میں اور کہانی
میں اور کہانی
Jan 5, 2023
محمود احمد قاضی کی جادوئی تحریر
افسانہ:میں اور کہانی
محمود احمد قاضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی اور بیٹی پڑوسیوں کے گھرمیں برپا ہونے والی تیل مہندی کی تقریب میں شرکت کے لِئے گئی ہوئی تھیں ۔ وہ میرے لِئے کھانا محفوظ جگہ پر رکھ گئیں تھیں تا کہ بوقتِ ضرورت میں کھانا گرم کر کے کھا لوں ۔ ابھی مجھے بھوک نہیں تھی اس لِئے میں برآمدے میں اکیلا بیٹھا اپنی یادوں کے صحن میں اُترا ہوا تھا ۔ ایک یاد آتی میرے گلے لگ جاتی دوسری آتی اور میرے پاؤں سے لپٹ جاتی ۔ اس چھوٹے سے وقت کے لمحوں میں میں نے خود کو بہت مصروف پایا ۔ یادیں کڑوی تھیں اور میٹھی بھی ۔۔ منظر بدلتے رہے میں یہاں وہاں بھٹکا ۔۔ پھر واپس اپنے سنگھاسن پر آیا ۔ بڑے کمرے میں ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ مجھے یاد آیا میری بیٹی چند دن سے رات کو سٹور کا بلب جلا کر سونے لگی تھی ۔ وہ کہتی تھی رات کو اسے کمرے میں پڑے شو کیس سے عجیب سی نامانوس آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ اس نے کہا مجھے ڈر لگتا ہے ۔ اس کی ماں نے کہا ۔ گھر میں رات کو مکمل اندھیرا ہوتا ہے یہ اس لِئے ہے ۔۔ ایک بتی ضرور جلنی چاہیئے ۔ چاہے زیرو کا بلب ہی کیوں نہ ہو ۔۔ سو تب سے ایسا ہو رہاتھا ،، اس معمولی سے آواز کو سن کر مجھے لگا ادھر کوئی ہے ۔ میں نے اُٹھ کر کمرے کا چکر لگایا ۔ کچھ نہ تھا ۔ واپس آ کر پلاسٹک کی بنی کُرسی پر جس پر ایک چھوٹی سی گدی رکھی رہتی ہے میں بیٹھ گیا ۔ تب وہ نمودار ہوئی ۔ بہت معصوم شکل تھی اس کی ۔۔ درمیانہ قد ، ساٹھی پاٹھی ، قبول صورت تھی ، بدن چھریرا مگر مختصر یا منحنی نہیں ۔ معقول تھا ۔ اس نے میرے بہت قریب آ کر ایک لمبی سانس لی ۔ میں نے تعجب سے اُسے دیکھا ۔۔
وہ مُسکرائی ۔ تم چونکے نہیں ۔ ڈرے نہیں ۔
بھلا اپنے ہی گھر کی فضا اور چیزوں سے کیا ڈرنا ۔
لیکن میں تو تمہیں پہلی بار دکھائی دی ہوں ۔ ایک ایسی مُورت جو اس گھر کی باسی نہیں اُس کو یوں اپنے قریب پا کر تمہیں حیرت بھی نہیں ہوئی ۔ ہوئی ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں ۔ کہیں تم وہ تو نہیں ہو جس نے چند راتوں سے میری بیٹی کو خوف زدہ کر رکھا ہے ۔
نہیں یہ میں نہیں کچھ اور ہو گا ۔ وہم ، قیاس ، خیال وغیرہ
اور تم
مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم مجھے پہچان نہیں رہے ۔ میں اور تم تو ایک مدت سے ساتھ ساتھ ہیں ۔
اچھا ، کب سے ، کیسے
یاد کرو جب تم نے پہلی بار ایک آنے کے عوض کہانیوں کی پہلی کتاب خریدی تھی ۔اس وقت میں اس کہانی کی شہزادی تھی جس کے سر میں ایک دیو نے کیل ٹھونک کر اسے چڑیا بنا رکھا تھا ۔ تم میرے متعلق جان کر دکھی ہوئے تھے ۔ تب سے میں تمہاری دوست ہوں ۔ تم ایک بھلے دل والے انسان ہو ۔ پھر میرا تمہارا ساتھ پکا ہوتا گیا ۔ جب تم نے خود پہلی کہانی لکھی اور وہ ایک پرچے میں چھپی تو تمہاری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
میں جو ایک کہانی تھی پہلے پہل تمہارے اندر کی ایک ''چنگاری'' تھی پھر میں تمہارے اندر کی ایسی دھیمی آگ بنی جس نے کہ ہمیشہ جلنا تھا اور تمہارے اندر اور باہر اجالا کرنا تھا ۔۔ تم جانتے ہو میں کسی چور کے گھر کا رات کا اندھیرا ہرگز نہیں میں تو ایک فقیر کی کُٹیا میں جلنے والا دیا ہوں جو اب تمہارے دل میں جگ مگ جگ مگ کرتا ہے ۔۔
'' کھڑی کیوں ہو ۔۔ آؤ بیٹھ جاؤ ''
میں تو ہر وقت تمہارے بھیتر میں ہی ہوتی ہوں ۔ اس لِئے میرا اٹھنا بیٹھنا کیا ۔۔ کیونکہ اب تم میں ہو اور میں تم ہو ۔۔
دیکھو اب تم ڈنڈی مار رہی ہو ۔ اس بات کو مانو کہ میں نے تمہیں جنما ہے ۔ تم میری تخلیق ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں میں لکھتا ہوں تم مجھے نہیں لکھتیں ۔۔
کہانی کوئی جواب دیئے بغیر مسکرا کر رہ جاتی ہے ۔ شاید وہ لاجواب ہو گئی ہے۔۔
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی ۔
میں جانتی ہوں چند روز پیشتر تم نے مجھے ''پانچواں سوار'' کا روپ دیا ہے ۔۔
ہاں اور اس سے پہلے ''رات '' اور ''د ن '' کا
ہاں میں جانتی ہوں ۔ یہ تمہاری حالیہ لکھتیں ہیں
نہیں حالیہ نہیں میں ابھی اور لکھ رہا ہوں ۔۔
اسے تم نے کب لکھا ۔ اور ایسا تم نے میری بے خبری میں کیسے کر لیا
اسی لِئے تو کہتا ہوں تم تم ہو اور میں میں ہوں ۔۔
یہ ۔ ۔ ۔ ۔ کہانی ۔۔۔ یہ کب کی بات ہے اور اس کا عنوان
یہ ابھی اور اسی وقت جب تم مجھ سے مخاطب ہو تو میں اسے لکھ رہا ہوں ۔۔
اچھا ۔۔ تو تم نے مجھے بے خبری میں آ لیا ۔۔
ایک تو تم بھولی بہت ہو جب کہ میرے نزدیک کہانی لکھنے وا لے کو کھچرا ہونا چاہیئے ۔سادہ اور سیدھا آدمی کہانی کار نہیں ہو سکتا ۔۔
اسے کسی قدر ٹیڑھا ہونا چاہیئے ۔ جیسے کہ یہ زندگی ہے جو سیدھی لکیر بالکل بھی نہیں۔۔
اچھا اب تم اپنی اس لمحے لکھی جانے والی کہانی کا عنوان تو بتا دو ۔
'' میں اور کہانی ''
محمود احمد قاضی
2
افسانہ:میں اور کہانی
محمود احمد قاضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی اور بیٹی پڑوسیوں کے گھرمیں برپا ہونے والی تیل مہندی کی تقریب میں شرکت کے لِئے گئی ہوئی تھیں ۔ وہ میرے لِئے کھانا محفوظ جگہ پر رکھ گئیں تھیں تا کہ بوقتِ ضرورت میں کھانا گرم کر کے کھا لوں ۔ ابھی مجھے بھوک نہیں تھی اس لِئے میں برآمدے میں اکیلا بیٹھا اپنی یادوں کے صحن میں اُترا ہوا تھا ۔ ایک یاد آتی میرے گلے لگ جاتی دوسری آتی اور میرے پاؤں سے لپٹ جاتی ۔ اس چھوٹے سے وقت کے لمحوں میں میں نے خود کو بہت مصروف پایا ۔ یادیں کڑوی تھیں اور میٹھی بھی ۔۔ منظر بدلتے رہے میں یہاں وہاں بھٹکا ۔۔ پھر واپس اپنے سنگھاسن پر آیا ۔ بڑے کمرے میں ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ مجھے یاد آیا میری بیٹی چند دن سے رات کو سٹور کا بلب جلا کر سونے لگی تھی ۔ وہ کہتی تھی رات کو اسے کمرے میں پڑے شو کیس سے عجیب سی نامانوس آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ اس نے کہا مجھے ڈر لگتا ہے ۔ اس کی ماں نے کہا ۔ گھر میں رات کو مکمل اندھیرا ہوتا ہے یہ اس لِئے ہے ۔۔ ایک بتی ضرور جلنی چاہیئے ۔ چاہے زیرو کا بلب ہی کیوں نہ ہو ۔۔ سو تب سے ایسا ہو رہاتھا ،، اس معمولی سے آواز کو سن کر مجھے لگا ادھر کوئی ہے ۔ میں نے اُٹھ کر کمرے کا چکر لگایا ۔ کچھ نہ تھا ۔ واپس آ کر پلاسٹک کی بنی کُرسی پر جس پر ایک چھوٹی سی گدی رکھی رہتی ہے میں بیٹھ گیا ۔ تب وہ نمودار ہوئی ۔ بہت معصوم شکل تھی اس کی ۔۔ درمیانہ قد ، ساٹھی پاٹھی ، قبول صورت تھی ، بدن چھریرا مگر مختصر یا منحنی نہیں ۔ معقول تھا ۔ اس نے میرے بہت قریب آ کر ایک لمبی سانس لی ۔ میں نے تعجب سے اُسے دیکھا ۔۔
وہ مُسکرائی ۔ تم چونکے نہیں ۔ ڈرے نہیں ۔
بھلا اپنے ہی گھر کی فضا اور چیزوں سے کیا ڈرنا ۔
لیکن میں تو تمہیں پہلی بار دکھائی دی ہوں ۔ ایک ایسی مُورت جو اس گھر کی باسی نہیں اُس کو یوں اپنے قریب پا کر تمہیں حیرت بھی نہیں ہوئی ۔ ہوئی ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں ۔ کہیں تم وہ تو نہیں ہو جس نے چند راتوں سے میری بیٹی کو خوف زدہ کر رکھا ہے ۔
نہیں یہ میں نہیں کچھ اور ہو گا ۔ وہم ، قیاس ، خیال وغیرہ
اور تم
مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم مجھے پہچان نہیں رہے ۔ میں اور تم تو ایک مدت سے ساتھ ساتھ ہیں ۔
اچھا ، کب سے ، کیسے
یاد کرو جب تم نے پہلی بار ایک آنے کے عوض کہانیوں کی پہلی کتاب خریدی تھی ۔اس وقت میں اس کہانی کی شہزادی تھی جس کے سر میں ایک دیو نے کیل ٹھونک کر اسے چڑیا بنا رکھا تھا ۔ تم میرے متعلق جان کر دکھی ہوئے تھے ۔ تب سے میں تمہاری دوست ہوں ۔ تم ایک بھلے دل والے انسان ہو ۔ پھر میرا تمہارا ساتھ پکا ہوتا گیا ۔ جب تم نے خود پہلی کہانی لکھی اور وہ ایک پرچے میں چھپی تو تمہاری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
میں جو ایک کہانی تھی پہلے پہل تمہارے اندر کی ایک ''چنگاری'' تھی پھر میں تمہارے اندر کی ایسی دھیمی آگ بنی جس نے کہ ہمیشہ جلنا تھا اور تمہارے اندر اور باہر اجالا کرنا تھا ۔۔ تم جانتے ہو میں کسی چور کے گھر کا رات کا اندھیرا ہرگز نہیں میں تو ایک فقیر کی کُٹیا میں جلنے والا دیا ہوں جو اب تمہارے دل میں جگ مگ جگ مگ کرتا ہے ۔۔
'' کھڑی کیوں ہو ۔۔ آؤ بیٹھ جاؤ ''
میں تو ہر وقت تمہارے بھیتر میں ہی ہوتی ہوں ۔ اس لِئے میرا اٹھنا بیٹھنا کیا ۔۔ کیونکہ اب تم میں ہو اور میں تم ہو ۔۔
دیکھو اب تم ڈنڈی مار رہی ہو ۔ اس بات کو مانو کہ میں نے تمہیں جنما ہے ۔ تم میری تخلیق ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں میں لکھتا ہوں تم مجھے نہیں لکھتیں ۔۔
کہانی کوئی جواب دیئے بغیر مسکرا کر رہ جاتی ہے ۔ شاید وہ لاجواب ہو گئی ہے۔۔
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی ۔
میں جانتی ہوں چند روز پیشتر تم نے مجھے ''پانچواں سوار'' کا روپ دیا ہے ۔۔
ہاں اور اس سے پہلے ''رات '' اور ''د ن '' کا
ہاں میں جانتی ہوں ۔ یہ تمہاری حالیہ لکھتیں ہیں
نہیں حالیہ نہیں میں ابھی اور لکھ رہا ہوں ۔۔
اسے تم نے کب لکھا ۔ اور ایسا تم نے میری بے خبری میں کیسے کر لیا
اسی لِئے تو کہتا ہوں تم تم ہو اور میں میں ہوں ۔۔
یہ ۔ ۔ ۔ ۔ کہانی ۔۔۔ یہ کب کی بات ہے اور اس کا عنوان
یہ ابھی اور اسی وقت جب تم مجھ سے مخاطب ہو تو میں اسے لکھ رہا ہوں ۔۔
اچھا ۔۔ تو تم نے مجھے بے خبری میں آ لیا ۔۔
ایک تو تم بھولی بہت ہو جب کہ میرے نزدیک کہانی لکھنے وا لے کو کھچرا ہونا چاہیئے ۔سادہ اور سیدھا آدمی کہانی کار نہیں ہو سکتا ۔۔
اسے کسی قدر ٹیڑھا ہونا چاہیئے ۔ جیسے کہ یہ زندگی ہے جو سیدھی لکیر بالکل بھی نہیں۔۔
اچھا اب تم اپنی اس لمحے لکھی جانے والی کہانی کا عنوان تو بتا دو ۔
'' میں اور کہانی ''
محمود احمد قاضی
2