مثلث
مثلث
Mar 15, 2018
بینر کے مصور اقبال حسین
دیدبان شمارہ ۔ ۷
مثلث
سیمیں درانی
دسمبر کی سرد ٹھٹھرتی رات اور سناٹا، سسٹر انجیلا نے چرچ کے دروازے پہ دستک کی آواز کو اپنا وہم سمجھ کے جھٹکنا چاہا مگر، ایک دم چونکی، ٹھٹھک کر رہ گئی۔ کسی نومولود کے رونے کی آواز سرد ہواہوں کا سینہ چیر کر اس کی سماعت پہ دستک دے رہی تھی۔ اس نے برتن سمیٹنا چھوڑ کر اور پلو سے ہاتھ صاف کرتے باہرجھانکا۔ قدم کہ وہیں جم کر رہ گئے۔ ایک نومولود بچہ کلیسا کی ٹھنڈی یخ محرابوں کے ساتھ برامدے میں پڑا کلبلا رہا تھا.سسٹر نے ایک ماں کی سرعت سے بچہ اپنےسینے سے لپٹایا اور دھڑکتے دل کے ساتھ انگیٹھی کی جانب
پاوں گھسیٹتی بھاگی. حدت پا کر نومولود کا رونا کچھ کم ہوا تو تو بچے نے بے چینی سے اپنے ہاتھوں کو چوس کر اپنی بھوک کا اظہار کیا. سسٹر انجیلا نے چمچ سے دودھ پلا کر اس کو سلانے کی خاطر جب لٹایا تو اس کو اس بدبو کا احساس ہوا جس کو وہ اس تمام بکھیڑے میں محسوس تو کر رہی تھی مگر توجہ دے نہ پا رہی تھی. سسٹر نے جب اس کا لنگوٹ کھولا تو چونک اٹھی. ننھی جان نے لمس کو محسوس کر کے جب کلکاری ماری توانجیلا کو اس پہ بے بہا پیار آیا۔
اس کو یونھی کمرے میں چھوڑ کے باھر لپکی۔ آیک ساعت کو رکی،راھب ڈیوڈ تیزی سے فادر میتھیو کے کمرے سے نکل رھا تھا۔ انجیلا کو دیکھ کر اس نے اپنا لباس سمیٹا اور راہداری کی جانب بھاگا۔ سسٹر انجیلا نے دیکھی اندیکھی کرتے ہوئے سٹور روم کی راہ لی جہاں یتیم خانے کے بچوں کی خاطر اکٹھا کردہ سامان پڑا تھا۔ اس نے ایک ثانیے کو سوچا۔ اور فراک اکٹھے کرنے لگی۔ ادھر فادر میتھیو کی نیم برہنگی دیکھ کے یسوع کی صلیب کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ کلیسا کی درو دیوار پہ کہر ا جم رہا تھا۔رات کے پچھلے پہر جب فادر زنانہ ملبوس میں جوان مانکس کے ساتھ دارو کے نشے میں غل غپاڑہ کرتا تو سسٹر انجیلا صبح کی دعا میں سب کو بتاتی کہ فادر تمام رات 'تازیانہ زنی' کے باعث نڈھال اور خدائے بزرگ و برتر سے ھمارے گناہ بخشوانے کی خاص عبادت میں مشغول ہیں.
سسٹر انجیلا نے فادر کو اس ننھے فرشتے کو اپنانے کی فیصلے سے آگاہ کیا تو فادر نے ناک بھوں چڑھائی، اور ابھی وہ کلیسا، اور کتاب مقدس کے حوالے سے کچھ بولنے ہی والے تھے کہ بوڑھی سسٹر نے مسکرا کے کہا، فادر، رات بھر کی تازیانہ زنی سے آپ نڈھال ہیں اور اپ کو آرام کی ضرورت ہے'. اب سسٹر انجیلا ایک پہاڑ کی مانند دنیا اور میری کی درمیان کھڑی تھی. پہاڑ یکجا مگر اپنی اپنی ذات میں یکتا ہوتے ہیں. پہاڑ ساکت اور خاموشی سے آسمانی اور زمینی تغیر کی تاب لاتے رہتے ہیں اور کبھی گھس کے، کبھی ٹوٹ کے اور کبھی سرک کے اپنے جذبات کا بے زبانی سے اظہار کر دیتے ہیں، مگر، انسان ، اپنے ہر جذبے کو شکر اور نا شکری کی شکل میں آواز دے کے، اپنی برتری ثابت کرتے رہتے ہیں. جب پہاڑ کا دل بھر جاہے تو وہ آتش فشاں کی صورت، خون کے آنسو روتا ہے. اوراس کی راکھ، ہر شے کو بنجر کے کے جلا ڈالتی ہے. مگر،،،، یہی راکھ، سالوں بعد، اسی زمین کے زریاب ہونے میں بھی مدد دیتی ہے. اسی طرح اگر انسان اپنے آنسو اپنے دل کی زمیں میں ڈبوتے چاہیں تو ، دل کی فصل دو جہاں میں کھاتے ہیں. یوں پہاڑ جذبے اور ممتا بھرے دل کیساتھ سسٹر انجیلا نے میری کو سمیٹ لیا .
وقت گزرتا رہا، سسٹر انجیلا فادر کی تاریک راتوں پہ مریم سا تقدس لیے پردے ڈالتی رہی انسانوں کو حیوانوں سی بدتر کیفیات میں دیکھ کے مسیح سوچتے، 'اس صلیب کی مکتی میں ہی شآنتی ہے''.
وقت کا دھآرا نہ تو فادر کے ایمان کو مستقیم کر سکا اور نہ ہی سسٹر کی نیکدلی پہ ضرب ڈال سکا۔ میری نے بلوغت میں قدم رکھا تو اس کی سانولی رنگت پہ اس کی شھد آنکھیں، اسکی پاکیزگی کی گواہی دینے کو جھپکتے نہ تھکتیں. میری اپنے وجود و خدوخال سے بخبر یسوع اور مریم مقدس کے سائے میں پروان چڑھی، ایک بار اس کا گزر اس ممنوعه گلی سے ہوا جہاں پہ نو آورد راہباہیں کمرے ملنے سے پہلے رہا کرتیں، ایک جھروکے سے اندر جھانکا تو راہبآہیں سر تا پا برہنہ باتوں میں مصروف نہا رہی تھیں انہیں دیکھ کے میری ششدر رہ گئی اور بت بنے تکتی رہی. اس کا دھیان راہب ڈیود کی کھنکھار سے ٹوٹا جو صبح ہی دور پار کے کسی قصبے سے جوان لڑکوں کو عیسائیت کی تعلیم و تدریس اور کلیسا کے ساتھ رجسٹرِشن کیلیے لایا تھا.
میری ایک انجان خوف میں گھری ، دھک دھک قدم اٹھاتے بڑھ رہی تھی کہ اس کی ٹکر جبرائل سے ہوئی .دونوں بری طرح سٹپٹاۓ. کیوپڈ جب تیرزنی کو نکلتا ہے تو اس کو مندر و کلیسا کی پرواہ نہیں ہوتی ، کسی ادھوری دعا کی تکمیل کی خاطر کیوپڈ تیر چلا کے چلتا بنا اور جبرائیل بری طرح گھائل ہوگیا.
ادھر میری کو ایک عجیب دماغی الجھن نے آ گھیرا اور وہ اکثر اوقات سوچوں میں کھوئی خاموش سی رہنے لگی. بار بار غسل خانے جا کر خود کو ٹٹولتی اور پھر اپنے ہی وجود سے خوفزدہ ھو کر واپس لوٹ آتی۔
سسٹر انجیلا نے میری میں آنے والی تبدیلی محسوس کر کے کریدا تو میری نے جھجھکتے ہو ۓ تمام ماجرا بیان کیا اور سسٹر انجیلا کے دامن میں سمٹ کے بلبلا کے رو پڑی. سسٹر انجیلا شروع دن سے ہی اس لمحے کو سمیٹنے کو تیار بیٹھی تھی۔ادھورے پن کے ادراک کا ایک مکمل لمحہ، صدیوں پہ محِط ھوتا ھے اور اس کا بوجھ صرف اور صرف ایک تابوت ھی سہ پاتا ھے۔ سسٹر انجیلا نے بہت پیار سے میری کو گلے سے لگایا اور اپنے گلے میں پہنی صلیب کی طرف اشارہ کرکے بولی ".سب مثلث ہے. کوئی اور راستہ نہیں. ایک دوجے سے پیوستہ....دوج مل جاتی ہے. پر تیج کا ہونا اور سہنا ہی اصل کھیل ہے. اس کے لیے شکتی چاییے. خدا ئی شکتی. تجھے تخلیق کرکے خداوند نے تجھے صبر کا حکم دیا. تجھ جیسی مخلوق یا پیدا ہوتی ہیں، یا خود بن جاتی ہیں. یا تیسری مخلوق کر دیے جاتے ہیں. خداوند ہر ایک کو رہنا ہے . اصل امتحان تو ان دو کا ہے جو مکمل ہیں. مگر ادھوری زندگیاں بتاتے ہیں، اپنی اپنی تکمیل کی لیے دوسروں کے مرہون منت. ایک نہ ملے تو دوجا ادھورا. دوج کی کھوج میں اکائی کو کھونے والے. تیرا تن تیسرا ہو کر بھی من کی الوہیت گا گواہ ہے. تو خوش نصیب ہے کہ تیرا انتخاب ہوا. '.
ادھر دور دراز کی قصبوں سے آئے ہوے نوجوان پادریوں کی تربیت کا آغاز ہوا تو فادر ڈیوڈ کی نظریں ایک گھاک شکاری کی مانند تمام نوآورد پادروں کا جایزہ لیتیں. دوسری جانب سسٹر انجیلا نے جبریل کی میری کی طرف اٹھتی دیوانہ وار نگاؤں کو بھانپ لیا تھا. اور بجائے سرزنش کے اس نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان دونوں کو قریب رهنے کا موقع فراہم کرنا شروع کر دیا۔ بوڑھا فادر میتھیو جوان پادریوں کے ایک گروہ کو لیکر تبلیغ پہ جا نکلا جب کہ چنیدہ کو فادر ڈیوڈ نے روک لیا جن میں جبرئیل بھی شامل تھا.
اب میری نے بھی جبریل کی خاموش محبت کو محسوس کرکے تنہائی میں مسکرانا شروع کردیا. جبکہ دوسری طرف فادر کے جبریل کی طرف بڑھتے التفات دیکھ کر سسٹر انجیلا بہت بے چین ہوگئی. ایک رات فادر نے اپنی سرمستی میں دھن جبریل کو رات کی پچھلے پہر بلا بھیجا. جبریل نیند سے گھائل جب فادر کی کمرے میں داخل ہوا تو فادر کو زنانہ لباس میں دیکھ کر بھونچکا رھ گیا۔ فادراس کو سامنے پا کر اس سے لپٹ گیا اور جبرئیل کو بے لباس کرنے کی کوشش شروع کردی. جبریل سٹپٹا گیا اور ایک دھکے سے فادر کو پیچھے دھکیلا اور باہر بھاگا.
فادر ڈیوڈ کو آج سے پہلے اتنی ہتک کا سامنا نھیں کرنا پڑا تھا. تمام رات سو نہ پایا اور صبح ہوتے ہی حکم جاری کیا. ''یہ زلزلے کی جھٹکے، یہ طوفان، یہ بڑھتی ہوئی قدرتی آفات، سب، ہمارے گناہوں کی سزا ہیں. خداوند خدا کو پاک اور ہر گناہ سے آزاد رہبر چائیں. نئے انے والے تمام راہبؤں کی ''رجولیت زائل کرنے'' کا عندیہ ملا ہے. فادر چونکہ اپنی مرضی سے خود اس عمل سے گزر چکا تھا لہذا کسی کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملا..
جبریل شدید تکلیف سے دوچار تھا. میری نے اس کی تیمارداری شروع کردی. فادر کو یہ تمام صورتحال ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے سسٹر انجیلا سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا. سسٹر تمام صورتحال بھانپ چکی تھی، لہذا اس نے میری اور جبریل کو وہاں سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا. سسٹر انجیلا نے یسوع کے پیروں میں پڑے چندے کے ڈبے سے تمام رقم اکٹھی کی اور جبرئیل اور میری کو بھگا دیا.
دونوں ریلوے سٹیشن پہنچے اور جو بھی پہلی ٹرین ملی اس پر سوار ھوگئے.
دوسرے شہر پہنچ کے پہلے پہل ایک سستے ہوٹل میں قیام کیا اور پھر سستے مکان کی تلاش شروع کردی. میری کے لیے یہ تمام دنیا بالکل نئی تھی مگر جبریل کچھ جہاندیدہ تھا. وقتی طور پہ اندرون محلے میں ان کو ایک کمرہ مل گیا. مالک مکان ایک شریف اور دیندار گھرانہ تھا. جن کا جوان بیٹا کسی بڑی یونیورسٹی میں دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور ارد گرد اس گھرانے کی نیک نامی کے چرچے تھے. پہلے پہل تو پڑوس سے ان کو کھانا آجاتا تھا، مگر بھر ان جب علم ہوا کے وہ اہل مسیح ہیں تو ان سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی کی جانے لگی. اب ان کے مالک مکان طالب صاحب سے بھی تقاضہ کیا جانے لگا کہ نۓ کرایہ دروں کو محلے کو سے نکال کر اس کو پاک کیا جاۓ. اور طالب صاحب اثبات میں سر ہلا دیتے. دوسری جانب جبریل روز کام کی تلاش میں نکل جاتا اور میری گھر گھرہستی میں مشغول رہتی. ان کے پاس سسٹر انجیلا کی دی ہوئی رقم میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی تھی۔ .اہل محلہ نے کچھ عرصہ تو میری اور جبریل کی نا پاک موجودگی کو برداشت کیا پھر مسئلہ مسجد کے مولوی صاحب کی پاس لے گیے جن کو نصاری کی موجودگی کا پہلے سے علم تھا مگر وہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر وار کرنے کی قائل تھے. جب ان کو محسوس ہوا کہ اب ہی صحیح وقت تھا طالب صاحب اور ان کے اعلی دینی تعلیم حاصل کرتے بیٹے بلال کو گھیرنے کا، تو ان کو بلا بھیجا. بلال دسمبر کی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا اور اپنے نومولود بھائی موسی کے ساتھ وقت گزاری کرتا.
دونوں باپ بیٹا مسجد پہنچے تو وہاں پر باقی اہل محلہ بھی موجود تھے. تمام نے یک زبان ہو کر ان کو میری اور جبریل سے کمرہ خالی کروانے کا کہا. طالب صاحب حالات سمجھتے تھے انہوں نے یہ بول کر بات ختم کرنی چاہی کہ وہ میری اور جبریل کو دوسرا مکان دیکھنے کا بول چکے ہیں.کہ اچانک کوئی بول اٹھا 'جس دیوار کے پار پلید ہوں وہاں تو نماز بھی ممکن نہیں. استغفرللہ'.. بلال سب کچھ سن رہا تھا بولا 'مولوی صاحب اپ ان کو مسجد نبوی والا قصہ سنائیے نا. مولوی صاحب صرف حافظ قران تهے اور ستر دہائی سے صوم صلوۃ کے پابند. ایسی صورت میں ان کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی. وہ سٹپٹائے اور بولے سب معلوم ہے ہم کو. اس پر بلال بولا، بتائیے نا. جب ہمارے آقا نبی پاک دوسرے مذہب کے لوگوں کو قیام کیلیے مسجد نبوی پیش کر سکتے ہیں تو یہ تفریق کیسی؟ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد شریف کے علاوہ کوئی مخصوص مہمان خانہ موجود نہ تھا، ہر خاص و عام کو وہیں ٹھہرایا جاتا تھا.. اور تو اور ہمارے نبی پاک اپنے ایک غیر مسلم غلام کی عیادت کو خود تشریف لے گۓ...اسلم امن و سلامتی کا مذھب ہے . یہ دن کل کائنات کے حوالے سے ہے. ہم کون ہوتے ہیں اس کے ٹھیکیدار بننے والے"""". لا حول ولا قوۃ' کیسی باتیں کر رہے ہو بلال، یہ تو سراسر توہین رسالت ہنے. کہاں مسجد نبوی کہاں یہ منکرین. اب تمام مسجد میں شور بپا ہوگیا. مسجد کے باہر منچلوں کا ایک گروہ کھڑا سگریٹ نوشی کے ساتھ ساتھ موبائل پر برہنہ فلمیں دکھنے میں مصروف تھا. آواز سن کے چونکا اور مسجد کے اندر بھاگا. کیا ہوا، کیا ہوا. ؟؟؟ توہین رسالت۱. ناموس رسالت پہ حرف آ رہا ہے. ان منچلوں نے نہ کچھ سنا اور نہ ہی دیکھا، بلال اور طالب صاحب کو گھسٹتے باہر لے آئے اور مارنا شروع کردیا.آہستہ آہستہ تمام لوگ اس مذہبی ٹھیکیداری کا حصہ بنتے گئے. ان دونوں نے جب جان بچا کر اپنے گھر میں پناہ لی تو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا. کوئی خدائی خدمتگار کہیں سے پٹرول اٹھا لایا جسے چھڑک کر گھر کو آگ لگا دی گہی. گھر کو چاروں جانب سے گھیر لیا گیا. جبریل نے جب مجمعےکی آگ اور بھڑکتے شعلے دیکھے تو میری کا ہاتھ پکڑ کر پچھلے دروازے کی جانب دوڑ لگائی، مگر نومولود موسی کے رونے کی آواز نے قدم شل کردیئے. جلدی سے بیچ دروازہ کا قفل توڑا. چار سو اگ تھی. اور موسی اپنے جھولنے کی قریب ماں سے لپٹا بلک رہا تھا. ماں اس کو دھویں سی بچاتی ہوئی بیہوش تھی یا زندہ، یہ دیکھنے کی فرصت نہ تھی. میری نے موسی کو اپنی چادر میں چھپایا اور دونوں باہر کی جانب بھاگے۔
.بھاگتے بھاگتے دونوں کہاں پہنچے اور کس طرح ننھے موسی کو لے کر رات بتائی، کچھ معلوم نہیں. ہوش آ یا تو وہ ایک پارک کے کنارے کوڑھے میں جلتی آگ کے قریب بیٹھے تھے. دونوں نے موسی کو سمیٹا اور ایک نامعلوم منزل کی طرف قدم بڑھا ئے کہ آواز نے ان کے قدم روک لیے . ''الللہ جوڑی سلامت رکھے. ہاہے، کتنا پیارا کاکا ہے. اے بھائی اری باجی، اپنے منے کا صدقه دیتی جا. ایک بنا سنورا ہیجڑا ان کی رہ میں کھڑا ہو گیا، جبریل کو غصہ آگیا، مگر میری اس ہیجڑے کی بات سن کر ٹھٹھکی اور گلے سے سونے کی صلیب اتار کے اس تیسری مخلوق کی حوالے کردی جس کے ایک ہی جملے نے دو بکھرتی ہوئی لکیروں کو پل بھر میں مثلث کی شکل دے کر وہ قوت عطا کردی کہ جس کی تکمیل کیلیے دوئی کا عمل وجود میں آیا . اسی مقناطیسی طاقت کی زیر اثر میری جبریل کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور اگے بڑھ کر موسی کو جبریل کی گود میں ڈالتے ہوئے بولی. ''مبارک ہو، تم باپ بن گئے۔۔'''.
دیدبان شمارہ ۔ ۷
مثلث
سیمیں درانی
دسمبر کی سرد ٹھٹھرتی رات اور سناٹا، سسٹر انجیلا نے چرچ کے دروازے پہ دستک کی آواز کو اپنا وہم سمجھ کے جھٹکنا چاہا مگر، ایک دم چونکی، ٹھٹھک کر رہ گئی۔ کسی نومولود کے رونے کی آواز سرد ہواہوں کا سینہ چیر کر اس کی سماعت پہ دستک دے رہی تھی۔ اس نے برتن سمیٹنا چھوڑ کر اور پلو سے ہاتھ صاف کرتے باہرجھانکا۔ قدم کہ وہیں جم کر رہ گئے۔ ایک نومولود بچہ کلیسا کی ٹھنڈی یخ محرابوں کے ساتھ برامدے میں پڑا کلبلا رہا تھا.سسٹر نے ایک ماں کی سرعت سے بچہ اپنےسینے سے لپٹایا اور دھڑکتے دل کے ساتھ انگیٹھی کی جانب
پاوں گھسیٹتی بھاگی. حدت پا کر نومولود کا رونا کچھ کم ہوا تو تو بچے نے بے چینی سے اپنے ہاتھوں کو چوس کر اپنی بھوک کا اظہار کیا. سسٹر انجیلا نے چمچ سے دودھ پلا کر اس کو سلانے کی خاطر جب لٹایا تو اس کو اس بدبو کا احساس ہوا جس کو وہ اس تمام بکھیڑے میں محسوس تو کر رہی تھی مگر توجہ دے نہ پا رہی تھی. سسٹر نے جب اس کا لنگوٹ کھولا تو چونک اٹھی. ننھی جان نے لمس کو محسوس کر کے جب کلکاری ماری توانجیلا کو اس پہ بے بہا پیار آیا۔
اس کو یونھی کمرے میں چھوڑ کے باھر لپکی۔ آیک ساعت کو رکی،راھب ڈیوڈ تیزی سے فادر میتھیو کے کمرے سے نکل رھا تھا۔ انجیلا کو دیکھ کر اس نے اپنا لباس سمیٹا اور راہداری کی جانب بھاگا۔ سسٹر انجیلا نے دیکھی اندیکھی کرتے ہوئے سٹور روم کی راہ لی جہاں یتیم خانے کے بچوں کی خاطر اکٹھا کردہ سامان پڑا تھا۔ اس نے ایک ثانیے کو سوچا۔ اور فراک اکٹھے کرنے لگی۔ ادھر فادر میتھیو کی نیم برہنگی دیکھ کے یسوع کی صلیب کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ کلیسا کی درو دیوار پہ کہر ا جم رہا تھا۔رات کے پچھلے پہر جب فادر زنانہ ملبوس میں جوان مانکس کے ساتھ دارو کے نشے میں غل غپاڑہ کرتا تو سسٹر انجیلا صبح کی دعا میں سب کو بتاتی کہ فادر تمام رات 'تازیانہ زنی' کے باعث نڈھال اور خدائے بزرگ و برتر سے ھمارے گناہ بخشوانے کی خاص عبادت میں مشغول ہیں.
سسٹر انجیلا نے فادر کو اس ننھے فرشتے کو اپنانے کی فیصلے سے آگاہ کیا تو فادر نے ناک بھوں چڑھائی، اور ابھی وہ کلیسا، اور کتاب مقدس کے حوالے سے کچھ بولنے ہی والے تھے کہ بوڑھی سسٹر نے مسکرا کے کہا، فادر، رات بھر کی تازیانہ زنی سے آپ نڈھال ہیں اور اپ کو آرام کی ضرورت ہے'. اب سسٹر انجیلا ایک پہاڑ کی مانند دنیا اور میری کی درمیان کھڑی تھی. پہاڑ یکجا مگر اپنی اپنی ذات میں یکتا ہوتے ہیں. پہاڑ ساکت اور خاموشی سے آسمانی اور زمینی تغیر کی تاب لاتے رہتے ہیں اور کبھی گھس کے، کبھی ٹوٹ کے اور کبھی سرک کے اپنے جذبات کا بے زبانی سے اظہار کر دیتے ہیں، مگر، انسان ، اپنے ہر جذبے کو شکر اور نا شکری کی شکل میں آواز دے کے، اپنی برتری ثابت کرتے رہتے ہیں. جب پہاڑ کا دل بھر جاہے تو وہ آتش فشاں کی صورت، خون کے آنسو روتا ہے. اوراس کی راکھ، ہر شے کو بنجر کے کے جلا ڈالتی ہے. مگر،،،، یہی راکھ، سالوں بعد، اسی زمین کے زریاب ہونے میں بھی مدد دیتی ہے. اسی طرح اگر انسان اپنے آنسو اپنے دل کی زمیں میں ڈبوتے چاہیں تو ، دل کی فصل دو جہاں میں کھاتے ہیں. یوں پہاڑ جذبے اور ممتا بھرے دل کیساتھ سسٹر انجیلا نے میری کو سمیٹ لیا .
وقت گزرتا رہا، سسٹر انجیلا فادر کی تاریک راتوں پہ مریم سا تقدس لیے پردے ڈالتی رہی انسانوں کو حیوانوں سی بدتر کیفیات میں دیکھ کے مسیح سوچتے، 'اس صلیب کی مکتی میں ہی شآنتی ہے''.
وقت کا دھآرا نہ تو فادر کے ایمان کو مستقیم کر سکا اور نہ ہی سسٹر کی نیکدلی پہ ضرب ڈال سکا۔ میری نے بلوغت میں قدم رکھا تو اس کی سانولی رنگت پہ اس کی شھد آنکھیں، اسکی پاکیزگی کی گواہی دینے کو جھپکتے نہ تھکتیں. میری اپنے وجود و خدوخال سے بخبر یسوع اور مریم مقدس کے سائے میں پروان چڑھی، ایک بار اس کا گزر اس ممنوعه گلی سے ہوا جہاں پہ نو آورد راہباہیں کمرے ملنے سے پہلے رہا کرتیں، ایک جھروکے سے اندر جھانکا تو راہبآہیں سر تا پا برہنہ باتوں میں مصروف نہا رہی تھیں انہیں دیکھ کے میری ششدر رہ گئی اور بت بنے تکتی رہی. اس کا دھیان راہب ڈیود کی کھنکھار سے ٹوٹا جو صبح ہی دور پار کے کسی قصبے سے جوان لڑکوں کو عیسائیت کی تعلیم و تدریس اور کلیسا کے ساتھ رجسٹرِشن کیلیے لایا تھا.
میری ایک انجان خوف میں گھری ، دھک دھک قدم اٹھاتے بڑھ رہی تھی کہ اس کی ٹکر جبرائل سے ہوئی .دونوں بری طرح سٹپٹاۓ. کیوپڈ جب تیرزنی کو نکلتا ہے تو اس کو مندر و کلیسا کی پرواہ نہیں ہوتی ، کسی ادھوری دعا کی تکمیل کی خاطر کیوپڈ تیر چلا کے چلتا بنا اور جبرائیل بری طرح گھائل ہوگیا.
ادھر میری کو ایک عجیب دماغی الجھن نے آ گھیرا اور وہ اکثر اوقات سوچوں میں کھوئی خاموش سی رہنے لگی. بار بار غسل خانے جا کر خود کو ٹٹولتی اور پھر اپنے ہی وجود سے خوفزدہ ھو کر واپس لوٹ آتی۔
سسٹر انجیلا نے میری میں آنے والی تبدیلی محسوس کر کے کریدا تو میری نے جھجھکتے ہو ۓ تمام ماجرا بیان کیا اور سسٹر انجیلا کے دامن میں سمٹ کے بلبلا کے رو پڑی. سسٹر انجیلا شروع دن سے ہی اس لمحے کو سمیٹنے کو تیار بیٹھی تھی۔ادھورے پن کے ادراک کا ایک مکمل لمحہ، صدیوں پہ محِط ھوتا ھے اور اس کا بوجھ صرف اور صرف ایک تابوت ھی سہ پاتا ھے۔ سسٹر انجیلا نے بہت پیار سے میری کو گلے سے لگایا اور اپنے گلے میں پہنی صلیب کی طرف اشارہ کرکے بولی ".سب مثلث ہے. کوئی اور راستہ نہیں. ایک دوجے سے پیوستہ....دوج مل جاتی ہے. پر تیج کا ہونا اور سہنا ہی اصل کھیل ہے. اس کے لیے شکتی چاییے. خدا ئی شکتی. تجھے تخلیق کرکے خداوند نے تجھے صبر کا حکم دیا. تجھ جیسی مخلوق یا پیدا ہوتی ہیں، یا خود بن جاتی ہیں. یا تیسری مخلوق کر دیے جاتے ہیں. خداوند ہر ایک کو رہنا ہے . اصل امتحان تو ان دو کا ہے جو مکمل ہیں. مگر ادھوری زندگیاں بتاتے ہیں، اپنی اپنی تکمیل کی لیے دوسروں کے مرہون منت. ایک نہ ملے تو دوجا ادھورا. دوج کی کھوج میں اکائی کو کھونے والے. تیرا تن تیسرا ہو کر بھی من کی الوہیت گا گواہ ہے. تو خوش نصیب ہے کہ تیرا انتخاب ہوا. '.
ادھر دور دراز کی قصبوں سے آئے ہوے نوجوان پادریوں کی تربیت کا آغاز ہوا تو فادر ڈیوڈ کی نظریں ایک گھاک شکاری کی مانند تمام نوآورد پادروں کا جایزہ لیتیں. دوسری جانب سسٹر انجیلا نے جبریل کی میری کی طرف اٹھتی دیوانہ وار نگاؤں کو بھانپ لیا تھا. اور بجائے سرزنش کے اس نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان دونوں کو قریب رهنے کا موقع فراہم کرنا شروع کر دیا۔ بوڑھا فادر میتھیو جوان پادریوں کے ایک گروہ کو لیکر تبلیغ پہ جا نکلا جب کہ چنیدہ کو فادر ڈیوڈ نے روک لیا جن میں جبرئیل بھی شامل تھا.
اب میری نے بھی جبریل کی خاموش محبت کو محسوس کرکے تنہائی میں مسکرانا شروع کردیا. جبکہ دوسری طرف فادر کے جبریل کی طرف بڑھتے التفات دیکھ کر سسٹر انجیلا بہت بے چین ہوگئی. ایک رات فادر نے اپنی سرمستی میں دھن جبریل کو رات کی پچھلے پہر بلا بھیجا. جبریل نیند سے گھائل جب فادر کی کمرے میں داخل ہوا تو فادر کو زنانہ لباس میں دیکھ کر بھونچکا رھ گیا۔ فادراس کو سامنے پا کر اس سے لپٹ گیا اور جبرئیل کو بے لباس کرنے کی کوشش شروع کردی. جبریل سٹپٹا گیا اور ایک دھکے سے فادر کو پیچھے دھکیلا اور باہر بھاگا.
فادر ڈیوڈ کو آج سے پہلے اتنی ہتک کا سامنا نھیں کرنا پڑا تھا. تمام رات سو نہ پایا اور صبح ہوتے ہی حکم جاری کیا. ''یہ زلزلے کی جھٹکے، یہ طوفان، یہ بڑھتی ہوئی قدرتی آفات، سب، ہمارے گناہوں کی سزا ہیں. خداوند خدا کو پاک اور ہر گناہ سے آزاد رہبر چائیں. نئے انے والے تمام راہبؤں کی ''رجولیت زائل کرنے'' کا عندیہ ملا ہے. فادر چونکہ اپنی مرضی سے خود اس عمل سے گزر چکا تھا لہذا کسی کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملا..
جبریل شدید تکلیف سے دوچار تھا. میری نے اس کی تیمارداری شروع کردی. فادر کو یہ تمام صورتحال ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے سسٹر انجیلا سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا. سسٹر تمام صورتحال بھانپ چکی تھی، لہذا اس نے میری اور جبریل کو وہاں سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا. سسٹر انجیلا نے یسوع کے پیروں میں پڑے چندے کے ڈبے سے تمام رقم اکٹھی کی اور جبرئیل اور میری کو بھگا دیا.
دونوں ریلوے سٹیشن پہنچے اور جو بھی پہلی ٹرین ملی اس پر سوار ھوگئے.
دوسرے شہر پہنچ کے پہلے پہل ایک سستے ہوٹل میں قیام کیا اور پھر سستے مکان کی تلاش شروع کردی. میری کے لیے یہ تمام دنیا بالکل نئی تھی مگر جبریل کچھ جہاندیدہ تھا. وقتی طور پہ اندرون محلے میں ان کو ایک کمرہ مل گیا. مالک مکان ایک شریف اور دیندار گھرانہ تھا. جن کا جوان بیٹا کسی بڑی یونیورسٹی میں دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور ارد گرد اس گھرانے کی نیک نامی کے چرچے تھے. پہلے پہل تو پڑوس سے ان کو کھانا آجاتا تھا، مگر بھر ان جب علم ہوا کے وہ اہل مسیح ہیں تو ان سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی کی جانے لگی. اب ان کے مالک مکان طالب صاحب سے بھی تقاضہ کیا جانے لگا کہ نۓ کرایہ دروں کو محلے کو سے نکال کر اس کو پاک کیا جاۓ. اور طالب صاحب اثبات میں سر ہلا دیتے. دوسری جانب جبریل روز کام کی تلاش میں نکل جاتا اور میری گھر گھرہستی میں مشغول رہتی. ان کے پاس سسٹر انجیلا کی دی ہوئی رقم میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی تھی۔ .اہل محلہ نے کچھ عرصہ تو میری اور جبریل کی نا پاک موجودگی کو برداشت کیا پھر مسئلہ مسجد کے مولوی صاحب کی پاس لے گیے جن کو نصاری کی موجودگی کا پہلے سے علم تھا مگر وہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر وار کرنے کی قائل تھے. جب ان کو محسوس ہوا کہ اب ہی صحیح وقت تھا طالب صاحب اور ان کے اعلی دینی تعلیم حاصل کرتے بیٹے بلال کو گھیرنے کا، تو ان کو بلا بھیجا. بلال دسمبر کی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا اور اپنے نومولود بھائی موسی کے ساتھ وقت گزاری کرتا.
دونوں باپ بیٹا مسجد پہنچے تو وہاں پر باقی اہل محلہ بھی موجود تھے. تمام نے یک زبان ہو کر ان کو میری اور جبریل سے کمرہ خالی کروانے کا کہا. طالب صاحب حالات سمجھتے تھے انہوں نے یہ بول کر بات ختم کرنی چاہی کہ وہ میری اور جبریل کو دوسرا مکان دیکھنے کا بول چکے ہیں.کہ اچانک کوئی بول اٹھا 'جس دیوار کے پار پلید ہوں وہاں تو نماز بھی ممکن نہیں. استغفرللہ'.. بلال سب کچھ سن رہا تھا بولا 'مولوی صاحب اپ ان کو مسجد نبوی والا قصہ سنائیے نا. مولوی صاحب صرف حافظ قران تهے اور ستر دہائی سے صوم صلوۃ کے پابند. ایسی صورت میں ان کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی. وہ سٹپٹائے اور بولے سب معلوم ہے ہم کو. اس پر بلال بولا، بتائیے نا. جب ہمارے آقا نبی پاک دوسرے مذہب کے لوگوں کو قیام کیلیے مسجد نبوی پیش کر سکتے ہیں تو یہ تفریق کیسی؟ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد شریف کے علاوہ کوئی مخصوص مہمان خانہ موجود نہ تھا، ہر خاص و عام کو وہیں ٹھہرایا جاتا تھا.. اور تو اور ہمارے نبی پاک اپنے ایک غیر مسلم غلام کی عیادت کو خود تشریف لے گۓ...اسلم امن و سلامتی کا مذھب ہے . یہ دن کل کائنات کے حوالے سے ہے. ہم کون ہوتے ہیں اس کے ٹھیکیدار بننے والے"""". لا حول ولا قوۃ' کیسی باتیں کر رہے ہو بلال، یہ تو سراسر توہین رسالت ہنے. کہاں مسجد نبوی کہاں یہ منکرین. اب تمام مسجد میں شور بپا ہوگیا. مسجد کے باہر منچلوں کا ایک گروہ کھڑا سگریٹ نوشی کے ساتھ ساتھ موبائل پر برہنہ فلمیں دکھنے میں مصروف تھا. آواز سن کے چونکا اور مسجد کے اندر بھاگا. کیا ہوا، کیا ہوا. ؟؟؟ توہین رسالت۱. ناموس رسالت پہ حرف آ رہا ہے. ان منچلوں نے نہ کچھ سنا اور نہ ہی دیکھا، بلال اور طالب صاحب کو گھسٹتے باہر لے آئے اور مارنا شروع کردیا.آہستہ آہستہ تمام لوگ اس مذہبی ٹھیکیداری کا حصہ بنتے گئے. ان دونوں نے جب جان بچا کر اپنے گھر میں پناہ لی تو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا. کوئی خدائی خدمتگار کہیں سے پٹرول اٹھا لایا جسے چھڑک کر گھر کو آگ لگا دی گہی. گھر کو چاروں جانب سے گھیر لیا گیا. جبریل نے جب مجمعےکی آگ اور بھڑکتے شعلے دیکھے تو میری کا ہاتھ پکڑ کر پچھلے دروازے کی جانب دوڑ لگائی، مگر نومولود موسی کے رونے کی آواز نے قدم شل کردیئے. جلدی سے بیچ دروازہ کا قفل توڑا. چار سو اگ تھی. اور موسی اپنے جھولنے کی قریب ماں سے لپٹا بلک رہا تھا. ماں اس کو دھویں سی بچاتی ہوئی بیہوش تھی یا زندہ، یہ دیکھنے کی فرصت نہ تھی. میری نے موسی کو اپنی چادر میں چھپایا اور دونوں باہر کی جانب بھاگے۔
.بھاگتے بھاگتے دونوں کہاں پہنچے اور کس طرح ننھے موسی کو لے کر رات بتائی، کچھ معلوم نہیں. ہوش آ یا تو وہ ایک پارک کے کنارے کوڑھے میں جلتی آگ کے قریب بیٹھے تھے. دونوں نے موسی کو سمیٹا اور ایک نامعلوم منزل کی طرف قدم بڑھا ئے کہ آواز نے ان کے قدم روک لیے . ''الللہ جوڑی سلامت رکھے. ہاہے، کتنا پیارا کاکا ہے. اے بھائی اری باجی، اپنے منے کا صدقه دیتی جا. ایک بنا سنورا ہیجڑا ان کی رہ میں کھڑا ہو گیا، جبریل کو غصہ آگیا، مگر میری اس ہیجڑے کی بات سن کر ٹھٹھکی اور گلے سے سونے کی صلیب اتار کے اس تیسری مخلوق کی حوالے کردی جس کے ایک ہی جملے نے دو بکھرتی ہوئی لکیروں کو پل بھر میں مثلث کی شکل دے کر وہ قوت عطا کردی کہ جس کی تکمیل کیلیے دوئی کا عمل وجود میں آیا . اسی مقناطیسی طاقت کی زیر اثر میری جبریل کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور اگے بڑھ کر موسی کو جبریل کی گود میں ڈالتے ہوئے بولی. ''مبارک ہو، تم باپ بن گئے۔۔'''.