میں ہندو ہوں

میں ہندو ہوں

Mar 31, 2018

مصنف اصغر وجاہت

مصنف

مترجم: محمد نہال افروز

   دیدبان  شمارہ ۔۴

مصنف:اصغر وجاحت

مترجم: محمد نہال افروز  

میں ہندو ہوں

ایسی چیخ کہ مردے بھی قبر میں اٹھ کر کھڑے ہو جائیں۔ لگا کہ آواز بالکل کانوں کے پاس سے آئی ہے۔ ان حالات میں ....میں اچھل کر چارپائی پر بیٹھ گیا، آسمان پہ اب بھی ستارے تھے.... شائد رات کے تین بجے ہوں گے۔ اباجان بھی اٹھ بیٹھے۔ چیخ پھر سنائی دی۔ سیف اپنی کھرّی چارپائی پہ لیٹا چیخ رہا تھا۔ آنگن میں ایک سرے سے سب کی چارپائیاں بچھی تھیں،

”لاحول ولا قوةالا بااللہ.... “اباجان نے لاحول پڑھا۔

”خدا جانے یہ سوتے سوتے کیوں چیخنے لگتا ہے۔“ اماں بولیں۔

”اماں اسے رات بھر لڑکے ڈراتے ہیں....“میں نے بتایا۔

”ان مووں کو بھی چین نہیں پڑتا.... لوگو کی جان پر بنی ہے اور انہیں شرارتیں سوجھتی ہیں۔“اماں بولیں۔

شافعہ نے چادر سے منہ نکال کر کہاں، ”اسے کہو چھت پر سویا کرے۔“

سیف اب تک نہیں جاگا تھا۔ میں اس کے پلنگ کے پاس گیا اور جھک کر دیکھا تو اس کے چہرے پر پسینہ تھا۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی اور جسم کانپ رہا تھا۔ بال پسینے میں تر ہو گئے اور کچھ لٹیں پیشانی پر چپک گئی تھی۔ میں سیف کو دیکھتا رہا اور ان لڑکوں کے تئیں دل میں غصہ امنڈتا رہا جو اسے ڈراتے ہیں۔

تب فساد ایسے نہیں ہوا کرتے تھے جیسے آج کل ہوتے ہیں۔ فسادات کے پیچھے چھپے فلسفہ، حکمت عملی، طریقہ کار اور رفتار میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے نہ تو لوگوں کو زندہ جلایا جاتا تھا اور نہ پوری کی پوری بستیاں ویران کی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کی ظرف سے حوصلہ بھی فسادیوں کو نہیں ملتا تھا۔ یہ کام چھوٹے موٹے مقامی رہنما اپنے مقامی اور چھوٹے چھوٹے مفاد پورا کرنے کے لیے کرتے تھے۔ تجارتی دشمنی، زمین پر قبضہ کرنا، چنگی کے چناؤ  میں ہندو یا مسلم ووٹ حاصل کرلینا وغیرہ مقصد ہوا کرتے تھے۔ اب تو دہلی دربار پرقبضہ جمانے کا ذریعہ بن گیا ہے، فرقہ وارانہ فسادات۔ دنیا کے وسیع جمہوریت کی ناک میں وہی نکیل ڈال سکتا ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت پر خون کی ندیاں بہا سکتا ہو۔

سیف کو جگایا گیا۔ وہ بکری کے معصوم بچے کی طرح چاروں طرف اس طرح سے دیکھ رہا تھا جیسے ماں کو تلاش کر رہا ہو۔ اباجان کے سوتیلے بھائی کی سب سے چھوٹی اولاد سیف الدین عرف سیف نے جب اپنے گھر کے تمام لوگوں سے گھر ا ہوادیکھا تو ہکا بکا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ سیف کے ابا کوثر چچا کے مرنے کا آیا کونا کٹا ہوا پوسٹ کارڈ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ گاؤں والوں نے خط میں کوثر چچا کے مرنے کی خبر ہی نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا سب سے چھوٹا سیف اب اس دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔ سیف کے بڑے بھائی اسے اپنے ساتھ ممبئی نہیں لے گئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ سیف کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اب اباجان کے علاوہ اس کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ کونا کٹاہوا پوسٹ کارڈ پکڑے اباجان بہت دیر تک خاموش بیٹھے تھے۔ اماں سے کئی بار لڑائی ہونے کے بعد اباجان آبائی گاؤں ”دھنواکھیڑا“ گئے تھے اور بچی کھچی زمین بیچ، سیف کو ساتھ لے کر لوٹے تھے۔ سیف کو دیکھ کر ہم سب کو ہنسی آئی تھی۔ کسی گنوار لڑکے کو دیکھ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکول میں پڑھنے والی شافعہ کی اور کیا رد عمل ہو سکتی تھی، پہلے دن ہی یہ لگ گیا کہ سیف صرف گنوار ہی نہیں ہے بلکہ آدھاپاگل ہونے کی حد تک سیدھا یا بیوقوف ہے۔ ہم اسے طرح طرح سے چڑھایا یا بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ سیف کو اس طور پر ہوا کہ اباجان اور اماں کا اس نے دل جیت لیا۔ سیف محنت کا پتلا تھا۔ کام کرنے سے کبھی نہ تھکتا تھا۔ اماں کو اس کی یہ”ادا“ بہت پسند تھی۔ اگر دو روٹیاں زیادہ کھاتا ہے تو کیا؟ کام بھی تو کمر توڑ کرتا ہے۔ سالوں پر سال گزرتے گئے اور سیف ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔ ہم سب اس کے ساتھ گھلتے ملتے چلے گئے۔ اب محلے کا کوئی لڑکا اسے پاگل کہہ دیتا تو.... تو میں اس کا منھ نوچ لیتا تھا۔ ہمارا بھائی ہے تم نے پاگل کہا کیسے؟ لیکن گھر کے اندر سیف کی حیثیت کیا تھی یہ ہمیں جانتے تھے۔

شہر میں فساد ویسے ہی شروع ہوا تھا جیسے ہوا کرتا تھا یعنی مسجد سے کسی ایک پوٹلا ملا تھا جس میں کسی قسم کا گوشت تھا اور گوشت کو دیکھے بغیر یہ طے کر لیا گیا تھا کہ چونکہ وہ مسجد میں پھینکا گیا گوشت ہے اس لیے سور کے گوشت کے سوا اور کسی جانور کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے رد عمل میں مغل ٹولے میں گائے کاٹ دی گئی تھی اور فساد بھڑک گیا تھا۔ کچھ دکانیں جلی تھیں اور زیادہ تر لوٹی گئی تھیں۔ چاقو،چھری کی وارداتوں میں قریب سات آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن انتظامیہ اتنا حساس تھا کہ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ آج کل والی بات نہ تھی ہزاروں لوگوں کے مارے جانے کے بعد بھی وزیر اعلیٰ مونچھوں پر تاؤ  دے کر گھومتا اور کہتا کہ جو کچھ ہوا صحیح ہوا۔

فساد چونکہ ارد گرد کے گاؤں تک بھی پھیل گیا تھا اس لیے کرفیو بڑھا دیا گیا تھا۔ مغل پورا مسلمانوں کا سب سے بڑا محلہ تھا اس لیے وہاں کرفیو کا اثر بھی تھا اور ”جہاد“ جیسا ماحول بھی بن گیا تھا۔ محلے کی گلیاں تو تھی ہی لیکن کئی فسادات کے تجربوں نے یہ بھی سکھا دیا تھا کہ گھروں کے اندر سے بھی راستے ہونے چاہئے۔ یعنی ایمرجنسی پیکج۔ تو گھروں کے اندر سے، چھتوں کے اوپر سے، دیواروں کو پھلانگتے کچھ ایسے راستے بھی بن گئے تھے کہ کوئی اگر ان کو جانتا ہو تو محلے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آسانی سے جا سکتا تھا۔ محلے کی تیاری جنگی پیمانے کی تھی۔ سوچا گیا تھا کہ کرفیو اگر مہینے بھر بھی کھینچتا ہے تو ضرورت کی تمام چیزیں محلے میں ہی مل جائیں۔

فساد محلے کے لڑکوں کے لیے ایک عجیب طرح کاجوش دکھانے کاموسم ہوا کرتا تھا۔ اجی ہم تو ہندؤں کو زمین چٹا دیں گے .... سمجھ کیا رکھا ہے دھوتی باندھنے والو نے....ا جی بزدل ہوتے ہیں ....ایک مسلمان دس ہندؤں  پر بھاری پڑتا ہے....ہنس کے لیا ہے پاکستان ،لڑ کرلیں گے ہندوستان جیسا ماحول بن جاتا تھا، لیکن محلے سے باہر نکلنے میں سب کی نانی مرتی تھی۔ پی اے سی کی چوکی دونوں طرف تھی۔ پی اے سی کے بوٹوں اور ان کی رائفلوں کے بٹو کی مار کئی کویاد تھی اس لیے زبانی جمع خرچ تک تو سب ٹھیک تھا لیکن اس کے آگے....

مصیبت اتحاد سکھا دیتی ہے۔ اتحاد نظم و ضبط اور نظم و ضبط طرز عمل ۔ہر گھر سے ایک لڑکا پہرہ دیا کرے گا۔ ہمارے گھر میں میرے علاوہ، اس زمانے میں مجھے لڑکا نہیں مانا جا سکتا تھا، کیونکہ میں پچیس پار کر چکا تھا، لڑکا سیف ہی تھا ۔اس لیے اسے رات کو پہرہ دینا پڑتا تھا۔ رات کا پہرہ چھتوں پر ہوا کرتا تھا۔ مغل پورا چونکہ شہر کے سب سے بالا ئی حصے میں تھا اس لیے چھتوں پر سے پورا شہر دکھائی دیتا تھا۔ محلے کے لڑکوں کے ساتھ سیف پہرے پر جایا کرتا تھا۔ یہ میرے، اباجان، اماں اور شافعہ سب کے لیے بہت اچھا تھا۔ اگر ہمارے گھر میں سیف نہ ہوتا تو شاید مجھے رات میں دھکے کھانے پڑتے۔ سیف کے پہرے پر جانے کی وجہ سے اسے کچھ سہولتیں بھی دے دی گئی تھیں، جیسے اسے آٹھ بجے تک سونے دیا جاتا تھا۔ اس سے جھاڑو نہیں دلوائی جاتی تھی۔ یہ کام شافعہ کے حوالے ہو گیا تھا جو اسے بے حد ناپسند کرتی تھی۔

کبھی کبھی رات میں بھی چھتوں پر پہنچ جاتا تھا، لاٹھی، ڈنڈا، بلّم اور اینٹوں کے ڈھیر ادھر ادھر لگائے گئے تھے۔ دو چار لڑکوں کے پاس دیسی کٹے اور زیادہ تر کے پاس چاقو تھے۔ ان میں سے سبھی چھوٹے موٹے کام کرنے والے کاریگر تھے۔ زیادہ تر تالے کی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ کچھ درزی گیری، بڑھئی گیری جیسے کام کرتے تھے۔ چونکہ ادھر بازار بند تھا اس لیے ان کے دھندے بھی ٹھپ تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کے گھروں میں قرض سے چولہا جل رہا تھا۔ لیکن وہ خوش تھے۔ چھتوں پر بیٹھ کر وہ فسادات کی تازہ خبروں پر تبصرہ کیا کرتے تھے یا ہندؤں کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ ہندؤں سے زیادہ گالیاں وہ پی اے سی کو دیتے تھے۔ پاکستان ریڈیو کا پورا پروگرام انہیں زبانی یاد تھا اور کم آواز میں ریڈیو لاہور سنا کرتے تھے۔ ان لڑکوں میں دو چار جو پاکستان جا چکے تھے ان کی عزت حاجیوں کی طرح ہوتی تھی۔ وہ پاکستان کی ریل گاڑی ”تےزگام“ اور” گلشن اقبال کالونی“ کے ایسے قصے سناتے تھے کہ لگتا جنت اگر زمین پر کہیں ہے تو پاکستان میں ہے۔ پاکستان کی تعریفوں سے جب ان کا دل بھر جایا کرتا تھا تو سیف سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ سیف نے پاکستان، پاکستان اور پاکستان کا وظیفہ سننے کے بعد ایک دن پوچھ لیا تھا کہ پاکستان ہے کہاں؟ اس پر سبھی لڑکوں نے اس کی بہت کھنچائی کی تھی۔ وہ کچھ سمجھا تھا، لیکن اسے یہ پتہ نہیں لگ سکتا تھا کہ پاکستان کہاں ہے۔

گشتی لونڈے سیف کو مذاق میں سنجیدگی سے ڈرایا کرتے تھے۔

”دیکھو سیف اگر تمہیں ہندو پا جائیں گے تو جانتے ہو کیا کریں گے؟ پہلے تمہیں ننگا کر دیں گے۔“

لڑکے جانتے تھے کہ سیف آدھاپاگل ہونے کے باوجود ننگا ہونے کو بہت بری اور خراب چیز سمجھتا ہے۔

”اس کے بعد ہندو تمہارے تیل ملیںگے۔“

”کیوں، تیل کیوں ملیںگے؟“

”تاکہ جب تمہیں چھڑی سے ماریں تو تمہاری کھال نکل جائے۔ اس کے بعد جلتی سلاخوں سے تمہیں داغیں گے....“

”نہیں“ اسے یقین نہیں ہوا۔

رات کے وقت لڑکے اسے جو ڈراؤنے اور پر تشدد قصے سنایا کرتے تھے ان سے وہ بہت زیادہ ڈر گیا تھا۔ کبھی کبھی مجھ سے الٹی سیدھی باتیں کیا کرتا تھا۔ میں جھنجھلاتا تھا اور اسے چپ کرا دیتا تھا لیکن اس کا  تجسس ختم نہیں ہو پاتا  تھا ۔ ایک دن کہنے لگا۔

”بڑے بھائی پاکستان میں بھی مٹی ہوتی ہے کیا؟“

”کیوں، وہاں مٹی کیوں نہ ہو گی۔“

”سڑک ہے  سڑک نہیں ہے .... وہاں ٹیری لین ملتا ہے .... وہاں سستی ہے ....

”دیکھو یہ سب باتیں من گھڑنت ہیں .... تم الطاف وغیرہ کی باتوں پر کان نہ دیا کرو۔“ میں نے اسے سمجھایا۔

”بڑے بھائی کیا ہندو آنکھیں نکال لیتے ہیں....“

”بکواس ہے....یہ تم سے کس نے کہا؟“

”بچھن نے۔“

”غلط ہے۔“

”تو کھال بھی نہیں کھینچتے؟“

”اُف....فوہ....یہ تم نے کیا لگا رکھی ہے....“

وہ چپ ہو گیا لیکن اس کی آنکھوں میں سینکڑوں سوال تھے۔ میں باہر چلا گیا۔ وہ شافعہ سے اسی طرح کی باتیں کرنے لگا۔

کرفیولمبا ہوتا چلا گیا۔ رات کی گشت جاری رہی۔ ہماری گھر سے سیف ہی جاتا رہا۔ کچھ دنوں بعد ایک دن اچانک سوتے میں سیف چیخنے لگا تھا۔ ہم سب گھبرا گئے لیکن یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ سب اس ڈرائے جانے کی وجہ سے ہے۔ اباجان کو لڑکوں پر بہت غصہ آیا تھا اور انہوں نے محلے کے ایک دو بزرگ نما لوگوں سے کہا بھی، لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لڑکے اور وہ بھی محلے کے لڑکے کسی تفریح سے کیوں کر ہاتھ دھو  لیتے؟

بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے اس کا اندازہ مجھے اس وقت تک نہ تھا جب تک ایک دن سیف نے بڑی سنجیدگی سے مجھ سے پوچھا۔

”بڑے بھائی، میں ہندو ہو جاؤں ؟“

سوال سن کر میں سناٹے میں آ گیا، لیکن جلد ہی سمجھ گیا کہ یہ رات میں ڈراؤ نے قصے سنائے جانے کا نتیجہ ہے۔ مجھے غصہ آ گیا پھر سوچا پاگل پر غصہ کرنے سے اچھا ہے غصہ پی جاؤں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔

میں نے کہا، ”کیوں تم ہندو کیوں ہونا چاہتے ہو؟“

”اس کا مطلب ہے میں نہ بچ پاؤں گا۔“ میں نے کہا۔

”تو آپ بھی ہو جائیے....“ وہ بولا۔

”اور تمہارے چچااببار“ میں نے اپنے والد اور اس کے چچا کی بات کی۔

”نہیں.... انہیں....“وہ کچھ سوچنے لگا۔ اباجان کی سفید اور لمبی داڑھی میں وہ کہیں پھنس گیا ہو گا۔

”دیکھا یہ سب لڑکوں کی خرافات ہے جو تمہیں بہکاتے ہیں۔ یہ جو تمہیں بتاتے ہیں سب جھوٹ ہے۔ ارے مہیش کو نہیں جانتے؟ “

”وہ جوا سکوٹر پر آتے ہیں....“وہ خوش ہو گیا۔

”ہاں....ہاں وہی۔“

”وہ ہندو ہیں؟“

”ہاں ہندو ہیں“

میں نے کہا اور اس کے چہرے پر پہلے تو مایوسی کی ہلکی سی پرچھائیں ابھری پھر وہ خاموش ہو گیا۔

”یہ سب غنڈے بدمعاشوں کے کام ہیں.... نہ ہندو لڑتے ہیں اور نہ مسلمان....غنڈے لڑتے ہیں، سمجھے؟ “

فساد شیطان کی آنت کی طرح کھنچتا چلا گیا اور محلے میں لوگ تنگ آنے لگے.... یار شہر میں فساد کرنے والے ہندو اور مسلمان بدمعاشوں کو ملا بھی دیا جائے تو کتنے ہوں گے.... زیادہ سے زیادہ ایک ہزار، چلو دو ہزار مان لو تو بھائی دو ہزار آدمی لاکھوں لوگوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں اور ہم لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ یہ تو وہی ہوا کہ دس ہزار انگریز کروڑوں ہندوستانیوں پر حکومت کیا کرتے تھے اور سارا نظام ان کے تحت چلتا رہتا تھا اور پھر ان فسادات سے فائدہ کس کا ہے، فائدہ؟ اجی حاجی عبدالکریم کو فائدہ ہے جو چنگی کا الیکشن لڑے گا اور اسے مسلمان ووٹ ملیں گے۔ پنڈت جوگےشور کو ہے جنہیں ہندؤں کے ووٹ ملیں گے، اب ہم کیا ہیں؟ آپ ووٹر ہو، ہندو ووٹر، مسلمان ووٹر، ہریجن ووٹر، کایستھ ووٹر، سنی ووٹر، شیعہ ووٹر، یہی سب ہوتا رہے گا اس ملک میں؟ ہاں کیوں نہیں؟ جہاں لوگ جاہل ہیں جہاں کرایے کے قاتل مل جاتے ہیں، جہاں سیاسی رہنما اپنی گددیوں کے لیے فسادات کراتے ہیں وہاں اور کیا ہو سکتا ہے؟ یار کیا ہم لوگوں کو پڑھا نہیں سکتے؟ سمجھا نہیں سکتے؟ ہاہاہاہا تم کون ہوتے ہو پڑھانے والے، حکومت پڑھائے گی، اگر چاہے گی تو ،حکومت نہ چاہے تو اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا؟ ہاں.... انگریزوں نے ہمیں یہی سکھایا ہے....ہم اس کے عادی ہیں.... چلو چھوڑو تو فسادات ہوتے رہیں گے؟ ہاں، ہوتے رہیں گے؟ مان لو اس ملک کے سارے مسلمان ہندو ہو جائیں؟ لاحول ولا قوة یہ کیا کہہ رہے ہو۔ اچھا مان لو اس ملک کے سارے ہندو مسلمان ہو جائیں؟ سبحان اللہ. . .واہ واہ کیا بات کہی ہے....توکیا فسادات رک جائیں گے؟ یہ تو سوچنے کی بات ہے.... پاکستان میں شیعہ سنی ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں.... بہار میں برہمن ہریجن کے سائے سے بچتے ہیں....تو کیا۔ یار آدمی یا کہو انسان سالہ ہے ہی ایسا کہ جو لڑتے ہی رہنا چاہتا ہے؟ ویسے دیکھو تو جمن اور میکو میں بڑی دوستی ہے۔ تو یار کیوں نہ ہم میکو اور جمن بن جائیں....واہ کیا بات کہہ دی، مطلب.... مطلب.... مطلب....

میں صبح صبح ریڈیو کے کان امیٹھ رہا تھا شافعہ جھاڑو دے رہی تھی کہ راجا کا چھوٹا بھائی اکرم بھاگتا ہوا آیا اور پھولتی ہوئی سانس کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا-

”سیف کو پی اے سی والے مار رہے ہیں۔“

”کیا؟ کیا کہہ رہے ہو؟“

”سیف کو پی اے سی والے مار رہے ہیں۔“ انہوں نے ٹھہر کر بولا۔

”کیوں مار رہے ہیں؟ کیا بات ہے؟ “

”پتہ نہیں.... نکڑ پہ....“

”وہیں جہاں پی اے سی کی چوکی ہے؟“

”ہاں وہیں۔“

”لیکن کیوں....“مجھے معلوم تھا کہ آٹھ بجے سے دس بجے تک کرفیو کھلنے لگا ہے اور سیف کو آٹھ بجے کے قریب اماں نے دودھ لینے بھیجا تھا۔ سیف جیسے پگلے تک کو معلوم تھا کہ اسے جلد از جلد واپس آنا ہے اور اب دو دس بجے گئے تھے۔

”چلو میں چلتا ہوں“ ریڈیو سے آتی بے ڈھنگی آواز کی فکر کیے بغیر میں تیزی سے باہر نکلا۔ پاگل کو کیوں مار رہے ہیں پی اے سی والے، اس نے کون سا ایسا جرم کیا ہے؟ وہ کر ہی کیا سکتا ہے؟ خود ہی اتنا خوف زدہ رہتا ہے اسے مارنے کی کیا ضرورت ہے....پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ پیسہ، ارے اسے تو اماں نے دو روپے دیے تھے۔ دو روپے کے لیے پی اے سی والے اسے کیوں ماریں گے؟

نکڑ پر مین سڑک کے برابر کوٹھوں پر محلے کے کچھ لوگ جمع تھے۔ سیف پی اے سی والوں کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے سامنے پی اے سی کے جوان تھے۔ سیف زور زور سے چیخ رہا تھا۔

”مجھے تم لوگوں نے کیوں مارا....میں ہندو ہوں....ہندو ہوں....“

میں آگے بڑھا۔ مجھے دیکھنے کے بعد بھی سیف رکا نہیں وہ کہتا رہا۔

” ہاں، ہاں میں ہندو ہوں....“وہ ڈگمگا رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں کے کونے سے خون کی ایک بوند نکل کر ٹھوڑھی پر ٹھہر گئی تھی۔

”تم نے مجھے مارا کیسے میں ہندو....“

”سیف....یہ کیا ہو رہا ہے....گھر چلو “

”میں....میں ہندو ہوں۔“

مجھے بڑی حیرت ہوئی.... ا رے کیا یہ وہی سیف ہے جو تھا. . .اس کی تو کایا پلٹ گئی ہے۔ یہ اسے ہو کیا گیا۔

”سیف ہوش میں آو۔“ میں نے اسے زور سے ڈانٹا۔

محلے کے دوسرے لوگو پتہ نہیں کس پر اندر ہی اندر دورسے ہنس رہے تھے۔ مجھے غصہ آیا۔ سالے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ پاگل ہے۔

”یہ آپ کا کون ہے؟“ ایک پی اے سی والے نے مجھ سے پوچھا۔

”میرا بھائی ہے.... تھوڑی مینٹل پرابلم ہے اسے ۔“

”تو اسے گھر لے جاؤ ۔“ ایک سپاہی بولا۔

”ہمیں پاگل بنا دیا۔“ دوسرے نے کہا۔

”چلو.... سیف گھر چلو۔ کرفیو لگ گیا ہے.... کرفیو....“

”نہیں جاؤں گا....میں ہندو ہوں.... ہندو....مجھے....مجھے....“

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا....“مارا....مجھے مارا....مجھے مارا....میں ہندو ہوں....میں ....

سیف دھڑام سے زمین پر گرا.... شائد بے ہو ش ہو گیا تھا....اب اسے اٹھا کر لے جانا آسان تھا۔

٭٭٭

مصنف:اصغر وجاحت

ہندی سے اردو ترجمہ:  محمد نہال افروز

ریسرچ اسکالر

مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی. حیدرآباد

   دیدبان  شمارہ ۔۴

مصنف:اصغر وجاحت

مترجم: محمد نہال افروز  

میں ہندو ہوں

ایسی چیخ کہ مردے بھی قبر میں اٹھ کر کھڑے ہو جائیں۔ لگا کہ آواز بالکل کانوں کے پاس سے آئی ہے۔ ان حالات میں ....میں اچھل کر چارپائی پر بیٹھ گیا، آسمان پہ اب بھی ستارے تھے.... شائد رات کے تین بجے ہوں گے۔ اباجان بھی اٹھ بیٹھے۔ چیخ پھر سنائی دی۔ سیف اپنی کھرّی چارپائی پہ لیٹا چیخ رہا تھا۔ آنگن میں ایک سرے سے سب کی چارپائیاں بچھی تھیں،

”لاحول ولا قوةالا بااللہ.... “اباجان نے لاحول پڑھا۔

”خدا جانے یہ سوتے سوتے کیوں چیخنے لگتا ہے۔“ اماں بولیں۔

”اماں اسے رات بھر لڑکے ڈراتے ہیں....“میں نے بتایا۔

”ان مووں کو بھی چین نہیں پڑتا.... لوگو کی جان پر بنی ہے اور انہیں شرارتیں سوجھتی ہیں۔“اماں بولیں۔

شافعہ نے چادر سے منہ نکال کر کہاں، ”اسے کہو چھت پر سویا کرے۔“

سیف اب تک نہیں جاگا تھا۔ میں اس کے پلنگ کے پاس گیا اور جھک کر دیکھا تو اس کے چہرے پر پسینہ تھا۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی اور جسم کانپ رہا تھا۔ بال پسینے میں تر ہو گئے اور کچھ لٹیں پیشانی پر چپک گئی تھی۔ میں سیف کو دیکھتا رہا اور ان لڑکوں کے تئیں دل میں غصہ امنڈتا رہا جو اسے ڈراتے ہیں۔

تب فساد ایسے نہیں ہوا کرتے تھے جیسے آج کل ہوتے ہیں۔ فسادات کے پیچھے چھپے فلسفہ، حکمت عملی، طریقہ کار اور رفتار میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے نہ تو لوگوں کو زندہ جلایا جاتا تھا اور نہ پوری کی پوری بستیاں ویران کی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کی ظرف سے حوصلہ بھی فسادیوں کو نہیں ملتا تھا۔ یہ کام چھوٹے موٹے مقامی رہنما اپنے مقامی اور چھوٹے چھوٹے مفاد پورا کرنے کے لیے کرتے تھے۔ تجارتی دشمنی، زمین پر قبضہ کرنا، چنگی کے چناؤ  میں ہندو یا مسلم ووٹ حاصل کرلینا وغیرہ مقصد ہوا کرتے تھے۔ اب تو دہلی دربار پرقبضہ جمانے کا ذریعہ بن گیا ہے، فرقہ وارانہ فسادات۔ دنیا کے وسیع جمہوریت کی ناک میں وہی نکیل ڈال سکتا ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت پر خون کی ندیاں بہا سکتا ہو۔

سیف کو جگایا گیا۔ وہ بکری کے معصوم بچے کی طرح چاروں طرف اس طرح سے دیکھ رہا تھا جیسے ماں کو تلاش کر رہا ہو۔ اباجان کے سوتیلے بھائی کی سب سے چھوٹی اولاد سیف الدین عرف سیف نے جب اپنے گھر کے تمام لوگوں سے گھر ا ہوادیکھا تو ہکا بکا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ سیف کے ابا کوثر چچا کے مرنے کا آیا کونا کٹا ہوا پوسٹ کارڈ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ گاؤں والوں نے خط میں کوثر چچا کے مرنے کی خبر ہی نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا سب سے چھوٹا سیف اب اس دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔ سیف کے بڑے بھائی اسے اپنے ساتھ ممبئی نہیں لے گئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ سیف کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اب اباجان کے علاوہ اس کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ کونا کٹاہوا پوسٹ کارڈ پکڑے اباجان بہت دیر تک خاموش بیٹھے تھے۔ اماں سے کئی بار لڑائی ہونے کے بعد اباجان آبائی گاؤں ”دھنواکھیڑا“ گئے تھے اور بچی کھچی زمین بیچ، سیف کو ساتھ لے کر لوٹے تھے۔ سیف کو دیکھ کر ہم سب کو ہنسی آئی تھی۔ کسی گنوار لڑکے کو دیکھ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکول میں پڑھنے والی شافعہ کی اور کیا رد عمل ہو سکتی تھی، پہلے دن ہی یہ لگ گیا کہ سیف صرف گنوار ہی نہیں ہے بلکہ آدھاپاگل ہونے کی حد تک سیدھا یا بیوقوف ہے۔ ہم اسے طرح طرح سے چڑھایا یا بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ سیف کو اس طور پر ہوا کہ اباجان اور اماں کا اس نے دل جیت لیا۔ سیف محنت کا پتلا تھا۔ کام کرنے سے کبھی نہ تھکتا تھا۔ اماں کو اس کی یہ”ادا“ بہت پسند تھی۔ اگر دو روٹیاں زیادہ کھاتا ہے تو کیا؟ کام بھی تو کمر توڑ کرتا ہے۔ سالوں پر سال گزرتے گئے اور سیف ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔ ہم سب اس کے ساتھ گھلتے ملتے چلے گئے۔ اب محلے کا کوئی لڑکا اسے پاگل کہہ دیتا تو.... تو میں اس کا منھ نوچ لیتا تھا۔ ہمارا بھائی ہے تم نے پاگل کہا کیسے؟ لیکن گھر کے اندر سیف کی حیثیت کیا تھی یہ ہمیں جانتے تھے۔

شہر میں فساد ویسے ہی شروع ہوا تھا جیسے ہوا کرتا تھا یعنی مسجد سے کسی ایک پوٹلا ملا تھا جس میں کسی قسم کا گوشت تھا اور گوشت کو دیکھے بغیر یہ طے کر لیا گیا تھا کہ چونکہ وہ مسجد میں پھینکا گیا گوشت ہے اس لیے سور کے گوشت کے سوا اور کسی جانور کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے رد عمل میں مغل ٹولے میں گائے کاٹ دی گئی تھی اور فساد بھڑک گیا تھا۔ کچھ دکانیں جلی تھیں اور زیادہ تر لوٹی گئی تھیں۔ چاقو،چھری کی وارداتوں میں قریب سات آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن انتظامیہ اتنا حساس تھا کہ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ آج کل والی بات نہ تھی ہزاروں لوگوں کے مارے جانے کے بعد بھی وزیر اعلیٰ مونچھوں پر تاؤ  دے کر گھومتا اور کہتا کہ جو کچھ ہوا صحیح ہوا۔

فساد چونکہ ارد گرد کے گاؤں تک بھی پھیل گیا تھا اس لیے کرفیو بڑھا دیا گیا تھا۔ مغل پورا مسلمانوں کا سب سے بڑا محلہ تھا اس لیے وہاں کرفیو کا اثر بھی تھا اور ”جہاد“ جیسا ماحول بھی بن گیا تھا۔ محلے کی گلیاں تو تھی ہی لیکن کئی فسادات کے تجربوں نے یہ بھی سکھا دیا تھا کہ گھروں کے اندر سے بھی راستے ہونے چاہئے۔ یعنی ایمرجنسی پیکج۔ تو گھروں کے اندر سے، چھتوں کے اوپر سے، دیواروں کو پھلانگتے کچھ ایسے راستے بھی بن گئے تھے کہ کوئی اگر ان کو جانتا ہو تو محلے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آسانی سے جا سکتا تھا۔ محلے کی تیاری جنگی پیمانے کی تھی۔ سوچا گیا تھا کہ کرفیو اگر مہینے بھر بھی کھینچتا ہے تو ضرورت کی تمام چیزیں محلے میں ہی مل جائیں۔

فساد محلے کے لڑکوں کے لیے ایک عجیب طرح کاجوش دکھانے کاموسم ہوا کرتا تھا۔ اجی ہم تو ہندؤں کو زمین چٹا دیں گے .... سمجھ کیا رکھا ہے دھوتی باندھنے والو نے....ا جی بزدل ہوتے ہیں ....ایک مسلمان دس ہندؤں  پر بھاری پڑتا ہے....ہنس کے لیا ہے پاکستان ،لڑ کرلیں گے ہندوستان جیسا ماحول بن جاتا تھا، لیکن محلے سے باہر نکلنے میں سب کی نانی مرتی تھی۔ پی اے سی کی چوکی دونوں طرف تھی۔ پی اے سی کے بوٹوں اور ان کی رائفلوں کے بٹو کی مار کئی کویاد تھی اس لیے زبانی جمع خرچ تک تو سب ٹھیک تھا لیکن اس کے آگے....

مصیبت اتحاد سکھا دیتی ہے۔ اتحاد نظم و ضبط اور نظم و ضبط طرز عمل ۔ہر گھر سے ایک لڑکا پہرہ دیا کرے گا۔ ہمارے گھر میں میرے علاوہ، اس زمانے میں مجھے لڑکا نہیں مانا جا سکتا تھا، کیونکہ میں پچیس پار کر چکا تھا، لڑکا سیف ہی تھا ۔اس لیے اسے رات کو پہرہ دینا پڑتا تھا۔ رات کا پہرہ چھتوں پر ہوا کرتا تھا۔ مغل پورا چونکہ شہر کے سب سے بالا ئی حصے میں تھا اس لیے چھتوں پر سے پورا شہر دکھائی دیتا تھا۔ محلے کے لڑکوں کے ساتھ سیف پہرے پر جایا کرتا تھا۔ یہ میرے، اباجان، اماں اور شافعہ سب کے لیے بہت اچھا تھا۔ اگر ہمارے گھر میں سیف نہ ہوتا تو شاید مجھے رات میں دھکے کھانے پڑتے۔ سیف کے پہرے پر جانے کی وجہ سے اسے کچھ سہولتیں بھی دے دی گئی تھیں، جیسے اسے آٹھ بجے تک سونے دیا جاتا تھا۔ اس سے جھاڑو نہیں دلوائی جاتی تھی۔ یہ کام شافعہ کے حوالے ہو گیا تھا جو اسے بے حد ناپسند کرتی تھی۔

کبھی کبھی رات میں بھی چھتوں پر پہنچ جاتا تھا، لاٹھی، ڈنڈا، بلّم اور اینٹوں کے ڈھیر ادھر ادھر لگائے گئے تھے۔ دو چار لڑکوں کے پاس دیسی کٹے اور زیادہ تر کے پاس چاقو تھے۔ ان میں سے سبھی چھوٹے موٹے کام کرنے والے کاریگر تھے۔ زیادہ تر تالے کی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ کچھ درزی گیری، بڑھئی گیری جیسے کام کرتے تھے۔ چونکہ ادھر بازار بند تھا اس لیے ان کے دھندے بھی ٹھپ تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کے گھروں میں قرض سے چولہا جل رہا تھا۔ لیکن وہ خوش تھے۔ چھتوں پر بیٹھ کر وہ فسادات کی تازہ خبروں پر تبصرہ کیا کرتے تھے یا ہندؤں کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ ہندؤں سے زیادہ گالیاں وہ پی اے سی کو دیتے تھے۔ پاکستان ریڈیو کا پورا پروگرام انہیں زبانی یاد تھا اور کم آواز میں ریڈیو لاہور سنا کرتے تھے۔ ان لڑکوں میں دو چار جو پاکستان جا چکے تھے ان کی عزت حاجیوں کی طرح ہوتی تھی۔ وہ پاکستان کی ریل گاڑی ”تےزگام“ اور” گلشن اقبال کالونی“ کے ایسے قصے سناتے تھے کہ لگتا جنت اگر زمین پر کہیں ہے تو پاکستان میں ہے۔ پاکستان کی تعریفوں سے جب ان کا دل بھر جایا کرتا تھا تو سیف سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ سیف نے پاکستان، پاکستان اور پاکستان کا وظیفہ سننے کے بعد ایک دن پوچھ لیا تھا کہ پاکستان ہے کہاں؟ اس پر سبھی لڑکوں نے اس کی بہت کھنچائی کی تھی۔ وہ کچھ سمجھا تھا، لیکن اسے یہ پتہ نہیں لگ سکتا تھا کہ پاکستان کہاں ہے۔

گشتی لونڈے سیف کو مذاق میں سنجیدگی سے ڈرایا کرتے تھے۔

”دیکھو سیف اگر تمہیں ہندو پا جائیں گے تو جانتے ہو کیا کریں گے؟ پہلے تمہیں ننگا کر دیں گے۔“

لڑکے جانتے تھے کہ سیف آدھاپاگل ہونے کے باوجود ننگا ہونے کو بہت بری اور خراب چیز سمجھتا ہے۔

”اس کے بعد ہندو تمہارے تیل ملیںگے۔“

”کیوں، تیل کیوں ملیںگے؟“

”تاکہ جب تمہیں چھڑی سے ماریں تو تمہاری کھال نکل جائے۔ اس کے بعد جلتی سلاخوں سے تمہیں داغیں گے....“

”نہیں“ اسے یقین نہیں ہوا۔

رات کے وقت لڑکے اسے جو ڈراؤنے اور پر تشدد قصے سنایا کرتے تھے ان سے وہ بہت زیادہ ڈر گیا تھا۔ کبھی کبھی مجھ سے الٹی سیدھی باتیں کیا کرتا تھا۔ میں جھنجھلاتا تھا اور اسے چپ کرا دیتا تھا لیکن اس کا  تجسس ختم نہیں ہو پاتا  تھا ۔ ایک دن کہنے لگا۔

”بڑے بھائی پاکستان میں بھی مٹی ہوتی ہے کیا؟“

”کیوں، وہاں مٹی کیوں نہ ہو گی۔“

”سڑک ہے  سڑک نہیں ہے .... وہاں ٹیری لین ملتا ہے .... وہاں سستی ہے ....

”دیکھو یہ سب باتیں من گھڑنت ہیں .... تم الطاف وغیرہ کی باتوں پر کان نہ دیا کرو۔“ میں نے اسے سمجھایا۔

”بڑے بھائی کیا ہندو آنکھیں نکال لیتے ہیں....“

”بکواس ہے....یہ تم سے کس نے کہا؟“

”بچھن نے۔“

”غلط ہے۔“

”تو کھال بھی نہیں کھینچتے؟“

”اُف....فوہ....یہ تم نے کیا لگا رکھی ہے....“

وہ چپ ہو گیا لیکن اس کی آنکھوں میں سینکڑوں سوال تھے۔ میں باہر چلا گیا۔ وہ شافعہ سے اسی طرح کی باتیں کرنے لگا۔

کرفیولمبا ہوتا چلا گیا۔ رات کی گشت جاری رہی۔ ہماری گھر سے سیف ہی جاتا رہا۔ کچھ دنوں بعد ایک دن اچانک سوتے میں سیف چیخنے لگا تھا۔ ہم سب گھبرا گئے لیکن یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ سب اس ڈرائے جانے کی وجہ سے ہے۔ اباجان کو لڑکوں پر بہت غصہ آیا تھا اور انہوں نے محلے کے ایک دو بزرگ نما لوگوں سے کہا بھی، لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لڑکے اور وہ بھی محلے کے لڑکے کسی تفریح سے کیوں کر ہاتھ دھو  لیتے؟

بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے اس کا اندازہ مجھے اس وقت تک نہ تھا جب تک ایک دن سیف نے بڑی سنجیدگی سے مجھ سے پوچھا۔

”بڑے بھائی، میں ہندو ہو جاؤں ؟“

سوال سن کر میں سناٹے میں آ گیا، لیکن جلد ہی سمجھ گیا کہ یہ رات میں ڈراؤ نے قصے سنائے جانے کا نتیجہ ہے۔ مجھے غصہ آ گیا پھر سوچا پاگل پر غصہ کرنے سے اچھا ہے غصہ پی جاؤں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔

میں نے کہا، ”کیوں تم ہندو کیوں ہونا چاہتے ہو؟“

”اس کا مطلب ہے میں نہ بچ پاؤں گا۔“ میں نے کہا۔

”تو آپ بھی ہو جائیے....“ وہ بولا۔

”اور تمہارے چچااببار“ میں نے اپنے والد اور اس کے چچا کی بات کی۔

”نہیں.... انہیں....“وہ کچھ سوچنے لگا۔ اباجان کی سفید اور لمبی داڑھی میں وہ کہیں پھنس گیا ہو گا۔

”دیکھا یہ سب لڑکوں کی خرافات ہے جو تمہیں بہکاتے ہیں۔ یہ جو تمہیں بتاتے ہیں سب جھوٹ ہے۔ ارے مہیش کو نہیں جانتے؟ “

”وہ جوا سکوٹر پر آتے ہیں....“وہ خوش ہو گیا۔

”ہاں....ہاں وہی۔“

”وہ ہندو ہیں؟“

”ہاں ہندو ہیں“

میں نے کہا اور اس کے چہرے پر پہلے تو مایوسی کی ہلکی سی پرچھائیں ابھری پھر وہ خاموش ہو گیا۔

”یہ سب غنڈے بدمعاشوں کے کام ہیں.... نہ ہندو لڑتے ہیں اور نہ مسلمان....غنڈے لڑتے ہیں، سمجھے؟ “

فساد شیطان کی آنت کی طرح کھنچتا چلا گیا اور محلے میں لوگ تنگ آنے لگے.... یار شہر میں فساد کرنے والے ہندو اور مسلمان بدمعاشوں کو ملا بھی دیا جائے تو کتنے ہوں گے.... زیادہ سے زیادہ ایک ہزار، چلو دو ہزار مان لو تو بھائی دو ہزار آدمی لاکھوں لوگوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں اور ہم لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ یہ تو وہی ہوا کہ دس ہزار انگریز کروڑوں ہندوستانیوں پر حکومت کیا کرتے تھے اور سارا نظام ان کے تحت چلتا رہتا تھا اور پھر ان فسادات سے فائدہ کس کا ہے، فائدہ؟ اجی حاجی عبدالکریم کو فائدہ ہے جو چنگی کا الیکشن لڑے گا اور اسے مسلمان ووٹ ملیں گے۔ پنڈت جوگےشور کو ہے جنہیں ہندؤں کے ووٹ ملیں گے، اب ہم کیا ہیں؟ آپ ووٹر ہو، ہندو ووٹر، مسلمان ووٹر، ہریجن ووٹر، کایستھ ووٹر، سنی ووٹر، شیعہ ووٹر، یہی سب ہوتا رہے گا اس ملک میں؟ ہاں کیوں نہیں؟ جہاں لوگ جاہل ہیں جہاں کرایے کے قاتل مل جاتے ہیں، جہاں سیاسی رہنما اپنی گددیوں کے لیے فسادات کراتے ہیں وہاں اور کیا ہو سکتا ہے؟ یار کیا ہم لوگوں کو پڑھا نہیں سکتے؟ سمجھا نہیں سکتے؟ ہاہاہاہا تم کون ہوتے ہو پڑھانے والے، حکومت پڑھائے گی، اگر چاہے گی تو ،حکومت نہ چاہے تو اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا؟ ہاں.... انگریزوں نے ہمیں یہی سکھایا ہے....ہم اس کے عادی ہیں.... چلو چھوڑو تو فسادات ہوتے رہیں گے؟ ہاں، ہوتے رہیں گے؟ مان لو اس ملک کے سارے مسلمان ہندو ہو جائیں؟ لاحول ولا قوة یہ کیا کہہ رہے ہو۔ اچھا مان لو اس ملک کے سارے ہندو مسلمان ہو جائیں؟ سبحان اللہ. . .واہ واہ کیا بات کہی ہے....توکیا فسادات رک جائیں گے؟ یہ تو سوچنے کی بات ہے.... پاکستان میں شیعہ سنی ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں.... بہار میں برہمن ہریجن کے سائے سے بچتے ہیں....تو کیا۔ یار آدمی یا کہو انسان سالہ ہے ہی ایسا کہ جو لڑتے ہی رہنا چاہتا ہے؟ ویسے دیکھو تو جمن اور میکو میں بڑی دوستی ہے۔ تو یار کیوں نہ ہم میکو اور جمن بن جائیں....واہ کیا بات کہہ دی، مطلب.... مطلب.... مطلب....

میں صبح صبح ریڈیو کے کان امیٹھ رہا تھا شافعہ جھاڑو دے رہی تھی کہ راجا کا چھوٹا بھائی اکرم بھاگتا ہوا آیا اور پھولتی ہوئی سانس کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا-

”سیف کو پی اے سی والے مار رہے ہیں۔“

”کیا؟ کیا کہہ رہے ہو؟“

”سیف کو پی اے سی والے مار رہے ہیں۔“ انہوں نے ٹھہر کر بولا۔

”کیوں مار رہے ہیں؟ کیا بات ہے؟ “

”پتہ نہیں.... نکڑ پہ....“

”وہیں جہاں پی اے سی کی چوکی ہے؟“

”ہاں وہیں۔“

”لیکن کیوں....“مجھے معلوم تھا کہ آٹھ بجے سے دس بجے تک کرفیو کھلنے لگا ہے اور سیف کو آٹھ بجے کے قریب اماں نے دودھ لینے بھیجا تھا۔ سیف جیسے پگلے تک کو معلوم تھا کہ اسے جلد از جلد واپس آنا ہے اور اب دو دس بجے گئے تھے۔

”چلو میں چلتا ہوں“ ریڈیو سے آتی بے ڈھنگی آواز کی فکر کیے بغیر میں تیزی سے باہر نکلا۔ پاگل کو کیوں مار رہے ہیں پی اے سی والے، اس نے کون سا ایسا جرم کیا ہے؟ وہ کر ہی کیا سکتا ہے؟ خود ہی اتنا خوف زدہ رہتا ہے اسے مارنے کی کیا ضرورت ہے....پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ پیسہ، ارے اسے تو اماں نے دو روپے دیے تھے۔ دو روپے کے لیے پی اے سی والے اسے کیوں ماریں گے؟

نکڑ پر مین سڑک کے برابر کوٹھوں پر محلے کے کچھ لوگ جمع تھے۔ سیف پی اے سی والوں کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے سامنے پی اے سی کے جوان تھے۔ سیف زور زور سے چیخ رہا تھا۔

”مجھے تم لوگوں نے کیوں مارا....میں ہندو ہوں....ہندو ہوں....“

میں آگے بڑھا۔ مجھے دیکھنے کے بعد بھی سیف رکا نہیں وہ کہتا رہا۔

” ہاں، ہاں میں ہندو ہوں....“وہ ڈگمگا رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں کے کونے سے خون کی ایک بوند نکل کر ٹھوڑھی پر ٹھہر گئی تھی۔

”تم نے مجھے مارا کیسے میں ہندو....“

”سیف....یہ کیا ہو رہا ہے....گھر چلو “

”میں....میں ہندو ہوں۔“

مجھے بڑی حیرت ہوئی.... ا رے کیا یہ وہی سیف ہے جو تھا. . .اس کی تو کایا پلٹ گئی ہے۔ یہ اسے ہو کیا گیا۔

”سیف ہوش میں آو۔“ میں نے اسے زور سے ڈانٹا۔

محلے کے دوسرے لوگو پتہ نہیں کس پر اندر ہی اندر دورسے ہنس رہے تھے۔ مجھے غصہ آیا۔ سالے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ پاگل ہے۔

”یہ آپ کا کون ہے؟“ ایک پی اے سی والے نے مجھ سے پوچھا۔

”میرا بھائی ہے.... تھوڑی مینٹل پرابلم ہے اسے ۔“

”تو اسے گھر لے جاؤ ۔“ ایک سپاہی بولا۔

”ہمیں پاگل بنا دیا۔“ دوسرے نے کہا۔

”چلو.... سیف گھر چلو۔ کرفیو لگ گیا ہے.... کرفیو....“

”نہیں جاؤں گا....میں ہندو ہوں.... ہندو....مجھے....مجھے....“

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا....“مارا....مجھے مارا....مجھے مارا....میں ہندو ہوں....میں ....

سیف دھڑام سے زمین پر گرا.... شائد بے ہو ش ہو گیا تھا....اب اسے اٹھا کر لے جانا آسان تھا۔

٭٭٭

مصنف:اصغر وجاحت

ہندی سے اردو ترجمہ:  محمد نہال افروز

ریسرچ اسکالر

مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی. حیدرآباد

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024