منیر انور کی مزاحمتی غزلیں
منیر انور کی مزاحمتی غزلیں
Feb 6, 2019
مزاحمتی غزلیں
منیر انور کی مزاحمتی غزلیں
پھانکتے خاک چلے آئے ہیں بازاروں سے
کچھ نہیں چاہیے بستی کے دکاں داروں سے
اب تو بچوں کے پٹاخوں سے بھی ڈر جاتے ہیں
کھیلنے والے دہکتے ہوئے انگاروں سے
آپ کے شہر میں کیا بیت گئی ہے ان پر
پوچھیے خون میں لتھڑے ہوئے غم خواروں سے
گالیاں دیتے ہوئے شیخ نے ارشاد کیا
ہم تعلق ہی نہیں رکھتے گنہ گاروں سے
پھر وہی طعن، وہی تلخ نوائی ہو گی
اور کیا پائیں گے خود ساختہ دلداروں سے
شرم آتی ہے اگر اہل قلم بھی چاہیں
اپنی تصدیق، کلیساؤں سے، درباروں سے
کتنے سادہ ہیں مرے لوگ کہ اب تک انور
خیر کی رکھتے ہیں امید ستم گاروں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر انور
کبھی کبھی تو ان کو یوں بھی حوصلہ دیا گیا
کہ ان کے راستے سے آئینہ ہٹا دیا گیا
حضور کی رفو گری سے اختلاف تو نہیں
مگر یہ کیا کہ درد اور بھی بڑھا دیا گیا
یہ تیرگی ہمیں کبھی پسند تو نہ تھی مگر
کسی کے احترام میں دیا بجھا دیا گیا
مرا بیان منصفوں کی میز تک گیا مگر
پڑھے سنے بغیر فیصلہ سنا دیا گیا
کسی بڑے کا نام آ گیا تھا اتفاق سے
معاملہ جو زیرِ بحث تھا دبا دیا گیا
مری حیاتِ عشق پہ کتاب چھاپتے ہوئے
جو میرے حق میں اقتباس تھا اڑا دیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیرانور
گلی گلی ہیں بھیڑیے محافظوں کے روپ میں
کثافتوں کا راج ہے نفاستوں کے روپ میں
ہم اہل شوق زخم چاٹتے رواں دواں رہے
سڑک پہ خار تھے سجے ہوئے گلوں کے روپ میں
حضور وقت مل سکے تو ایک بار دیکھ لیں
یہ سائلوں کے مسئلے ہیں فائلوں کے روپ میں
کہا گیا تھا منزلِ مراد پائیں گے مگر
ہمیں جو راہزن ملے ہیں رہبروں کے روپ میں
اب اپنے خون پر بھی اعتماد کچھ محال ہے
سفیدیاں چھپی ہوئی ہیں سرخیوں کے روپ میں
بڑے قلم فروش لوگ تھے جنہوں نے آخرش
ہمیں تباہ کر دیا ہے عالموں کے روپ میں
ابھی سے کیوں گمانِ ترکِ عاشقی ہوا تمہیں
ابھی تو ناچتا ہے خون، دھڑکنوں کے روپ میں
۔۔۔۔
منیرانور
منیر انور کی مزاحمتی غزلیں
پھانکتے خاک چلے آئے ہیں بازاروں سے
کچھ نہیں چاہیے بستی کے دکاں داروں سے
اب تو بچوں کے پٹاخوں سے بھی ڈر جاتے ہیں
کھیلنے والے دہکتے ہوئے انگاروں سے
آپ کے شہر میں کیا بیت گئی ہے ان پر
پوچھیے خون میں لتھڑے ہوئے غم خواروں سے
گالیاں دیتے ہوئے شیخ نے ارشاد کیا
ہم تعلق ہی نہیں رکھتے گنہ گاروں سے
پھر وہی طعن، وہی تلخ نوائی ہو گی
اور کیا پائیں گے خود ساختہ دلداروں سے
شرم آتی ہے اگر اہل قلم بھی چاہیں
اپنی تصدیق، کلیساؤں سے، درباروں سے
کتنے سادہ ہیں مرے لوگ کہ اب تک انور
خیر کی رکھتے ہیں امید ستم گاروں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔
منیر انور
کبھی کبھی تو ان کو یوں بھی حوصلہ دیا گیا
کہ ان کے راستے سے آئینہ ہٹا دیا گیا
حضور کی رفو گری سے اختلاف تو نہیں
مگر یہ کیا کہ درد اور بھی بڑھا دیا گیا
یہ تیرگی ہمیں کبھی پسند تو نہ تھی مگر
کسی کے احترام میں دیا بجھا دیا گیا
مرا بیان منصفوں کی میز تک گیا مگر
پڑھے سنے بغیر فیصلہ سنا دیا گیا
کسی بڑے کا نام آ گیا تھا اتفاق سے
معاملہ جو زیرِ بحث تھا دبا دیا گیا
مری حیاتِ عشق پہ کتاب چھاپتے ہوئے
جو میرے حق میں اقتباس تھا اڑا دیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیرانور
گلی گلی ہیں بھیڑیے محافظوں کے روپ میں
کثافتوں کا راج ہے نفاستوں کے روپ میں
ہم اہل شوق زخم چاٹتے رواں دواں رہے
سڑک پہ خار تھے سجے ہوئے گلوں کے روپ میں
حضور وقت مل سکے تو ایک بار دیکھ لیں
یہ سائلوں کے مسئلے ہیں فائلوں کے روپ میں
کہا گیا تھا منزلِ مراد پائیں گے مگر
ہمیں جو راہزن ملے ہیں رہبروں کے روپ میں
اب اپنے خون پر بھی اعتماد کچھ محال ہے
سفیدیاں چھپی ہوئی ہیں سرخیوں کے روپ میں
بڑے قلم فروش لوگ تھے جنہوں نے آخرش
ہمیں تباہ کر دیا ہے عالموں کے روپ میں
ابھی سے کیوں گمانِ ترکِ عاشقی ہوا تمہیں
ابھی تو ناچتا ہے خون، دھڑکنوں کے روپ میں
۔۔۔۔
منیرانور