میمونہ عباس خان

میمونہ عباس خان

Mar 12, 2018

دیدبان شمارہ۔ ۷

میمونہ عباس خان کی نظمیں

1.

  چلتی پھرتی دیواریں۔ 

کون ہے وہ؟

 کچھ نہیں جانتے

دیکھ سکتے نہیں

دنیا کی دیواروں میں

چُنے ہوئے پتھر!

 ۔کون میرے خوابوں میں

آسمانوں سے اترتا ہے

جادو زدہ لوگوں کو

دیواروں سے نکال کر

زندہ دلوں کی بستیاں آباد کرناچاہتاہے

مگر یہ لوگ کیسے ہیں

بضد ہیں دلوں تک جاتے رستے بند رکھنے پر

آنکھوں،زبانوں اور دماغوں کو

دیواروں میں قید رکھنے پر مُصر ہیں

 میں حیران ہوں

کہ دیواریں بھی چلتی ہیں

کچلتی جاتی ہیں

رعونت سے

سبھی معصوم جذبوں کو

کتابوں سے امڈتی روشنی کو! 

۔دلوں میں نفرتیں بھر کر

  اٹھا کر سر، یہ چلتے ہیں

  رعونت سے

سجا کر اپنے ماتھے پر

نشاں سجدوں کے

سب سے فخریہ کہتے ہیں

ہم ہی متقی ہیں اور زاہد ہیں

مگر ان کی قناعت، گریہ زاری، زہد وتقویٰ

 دکھاوا ہے،بناوٹ اور سجاوٹ ہے

یہ جس کے نام پر دھوکے بانٹتے پھرتےہیں

مسجدوں اور بازاروں میں

اسے سجدوں سے کیا مطلب؟

  اُسے تو دل بسانے ہیں

اور اس جادو زدہ بستی کو جنت میںبدلنا ہے

سحر ہونے لگی ہے


میمونہ عباس خان

-------------------


................................2.

 جُھکیپلکیں گریزاں تھیں کبھی اُٹھنے سے

اباُٹھنے لگی ہیں

رنگیہیں بھیڑیوں کی خون سے آنکھیں

  ہَوَسجن میں تھرکتی ہے

 سلگتیاُن نگاہوں کی تپش اب بھی جلاتی ہے

کہیںآنچل کا پہرہ اور کہیں بے نام ڈھالیں ہیں

سمٹتاہے وجود اب بھی

نگلتیبھیڑ میں کھو جانے کا ڈر اب بھی زندہ ہے

مگرجینے کی خواہش جاگ اٹھی ہے

ڈرےسہمے ہوئے خوابوں کوجینے کا اشارہ مل چکا ہے/

کئیصدیوں سے کالی کوٹھڑی میں قید سوچوں پر پڑے تالے ابھی

کھلنےلگے ہیں/

زباں

بندی کے سب احکام باطل ہو چکے ہیں


اورزنگ آلود ہوتی

  دھیرےدھیرے ٹوٹتی سب ہمتیں جڑنے لگی ہیں

 روشنیکا کوئی دھارا بہہ رہا ہے

....

موت

کس نے بانٹی ہے


میمونہعباس خان

-----------------------3.

رات کے اندھیرے میں

آجپھر دبے پاؤں

سرسراتیسرگوشی

پَھناٹھا کے چلتی ہے

وقت،ریت کی مانند

ہاتھسے پھسلتا ہے.

نیندمجھ سے روٹھی ہے

بھوکرقص کرتی ہے

پیاسچبھنے لگتی ہے

سانسکیوں اٹکتی ہے؟

جھانکومیری آنکھوں میں

عکسدیکھ لو اپنا

اورمجھے یہ بتلا دو

کیاتمہیں کھٹکتا ہے؟

کیوںگریزاں ہو مجھ سے؟

کیامیں بوجھ لگتی ہوں؟ 

۔

کیوں

مچل سی جاتی ہو


ہاتھبھی بڑھاتی ہو

پھرپرے کھسکتی ہو

ہاتھکھول دو میرے

بھینچلو نا سینے میں

!

گال

چھونے دو اپنے


گرنہیں رہی کل میں

لمستو رہے گا نا!

 ۔

یہ

صدائیں کیسی ہیں


جنکی گونج سے میرے

کانسنسناتے ہیں

کسکی سسکیاں ہیں یہ؟

زندگیکی؟ ..... یا تم ہو؟

 موتتو نہیں نا یہ؟

موتگر نہیں ہے یہ

آہٹیںہیں پھرکس کی؟

کیوںگھٹن کا پہرہ ہے؟

کیامجھے جنم دے کر

تمنے موت بانٹی ہے؟

------------

 

دیدبان شمارہ۔ ۷

میمونہ عباس خان کی نظمیں

1.

  چلتی پھرتی دیواریں۔ 

کون ہے وہ؟

 کچھ نہیں جانتے

دیکھ سکتے نہیں

دنیا کی دیواروں میں

چُنے ہوئے پتھر!

 ۔کون میرے خوابوں میں

آسمانوں سے اترتا ہے

جادو زدہ لوگوں کو

دیواروں سے نکال کر

زندہ دلوں کی بستیاں آباد کرناچاہتاہے

مگر یہ لوگ کیسے ہیں

بضد ہیں دلوں تک جاتے رستے بند رکھنے پر

آنکھوں،زبانوں اور دماغوں کو

دیواروں میں قید رکھنے پر مُصر ہیں

 میں حیران ہوں

کہ دیواریں بھی چلتی ہیں

کچلتی جاتی ہیں

رعونت سے

سبھی معصوم جذبوں کو

کتابوں سے امڈتی روشنی کو! 

۔دلوں میں نفرتیں بھر کر

  اٹھا کر سر، یہ چلتے ہیں

  رعونت سے

سجا کر اپنے ماتھے پر

نشاں سجدوں کے

سب سے فخریہ کہتے ہیں

ہم ہی متقی ہیں اور زاہد ہیں

مگر ان کی قناعت، گریہ زاری، زہد وتقویٰ

 دکھاوا ہے،بناوٹ اور سجاوٹ ہے

یہ جس کے نام پر دھوکے بانٹتے پھرتےہیں

مسجدوں اور بازاروں میں

اسے سجدوں سے کیا مطلب؟

  اُسے تو دل بسانے ہیں

اور اس جادو زدہ بستی کو جنت میںبدلنا ہے

سحر ہونے لگی ہے


میمونہ عباس خان

-------------------


................................2.

 جُھکیپلکیں گریزاں تھیں کبھی اُٹھنے سے

اباُٹھنے لگی ہیں

رنگیہیں بھیڑیوں کی خون سے آنکھیں

  ہَوَسجن میں تھرکتی ہے

 سلگتیاُن نگاہوں کی تپش اب بھی جلاتی ہے

کہیںآنچل کا پہرہ اور کہیں بے نام ڈھالیں ہیں

سمٹتاہے وجود اب بھی

نگلتیبھیڑ میں کھو جانے کا ڈر اب بھی زندہ ہے

مگرجینے کی خواہش جاگ اٹھی ہے

ڈرےسہمے ہوئے خوابوں کوجینے کا اشارہ مل چکا ہے/

کئیصدیوں سے کالی کوٹھڑی میں قید سوچوں پر پڑے تالے ابھی

کھلنےلگے ہیں/

زباں

بندی کے سب احکام باطل ہو چکے ہیں


اورزنگ آلود ہوتی

  دھیرےدھیرے ٹوٹتی سب ہمتیں جڑنے لگی ہیں

 روشنیکا کوئی دھارا بہہ رہا ہے

....

موت

کس نے بانٹی ہے


میمونہعباس خان

-----------------------3.

رات کے اندھیرے میں

آجپھر دبے پاؤں

سرسراتیسرگوشی

پَھناٹھا کے چلتی ہے

وقت،ریت کی مانند

ہاتھسے پھسلتا ہے.

نیندمجھ سے روٹھی ہے

بھوکرقص کرتی ہے

پیاسچبھنے لگتی ہے

سانسکیوں اٹکتی ہے؟

جھانکومیری آنکھوں میں

عکسدیکھ لو اپنا

اورمجھے یہ بتلا دو

کیاتمہیں کھٹکتا ہے؟

کیوںگریزاں ہو مجھ سے؟

کیامیں بوجھ لگتی ہوں؟ 

۔

کیوں

مچل سی جاتی ہو


ہاتھبھی بڑھاتی ہو

پھرپرے کھسکتی ہو

ہاتھکھول دو میرے

بھینچلو نا سینے میں

!

گال

چھونے دو اپنے


گرنہیں رہی کل میں

لمستو رہے گا نا!

 ۔

یہ

صدائیں کیسی ہیں


جنکی گونج سے میرے

کانسنسناتے ہیں

کسکی سسکیاں ہیں یہ؟

زندگیکی؟ ..... یا تم ہو؟

 موتتو نہیں نا یہ؟

موتگر نہیں ہے یہ

آہٹیںہیں پھرکس کی؟

کیوںگھٹن کا پہرہ ہے؟

کیامجھے جنم دے کر

تمنے موت بانٹی ہے؟

------------

 

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024