیا۔
ہن خوش اے؟ جا ۔کھیڈ اوتھے پنجاں منٹاں وچ خشک ہو جا سی
میں جیسے ایلس(Alice) کی طرح ابھی ریبٹ ہول(rabbit hole) سے گر کر اٹھی تھی ایک عجیب سی کیفیت میں پوچھ بیٹھی۔
یہ کونسی جگہ ہے۔ آنٹی آپ کون لوگ ہیں؟
اے۔۔۔ میاں میر دا احاطہ اے تے اسی۔۔۔۔ وہ ہنسی۔۔۔ جا پت کھیل اودروں، جد بڑی ہو سی آپے ول پتا لگ جائے گا کون آں اسی۔
اس جادوئی دن کی اور کوئی بات خاص نہ تھی سو یاد نا رہی پر میاں میر جیسے ایک طلسم کدہ بن گیا جہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
----------------------------------
میرو چلا گیا تھا !
میں اپنی یادوں کی کومل پٹاری سمیٹ کر خود کو حقیقت کی تلخ نوکیلی چٹانوں کا سامنا کرنے کو تیار کرنے لگی۔ مجھے میرو کے جسد خاکی کو میاں میر احاطے میں دفنانے کے لیے تگ و دو کرنی تھی۔
آفس سے جلدی سے نکل کر میو ہسپتال پہنچی اور پوچھتی پاچھتی مردہ خانے کے باہر موجود دفتر پہنچ کر سانسیں بحال کیں- میز پر بیٹھے کلرک نے پوچھا
جی کس کی باڈی چاہیے؟
مم معراج دین صاحب کی
آپ کون ہیں ان کی ؟
جی میں ان کی۔۔۔ میں گڑبڑائی
میڈم این جی او سے ہیں ؟
نہیں
میں ان کی دور کی رشتہ دار ہوں
میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ پوری تیاری کر کے کیوں نہیں آئی؟
چلوجی جو بھی ہو –
میڈم ان کا شناختی کارڈ دکھایئں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ بنوانا ہے۔
جی وہ تو میرے پاس نہیں ہے-
میڈم جی باڈی ادھر رکھنے کا کرایہ ایک ہزار روپیے یومیہ ہے
اچھا –
پھر سرٹیفیکیٹ اس کے آبائی علاقے سے بنے گا-
اوہ – تو وہ میں کیسے بنواؤں گی؟
اب میں واقعی گھبرا گئی تھی۔
میڈم جی پانچ ہزار دو باڈی لے جاو کن رپھڑوں میں پڑ رہے ہو۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں گھما کر کہا
پانچ ہزار ۔۔۔کچھ کم کریں میں نے گھبرا کر کہا۔
او میڈم جی آپ جاو جی اپنا کام کرو اس کے گھر کسی کو اطلا ع کر دو خود ہی کر لیں گے جو کرنا ہے۔ کلرک نے میری شکل دیکھ کر کہا
جی اس کا گھر۔۔مجھے پتہ نہیں ہے۔ میں احمقوں کی طرح گویا ہوئی۔
میڈم جی آپ جاو شاباش ، پولیس والے خود ہی لاوارث سمجھ کے دفنا دیں گے۔ اس نے گویا میری مشکل کے حل کا فیصلہ سنایا۔
میں نے اپنے چہرے سے خون جیسے نچڑتا محسوس کیا اور ایک معمول کی طرح پرس سے پانچ ہزار نکالے اور کلرک کو دے دیے۔
پھر مجھے یاد نہیں کب اس نے مجھ سے کوئی سائن کروایے یا کیا کیا بس ایک سٹریچر لایے اور مجھے ایک شاپر پکڑا کر اس کے سرہانے کھڑا کر دیا۔
یہ لیں اس کا سامان اور جلدی ایمبولینس لایئں جی؟
میرے سامنے سرکاری ہسپتال کے زنگ آلود سالخوردہ سٹریچر پر میرے سب سے اچھے دوست میرے غمگسار اور میری نہایت آرام دہ تحفظ بھری زندگی سے پوشیدہ میری وحشتوں کی دنیا کے دیرینہ ساتھی میرو کا ساکت بے جان جسم پڑا تھا۔
میرو چلا گیا !
------------------------------------
وہ بھی جون کی گرمیوں کا ایک تپتا ہوا دن تھا جب میں احاطہ میاں میر میں میرو سے ملی۔ اب میں آٹھ سال کی معصوم بچی نہیں تھی جو پانی کی تلاش میں تھی بلکہ بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی جو انتہائی جھنجھلاہٹ اور غصے کا شکار تھی۔ ہمارے معاشرے کی ہر اس مڈل کلاس کی بیس سال کی لڑکی کی طرح جس کے خواب اس کے ابو کی سکت سے بڑے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ دنیا صرف میرے حالات اور ان کی الجھنوں سے ہی گندھی ہے۔ سب اچھا جیسے آسمان کی وہ اونچائی ہے جس کا تصور بھی ہم ایسے رینگنے والے کیڑوں کے لیے قابل سزا ہے۔ اور میں اپنے آپ کو وہ سزا دینے پہ تل گئی تھی۔
اس دن میں دنیا کی بہترین یونیورسٹی کا آفر لیٹر ملنے پر بھی،باہر جا کر مزید پڑھنے کے مطالبے کو بری طرح رد کیے جانے پر بہت مایوسی کا شکار تھی۔ نہ جانے دل میں کیا آئی کہ بیگ اٹھا یا اور بس سٹاپ کی طرف چل پڑی۔ اسی ذہنی کشمکش میں بسیں بدلتی میں وہیں احاطہ میاں میر کے سامنے کھڑی تھی۔ باہر کی دنیا میں اتنا سب کچھ بدلنے پر بھی یہ جگہ اب بھی ویسی ہی پرسکون اور جادوئی تھی۔ میں دل میں گھر سے بھاگ جانے کے ارادے لیے اپنی سکیچ بک، پنسلوں اور نمکو کے پیکٹ سے بھرا بیگ اٹھایے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے ایک غائب دماغی کی کیفیت میں جوتوں سمیت مزار کے زیریں احاطے کو جانے والا دروازہ الانگ گئی۔
بالڑیے ۔۔۔ جتی تے لا دیو --- بایئں طرف سے آواز آئی
میں ٹھٹھک کر رکی اور جوتے اتارنے کو جھکی
چلو کوئی نئی اینج ای ٹرے جاو - ایک میلے سے قالین پر پھٹے کے تختوں سے پرے جوتے سنبھالنے والے نے کہا۔
پریاں کدی جتیاں وی لاوندیاں نے؟
وہ جیسے خود سے گویا ہوا۔
میں ایسے لوگوں سے بہت تنگ ہوتی ہوں جو خواتین کو اکیلا دیکھ کر جملہ کسنے سے باز نہیں رہ سکتے-
کچھ اپنے اندر کی گھٹن اور کچھ ان صاجب کے کھٹے میٹھےلہجے کی وجہ سے مجھے یکدم پتہ نہیں کیا ہوا کہ اچانک ہی میں شدید غصے میں آ گئی۔
جاہل انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی؟
میں نے اسی عالم جھنجھلاہٹ میں اسے بے نقط سنانے کی غرض سے پھٹے کو زوردار ٹھڈا مارا۔
وہ کمزور سا دو پھٹوں، کچھ بانسوں اور ایک جھلنگی سی ترپال کا بنا ہوا عارضی سا چھجا یکدم سے سارا کا سارا اس جوتے رکھنے والے کے اوپر آن گرا۔
میں گھبرا گئی- ارد گرد دیکھا شاید کوئی ہو جو مدد کرنے آئے مگر لنگر بٹنے کا وقت تھا ارد گرد کوئی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر ساکت کھڑی رہی کہ اندر والا نمونہ خود نکلنے کی تکلیف کرنا پسند کرے گا۔
طوعا و کرہا آواز دی
آپ ٹھیک ہیں جناب ؟
اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔
سنیں بھائی ۔۔۔میں ترپال اٹھانے کو آگے بڑھی کہ اندر سے ہیر وارث شاہ پڑھنے کی نہایت ہی خوبصورت آواز سنائی دی۔
جیہڑا کن لپیٹ کے نس جائے مگر لک کے اوس نوں دھسیے کیوں
وارثؔ شاہ اُجاڑ کے وسدیاں نوں آپ خیر دے نال پھیرو سیے کیوں
نی جانے ان لاینوں کا اثر تھا یا میاں میر احاطے کے جادوئی ماحول کا ، میرے چہرے کےتنے ہویے عظلات ایک دم ہی نارمل ہو گیے- میں نے آگے بڑھ کرمسکراتے ہوئے ترپال اٹھائی تو مانو منظر ہی بدل گیا-
وہ پچیس تیس سال کا گھنگریالے بالوں والانوجوان بے ترتیب پڑی جوتیوں کے ڈھیر پہ سر کے نیچے ہاتھ رکھے انکھیں بند کیے آرام سے ہیر گا رہا تھا۔ اس کے چہرے پہ پوٹھوہاری لوگوں جیسی نمکین سی چمک تھی- شیو گو کئی دنوں سے بڑھی تو نا تھی پر بے ترتیبی سے بنایے جانے کی وجہ سے اس کے چہرے کے تیکھے نین نقشوں کو بھدا بنا رہی تھی۔ وہ چاندی کے بٹنوں کے کاج والے اڑی رنگت کے ہرے کرتے میں ملبوس تھا جس میں بٹنوں کی جگہ کامن پنیں لگیں تھیں- گلے میں رنگ برنگے دھاگے اور تعویز کرتے کے نیچے پرانی سی جینز اور پیروں میں پیتل کے کڑے۔مگر اس حلیے میں بھی وہ مراثی نہیں کسی گاوں کا چودھری ہی لگ رہا تھا۔ کم از کم جوتے سنبھالنے والا تو ہر گز نہیں لگ رہا تھا-
معاف کیجیے گا آپ خود اٹھیں گے یا کھیڑے آ کر اٹھایئں گے؟
میں نے جل کر پوچھا۔
پھر اس نے آنکھیں کھول دیں اور جیسے کسی ستر کی دہائی کی فلم کے ٹوسٹ(twist) والے سین کا شیشہ کرچا ۔
اتنی ویران آنکھیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔
آنکھیں کھولتے ہی اس کے چہرے کا تاثر یکدم ہی بدل گیا۔ پتہ نہیں کیا ہوا میں گھبرا گئی اور تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے اندر مزار کی طرف چل پڑی ۔
میں مزار کے سامنے بنے چبوترے پر بیٹھ گئی اور سکیچ بک کھول کر کورے صفحے کو دیکھنے لگی۔ کتنا عجیب سا شخص تھا وہ۔ اور اس کی آنکھیں اف۔۔۔
میرے سامنے صفحے پر وہ آنکھیں کھل گیئں- میں ارد گرد سے بے پرواہ ہو کر بڑے انہماک سے آنکھیں تراشنے لگی۔
کاگا سب تن کھائیو میرا چن چن کھائیو ماس
دو نینا مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس
ان بولوں کو مدھر آواز میں گنگناتا وہ میرے سر پر کھڑا تھا-
میں ایک دم چونکی
میں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب وحشت اور جھنجھلاہٹ کی جگہ میری خاتون ہونے کی اس حس نے لے لی تھی جہاں سے آپکے دماغ میں حفظ ما تقدم کی گھنٹیان زور و شور سے بجنے لگتی ہیں۔ میں نے ارد گرد دیکھا۔ مزار پر بہت زیادہ رش نہیں تھا- اکا دکا خواتین اور کچھ مرد ٹھوڑا دور بیٹھے تھے۔
کیا بنا رہی ہو پری ؟ مجھے اس کے پوچھنے کا انداز بڑا بچگانہ لگا۔
تمہیں کیا- اور میں پری نہیں ہوں- میں نے غصے سے کہا۔
نہیں تم پری ہو-
ہو تم پری-
بس تم پری ہو۔ اس نے بچوں کی طرح ضد کی۔
مجھے اس سے بات کر کے کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا کہ یہ کوئی مجذوب یا نیم پاگل ہے۔
بس پھر یکدم جیسے میرا سارا ڈر جاتا رہا۔
سنو نمکو کھاو گےَ ؟
پہلے بتاو کیا بنا رہی ہو ؟
تمہاری آنکھیں۔
تم اللہ میاں ہو ؟
اس کی ویران آنکھوں میں جیسے صدیوں بعد دریافت ہونے والے کسی مرقد کےپہلی بار کھلنے والے دروازے کی چرچراہٹ گونجی۔
میں ہنس پڑی – نہیں میں آرٹسٹ ہوں ۔ وہ مجھے بہت بے ضرر اور معصوم سا لگا۔
نہیں! بیٹھو یہ لو نمکو کھاؤ-
کیا نام ہے تمہارا ؟
میرو-
کہاں رہتے ہو
میاں میر کے گھر میں -
اچھا ۔ یہ بتاو ہیر پڑھنا کہاں سے سیکھی ؟
اوووو بابے کرم دین سے-
اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا-
میں ابھی بلا کر لاتا ہوں۔ وہ جلدی سے کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور اٹھ کر وہاں سے نکل آئی- نہ جانے کیا ہوا میں بہت ہلکا اور مطمئین محسوس کر رہی تھی- گھر پہنچ کر ایسے روٹین کے کاموں میں لگ گیئ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں – ویسے بھی ہمارے یہاں روائیتی گھرانوں میں کانچ کے سستے برتن ٹوٹنے کا غم تو منایا جاتا ہے پر کسی کے خوابوں کے ٹوٹنے کا نہیں۔
------------------------------------------------------
باجی جی ایمبولینس لاؤں؟۔
ایک آدمی میرے پاس آ کر پوچھنے لگا۔
آں ہاں لاؤ۔
میرو چلا گیا
اور وارثان میں میرا نام دے گیا۔
باجی کسی کو بلا لیں قبر وغیرہ کا انتظام بھی کرنا ہے- ایمبولینس والے نے ایک ہمدردانہ مشورہ دیا-
ہاں ایک منٹ- میں نے فون اٹھایا۔ کس کو فون کروں کیا کہوں کیسے کہوں۔
بابا نور دین – ان کا تو کوئی نمبر نہیں میرے پاس- اور کون تھا میرو کا ہم دونوں کے علاوہ۔ آجکل تو جن کے وارثان ہیں ان کو کندھے نصیب نہیں ہوتے تو اس غریب مسکین کا کون ہو سکتا ہے۔
چلو تم احاطہ میاں میر چلو -میں نے ایمبیولینس والے کو کہا۔
باجی آٹھ سو روپیہ ہے کرایہ اور وہ بھی پھُل ایڈ ونس۔ اطلاع دی گئی
ہاں لے لینا- میں نے جھلا کر کہا
تے دیو فیر۔
اچھا چلو تو سہی ۔وہاں جا کر لے لینا۔
میرے سامنے انہوں نے اس کے بے جان جسم کو گاڑی میں ڈالا۔ میں چاہ کر بھی اس کے چہرے سے چادر نا اٹھا پائی جو میلی چیکٹ ہو کر اس ترپال کی طرح لگ رہی تھی جس کو ہٹا کر میں نے اس کا سب سے وجیہہ روپ دیکھا تھا۔ میں زندگی بھر اس کا وہ روپ دوبارہ نہیں دیکھ سکی اور اب ۔۔۔
------------------------------------------
اس دن کے بعد میں اکثر میاں میر جانے لگی۔ مجھے وہاں بیٹھ کر پڑھنے اور سکیچ بنانے کا بڑا مزہ آتا تھا۔
میرو نے اگلی ملاقات میں مجھے بابا کرم دین سے بھی ملوایا جو وہاں قبرستان کے گورکن تھے- بابا نے بتایا چھ مہینے پہلے یہ مزار پر بخار میں دھت ملا تھا۔ با با اسے قریب واقع سرکاری ہسپتال میں چھوڑ آئے۔ شائد سردی اور بارش میں رات بھر باہر رہنے سے اسے نمونیہ یا ٹائیفائڈ ہوا تھا۔ اسی سے اس کا دماغ تھوڑا ہل گیا تھا۔ یہ ہسپتال سے نکل کر پھر کسی قبر پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔ بابا کرم دین کئی نسلوں سے گورکن کا کام کرتا تھا مگر اب اس کی اولاد کریانے کی دکانیں ڈال کر اس کام سے دست بردار ہو گئی تھی۔ بابا کو اس عمر میں کسی مددگار کی ضرورت تھی یہ بنا کچھ کہے سارا دن بابا کے ساتھ قبروں کی دیکھ بھال میں مدد کرتا اور رات کو مزار کے ساتھ ملحق با با کی کوٹھری میں سو جاتا۔ مزار پر بٹنے والے لنگر سے اسے بھی کھانا مل جاتا۔ بابا کہ رہے تھے شروع میں کچھ نہیں بولتا تھا اور سر جھکائے رکھتا تھا پھر آہستہ آہستہ بابا کے ساتھ ہیر گنگنانے لگا- اب تم آ گئی ہو تو بچوں جیسی حرکتیں بھی کرنے لگا ہے۔
پھر با با نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے
کسی اچھے گھر کا لگتا ہے۔ پتہ نہیں کس ماں کا کلیجہ ہے جو یہاں رلتا پھرتا ہے۔بہت محنتی ہے اورکبھی کبھی تو مجھے پچھتاوا ہوتا ہے کہ کس باپ کی خدمت گزاری کی بیگار ہے جو میں اس سے لے رہا ہوں۔
مجھے میاں میر کے سامنے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر میرو سے باتیں کرنے کا بہت مزا آتا تھا۔ اس کے معصومانہ بچوں جیسے سوال مجھے بہت کچھ کھوجنے پر لگا دیتے اور یوں باتوں باتوں میں زندگی کی بڑی بڑی گھتیاں سلجھ جاتیں۔ وہ مجھ سے پوچھتا
پری یہ لوگ یہاں کیا لینے آتے ہیں؟
یہ اپنے لیے ، اپنے پیاروں کے لیے دعا ئیں مانگنے آتے ہیں-
کس سے ؟
اللہ سے۔ میں کہتی۔
اللہ کا گھر تو مکہ میں ہے ؟ وہ حیرانی سے کہتا
یہ تو میاں میر کا گھر ہے۔
نہیں اللہ ہر جگہ ہے اور یہ میاں میر کا مزار ہے یہاں میاں میر دفن ہیں۔
پھر ان کو کیا ملتا ہے یہاں ؟
پھر ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے-
بے وقوف لوکاں ۔۔۔ اتنا بھی نیئں پتہ جو دل خود دھڑکنا چھوڑ گیے ان سے دھڑکتے دلوں کو سکون کیسے ملے؟ وہ آہ بھر کر کہتا
میرو تمہارا گھر کہاں ہے؟ میں اس کا دھیان بٹانے کو پوچھتی۔
بس یہ پوچھنا تو گویا قیامت ہوتا۔
میرو کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ عضلات کھنچ جاتے مٹھیاں بھینچ جاتیں اور زور زور سے چلانے لگتا۔
بابا ۔۔۔ بابا!
قبریں ٹوٹ رہی ہیں
بڑے بڑے سوراخ ہو رہے ہیں
مٹی بہ گئی ہے
سب رشتے خون پیتے ہیں
سب جھوٹ ہے
سب مر گیے جیتے جی مر گیے
مار دیا بدبختی نے۔ کچھ نہیں چھوڑا
------------------------------------------
ایمبیولینس احاطے کے باہر رک گیئ۔ میں بھی پیچھے ہی آن رکی۔ ڈرایئور کے تیور ذرا دیر بھی ٹہرنے والے نہیں لگ رہے تھے۔ میں نے منت کرنے والے انداز سے کہا۔
ذرا دیر ٹھہرو میں انتظام کر کے آتی ہوں۔ پتہ نہیں کس دل سے اس نے سر ہلایا اور میں موقع غنیمت جان کر اندر بھاگی۔ لائبریری کے قریب آفس میں پہنچ کر با با نور دین کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوئے کچھ سال ہو گیے۔ جانے کس لہر میں پوچھ بیٹھی۔
ان کی قبر تو یہیں ہو گی نہ؟
کیوں جی یہاں کیوں۔ وہ کونسے لاٹ صا حب تھے؟ جواب ملا
جی وہ یہاں قبر بنوانی ہے کسی کی ؟ کیا طریقہ کار ہے؟ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
کس کی؟
جی ایک بندہ ہے-
کہاں کا رہایشی ہے؟
ش ۔۔۔شاید ایمن آباد کا۔
آپ کا کون ہے؟
کوئی نہیں-
ڈومیسایل کہاں کا ہے؟
پتہ نہیں-
بی بی کیوں دماغ کھوٹا کرتی ہو۔ یہاں اول تو جگہ نہیں ہے اور اگر کہیں ہو گی بھی تو یہاں قریب کے مستقل پتے والوں کو ملے گی۔ اس نے جھلا کر کہا۔
جی وہ زیبا جی نے بھی تو محمد علی صاحب کے ساتھ والی جگہ رکھی ہوئی ہے۔ زرا چیک کریں کہیں با با نور دین نے بھی میرو کی جگہ رکھی ہو گی ۔ میں منمنائی۔
اس بات پر اس نے مجھے اس طرح دیکھا گویا میں پاگل خانے سے ابھی چھوٹ کر آئی ہوں، اور بولا
اوہ بی بی !انہوں نے ایک لاکھ روپیہ دیا ہے۔ آپ دیں میں ابھی بک کر دیتا ہوں آپ کی قبر۔ وہ غرایا۔
مم میری قبر ۔۔۔جی ۔۔۔ وہ باہر ایمبیولینس میں میرو ہے میں کیا کروں ؟ میں نے روہانسی ہو کر پوچھا؟
آپ کے گھر میں کوئی نہیں ہے کیا ان سے مشورہ کریں۔ میں کیا کروں؟ جواب ملا
کس سے مشورہ کروں صرف یہ مسئلہ نہیں ہے۔ کیا کروں؟ یہ مصیبت ہے۔ میں نے سوچا۔ پھر اپنے دفتر کے اکاونٹنٹ شفیق صا حب کا خیال آیا ۔
شفیق صاحب ہمارے بہت پرانے اور قابل بھروسہ ملازمین میں سے ایک ہیں ۔ ان کا نمبر ملایا اور ان سے جتنی جلدی ممکن ہو یہاں آنے کی درخواست کی۔
کون تھا وہ میرا؟ ایک نیم پاگل مجذوب دوست جس کی زندگی کا سب سے بڑا راز میرے پاس امانت تھا۔ میں نے کرب سے سوچا۔
میں بوجھل قدموں سے باہر نکلی اور مزار کے دروازے کے سامنے لگے بڑے سے بوہڑ کے درخت کے نیچے بنے چبوترے پہ بیٹھ کر رونے لگی۔ اوہ ہاں میں تو ابھی تک کھل کے رو بھی نہیں سکی تھی۔ میں نے سسکیاں بھرتے ہوئے سوچا۔
------------------------------------------
ہم اکثر میاں میر احاطے میں مزار کی پائنتی کی طرف لگے بڑے سے بوہڑ کے درخت کے نیچے بیٹھا کرتے تھے-
میں اپنی سکیچ بک کھول لیتی اور میرو اپنی یادوں کی پٹاری۔ میری سکیچ بک پر لکیریں بہکنے لگتیں اور اس کی یادوں کے کینوس پر سکینہ سے محبت کے رنگ۔
سکینہ کو پہلی بار دیکھنا۔ اس سے ملنا، باتیں کرنا، تحفے دینا ، چھونا ، گلے لگانا ، غصہ کرنا، لڑنا جھگڑنا۔۔۔ ہر محبت کی کہانی میں کم و بیش یہی باتیں ہوتی ہیں مگر میں اس بات کی قائل ہوں کہ جب کوئی آپ کو محبت کی کہانی سنائے تو کہانی کی تفصیلات نہیں بلکہ محب کے چہرے کی جزیات پہ غور کیجیے ۔۔۔ یہ جزیات ہر انسان کے فنگر پرنٹس کی طرح مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے ترقی پسند اقوام ان فنگر پرنٹس کے علم سے شناخت کا نظام بنا لیتی ہیں، مولوی صاحبان اللہ کی شان ڈھونڈ کر سبحان اللہ کے ورد کی لڑیاں چلا لیتے ہیں، ہم اہل فن محب کے چہرے کے تاثرات سے محبوب کی شناخت اور شان دونوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں-
وہ سکینہ کی بات نہ کرتا اگر میں اس دن شاہنواز کے گھر والوں کی طرف سے رشتہ توڑ دینے پر دکھی ہو کر میاں میر کا رخ نہ کرتی۔ وہ سردیوں کی ایک کہریلی سی دوپہر تھی اور میں ایم اے کا آخری پرچہ نہ جانے کس طرح دے کر میاں میر کی طرف جانے والی بس میں سوار ہوئی تھی۔ احاطے میں پہنچ کربوہڑ کے درخت کے نیچے سکیچ بک کھول کر بیٹھی تو کچھ بھی نہ بنا سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اور پھر وہی جادوئی آواز میرے کانوں میں پڑی:
جے ٹک رانجھا درس دکھاوے' تاں ہیر عذابوں چھُٹے
شاہ حسین فقیر سناوے' رانجھے باجھوں برہوں ستاوے
ویکھو وئی ویکھو ۔۔۔ پریاں وی کدی روندیاں جے؟ وہ میرے پاس آ کر بولا۔
نہیں میرو آج نہیں ۔ آج جاو تم بابا نور دین کے پاس ۔ میں نے تنگ آ کر کہا
نہیں آج آنکھیں بناؤ ۔ سکینہ کی آنکھیں ۔ میں بتاتا ہوں تم بناؤ۔
کون سکینہ ؟ میں نے پوچھا
میری منگ ، میری جان سکینہ ۔۔۔ میری سکینہ ۔۔۔ معراج دین کی سکینہ۔ وہ گویا اک سرور میں کہتا چلا گیا۔
نہیں ۔ میں نے حتمی لہجہ اختیار کیا ۔
چلو پھر دونوں مل کے روتے ہیں ۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور زار و قطا ر رونے لگا۔
اوفو ۔۔۔میں جھلا کر اٹھی۔۔۔ یہاں تو سکون لینے دو ۔ جاؤ یہاں سے۔
چھوڑ گیا نا وہ تمہیں ؟ جیسے میں چھوڑ آیا تھا سکینہ کو۔ اس نے پیچھے سے آواز دی -
میں چلتے چلتے رک گئی اور شاید ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میرے دماغ نے یہ فیصلہ کیا کہ میرو کے سکینہ سے بھاگنے اور شاہنواز کے مجھ سے بھاگنے میں کوئی تعلق ضرور ہے ۔
اب میں اس کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔ اچھا بتاؤ کون تھی سکینہ؟
پہلے تم بتاو کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا
کچھ میرا اپنا دل بھرا ہوا تھا اور کچھ اس کی آنکھوں میں ایسی ضد تھی کہ مجھے بتاتے ہی بنی ۔
میرو تم جانتے ہو اس دن پہلا پرچہ تھا جب شاہنواز کی امی اور بہن ہمارے گھر رشتہ ختم کرنے آیئں تھیں۔ انہوں نے آنے سے پہلے کوئی اطلاع بھی نہیں دی تھی اور جب میں گھر واپس پہنچی تو وہ نکل رہیں تھیں۔ میں انہیں دیکھ کر حیران ہوئی اور سلام کرنے لپکی مگر ان کی آنکھوں سے جھلکتا کروفر اور اپنی امی کی آنکھوں میں التجائیہ امڈتے ہویے آنسو دیکھ کو مجھے ایک سیکنڈ میں اندازہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے شاہنواز کی بہن کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے ایسی فاتحانہ نظرسے دیکھا جیسے اس کا بھائی کسی چڑیل کا اسیر تھا اور وہ اسے جلا کر خاکستر کیے جا رہی ہے۔ نہ جانے کیوں اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی کیونکہ رشتہ ٹوٹنے کی اصل وجہ میں جانتی تھی امی نہیں ورنہ ان کی آنکھوں میں بھی شکرانے کے آنسو ہوتے رحم کی بھیک مانگنے کے نہیں۔ شاہنواز جو اپنی انا کا غلام تھا اتنا سا وار نہ سہ سکا، جب میں نے اسے برطانیہ کی کسی یونیورسٹی میں پڑھنے کے اپنے خواب کی جزیات سے پورے دل سے آگاہ کیا-
میری حقیقت جان کرپہلے تو وہ نہایت دل برداشتہ ہوا پھر اس نے مجھے سمجھایا کہ وہ مجھے میرے ان خطرناک خوابوں کے ساتھ اپنے نیک نام خاندان کا حصہ نہیں بنا سکتا۔ میں اپنے خواب اس کے لیے تج دوں تو ہی وہ مجھے اپنی بے مثال ہمسفری کا تمغہ دے سکتا ہے-
یہ کیا سودا ہوا؟ میرے دل نے سرگوشی کی۔ اگر انسان کی روح سے خواب نکال لیں تو بچتا کیا ہے بھلا؟
ایک کھوکھلا وجود جیسے حنوط شدہ جانور کی کھال۔ اس میں بھس بھر لو یا اطلس و کمخواب کی اترنیں، کیا فرق پڑتا ہے۔
اگر میرا ساتھ چاہتی ہو توایم اے کے مزید پرچے نہیں دو گی۔ شاہنواز کا انداز حاکمانہ تھا۔
ایک لمحے کو میرا دل دہل گیا۔ امی ابو بہن بھائی اور رشتہ داروں کی شکلیں دماغ میں گھومنے لگیں۔ ان سب کی شکرانے کے آنسووں سے بھری آنکھوں کی اوٹ میں اپنا بھس بھرا وجود لاکھوں کے جوڑے میں لپٹا قران پاک کے سایے سے رخصت ہوتے دیکھا- ابو کے جھکے کندھوں کو نرم پڑتے دیکھا اور امی کو اپنی تین بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم سے کچھ باعزت بری ہوتے دیکھا۔
پھر نہ جانے کیا ہوا جونہی میں نے اپنی رگوں میں ڈوڑتے خوابوں کو محسوس کیا تو ان کے دباؤ سے یہ مستقبل کی پیش گوئی کرنے والا شیشے کا روشن گولا ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
شاہنواز میں اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جاتی ہوں۔ تم بھی ہو جاؤ- میں ایگزام نہیں دوں گی، اور تم فوج کی نوکری سے استعفی دے دو۔ ۔ میں نے پتھریلے لہجے میں کہا۔
شکر ہے میرو میں فون پہ بات کر رہی تھی! سامنے ہوتی تو اس نے مجھے ٹوٹے ٹوٹے کر کے کتوں کو کھلا دینا تھا۔ میں خود ہی ہنس دی کیونکہ میں جانتی تھی کہ میرو کو یہ سب کیا سمجھ آنا مگر اسے بتانے سے کم از کم میرے دل کا بوجھ تو ہلکا ہوا۔
ہا ہا ہا ۔۔۔کتے ٹوٹے کھایئں گے ۔ لو جی بھلا کتے کب پریاں کھاتے ہیں ۔ نہ جی نہ ۔وہ ہنسا تو مجھے اس کا انداز کچھ کھوکھلا لگا۔
اب سکینہ کے بارے میں بتاؤ؟ میں نے کہا۔ اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا اور مٹھیاں بھینچنے لگیں ۔
نہیں آج ڈرامہ نہیں ۔ میں نے غرا کر کہا۔ آج تمہیں سب بتانا ہو گا۔ میں جانتی ہوں تم بہت کچھ بتانا چاہتے ہو۔ میں نے اصرار کیا۔
نہیں! وہ قطعیت سے کہتا ہوا کھڑا ہوا ۔
ٹھیک ہے خدا حافظ۔ مجھے بابا میاں میر کی قسم اگر آج تم نے نہیں بتایا تو میں پھر یہاں کبھی نہیں آوں گی۔ کبھی نہیں۔
میں اٹھی اور بیرونی دروازے کی جانب چلنے لگی۔
پری ۔۔۔ رک جاؤ! بتاتا ہوں - وہ ہار ماننے والے لہجے میں گویا ہوا
اس دن مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ کوئی پاگل یا مجذوب نہیں ہے، بس کوئی بہت گہرا گھاؤہے جس کی رکھوالی کرتا ہے۔
اور بس پھر تو جیسے سکینہ ایک جیتا جاگتا کردار بن کر اس کے دل کے نہاں جھروکوں اورمیری رنگین ٹیوبوں سے پھسل کر ادھر ادھر اٹھکھیلیاں کرنے لگی۔
میرے سکیچز بلیک اینڈ وایٹ سے رنگین پینٹنگز میں بدل گئے اور اس کی یادوں کی وحشت کو کچھ کچھ قرار آنے لگا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ میں اس دن کے کہرے میں یہ دونوں سوال دفن کر آئی کہ شاہنواز نے مجھے اور میرو نے سکینہ کو کیوں چھوڑا۔
-------------------------------------
باجی جی وہ لڑکا بلا رہا ہے باہر۔ صفائی کرنے والے نے میرے کان کے پاس آ کر کہا ۔
اوہ اچھا میں آنسو پونچھ کر اٹھی اور ایمبیولینس والے کے پاس گئی۔
بھائی دس منٹ اور میرے چچا آ رہے ہیں۔ ۔ میں نے کہا
باجی میرے پیسے دو میں جاؤں۔ اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
بھائی لے لینا پیسے کچھ تو صبر کرو ۔ میں روہانسی ہو کر بولی-
کیا باجی ۔کس رپھڑ میں پھنس گیے ہو۔ رہن دیتے ادھر ہسپتال میں۔ اچھا اب کیا کرنا ہے ؟
بھائی کوئی ایسی جگہ بتاؤ جہاں ان کو عزت سے دفنایا جا سکے ؟ یہاں تو بات نہیں بنی ۔
ہممم۔۔۔ فیر وہ شہر سے باہر سرکاری قبرستان میں لے جاتے ہیں ۔ ادھر مسجد ہے اور دفتر بھی ۔ انتظام ہو جائے گا۔
اچھا باجی پورے دن کی ڈرایئوری کے تین ہزار ہوتے ہیں ۔ منظور؟
ہاں ہاں منظور ہے ۔
اتنے میں شفیق صاحب بھی آ گئے اور ایک سمجھدار ملازم کی طرح انہوں نے سارا انتظام سمجھ کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
بیٹا اب آپ گھر جائیں میں سنبھال لوں گا۔ شفیق صاحب نے مجھے تسلی دی ۔
نہیں انکل میں ساتھ ہی رہوں گی ۔ میں نے خاموشی سے کہا۔
اور یوں ہمارا مختصر سا قافلہ شہر خموشاں کی طرف روانہ ہوا ۔
--------------------------
چند سال پہلےدسمبر کی اس خنک شام جب میں میرو سے آخری بار ملی تو جان گئی تھی کہ جدائی کے دکھ کا بوجھ کتنا جان لیوا ہوتا ہے۔ بابا نے بتایا وہ گردوں کی بیماری کی وجہ سے بہت دن ہسپتال میں رہ کر آیا ہے اور بہت کمزور ہو گیا ہے۔ اس دن وہ مجھے وہیں ملا بوہڑ کے درخت تلے۔ وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا اور ہاتھ میں کچھ پھولوں کی پتیاں لے کر ان کو مسل رہا تھا۔
میرو کیا ہوا ؟ میں نے گھبرا کر پوچھا ۔
پری سکینہ ایسی نہیں تھی جیسی میں بتاتا ہوں اور تم بناتی ہو۔ وہ اس سے بہت خوبصورت تھی ۔ پچپن سے میری منگ تھی وہ۔ پورا گاوں جانتا تھا وہ میری لیلی تھی اور میں اس کا مجنوں۔ اور ہمارے گاوں میں تو کوئی کیدو بھی نہیں تھا اور نہ ہی دور پار کوئی کھیڑے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے اور ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ میں گویا کوئی جن تھا اور وہ بلبل ،جس میں میری جان تھی ۔ پھر بھی پری جانتی ہو میں نے اس کو کیوں چھوڑ دیا ؟
میرو تم آرام کرو ۔ میں نے اسے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔
نہیں پری مجھ پہ آج ایک احسان کرو کہ یہ پھانس میری روح سے نکال دو تا کہ سکون سے میری جان نکلے۔
کیا ہوا میرو بتاؤ تو۔ ایسی کون سی بات ہے کہ تم دنیا و مافیہا سے اتنی دور نکل آئے اور کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا؟
پری وہ میری ہو کر بھی میری نہ تھی اس لیے چھوڑ دیا میں نے اسے ،-جیسے تم اپنی ہو کر شاہنواز کی نہ رہی ۔ وہ بے تحاشہ رو رہا تھا کہ اس کی بات سمجھنا مشکل تھا۔
کیوں میرو کیا ہوا ایسا ؟ بتاو مجھے ۔
پری جب مجھے معلوم ہوا کہ میری محبوبہ میرے باپ کا گناہ ہے تو اور کیا کرتا میں ۔ کیا کہتا اس سے ، سب سے ، اپنے آپ سے۔ قسمت سے کون لڑ سکا ہے پری ؟ میں بھی نہ لڑ سکا ۔بھاگتا گیا ، گم ہوتا گیا ، کبھی نہ واپس جانے کے لیے۔ پری مجھ سے وعدہ کرو مجھے یہیں دفناؤ گی اسی درخت کے نیچے۔ اسی طرح بے نام و نشان بنا تعویز کے۔ وہ بری طرح سسکیاں لے رہا تھا ۔
میرو ہو سکتا ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو ۔ تم بتاو کہاں کے رہنے والے ہو تم۔ میں کوشش کروں گی تمہارے گھر والوں کا پتہ کرنے کی۔ تمہیں واپس جانا چاہیے، تمہارے کوئی ماںباپ ہوں گے ، بہن بھائی ہوں گے۔ بتاؤ میرو بتاؤ۔۔۔
وہ میرے باپ کا پتہ پوچھتی آئی تھی ہمارے گاؤں، سکینہ کی اصلی ماں ۔ اس کے پاس سرٹیفیکیٹ تھا ۔ میں اسے جھوٹا ثابت کرنے ابا کے پاس لے گیا۔ ابا نے مجھے جھوٹا ثابت کر دیا۔ ابا نے مار دیا اسے اور دبا کر مجھ سے بولا، جا پتر ایسے ہو جا جیسے توں کچھ دیکھیا ای نئیں۔
ابا اور سکینہ؟ میں نے بوکھلا کر ابا کی طرف دیکھا۔ جا پتر بھول جا۔ شاباش عیش کر۔ بادشاہوں کی غلطیاں شہزادوں کی وراثت ہوتی ہیں۔ جا موج کر۔ ابا کے منہ سے خون ابلنے لگا۔ میرا اپنا سگا خون۔ ۔۔
پری میں گھبرا کر بھاگا ۔ راستے میں قبرستان پڑتا تھا ۔ میرے پاوں کے نیچے خون بہ رہا تھا ۔ میرا اپنا سگا خون ۔ سب قبریں بہ گئیں ۔ سب مردے نکل کر چیخنے لگے۔ ۔ ہنسنے لگے۔ بدبختی سب کھا گئی پری ۔ سب کھا گئی۔ وہ تڑپ رہا تھا۔
میں بھاگا - جدھر منہ لگا بھاگا ۔ بھاگتا چلا گیا ۔ میاں میر نے دامن پھیلایا ۔ سمیٹ لیا۔ پری اب میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہیں رہوں گا۔ یہاں قبریں نہیں پھٹتی ۔ پری مجھے یہیں سلا دو گی نہ اسی پیڑ کے نیچے، وعدہ کرو پری؟ وعدہ کرو نہ۔ کرو نہ وعدہ۔ اس کی آنکھیں سے ویرانی نکل کر کہرے کو کھانے لگی ۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ، میں تو اپنی سکالرشپ مل کر پڑھنے کی خواہش کی تکمیل کی خوشی اس سے بانٹنے آئی تھی اور اس کے سینے کا بوجھ خود پر لاد بیٹھی۔
با با نور دین نے آ کر اسے سہارا دیا اور اندر کوٹھری میں لے گیے۔ پر جاتے جاتے میرا دل چاہا کی اس کی چادر اٹھا کر اس کی آنکھیں دیکھ لوں ، شاید یہ راز بتا کر ان کی ویرانی کچھ کم ہوئی ہو۔
پھر میں پڑھنے چلی گئی ، شادی ہو گئی اور کئی سالوں بعد لاہور آنا ہوا ۔ ایک دو بار میاں میر سلام کرنے گئی پر میرو یا بابا نور دین کا کسی سے پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی ۔
----------------------------------------
گاڑیاں فیروزپور روڈ پر کاہنے کے پاس سے ایک قوس بناتی ہوئی شہر خموشاں کے بورڈ کے ساتھ اندر مڑیں تو کہیں کچھ منظر نہیں بدلا۔
ایک سیاہ اور سنہری دروازے سے گزرتے ہوئے ہم اندر داخل ہوئے تو کچھ آفس ، جنازہ گا ہ اور بہت بڑی خالی اراضی تھی۔ ایک جگہ کچھ قبریں بڑے قرینے سے بنی تھیں۔ کچھ آیات لکھے ستون ساکت کھڑے تھے جن کے ارد گرد صاف ستھرے ملازمین اپنا کام کر رہے تھے۔ جگہ جگہ رہنمائی کے بورڈ لگے تھے جیسے کہیں کوئی غلطی سے کسی ریبٹ ہول (rabbit hole) ہی میں نہ گر جائے۔ ہر جگہ صاف لکھا تھا " عزت سے دفنائیے اور جائیے"۔ نہ جانے کیوں میرا دل ایک دم غم سے بھر گیا۔ نہ جانے یہاں کتنی ان کہی کہانیاں دفن ہیں۔ کتنی قبریں ہیں جو بہ کر یہاں پہنچی ہیں۔
بیٹا سب انتظام ہو گیا ہے ۔ شفیق صاحب نے آ کر اطلاع دی ہم جنازہ پڑھ کر قبر میں دفنا کر آتے ہیں آپ یہیں بیٹھ کر قرآن پڑھیں۔
میں نے سر ہلایا اور ارد گرد دیکھنے لگی ۔ شہر خموشاں نام کی یہ جگہ ذرا بھی طلسماتی نہ تھی ۔ خاموش ، اجاڑ اور جذبات سے عاری ۔ میں نے ڈوبتے سورج کی اداسی کو اپنے اندر سمیٹتے ہوئے خود کلامی کی۔۔۔
"معاف کرنا میرو میں چاہ کر بھی تمہیں احاطہ میاں میر میں نہ دفنا سکی۔ تمہاری تو سب ہی خواہشیں ادھوری رہ گئیں۔۔۔"
( عینی علی ، ستمبر 2019 )