مسز سین

مسز سین

Mar 17, 2018

جھمپا لاہری کا افسانہ

 دیدبان شمارہ۔

"مسز سین"

افسانہ: جھمپا لاہری

 ترجمہ: ڈاکٹرنازیہ حسن

 تعارف: کیا آپ نے کبھی بنگال و بہار میں شوق سے کھائی  جانے والی جھال موڑھی چکھی ہے؟بمبئی کی بھیلپوری سے ذرا جدا اور زیادہ تیکھی۔ سرسوں کے تیل میں تیار آم کے اچار کا تیل اور دیگر اجزاءسے مل کر جو مخلوطی خوشبو تیار کرتے ہیں وہ صرف اس کے کھانے والے ہی پہچان سکتے اور لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ جھمپا لاہری اسی ہندوستانی خوشبو کو انگریزی میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ لندن میں پیدا ہوئیں اور امریکہ میں پلی بڑھیں، تعلیم حاصل کی اور نو عمری میں ہی اپنی تخلیقی تحریر وں سے جانی گئیں۔ ان کے بنگالی والدین نے انہیں ہندوستان سے دور رہ کر بھی ہندوستا ن سے ہمیشہ قریب رہنا سکھایا ۔ ان کی کہانیاں اس رشتے کی مضبوطی اور خوبصورتی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ موجودہ کہانی ’مسز سین‘ان کے پہلے مجموعہ سے لی گئی  ہے (شارح امراض )The Interpreter of Maladies(1999).ہے جس کا نام 

***

ایلیٹ مسز سین کے پاس تب سے جا رہا ہے جب سے ستمبر میں اسکول کھلا۔ ایک سال قبل تک اس کی دیکھ بھال یونیورسٹی کی ایبی نامی ایک طالبہ کرتی تھی ۔ پتلی دبلی سی داغدار چہرے والی جو بغیر تصاویر کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی اور ایلیٹ کے لئے کھانا تیار کرتی تھی، جس میں گوشت والی چیزوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ایبی سے پہلے مسز لنڈِن ،ایک ادھیڑ عمر عورت اسکول سے واپسی پر اسے خوش آمدید کہتی ۔ وہ کافی پیتی رہتی اور کراس ورڈ پزل(لفظی معمہ)حل کرتی رہتی تھی ۔ ایلیٹ بھی اپنے کھیلوں میں لگ جاتا۔ ایبی کو یونیورسٹی ڈگری ملی تو وہ دوسری جگہ رخصت ہو گئی۔ لنڈِن کو ایلیٹ کی والدہ نے اچانک ایک دن ملازمت سے خارج کر دیا جب انہیں پتہ چلا کہ اس کے کافی تھرمس میں کافی سے زیادہ وہسکی ہوتی تھی۔ مسز سین کا پتہ انہیں ایک ستھری تحریر میں سپرمارکیٹ کے ایک انڈیکس کارڈ میں درج حاصل ہوا ... ”پروفیسر کی اہلیہ ، ذمہ دار اور نرم گو۔ میں آپ کے بچے کی دیکھ بھال اپنے ہی گھر پر پوری اپنائیت سے کروں گی۔“ ایلیٹ کی والدہ نے فون پر مسز سین کو کہا کہ” اب تک کی ساری بے بی سیٹرز ان کے گھر پر آتی تھیں۔ وہ اب گیارہ سال کا ہے۔وہ خود سے کھاپی سکتا ہے ،کھیل سکتا ہے۔ میں بس گھر پہ کسی بالغ شخص کے ساتھ اسے رکھنا چاہتی ہوں ۔ جو وقت ضرورت اس کا خیال رکھ سکے۔“لیکن مسز سین کو ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔ ”آپ دیکھ سکتی ہیں کہ ہماری رہائش گاہ کتنی صاف اور محفوظ ہے ۔ یہاں بچے کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ “مسز سین نے پہلی ملاقات میں انھیں بتایا۔ کیمپس کے احاطے میں ایک چھور پر ان کا وہ یونیورسٹی کوارٹر تھا۔ لابی کا فرش بد نما بھورے چوکور خانوں سے بنا ہوا تھا ۔ کئی میل باکس ایک قطار میں سجے تھے جن پہ سفید کاغذ یا بھورے ٹیپ لگا دےے گئے تھے۔ ہلکے سبز رنگ کے قالین پر ویکیوم کلینر کی صفائی عیاں تھی ۔اس کے ساتھ ایک اور عجیب چیز مجھے وہاں نظر آئی۔ کمرے کے ہر صوفہ اور کرسی کے سامنے مختلف رنگ اور وضع کے چھوٹے چھوٹے قالین نما ٹکڑے بھی رکھے تھے۔ جیسے ہر ٹکڑا علیحدہ و منفرد انداز میں آنے والے شخص کو خوش آمدید کرنے کی خاطر رکھا گیا ہے کہ جہاں آپ کے قدم رنجا فرمائیں ۔ سفید رنگ کے ڈھول نما لیمپ شیڈز صوفے کے قریب اب بھی اپنی پنّی میں تھے، جس پر ان کے بنائے جانے کی تاریخ درج تھی۔ ٹی وی اور ٹیلیفون دونوں زرد رنگ کے کپڑے کے ٹکڑوں سے ڈھکے تھے ،جس کے کناروں پر کنگورے بنے تھے ۔ کھانے کے تھال پر مکھن والے بکسٹ،چندپیالیاں اور ایک لمبی سی سرمئی کیتلی میں چائے تھی ۔ مسٹر سین بھی وہاں موجود تھے ۔ وہ ایک چھوٹے قد کے تنومند سے شخص تھے ۔ان کی باہر کی سمت نکلی ہوئی آنکھوں پر چوکور شیشے والا چشمہ تھا۔ انھوں نے بمشکل اپنے پاﺅں سمیٹے اور چائے کی پیالی کو متواتر منہ کے کافی قریب کر رکھا تھا۔ حالاں کہ وہ مستقل چائے نہیں پی رہے تھے۔ مسٹرو مسز سین ، دونوں نے ہی اپنے جوتے اتار رکھے تھے۔ ایلیٹ نے غور کیا کہ ان کے پاس جوتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ اندر داخل ہونے والے دروازے کے پاس ایک چھوٹے سے کتب خانہ نما الماری میں کئی جوتیاں سجی رکھی تھیں۔ ”مسٹرسین یونیورسٹی میں علم ریاضیات پڑھاتے ہیں“۔ مسز سین نے تعارف کے نام پر کچھ اس انداز میں کہا جیسے وہ بہت دور کے تعلق میں ساتھ ہیں ۔ وہ تقریبا تیس سال کی تھیں ۔ ان کے دانتوں کے درمیان ذرا فاصلہ تھا ٹھڈی پر چیچک کے نشان تھے، لیکن ان کی گہری بھنووں والی آنکھیں خوبصورت تھیں ۔ انھوں نے ایک جھلملاتی سی سفید ساڑی پہن رکھی تھی جس پر نارنجی ترنج بنے ہوئے تھے ۔ وہ ساڑی کسی شام کی تقریب میں زیادہ مناسب لگتی ،کیوں کہ اس وقت تو اگست کی پھوار پڑ رہی تھی ۔ان کے لبوں پر ایک مصنوعی گلابی چمک تھی جس کا ذرا سا رنگ اپنے حاشیے سے باہرپھیل چکا تھا۔لیکن پھر بھی ایلیٹ کو اپنی والدہ ہی اس وقت وہاں عجیب لگ رہی تھیں ۔ جنھوں نے خاکی رنگ کے شارٹس اور رسی نما تلوے کے جوتے پہن رکھے تھے۔ ان کے خشخشی بال کافی پتلے اور چپکے ہوئے لگ رہے تھے۔ وہ کمرہ جہاں ہر چیز بڑی قرینے سے ڈھکی رکھی گئی تھی ۔اس میں ان کے بے لباس گھٹنے اورران کافی عجیب لگ رہے تھے۔ جب بھی مسز سین نے اس کی جانب بسکٹ کی پلیٹ بڑھائی ، ایلیٹ نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ایلیٹ کی والدہ نے ان سے کئی سوالات پوچھے جن کے جوابات ایک ڈائری میں درج کئے گئے۔”کیا اپارٹمنٹ میں اور بھی دیگر بچے ہیں؟کیا مسز سین نے پہلے کبھی بچوں کی دیکھ بھال کی تھی؟ وہ کب سے اس ملک میں رہائش پذیر ہیں؟ “وہ سب سے زیادہ اس بات پرحیران تھیں کہ مسز سین کو گاڑی چلانی نہیں آتی تھی۔ ایلیٹ کی والدہ وہاں سے کچھ پچاس میل کی دوری پر کام کرتی تھیں جب کہ والد، جو پچھلی بار سننے کو ملا تھا کہ وہ کچھ دو ہزار میلوں دور رہتے تھے۔ ”میں انھیں مشق کرواتا رہا ہوں ،مجھے لگتا ہے کہ مسز سین کو دسمبر تک ڈرایونگ لائسنس مل جائے گی۔ “مسٹر سین نے میز پر پہلی دفعہ پیالی رکھتے ہوئے کہا۔"کیا ایسی بات ہے؟ “ ایلیٹ کی والدہ نے یہ بات بھی ڈائری میں نقل کی۔"ہاں میں سیکھ رہی ہوں ۔ حالاںکہ میں ایک سست رفتار طالبہ ہوں ۔ گھر پہ تو آپ کو پتہ ہے ڈرائیور ہے۔“ مسز سین نے کہا۔"آپ کا مطلب ، شوفر ہے؟""ہندوستان میں ایسا ہی ہوتا ہے؟""جی ہاں "مسز سین نے جواب دیا ۔ اس لفظ کو ادا کرتے وقت ان کے اندر سے کوئی چیز آزاد ہوئی۔ انھوں نے اپنی ساڑی کو ذرا ٹھیک کیا ۔ پھر کمرے کا ایک جائزہ لیا جیسے ان کو اس کمرے میں کچھ ایسی چیز نظر آرہی ہو جو کسی اور کو دکھائی ہی نہ دے۔ ”وہاں سب کچھ ہے۔“ایلیٹ کو اسکول کے بعد مسز سین کے گھر جانے میں کوئی مضائقہ نہ لگا ۔ سمندری کنارے پر بسے اس چھوٹے سے مکان میں ٹھنڈ بڑھ چکی تھی۔انھیں ایک ہیٹر بھی خریدنا پڑا۔ کھڑکیوں کو پلاسٹک شیٹ سے بند کر دیا گیا، اس میں ایک بال سکھانے والے ڈرائرکا بھی استعمال کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ وہاں کھیلنے والا کوئی بھی نہ تھا۔ سمندری کنارے پر سناٹا تھا ۔ اسے اب گھونگے کے ٹوٹے پھوٹے کھوکھلے سیپ اکٹھا کرنے میں مزہ بھی نہیں آتا تھا۔ سمندر کے گرم و گدگدے پودوں کو بھی وہ کتنا سہلاتا رہتا بھلا؟مسز سین کا اپارٹمنٹ گرم تھا۔ بڑے سے ہیٹر کے تار ایک پریشر کوکر کی مانند پھنکارتے رہتے۔ ایلیٹ نے مسز سین کے گھر سب سے پہلے اپنے جوتے اتارنا سیکھا ۔ وہ انھیں جوتوں کی الماری میں سلیقے سے کھڑا کر دیتا۔ اس نے دیکھا کہ مسز سین کی جوتیاں مختلف رنگوں کی تو تھیں لیکن سب ایک جیسی لگتیں۔ وہ سارے کارڈ بورڈ نما تلوے والے تھے جس پر ان کے موٹے سے انگوٹھے کے لئے ایک ایک گولہ سا بنا تھا۔ایلیٹ کو بڑا مزہ آتا جب وہ مسز سین کو سبزیاں کاٹتے ہوئے دیکھتا۔ مہمان خانے کے فرش پر اخبار بچھا کر چاقو کے بجائے وہ ایک تیز چاند نما چھرے سے اپنا کام کرتی تھیں۔ وہ چھرا کسی وائ کنگ جہاز کے مستک کی مانند دکھائی دیتا جو کہ دور دراز سمندی علاقوں کی سیر پر نکلتا ہے۔ اس کا ایک سرا پتلے سے لکڑی کے پاٹ پر گڑا تھا اور دوسرا سرا کچھ نوکیلے تاج جیسا تھا جس سے کدو کش کیا جاتا تھا ۔ اس کے تیز چھرے کو سامنے رکھ کر وہ ثابت سبزیاں اپنے ہاتھوں کے درمیان رکھتی تھیں اور ان کوذبح کرنے کے انداز میں تیز ی سے کاٹا کرتی تھیں،پھول گوبھی، بند گوبھی، لوکی وغیر۔ وہ ہرچیز کو پہلے آدھا کرتیں پھر ایک چوتھائی کر کے بڑی تیزی سے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتیں۔ اس سے وہ بڑی سرعت سے آلوﺅں کو بھی چھیل ڈالتیں۔ ایک بڑے سے بھگونے میں رکھے پانی میں ان سبزیوں کو وہ دھوتی تھیں۔ جب وہ یہ کام کرتیں تو ان کی ایک آنکھ ٹی وی پر ہوتی اور دوسری نظر ایلیٹ پر۔ اپنے پاس عجیب سے چھرے پر تو وہ کبھی دھیان ہی نہ دیتی تھیں۔ سبزی کاٹتے وقت وہ ایلیٹ کو ادھر ادھر نہ ہونے دیتیں۔”بس بیٹھ جاﺅ۔پلیز صرف دو منٹ کی بات ہے، یہ ہوگیا“صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولتیں ۔ جس پر ہمیشہ سبز و سیاہ رنگ کا ایک غلاف بچھا رہتا، جس پر کئی ہاتھی ایک قطار میں اپنی پیٹھ پر پالکیاں اٹھائے چل رہے تھے۔ ایلیٹ کو مصروف رکھنے کے لئے مسز سین اخبار کے کارٹون والے حصے سامنے رکھ دیتیں۔ بسکٹ پر مکھن لگا کر کبھی ایک گاجر تراش کر اور کبھی ایک ٹافی پکڑا کروہ اپنا یہ کام کرتی تھیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس کے اطراف رسی کی گھیرا بندی کر دیں۔ایسا لگتا کہ اس طرح کے چاند نماخطرناک چاقو ہندوستان کے ہر گھر میں موجود ہیں ۔” جب بھی ہمارے یہاں کوئی شادی ہوتی یا کوئی بڑا مجمع ہوتا میری ماں آس پڑوس سے ساری عورتوں کو ان چھروں کے ساتھ بلا لیتی تھیں۔ وہ سبھی مکان کے چھت پر ایک بڑے سے گولے میں بیٹھی ہنستے بولتے ، گپ شپ کرتے پچاسوں کلو سبزیاں کاٹ اور کتر ڈالتی تھیں“۔ مسز سین ایک دن کھیرے بیگن اور پیاز کے چھلکوں سے گھری بیٹھی ہوئی بتانے لگیں۔” رات بھر یہ کام چلتا رہتا ، ان کے شور و غل میں سونا محال تھا۔ “تھوڑی دیر رک کر کھڑکی کے باہر لگے پائن کے درخت پر انہوں نے اپنی نظریں مرکوز کر لیں ۔ ”یہاں اس جگہ جہاں مسٹر سین مجھے لے کر آگئے ہیں اتنی خاموشی ہے کہ اکثر میں اس کی وجہ سے سوہی نہیں پاتی۔ “ایک دن بیگم سین مرغی کا قورمہ پکانے کی تیاری میں تھیں۔ جب وہ مرغی کی ہڈیاں توڑ رہی تھیں تو کڑک جیسی آواز آرہی تھی اور ان کی سبز چوڑیاں چھن چھن بج رہی تھیں ۔ ان کی کلائیاں چمک رہی تھیں ۔انھوں نے زور سے سانس لیا ۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے رکیں اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگیں ۔ ان کی انگلیوں میں چربی لگی ہوئی تھی۔ "ایلیٹ ، اگر میں ابھی اچانک زور سے چلاّﺅں تو کیا کوئی دریافت کرنے آئے گا؟""کیا ہوا مسز سین؟""کچھ نہیں بس یونہی پوچھ رہی ہوں کہ کیا کوئی پوچھنے آئے گا؟ "ایلیٹ نے کاندھے اچکائے۔"شاید۔۔۔"ہمارے گھر پر تو یہی کرنا کافی ہوتا ہے۔ سب کے گھروں میں فون نہیں ہوتا۔ تمہیں صرف اپنی آواز ذرا اونچی کرنے کی ضرورت ہے۔ رونا گانا جو بھی کرنا ہو اور بس دیکھو تھوڑی دیر میں ہی سارا محلہ آپہنچے گاتمہاری خیریت لینے، تمہاری مدد کرنے۔ایلیٹ کو سمجھ آ چکا تھا کہ مسز سین جب بھی گھر کی بات کرتیں ان کا مطلب ہندوستان سے ہوتا تھا۔ یہاں اس اپارٹمنٹ سے نہیں جہاں وہ بیٹھی سبزیاں کاٹتی رہتیں۔ اس نے اپنے گھر کے متعلق سوچا جہاں کچھ ہی دوری پر ایک نوجوان جوڑی بھی رہتی تھی۔وہ شام ایک ساتھ سمندری کنارے پر دوڑ لگاتے اور اسے ہاتھ ہلا کر مسکراتے۔ اسے یاد آیا کہ پچھلے سال یوم مزدور پر انھوں نے ایک دعوت منعقد کی تھی ۔ اور کافی لوگ اس میں مدعو تھے ۔ ان کے علاوہ ا س کی والدہ اس دن اپنی پرانی کار کو دھو رہی تھیں۔ موسیقی کی آواز کافی تیز تھی اور ان کی چھت پر سارے لوگ مل کر خوشی و جوش کے ساتھ رقص کرنے لگے تھے۔ اس کی والدہ نے فون بک میں ان کا نمبر ڈھونڈا اور انھیں فون کرکے سکون میں رہنے کی تاکید کی۔ایلیٹ نے کچھ سوچ کر مسز سین کو کہا ۔۔”ہاں ہو سکتا ہے کوئی آپ کو کال کرے مگر وہ آپ سے شکایت ہی کریں گے کہ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟"ایلیٹ صوفے پر بیٹھا تھا وہ مسز سین کے کپڑوں سے آنے والی زیرے کی خوشبو کو پہچانتا تھا ۔ وہ ان کے چوٹی میں گندھے بالوں کے درمیانی مانگ پر سندور کو دیکھ سکتا تھااور اسے محسوس ہوا جیسے ان کی مانگ شرما کر سرخ ہو گئی ہو۔ شروع میں ایلیٹ سوچتا تھا کہ یا تو ان کی کھوپڑی پھٹ گئی تھی یا کسی کیڑے نے انھیں کاٹ لیا تھا۔ پھر ایک د ن اس نے انہیں غسل خانہ کے آئینے کے سامنے بڑی متانت کے ساتھ اپنے سر پر اس سرخ پاﺅڈر کو چٹکی میں لے کر لگاتے ہوئے دیکھا،جس کو وہ ایک چھوٹی سی ڈبیہ میں رکھی ہوئی تھیں۔ذرا ساسفوف ان کی ناک کی نوک پر بھی آگرا جب انھوں نے اپنی دونوں بھوﺅں کے درمیان ایک چھوٹا سا گول نشان بنایا۔ ہر روز مجھے یہ رنگین پاﺅڈر لگاناضروری ہے۔ "انھوں نے ایلیٹ کو تشریح کرنے کے انداز میں بتایا۔ ”اس سے پتہ چلتا ہے میں شادی شدہ اور محفوظ ہوں۔""آپ کا مطلب یہ شادی کی انگوٹھی کے طور پر کام کرتا ہے؟؟؟""بالکل صحیح ۔ہاں ایلیٹ یہ اسی انگوٹھی کی مانند ہے ۔"جب تک ایلیٹ کی والدہ چھ بج کر بیس منٹ پر اسے لینے کے ليے آتیں ، مسز سین بڑی لگن سے اپنے کاٹنے چھیلنے کے نشان مٹا چکی ہوتیں۔ اخبار کے حصے سبزیوں کے چھلکے بیج اوردیگر غیر ضروری چیزوں کے ساتھ کوڑے دان کی نذر ہو چکے ہوتے ۔ ان کا چاند چاقو دھو سکھا کر اندر رکھا جا چکا ہوتا۔ ابلتے ہوئے مصالحے دار پانی میں ایک خاص انداز میں ناپ تول کر کئی اور خشک مصالحہ ڈال کر وہ اپنے اسٹوو کے پھول نما آگ پر چڑھا کر کئی قسم کے شوربے تیار کر چکی ہوتیں۔ ان کے یہاں کبھی کوئی خاص موقع نہیں ہوتا ، نہ کوئی ان کے یہاں مہمان آتا۔ وہ کھانا ہر روز دو ہی لوگوں کے لیے تیار ہوتا جیسا کہ میز پر رکھی دو تھالیوں اور دو پانی کے بڑے پیالوں سے معلوم ہوتا۔ وہاں نہ چاندی کے برتن ہوتے نہ کبھی ٹشو پیپر۔نہ جانے کیوں ایلیٹ جب بھی سبزیوں کے بچے کھچے حصوں کو اخبار سمیت کوڑے دان میں دباتا اسے ایک احساس جرم سا لگتا۔جیسے وہ کوئی قانون توڑرہا ہے ۔ ایسا شاید مسز سین کے کام کرنے کی رفتار کے باعث محسوس ہوتا ۔ وہ جس پھرتی سے دال دھوتیں، چٹکیاں بھر بھر چینی اور نمک ڈالتیں، باورچی خانے کے الماریوں کے دروازے ایک کے بعد ایک سرعت سے کھلتے بند ہوتے تاکہ ایک خاص وقت تک سارے کام سے وہ فارغ ہو جائیں۔ اور تبھی اچانک دروازے پہ جب اس کی والدہ دستک دیتیں تو ایلیٹ چونک سا جاتا۔ وہ ہمیشہ جلد بازی دکھاتی تھیں ،لیکن کبھی کبھی مسزسین انہیں بیٹھنے پر اصرار کرتیں اور ہر شام وہ انھیں کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے پیش کرتیں ۔مثلا گلابی دہی، قیمے اور کشمش والے بریڈپکوڑے یا سوجی کا حلوہ۔ اس کی والدہ اپنے آفس کے لباس میں کچھ عجیب لگتی تھیں۔"مسز سین ،میں آفس میں دن کا کھانا کھاتی ہوں۔ آپ کویہ زحمت نہیں کرنی چاہیے۔""نہیں نہیں یہ کوئی زحمت نہیں جیسے ایلیٹ ہے ویسی ہی آپ بھی میری اپنی ہیں۔"اس کی والدہ مسز سین کے مخلوطی کھانوں میں سے ذرا سا کچھ اٹھاتیں اور چھت کی طرف دیکھتی ہوئی تھوڑا سا کترتیں جیسے کوئی فیصلہ درج کرنا ہو۔ وہ اپنی اونچی ہیل کی جوتیاں اتارنا پسند نہیں کرتیں اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر قالین میں گڈھے بناتی ہوئی بیٹھتی تھیں۔ یہ مزے کا ہے۔“وہ فیصلہ کن انداز میں گویا ہوئیں ۔ ایک دو بار کترنے کے بعد وہ اسے دوبارہ تھالی میں رکھ دیتیں اور گھر جانے کی اجازت لیتیں۔ایلیٹ کو معلوم تھا کہ انہیں وہ کھانا بالکل پسند نہ تھا۔نہ ہی وہ آفس میں کچھ کھاتی تھیں۔ کیوں کہ گھر پہنچتے ہی وہ پہلا کام یہ کرتیں کہ وہ ایک گلاس جام تیار کرتیں اور بریڈ چیز لے کر بیٹھ جاتیں تھیں۔ اکثر وہ اتنا زیادہ پی جاتی تھیں کہ باہر سے منگوائے پزّا کو ہاتھ بھی نہ لگاتیں بلکہ خود بالکنی میں جا کر سگریٹ سلگاتیں اور ایلیٹ پزّا کھا کر ساری چیزیں سمیٹتا رہتا۔ہر دوپہر مسز سین اسے اسکول بس سے موصول کرکے سیدھے اپنی کار کے پاس پہنچتی تھیں وہ اس کے لئے اکثر نارنگی کی قاشیں یا نمکین مونگ پھلی لے کر آتی تھیں۔ وہ ایک ٹافی کے رنگ کی سیدان گاڑی تھی جس میں ایک ریڈیو ، کلنکس ٹیشو پیپر کا ڈبہ اور برف کھرچنے والی ڈنڈی ہوتی ۔ مسز سین کہتی تھیں کہ وہ ایلیٹ کو اکیلا گھر میں چھوڑنا پسند نہیں کرتی تھیں۔لیکن ایلیٹ کو پتہ تھا کہ وہ تنہا کار چلانے سے ڈرتی تھیں۔ انھیں ا گنیشن مشین کی تیز آواز سے وحشت ہوتی اور کانوں پہ ہاتھ رکھ دیتیں۔ بڑی مشکل سے وہ اپنے چپل والے پیروں سے آگے بیٹھتیں ۔ "مسٹر سین کہتے ہیں کہ ”جیسے ہی مجھے ڈرائیونگ لائسنس مل جائے گا حالات بہتر ہو جائیں گے۔ کیا تمہیں ایسا لگتا ہے ایلیٹ ؟"ایلیٹ نے مشورہ کے انداز میں کہا، ” ہاں پھر تو تم ہر جگہ جا پاﺅگی ۔ کہیں بھی جہاں تم چاہو۔""کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں کلکتہ بھی جا سکوں گی؟ اس میں کتنا وقت لگ جائے گا ایلیٹ ؟ اگر ایک گھنٹے میں میں پچاس میل طے کرپائی تو دس ہزار میل کی دوری کتنے دن میں طے ہوگی؟"ایلیٹ اپنے ذہن میں یہ حساب کتاب حل نہ کر پاتا ۔ وہ گاڑی چلانے کی تیاری اطمنان سے کرتیں اور اپارٹمنٹ کے گرد دو چکر لگا کر پوچھتیں ،" میں کیسی گاڑی چلا رہی ہوں ایلیٹ ؟ پاس تو ہو جاﺅں گی نا؟ایک تو وہ ہر چیز کو دیکھ کر رک جاتیں خواہ وہ گاڑی یا دور اڑتی چڑیا ہو۔ ان کی گھبراہٹ عیاں ہو جاتی ، ہاتھ زرد سے ہو جاتے اور وہ غلط انگریز ی بولنے لگتیں۔ کوئی ان کی گاڑی کے آگے بڑھنے کے لیے کیوں رکتا بھلا؟مسز سین دو ہی چیزوں سے خوش ہوتی تھیں ۔ ایلیٹ کو بہت جلد پتہ چل گیا کہ ایک تو ان کے مائکے سے آئے خطوط ان کو مسرور کر دیتے یا پھر پکانے کو جب ان کی پسندکی مچھلی مل جاتی۔ خط پڑھتے ہی وہ فون گھماتی تھیں ، مسٹر سین کو خط پڑھ کر سناتیں اور اس وقت وہ بالکل بدلی ہوئی لگتی تھیں۔ ان کی آواز بلند اور آنکھیں ناچتی ہوئی ہوتی تھیں ۔ ایک دن انھوں نے ایلیٹ کو بتایا کہ ان کی بہن کی ایک بیٹی ہے جو کہ تین سال پورے کر چکی ہوگی ۔ جب تک مسز سین اس سے ملنے پہنچیںگی ۔ ”وہ اپنی خالہ کو بھی نہیں پہچان پائے گی ۔ سوچو ذرا کہ ہم ددونوں اگر ریل گاڑی میں ایک دوسرے کے سامنے بھی بیٹھے ہوں گے تو ہمیں معلوم نہ ہو پائے گا ہم ایک دوسرے کے کون ہیں؟"اس دن وہ بہت خوش تھیں۔ انھوں نے پہلی بار مجھے گلے سے لگایا ۔ پھر پوچھا ۔۔”ایلیٹ تمہیں اپنی ماں کی یاد آتی ہے؟"اسے تو ایسا کبھی محسوس نہ ہوا تھا۔ "تمہیں اپنی ماں کو یاد کرنا چاہیے اتنے چھوٹے سے ہو تم مجھے بڑا عجیب لگتا ہے کہ تم دن بھر ان سے جدا رہتے ہو۔ جب میں تمہاری عمر کی تھی تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ خیر تم کافی سمجھدار ہو۔ میں نے اپنے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کیا تھا۔" مچھلیوں سے مسز سین خو ش ہو جاتی تھیں لیکن انھیں ہر مچھلی پسند نہ تھی ۔ انھوں نے ایلیٹ کی والدہ سے بھی ذکر کیا کہ سمندرکے اتنے قریب رہنے کے باوجود وہ اپنی پسند کی مچھلیوں سے محروم ہیں۔ انھوں نے سپر مارکیٹ جانے کا مشورہ دیا ۔ مسز سین نے نفی میں سر ہلا کر کہا ۔”ا گر میں بتیس طرح کے ڈبوں میں بھی جھانک لوں تو مجھے میری مچھلی نصیب نہیں ہو پاتی ۔ وہ سب شاید کسی بلی کا نوالہ بن جائیں“۔ جب کہ وہ خود ہر روزدونوں وقت مچھلی کھا کر ہی پروان چڑھی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کلکتہ میں لوگ صبح سب سے پہلے مچھلی کھاتے ، سونے سے پہلے مچھلی کھاتے اور اگر اسکول ٹفن میں بھی مچھلی مل جائے تو وہ خوش قسمت تسلیم کیے جاتے۔ وہ مچھلی کی دم کھاتے ،سر کھاتے اور اس کے انڈے تک ہضم کر جاتے ۔ یہ سب ہر جگہ ہر وقت مل جاتے آسانی سے کسی بھی بازار میں پہنچ جائیں خواہ صبح ہو یا آدھی رات ۔ آپ کو کوئی زحمت نہیں ہوتی۔ بس گھر سے نکلئے ،ذرا دورچلیے پھر کیا؟ مچھلیاں ہر قسم کی آپ کو مل جائیں گی۔لیکن اس قسم کی خوش گپی بہت کم ہوتی ۔ ہماری شامیں اکثر ٹھنڈی اورخاموش ہوتیں۔ ایلیٹ نے کئی دفعہ مسز سین کی نا ک لال اور آنکھیں سوجی ہوئی دیکھیں مسٹر سین کبھی کبھی دوپہر کھانا کھانے یا کوئی چیز خریدنے کے لیے آجاتے۔ وہ آتے ہی جوتے اتارتے ، ایلیٹ کا سر تھپتھپاتے اور اندر چلے جاتے ۔ اس نے کبھی مسز سین کو اور انھیں ایک دوسرے کا بوسہ لیتے نہیں دیکھا۔ایک دن مسز سین بڑی خاموش تھیں، جیسے ان کے دل میں کوئی طوفان برپا ہو۔ ایلیٹ انھیں بغور دیکھ رہا تھا۔ اچانک مسز سین اسے کھینچتی ہوئی خوابگاہ میں لے گئیں اور تڑاتڑساری الماریاں کھول ڈالیں ان میں سوٹ ٹائی پینٹ اور منفرد رنگوں کی خوبصورت ساریاں سجی تھیں جن پر سنہری یا چاندی نما دھاگوں کے بارڈر اور ڈیزائن بنے ہوئے تھے ۔مسز سین نے یک لخت برخلاف دستور ان ساری ساڑیوں کو فرش پر پھینکنا شروع کر دیا کچھ ہینگرز سے نکال کر کچھ ان کے ساتھ ہی پورے کمرے میں کافور کی بو پھیل گئی۔"یہ کب پہنا ہے میں نے ؟کب؟یہ ، یہ بھی نہیں۔۔ کہیں جانے کے لیے کوئ ہے ہی نہیں؟اور وہ لوگ خط میں لکھتے ہیں تصویر بھیجواپنی نئی زندگی ، نئے طرز کی تصویر بھیجوہونہ کیا بھیجوں؟“وہ پھر تھک کر بستر کے کنارے بیٹھ گئیں ۔ جس پر ہر قسم کے کپڑے منٹوں میں بکھر چکے تھے۔ ”وہ سوچتے ہیں کہ میں ایک بادشاہ کی بیگم کی مانند زندگی جی رہی ہوں "ایلیٹ۔“ اپنی خالی دیواروں کو گھور تے ہوئے پھر گویا ہوئیں”انھیں لگتا ہے میں ایک بٹن دباتی ہوں اور پورا مکان صاف ہو جاتا ہے ۔ انہیں لگتا ہے میں کسی محل میں مقیم ہوں۔"تبھی فون بجا ۔مسزسین نے کچھ دیر تک ان سنی کر دیا ۔ پھر کریڈل اٹھایا صرف کچھ جواب دینے کے لئے۔ ساڑی کے پلو سے آنسو صاف کرتی رہیں ۔ فون بند ہونے پر سارے کپڑوں کو الماری میں بغیر سوچے ٹھونسنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد ایلیٹ کو جوتے پہنا کر ادھر چل پڑیں جہاں انھیں مسٹر سین کا انتظار کرنا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مسٹر سین نظر آگئے ۔ کار کے ہڈ پر انگلیاں بجاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مسز سین کیوں نہیں آج ڈرائیو کر لیتیں؟وہ لوگ میرے سامنے انگریزی میں ہی باتیں کرتے ۔"نہیں آج نہیں، انھوں نے انکار کر دیا۔ وہ لوگ خاموشی سے چلتے رہے کچھ فاصلے کے بعد وہ مچھلی بازار پہنچے جہاں ایک الگ ہی ماحول تھا۔ لوگ مچھلیاں دیکھ رہے تھے، خریدرہے تھے یا پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے ۔کچھ سیاح بھی کیمرے لٹکائے گھوم رہے تھے۔ مسٹر سین گاڑی میں ہی بیٹھے رہے اور مسز سین آگے بڑھیں۔ انھوں نے ایک چیتل پسند کیا اور پوچھا"آپ سچ مچ مجھے تازی مچھلی دے رہے ہیں ناں؟""اس سے زیادہ تازی آپ کو ملنے سے رہی کہیں۔ “مچھیرے نے مچھلی کو تولتے ہوئے جواب دیا۔ "یہ آپ صاف کروانا چاہتی ہو؟"ہاں لیکن سروالا حصہ دھیان سے۔" ""کیا آپ کے گھر پہ بلی ہے؟""نہیں کوئی بلی نہیں بس ایک عدد شوہر ہے۔"

گھر آکر انھوں نے کچھ اطمنان کے ساتھ مچھلی کو صاف کیا۔ اس کے لال گلپھڑوں کا بغور جائزہ لیا اور اسے انگلیوں سے ناپنے لگیں۔"آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟" "یہ دیکھنے کے لئے کہ اگر اسے سلیقے سے کاٹا جائے تو یہ کتنے دنوں تک تینوں وقت میرا ساتھ دے سکتی ہے۔"ایلیٹ کو یاد آیا کہ مسز سین زیادہ تر سبزیاں یا مرغ ہی کاٹتی اور پکاتی ہیں۔نومبر آتے ہی کئی دن روزانہ کئے جانے والے کاموں کے بغیر ہی گذارے گئے ۔ مسز سین جب رہتیں سبزیاں فرج میں ہی رکھی رہیں ۔ وہ کبھی موسیقی شروع کرتیں ۔”راگ“انھوں نے نام بتایا۔ ٹی وی چلتی رہتی مگر وہ دیکھتی نہیں۔ چائے پیالی میں ہی ٹھنڈی ہو جاتی وہ آنکھیں موندے کبھی کبھی ایک خاص کیسٹ کو بھی بجاتی تھیں جس میں کئی لوگ ایک دوسری زبان میں کچھ کہہ رہے تھے۔ یہ الوداعی تحفہ تھا ایلیٹ۔وہ بتا رہے ہیں کہ مجھے کیسے ہمیشہ خوش رہنا ہے اور مسٹر سین کو رضا مند رکھنا ہے ۔ان سارے لوگوں کو چھوڑ کر میں یہاں آئی ہوں ایلیٹ۔جب ان کے دادا حضور کیسٹ میں بولنے لگے تو انھوں نے بتایا کہ خط آیا ہے ۔ دادا کا پچھلے ہفتے انتقال ہو گیا۔ کچھ ایک ہفتے بعد گھر کے ماحول میں کچھ زندگی واپس آئی۔ایک دن مسٹر سین ان دونوں کو لے کر باہر گئے۔ انھوں نے باہر ہی کھانا کھایا، کچھ چیزیں خریدیں، مسز سین ہنستی کھلکھلاتی بہت مختلف لگ رہی تھیں۔ سمندر کے کنارے انھوں نے تصویریں بھی اتاریں جس میں ان کی لال ساڑی کوٹ کے نیچے دبی ہوئی تھی لیکن ایک حصہ ہوا میں آگ کے شعلوں کی مانند اڑ رہا تھا۔ دونوں کو خوش دیکھ ایلیٹ کو بھی اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ مسٹر سین نے اپنی بیگم کو ڈرائیونگ کے لئے آج رضا مند کر لیا ۔ بمشکل تھوڑا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ ان کی ہلکی رفتار سے متاثر دیگر گاڑی والے ہارن بجا بجا کر شور برپا کر رہے تھے۔ پھر آخر کار مسز سین نے اسٹیرنگ وہیل پر سرٹکا دیا۔ "اف! مجھے نفرت ہے نفرت ہے ، اس چیز سے ۔ یہ اب اور مجھے سے نہیں ہوگا۔“وہ تقریبا چیخ رہی تھیں۔اس حادثے کے بعد ڈرائیونگ کا قصہ بالکل ختم ۔ اب وہ مچھلی والے کو فون نہ کرتیں بلکہ بس سے خود وہاں جانے لگیں ۔ یونیورسٹی اور سمندر کے درمیان بہت سارے چھوٹے بڑے مکانات تھے دکانیں تھیں۔ بزرگوں کے لئے ایک نرسنگ ہوم تھا ۔لمبے لمبے کوٹ پہنے کئی بزرگ خواتین بیٹھی نظر آتیں ۔ وہ زیادہ تر منہ چلاتی ہوئی نظر آتیں جیسے ٹافی چوس رہی ہوں ، ایک دن مسز سین نے بس کی کھڑکی سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ "ایلیٹ ، جب تمہاری ماں بوڑھی ہو جائے گی تو کیا تم اسے بھی نرسنگ ہوم میں بھیجوا دوگے؟""شاید۔لیکن میں ہر روز ان سے ملنے آﺅں گا۔""ابھی تم ایسا سوچتے ہو لیکن ایسا کر نہیں پاﺅ گے زندگی مہلت نہیں دیتی۔"مچھلی کی دکان پر مسز سین کے نام کا ایک تھیلا معین تھا ان کی پسند کی مچھلیوں سے بھرا ۔ رقم اداکر وہ لو گ بس کے انتظار میں کھڑے رہے کچھ چالیس منٹ کے بعد انھیں ایک بس میں جگہ ملی راہ میں ایک ضعیف عورت مستقل ان دونوں کو دیکھتی رہی اور ان کے تھیلے کو بھی جس پر خون کے دھبے تھے۔ بس میں لوگ کم تھے۔ انھوں نے وقت گذارنے کے لئے پیکٹ سے نکال کر تھوڑا کیک کھا لیا۔ نیپکین نہ ہونے کی وجہ سے مسز سین کے منہ پر کیک کا مکھن لگا رہا۔ اس ضعیف عورت نے ڈرائیور کے پاس جا کرکچھ سرگوشی کی اور پھر اتر گئی۔ ڈرائیور نے سر گھما کر پوچھا۔”اس تھیلے میں کیا ہے؟"مسز سین گھبراگئیں۔ "انگلش بولتی ہیں؟""جی ہاں ۔ ""پھر بتائےے کیا ہے اس میں ؟""ایک مچھلی“ ۔۔ مسز سین نے جواب دیا۔"اس کی بدبو دوسرے مسافروں کو تکلیف دے رہی ہے ۔ اے بچے بہتر ہے اپنی کھڑکی کھول دو۔"پھر ایک دوپہر مچھلی والے کا فون آیا کہ آج بہت اچھی ہلسامچھلی آئی ہے۔ انھوں نے ایک خاص وقت پر انھیں پہنچنے کو کہا۔ مسز سین سرعت سے اٹھ کر کچھ بیگن اٹھا لائیں۔ اسے پہلے لمبائی میں کاٹا پھر اس کے کافی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ ڈالے تقریبا چینی کے سائزمیں۔”آج بہت مزے دار مچھلی بینگن پکانے والی ہوں۔ہاں صرف کچے کیلے کی کمی رہے گی۔""کیا ہم مچھلی بازار جا رہے ہیں؟"”ہاں بالکل۔“مسز سین نے اپنی کار کا دروازہ کھولا اور چلنا شروع کر دیا ۔ حادثہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ کسی کے جان کو نقصان نہ ہوا لیکن ان کے ہونٹ کٹ گئے اور ایلیٹ کو سینے میں کچھ درد کا احساس ہوا۔ پولیس فوراًوارد ہو گئی مسٹر سین بلائے گئے۔ لائسنس نہ ہونا کافی پریشانی کا باعث تھا ۔ خیر کئی کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد وہ سب گھر واپس آئے ۔ دونوں میاں بیوی میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسٹر سین نے گاڑی پارک کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس والے ایلیٹ کی تعریف کر رہے تھے۔ ”کافی خوش قسمت بچہ ہے بس بچ گیا۔”سینڈل اتارتے ہی مسز سین نے فرش پر رکھے بیگن کے ٹکڑوں کو اخبار سمیت اٹھایا اور کوڑے دان میں زور دار طور پر جھونک دیا۔ وہ خوابگاہ میں جا چکی تھیں ۔ ایلیٹ کے لئے ٹی وی چلا دی گئی۔ شام میں جب اس کی والدہ آئیں تو مسٹر سین نے انہیں سارا ماجرا سنایا۔ساتھ ہی ایک چیک بھی دیا جس میں نومبرکے لئے دئے گئے پیسے واپس کر دئے گئے ۔ ایلیٹ کو معلوم تھا کہ مسز سین رو رہی تھیں ۔ اس کی والدہ نے گھر کے راستے میں قبول کیا کہ یہ اچھا ہی ہوا۔وہ مطمئن نہ تھیں ۔وہ شام مسز سین کے ساتھ ایلیٹ کی آخری شام تھی اسے اب کسی بے بی سٹیر کی ضرورت نہ تھی اس کی ماں نے اعلان کیا۔ اسی دن اس کے گلے میں ایک موٹا دھاگہ بندھ گیا جس میں کمرے کی چابی لٹکتی رہتی ۔ ضرورت پڑنے پر اسے پڑوسیوں کو خبردار کر نا تھااور اکیلا گھر پر رہنا تھا۔ دوسرے دن ایلیٹ جب اسکول سے واپس آیا تو فون بج اٹھا۔اس کی والدہ کی آواز آئی۔”ایلیٹ اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ تم ٹھیک ہو نا؟"ایلیٹ نے باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ سمندر کی لہریں چپ تھیں اس نے کہا ۔ "ہاں وہ ٹھیک ہے۔

٭٭٭

 دیدبان شمارہ۔

"مسز سین"

افسانہ: جھمپا لاہری

 ترجمہ: ڈاکٹرنازیہ حسن

 تعارف: کیا آپ نے کبھی بنگال و بہار میں شوق سے کھائی  جانے والی جھال موڑھی چکھی ہے؟بمبئی کی بھیلپوری سے ذرا جدا اور زیادہ تیکھی۔ سرسوں کے تیل میں تیار آم کے اچار کا تیل اور دیگر اجزاءسے مل کر جو مخلوطی خوشبو تیار کرتے ہیں وہ صرف اس کے کھانے والے ہی پہچان سکتے اور لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ جھمپا لاہری اسی ہندوستانی خوشبو کو انگریزی میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ لندن میں پیدا ہوئیں اور امریکہ میں پلی بڑھیں، تعلیم حاصل کی اور نو عمری میں ہی اپنی تخلیقی تحریر وں سے جانی گئیں۔ ان کے بنگالی والدین نے انہیں ہندوستان سے دور رہ کر بھی ہندوستا ن سے ہمیشہ قریب رہنا سکھایا ۔ ان کی کہانیاں اس رشتے کی مضبوطی اور خوبصورتی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ موجودہ کہانی ’مسز سین‘ان کے پہلے مجموعہ سے لی گئی  ہے (شارح امراض )The Interpreter of Maladies(1999).ہے جس کا نام 

***

ایلیٹ مسز سین کے پاس تب سے جا رہا ہے جب سے ستمبر میں اسکول کھلا۔ ایک سال قبل تک اس کی دیکھ بھال یونیورسٹی کی ایبی نامی ایک طالبہ کرتی تھی ۔ پتلی دبلی سی داغدار چہرے والی جو بغیر تصاویر کی کتابیں پڑھتی رہتی تھی اور ایلیٹ کے لئے کھانا تیار کرتی تھی، جس میں گوشت والی چیزوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ایبی سے پہلے مسز لنڈِن ،ایک ادھیڑ عمر عورت اسکول سے واپسی پر اسے خوش آمدید کہتی ۔ وہ کافی پیتی رہتی اور کراس ورڈ پزل(لفظی معمہ)حل کرتی رہتی تھی ۔ ایلیٹ بھی اپنے کھیلوں میں لگ جاتا۔ ایبی کو یونیورسٹی ڈگری ملی تو وہ دوسری جگہ رخصت ہو گئی۔ لنڈِن کو ایلیٹ کی والدہ نے اچانک ایک دن ملازمت سے خارج کر دیا جب انہیں پتہ چلا کہ اس کے کافی تھرمس میں کافی سے زیادہ وہسکی ہوتی تھی۔ مسز سین کا پتہ انہیں ایک ستھری تحریر میں سپرمارکیٹ کے ایک انڈیکس کارڈ میں درج حاصل ہوا ... ”پروفیسر کی اہلیہ ، ذمہ دار اور نرم گو۔ میں آپ کے بچے کی دیکھ بھال اپنے ہی گھر پر پوری اپنائیت سے کروں گی۔“ ایلیٹ کی والدہ نے فون پر مسز سین کو کہا کہ” اب تک کی ساری بے بی سیٹرز ان کے گھر پر آتی تھیں۔ وہ اب گیارہ سال کا ہے۔وہ خود سے کھاپی سکتا ہے ،کھیل سکتا ہے۔ میں بس گھر پہ کسی بالغ شخص کے ساتھ اسے رکھنا چاہتی ہوں ۔ جو وقت ضرورت اس کا خیال رکھ سکے۔“لیکن مسز سین کو ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔ ”آپ دیکھ سکتی ہیں کہ ہماری رہائش گاہ کتنی صاف اور محفوظ ہے ۔ یہاں بچے کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ “مسز سین نے پہلی ملاقات میں انھیں بتایا۔ کیمپس کے احاطے میں ایک چھور پر ان کا وہ یونیورسٹی کوارٹر تھا۔ لابی کا فرش بد نما بھورے چوکور خانوں سے بنا ہوا تھا ۔ کئی میل باکس ایک قطار میں سجے تھے جن پہ سفید کاغذ یا بھورے ٹیپ لگا دےے گئے تھے۔ ہلکے سبز رنگ کے قالین پر ویکیوم کلینر کی صفائی عیاں تھی ۔اس کے ساتھ ایک اور عجیب چیز مجھے وہاں نظر آئی۔ کمرے کے ہر صوفہ اور کرسی کے سامنے مختلف رنگ اور وضع کے چھوٹے چھوٹے قالین نما ٹکڑے بھی رکھے تھے۔ جیسے ہر ٹکڑا علیحدہ و منفرد انداز میں آنے والے شخص کو خوش آمدید کرنے کی خاطر رکھا گیا ہے کہ جہاں آپ کے قدم رنجا فرمائیں ۔ سفید رنگ کے ڈھول نما لیمپ شیڈز صوفے کے قریب اب بھی اپنی پنّی میں تھے، جس پر ان کے بنائے جانے کی تاریخ درج تھی۔ ٹی وی اور ٹیلیفون دونوں زرد رنگ کے کپڑے کے ٹکڑوں سے ڈھکے تھے ،جس کے کناروں پر کنگورے بنے تھے ۔ کھانے کے تھال پر مکھن والے بکسٹ،چندپیالیاں اور ایک لمبی سی سرمئی کیتلی میں چائے تھی ۔ مسٹر سین بھی وہاں موجود تھے ۔ وہ ایک چھوٹے قد کے تنومند سے شخص تھے ۔ان کی باہر کی سمت نکلی ہوئی آنکھوں پر چوکور شیشے والا چشمہ تھا۔ انھوں نے بمشکل اپنے پاﺅں سمیٹے اور چائے کی پیالی کو متواتر منہ کے کافی قریب کر رکھا تھا۔ حالاں کہ وہ مستقل چائے نہیں پی رہے تھے۔ مسٹرو مسز سین ، دونوں نے ہی اپنے جوتے اتار رکھے تھے۔ ایلیٹ نے غور کیا کہ ان کے پاس جوتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ اندر داخل ہونے والے دروازے کے پاس ایک چھوٹے سے کتب خانہ نما الماری میں کئی جوتیاں سجی رکھی تھیں۔ ”مسٹرسین یونیورسٹی میں علم ریاضیات پڑھاتے ہیں“۔ مسز سین نے تعارف کے نام پر کچھ اس انداز میں کہا جیسے وہ بہت دور کے تعلق میں ساتھ ہیں ۔ وہ تقریبا تیس سال کی تھیں ۔ ان کے دانتوں کے درمیان ذرا فاصلہ تھا ٹھڈی پر چیچک کے نشان تھے، لیکن ان کی گہری بھنووں والی آنکھیں خوبصورت تھیں ۔ انھوں نے ایک جھلملاتی سی سفید ساڑی پہن رکھی تھی جس پر نارنجی ترنج بنے ہوئے تھے ۔ وہ ساڑی کسی شام کی تقریب میں زیادہ مناسب لگتی ،کیوں کہ اس وقت تو اگست کی پھوار پڑ رہی تھی ۔ان کے لبوں پر ایک مصنوعی گلابی چمک تھی جس کا ذرا سا رنگ اپنے حاشیے سے باہرپھیل چکا تھا۔لیکن پھر بھی ایلیٹ کو اپنی والدہ ہی اس وقت وہاں عجیب لگ رہی تھیں ۔ جنھوں نے خاکی رنگ کے شارٹس اور رسی نما تلوے کے جوتے پہن رکھے تھے۔ ان کے خشخشی بال کافی پتلے اور چپکے ہوئے لگ رہے تھے۔ وہ کمرہ جہاں ہر چیز بڑی قرینے سے ڈھکی رکھی گئی تھی ۔اس میں ان کے بے لباس گھٹنے اورران کافی عجیب لگ رہے تھے۔ جب بھی مسز سین نے اس کی جانب بسکٹ کی پلیٹ بڑھائی ، ایلیٹ نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ایلیٹ کی والدہ نے ان سے کئی سوالات پوچھے جن کے جوابات ایک ڈائری میں درج کئے گئے۔”کیا اپارٹمنٹ میں اور بھی دیگر بچے ہیں؟کیا مسز سین نے پہلے کبھی بچوں کی دیکھ بھال کی تھی؟ وہ کب سے اس ملک میں رہائش پذیر ہیں؟ “وہ سب سے زیادہ اس بات پرحیران تھیں کہ مسز سین کو گاڑی چلانی نہیں آتی تھی۔ ایلیٹ کی والدہ وہاں سے کچھ پچاس میل کی دوری پر کام کرتی تھیں جب کہ والد، جو پچھلی بار سننے کو ملا تھا کہ وہ کچھ دو ہزار میلوں دور رہتے تھے۔ ”میں انھیں مشق کرواتا رہا ہوں ،مجھے لگتا ہے کہ مسز سین کو دسمبر تک ڈرایونگ لائسنس مل جائے گی۔ “مسٹر سین نے میز پر پہلی دفعہ پیالی رکھتے ہوئے کہا۔"کیا ایسی بات ہے؟ “ ایلیٹ کی والدہ نے یہ بات بھی ڈائری میں نقل کی۔"ہاں میں سیکھ رہی ہوں ۔ حالاںکہ میں ایک سست رفتار طالبہ ہوں ۔ گھر پہ تو آپ کو پتہ ہے ڈرائیور ہے۔“ مسز سین نے کہا۔"آپ کا مطلب ، شوفر ہے؟""ہندوستان میں ایسا ہی ہوتا ہے؟""جی ہاں "مسز سین نے جواب دیا ۔ اس لفظ کو ادا کرتے وقت ان کے اندر سے کوئی چیز آزاد ہوئی۔ انھوں نے اپنی ساڑی کو ذرا ٹھیک کیا ۔ پھر کمرے کا ایک جائزہ لیا جیسے ان کو اس کمرے میں کچھ ایسی چیز نظر آرہی ہو جو کسی اور کو دکھائی ہی نہ دے۔ ”وہاں سب کچھ ہے۔“ایلیٹ کو اسکول کے بعد مسز سین کے گھر جانے میں کوئی مضائقہ نہ لگا ۔ سمندری کنارے پر بسے اس چھوٹے سے مکان میں ٹھنڈ بڑھ چکی تھی۔انھیں ایک ہیٹر بھی خریدنا پڑا۔ کھڑکیوں کو پلاسٹک شیٹ سے بند کر دیا گیا، اس میں ایک بال سکھانے والے ڈرائرکا بھی استعمال کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ وہاں کھیلنے والا کوئی بھی نہ تھا۔ سمندری کنارے پر سناٹا تھا ۔ اسے اب گھونگے کے ٹوٹے پھوٹے کھوکھلے سیپ اکٹھا کرنے میں مزہ بھی نہیں آتا تھا۔ سمندر کے گرم و گدگدے پودوں کو بھی وہ کتنا سہلاتا رہتا بھلا؟مسز سین کا اپارٹمنٹ گرم تھا۔ بڑے سے ہیٹر کے تار ایک پریشر کوکر کی مانند پھنکارتے رہتے۔ ایلیٹ نے مسز سین کے گھر سب سے پہلے اپنے جوتے اتارنا سیکھا ۔ وہ انھیں جوتوں کی الماری میں سلیقے سے کھڑا کر دیتا۔ اس نے دیکھا کہ مسز سین کی جوتیاں مختلف رنگوں کی تو تھیں لیکن سب ایک جیسی لگتیں۔ وہ سارے کارڈ بورڈ نما تلوے والے تھے جس پر ان کے موٹے سے انگوٹھے کے لئے ایک ایک گولہ سا بنا تھا۔ایلیٹ کو بڑا مزہ آتا جب وہ مسز سین کو سبزیاں کاٹتے ہوئے دیکھتا۔ مہمان خانے کے فرش پر اخبار بچھا کر چاقو کے بجائے وہ ایک تیز چاند نما چھرے سے اپنا کام کرتی تھیں۔ وہ چھرا کسی وائ کنگ جہاز کے مستک کی مانند دکھائی دیتا جو کہ دور دراز سمندی علاقوں کی سیر پر نکلتا ہے۔ اس کا ایک سرا پتلے سے لکڑی کے پاٹ پر گڑا تھا اور دوسرا سرا کچھ نوکیلے تاج جیسا تھا جس سے کدو کش کیا جاتا تھا ۔ اس کے تیز چھرے کو سامنے رکھ کر وہ ثابت سبزیاں اپنے ہاتھوں کے درمیان رکھتی تھیں اور ان کوذبح کرنے کے انداز میں تیز ی سے کاٹا کرتی تھیں،پھول گوبھی، بند گوبھی، لوکی وغیر۔ وہ ہرچیز کو پہلے آدھا کرتیں پھر ایک چوتھائی کر کے بڑی تیزی سے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتیں۔ اس سے وہ بڑی سرعت سے آلوﺅں کو بھی چھیل ڈالتیں۔ ایک بڑے سے بھگونے میں رکھے پانی میں ان سبزیوں کو وہ دھوتی تھیں۔ جب وہ یہ کام کرتیں تو ان کی ایک آنکھ ٹی وی پر ہوتی اور دوسری نظر ایلیٹ پر۔ اپنے پاس عجیب سے چھرے پر تو وہ کبھی دھیان ہی نہ دیتی تھیں۔ سبزی کاٹتے وقت وہ ایلیٹ کو ادھر ادھر نہ ہونے دیتیں۔”بس بیٹھ جاﺅ۔پلیز صرف دو منٹ کی بات ہے، یہ ہوگیا“صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولتیں ۔ جس پر ہمیشہ سبز و سیاہ رنگ کا ایک غلاف بچھا رہتا، جس پر کئی ہاتھی ایک قطار میں اپنی پیٹھ پر پالکیاں اٹھائے چل رہے تھے۔ ایلیٹ کو مصروف رکھنے کے لئے مسز سین اخبار کے کارٹون والے حصے سامنے رکھ دیتیں۔ بسکٹ پر مکھن لگا کر کبھی ایک گاجر تراش کر اور کبھی ایک ٹافی پکڑا کروہ اپنا یہ کام کرتی تھیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس کے اطراف رسی کی گھیرا بندی کر دیں۔ایسا لگتا کہ اس طرح کے چاند نماخطرناک چاقو ہندوستان کے ہر گھر میں موجود ہیں ۔” جب بھی ہمارے یہاں کوئی شادی ہوتی یا کوئی بڑا مجمع ہوتا میری ماں آس پڑوس سے ساری عورتوں کو ان چھروں کے ساتھ بلا لیتی تھیں۔ وہ سبھی مکان کے چھت پر ایک بڑے سے گولے میں بیٹھی ہنستے بولتے ، گپ شپ کرتے پچاسوں کلو سبزیاں کاٹ اور کتر ڈالتی تھیں“۔ مسز سین ایک دن کھیرے بیگن اور پیاز کے چھلکوں سے گھری بیٹھی ہوئی بتانے لگیں۔” رات بھر یہ کام چلتا رہتا ، ان کے شور و غل میں سونا محال تھا۔ “تھوڑی دیر رک کر کھڑکی کے باہر لگے پائن کے درخت پر انہوں نے اپنی نظریں مرکوز کر لیں ۔ ”یہاں اس جگہ جہاں مسٹر سین مجھے لے کر آگئے ہیں اتنی خاموشی ہے کہ اکثر میں اس کی وجہ سے سوہی نہیں پاتی۔ “ایک دن بیگم سین مرغی کا قورمہ پکانے کی تیاری میں تھیں۔ جب وہ مرغی کی ہڈیاں توڑ رہی تھیں تو کڑک جیسی آواز آرہی تھی اور ان کی سبز چوڑیاں چھن چھن بج رہی تھیں ۔ ان کی کلائیاں چمک رہی تھیں ۔انھوں نے زور سے سانس لیا ۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے رکیں اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگیں ۔ ان کی انگلیوں میں چربی لگی ہوئی تھی۔ "ایلیٹ ، اگر میں ابھی اچانک زور سے چلاّﺅں تو کیا کوئی دریافت کرنے آئے گا؟""کیا ہوا مسز سین؟""کچھ نہیں بس یونہی پوچھ رہی ہوں کہ کیا کوئی پوچھنے آئے گا؟ "ایلیٹ نے کاندھے اچکائے۔"شاید۔۔۔"ہمارے گھر پر تو یہی کرنا کافی ہوتا ہے۔ سب کے گھروں میں فون نہیں ہوتا۔ تمہیں صرف اپنی آواز ذرا اونچی کرنے کی ضرورت ہے۔ رونا گانا جو بھی کرنا ہو اور بس دیکھو تھوڑی دیر میں ہی سارا محلہ آپہنچے گاتمہاری خیریت لینے، تمہاری مدد کرنے۔ایلیٹ کو سمجھ آ چکا تھا کہ مسز سین جب بھی گھر کی بات کرتیں ان کا مطلب ہندوستان سے ہوتا تھا۔ یہاں اس اپارٹمنٹ سے نہیں جہاں وہ بیٹھی سبزیاں کاٹتی رہتیں۔ اس نے اپنے گھر کے متعلق سوچا جہاں کچھ ہی دوری پر ایک نوجوان جوڑی بھی رہتی تھی۔وہ شام ایک ساتھ سمندری کنارے پر دوڑ لگاتے اور اسے ہاتھ ہلا کر مسکراتے۔ اسے یاد آیا کہ پچھلے سال یوم مزدور پر انھوں نے ایک دعوت منعقد کی تھی ۔ اور کافی لوگ اس میں مدعو تھے ۔ ان کے علاوہ ا س کی والدہ اس دن اپنی پرانی کار کو دھو رہی تھیں۔ موسیقی کی آواز کافی تیز تھی اور ان کی چھت پر سارے لوگ مل کر خوشی و جوش کے ساتھ رقص کرنے لگے تھے۔ اس کی والدہ نے فون بک میں ان کا نمبر ڈھونڈا اور انھیں فون کرکے سکون میں رہنے کی تاکید کی۔ایلیٹ نے کچھ سوچ کر مسز سین کو کہا ۔۔”ہاں ہو سکتا ہے کوئی آپ کو کال کرے مگر وہ آپ سے شکایت ہی کریں گے کہ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے؟"ایلیٹ صوفے پر بیٹھا تھا وہ مسز سین کے کپڑوں سے آنے والی زیرے کی خوشبو کو پہچانتا تھا ۔ وہ ان کے چوٹی میں گندھے بالوں کے درمیانی مانگ پر سندور کو دیکھ سکتا تھااور اسے محسوس ہوا جیسے ان کی مانگ شرما کر سرخ ہو گئی ہو۔ شروع میں ایلیٹ سوچتا تھا کہ یا تو ان کی کھوپڑی پھٹ گئی تھی یا کسی کیڑے نے انھیں کاٹ لیا تھا۔ پھر ایک د ن اس نے انہیں غسل خانہ کے آئینے کے سامنے بڑی متانت کے ساتھ اپنے سر پر اس سرخ پاﺅڈر کو چٹکی میں لے کر لگاتے ہوئے دیکھا،جس کو وہ ایک چھوٹی سی ڈبیہ میں رکھی ہوئی تھیں۔ذرا ساسفوف ان کی ناک کی نوک پر بھی آگرا جب انھوں نے اپنی دونوں بھوﺅں کے درمیان ایک چھوٹا سا گول نشان بنایا۔ ہر روز مجھے یہ رنگین پاﺅڈر لگاناضروری ہے۔ "انھوں نے ایلیٹ کو تشریح کرنے کے انداز میں بتایا۔ ”اس سے پتہ چلتا ہے میں شادی شدہ اور محفوظ ہوں۔""آپ کا مطلب یہ شادی کی انگوٹھی کے طور پر کام کرتا ہے؟؟؟""بالکل صحیح ۔ہاں ایلیٹ یہ اسی انگوٹھی کی مانند ہے ۔"جب تک ایلیٹ کی والدہ چھ بج کر بیس منٹ پر اسے لینے کے ليے آتیں ، مسز سین بڑی لگن سے اپنے کاٹنے چھیلنے کے نشان مٹا چکی ہوتیں۔ اخبار کے حصے سبزیوں کے چھلکے بیج اوردیگر غیر ضروری چیزوں کے ساتھ کوڑے دان کی نذر ہو چکے ہوتے ۔ ان کا چاند چاقو دھو سکھا کر اندر رکھا جا چکا ہوتا۔ ابلتے ہوئے مصالحے دار پانی میں ایک خاص انداز میں ناپ تول کر کئی اور خشک مصالحہ ڈال کر وہ اپنے اسٹوو کے پھول نما آگ پر چڑھا کر کئی قسم کے شوربے تیار کر چکی ہوتیں۔ ان کے یہاں کبھی کوئی خاص موقع نہیں ہوتا ، نہ کوئی ان کے یہاں مہمان آتا۔ وہ کھانا ہر روز دو ہی لوگوں کے لیے تیار ہوتا جیسا کہ میز پر رکھی دو تھالیوں اور دو پانی کے بڑے پیالوں سے معلوم ہوتا۔ وہاں نہ چاندی کے برتن ہوتے نہ کبھی ٹشو پیپر۔نہ جانے کیوں ایلیٹ جب بھی سبزیوں کے بچے کھچے حصوں کو اخبار سمیت کوڑے دان میں دباتا اسے ایک احساس جرم سا لگتا۔جیسے وہ کوئی قانون توڑرہا ہے ۔ ایسا شاید مسز سین کے کام کرنے کی رفتار کے باعث محسوس ہوتا ۔ وہ جس پھرتی سے دال دھوتیں، چٹکیاں بھر بھر چینی اور نمک ڈالتیں، باورچی خانے کے الماریوں کے دروازے ایک کے بعد ایک سرعت سے کھلتے بند ہوتے تاکہ ایک خاص وقت تک سارے کام سے وہ فارغ ہو جائیں۔ اور تبھی اچانک دروازے پہ جب اس کی والدہ دستک دیتیں تو ایلیٹ چونک سا جاتا۔ وہ ہمیشہ جلد بازی دکھاتی تھیں ،لیکن کبھی کبھی مسزسین انہیں بیٹھنے پر اصرار کرتیں اور ہر شام وہ انھیں کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے پیش کرتیں ۔مثلا گلابی دہی، قیمے اور کشمش والے بریڈپکوڑے یا سوجی کا حلوہ۔ اس کی والدہ اپنے آفس کے لباس میں کچھ عجیب لگتی تھیں۔"مسز سین ،میں آفس میں دن کا کھانا کھاتی ہوں۔ آپ کویہ زحمت نہیں کرنی چاہیے۔""نہیں نہیں یہ کوئی زحمت نہیں جیسے ایلیٹ ہے ویسی ہی آپ بھی میری اپنی ہیں۔"اس کی والدہ مسز سین کے مخلوطی کھانوں میں سے ذرا سا کچھ اٹھاتیں اور چھت کی طرف دیکھتی ہوئی تھوڑا سا کترتیں جیسے کوئی فیصلہ درج کرنا ہو۔ وہ اپنی اونچی ہیل کی جوتیاں اتارنا پسند نہیں کرتیں اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر قالین میں گڈھے بناتی ہوئی بیٹھتی تھیں۔ یہ مزے کا ہے۔“وہ فیصلہ کن انداز میں گویا ہوئیں ۔ ایک دو بار کترنے کے بعد وہ اسے دوبارہ تھالی میں رکھ دیتیں اور گھر جانے کی اجازت لیتیں۔ایلیٹ کو معلوم تھا کہ انہیں وہ کھانا بالکل پسند نہ تھا۔نہ ہی وہ آفس میں کچھ کھاتی تھیں۔ کیوں کہ گھر پہنچتے ہی وہ پہلا کام یہ کرتیں کہ وہ ایک گلاس جام تیار کرتیں اور بریڈ چیز لے کر بیٹھ جاتیں تھیں۔ اکثر وہ اتنا زیادہ پی جاتی تھیں کہ باہر سے منگوائے پزّا کو ہاتھ بھی نہ لگاتیں بلکہ خود بالکنی میں جا کر سگریٹ سلگاتیں اور ایلیٹ پزّا کھا کر ساری چیزیں سمیٹتا رہتا۔ہر دوپہر مسز سین اسے اسکول بس سے موصول کرکے سیدھے اپنی کار کے پاس پہنچتی تھیں وہ اس کے لئے اکثر نارنگی کی قاشیں یا نمکین مونگ پھلی لے کر آتی تھیں۔ وہ ایک ٹافی کے رنگ کی سیدان گاڑی تھی جس میں ایک ریڈیو ، کلنکس ٹیشو پیپر کا ڈبہ اور برف کھرچنے والی ڈنڈی ہوتی ۔ مسز سین کہتی تھیں کہ وہ ایلیٹ کو اکیلا گھر میں چھوڑنا پسند نہیں کرتی تھیں۔لیکن ایلیٹ کو پتہ تھا کہ وہ تنہا کار چلانے سے ڈرتی تھیں۔ انھیں ا گنیشن مشین کی تیز آواز سے وحشت ہوتی اور کانوں پہ ہاتھ رکھ دیتیں۔ بڑی مشکل سے وہ اپنے چپل والے پیروں سے آگے بیٹھتیں ۔ "مسٹر سین کہتے ہیں کہ ”جیسے ہی مجھے ڈرائیونگ لائسنس مل جائے گا حالات بہتر ہو جائیں گے۔ کیا تمہیں ایسا لگتا ہے ایلیٹ ؟"ایلیٹ نے مشورہ کے انداز میں کہا، ” ہاں پھر تو تم ہر جگہ جا پاﺅگی ۔ کہیں بھی جہاں تم چاہو۔""کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں کلکتہ بھی جا سکوں گی؟ اس میں کتنا وقت لگ جائے گا ایلیٹ ؟ اگر ایک گھنٹے میں میں پچاس میل طے کرپائی تو دس ہزار میل کی دوری کتنے دن میں طے ہوگی؟"ایلیٹ اپنے ذہن میں یہ حساب کتاب حل نہ کر پاتا ۔ وہ گاڑی چلانے کی تیاری اطمنان سے کرتیں اور اپارٹمنٹ کے گرد دو چکر لگا کر پوچھتیں ،" میں کیسی گاڑی چلا رہی ہوں ایلیٹ ؟ پاس تو ہو جاﺅں گی نا؟ایک تو وہ ہر چیز کو دیکھ کر رک جاتیں خواہ وہ گاڑی یا دور اڑتی چڑیا ہو۔ ان کی گھبراہٹ عیاں ہو جاتی ، ہاتھ زرد سے ہو جاتے اور وہ غلط انگریز ی بولنے لگتیں۔ کوئی ان کی گاڑی کے آگے بڑھنے کے لیے کیوں رکتا بھلا؟مسز سین دو ہی چیزوں سے خوش ہوتی تھیں ۔ ایلیٹ کو بہت جلد پتہ چل گیا کہ ایک تو ان کے مائکے سے آئے خطوط ان کو مسرور کر دیتے یا پھر پکانے کو جب ان کی پسندکی مچھلی مل جاتی۔ خط پڑھتے ہی وہ فون گھماتی تھیں ، مسٹر سین کو خط پڑھ کر سناتیں اور اس وقت وہ بالکل بدلی ہوئی لگتی تھیں۔ ان کی آواز بلند اور آنکھیں ناچتی ہوئی ہوتی تھیں ۔ ایک دن انھوں نے ایلیٹ کو بتایا کہ ان کی بہن کی ایک بیٹی ہے جو کہ تین سال پورے کر چکی ہوگی ۔ جب تک مسز سین اس سے ملنے پہنچیںگی ۔ ”وہ اپنی خالہ کو بھی نہیں پہچان پائے گی ۔ سوچو ذرا کہ ہم ددونوں اگر ریل گاڑی میں ایک دوسرے کے سامنے بھی بیٹھے ہوں گے تو ہمیں معلوم نہ ہو پائے گا ہم ایک دوسرے کے کون ہیں؟"اس دن وہ بہت خوش تھیں۔ انھوں نے پہلی بار مجھے گلے سے لگایا ۔ پھر پوچھا ۔۔”ایلیٹ تمہیں اپنی ماں کی یاد آتی ہے؟"اسے تو ایسا کبھی محسوس نہ ہوا تھا۔ "تمہیں اپنی ماں کو یاد کرنا چاہیے اتنے چھوٹے سے ہو تم مجھے بڑا عجیب لگتا ہے کہ تم دن بھر ان سے جدا رہتے ہو۔ جب میں تمہاری عمر کی تھی تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ خیر تم کافی سمجھدار ہو۔ میں نے اپنے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کیا تھا۔" مچھلیوں سے مسز سین خو ش ہو جاتی تھیں لیکن انھیں ہر مچھلی پسند نہ تھی ۔ انھوں نے ایلیٹ کی والدہ سے بھی ذکر کیا کہ سمندرکے اتنے قریب رہنے کے باوجود وہ اپنی پسند کی مچھلیوں سے محروم ہیں۔ انھوں نے سپر مارکیٹ جانے کا مشورہ دیا ۔ مسز سین نے نفی میں سر ہلا کر کہا ۔”ا گر میں بتیس طرح کے ڈبوں میں بھی جھانک لوں تو مجھے میری مچھلی نصیب نہیں ہو پاتی ۔ وہ سب شاید کسی بلی کا نوالہ بن جائیں“۔ جب کہ وہ خود ہر روزدونوں وقت مچھلی کھا کر ہی پروان چڑھی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کلکتہ میں لوگ صبح سب سے پہلے مچھلی کھاتے ، سونے سے پہلے مچھلی کھاتے اور اگر اسکول ٹفن میں بھی مچھلی مل جائے تو وہ خوش قسمت تسلیم کیے جاتے۔ وہ مچھلی کی دم کھاتے ،سر کھاتے اور اس کے انڈے تک ہضم کر جاتے ۔ یہ سب ہر جگہ ہر وقت مل جاتے آسانی سے کسی بھی بازار میں پہنچ جائیں خواہ صبح ہو یا آدھی رات ۔ آپ کو کوئی زحمت نہیں ہوتی۔ بس گھر سے نکلئے ،ذرا دورچلیے پھر کیا؟ مچھلیاں ہر قسم کی آپ کو مل جائیں گی۔لیکن اس قسم کی خوش گپی بہت کم ہوتی ۔ ہماری شامیں اکثر ٹھنڈی اورخاموش ہوتیں۔ ایلیٹ نے کئی دفعہ مسز سین کی نا ک لال اور آنکھیں سوجی ہوئی دیکھیں مسٹر سین کبھی کبھی دوپہر کھانا کھانے یا کوئی چیز خریدنے کے لیے آجاتے۔ وہ آتے ہی جوتے اتارتے ، ایلیٹ کا سر تھپتھپاتے اور اندر چلے جاتے ۔ اس نے کبھی مسز سین کو اور انھیں ایک دوسرے کا بوسہ لیتے نہیں دیکھا۔ایک دن مسز سین بڑی خاموش تھیں، جیسے ان کے دل میں کوئی طوفان برپا ہو۔ ایلیٹ انھیں بغور دیکھ رہا تھا۔ اچانک مسز سین اسے کھینچتی ہوئی خوابگاہ میں لے گئیں اور تڑاتڑساری الماریاں کھول ڈالیں ان میں سوٹ ٹائی پینٹ اور منفرد رنگوں کی خوبصورت ساریاں سجی تھیں جن پر سنہری یا چاندی نما دھاگوں کے بارڈر اور ڈیزائن بنے ہوئے تھے ۔مسز سین نے یک لخت برخلاف دستور ان ساری ساڑیوں کو فرش پر پھینکنا شروع کر دیا کچھ ہینگرز سے نکال کر کچھ ان کے ساتھ ہی پورے کمرے میں کافور کی بو پھیل گئی۔"یہ کب پہنا ہے میں نے ؟کب؟یہ ، یہ بھی نہیں۔۔ کہیں جانے کے لیے کوئ ہے ہی نہیں؟اور وہ لوگ خط میں لکھتے ہیں تصویر بھیجواپنی نئی زندگی ، نئے طرز کی تصویر بھیجوہونہ کیا بھیجوں؟“وہ پھر تھک کر بستر کے کنارے بیٹھ گئیں ۔ جس پر ہر قسم کے کپڑے منٹوں میں بکھر چکے تھے۔ ”وہ سوچتے ہیں کہ میں ایک بادشاہ کی بیگم کی مانند زندگی جی رہی ہوں "ایلیٹ۔“ اپنی خالی دیواروں کو گھور تے ہوئے پھر گویا ہوئیں”انھیں لگتا ہے میں ایک بٹن دباتی ہوں اور پورا مکان صاف ہو جاتا ہے ۔ انہیں لگتا ہے میں کسی محل میں مقیم ہوں۔"تبھی فون بجا ۔مسزسین نے کچھ دیر تک ان سنی کر دیا ۔ پھر کریڈل اٹھایا صرف کچھ جواب دینے کے لئے۔ ساڑی کے پلو سے آنسو صاف کرتی رہیں ۔ فون بند ہونے پر سارے کپڑوں کو الماری میں بغیر سوچے ٹھونسنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد ایلیٹ کو جوتے پہنا کر ادھر چل پڑیں جہاں انھیں مسٹر سین کا انتظار کرنا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مسٹر سین نظر آگئے ۔ کار کے ہڈ پر انگلیاں بجاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مسز سین کیوں نہیں آج ڈرائیو کر لیتیں؟وہ لوگ میرے سامنے انگریزی میں ہی باتیں کرتے ۔"نہیں آج نہیں، انھوں نے انکار کر دیا۔ وہ لوگ خاموشی سے چلتے رہے کچھ فاصلے کے بعد وہ مچھلی بازار پہنچے جہاں ایک الگ ہی ماحول تھا۔ لوگ مچھلیاں دیکھ رہے تھے، خریدرہے تھے یا پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے ۔کچھ سیاح بھی کیمرے لٹکائے گھوم رہے تھے۔ مسٹر سین گاڑی میں ہی بیٹھے رہے اور مسز سین آگے بڑھیں۔ انھوں نے ایک چیتل پسند کیا اور پوچھا"آپ سچ مچ مجھے تازی مچھلی دے رہے ہیں ناں؟""اس سے زیادہ تازی آپ کو ملنے سے رہی کہیں۔ “مچھیرے نے مچھلی کو تولتے ہوئے جواب دیا۔ "یہ آپ صاف کروانا چاہتی ہو؟"ہاں لیکن سروالا حصہ دھیان سے۔" ""کیا آپ کے گھر پہ بلی ہے؟""نہیں کوئی بلی نہیں بس ایک عدد شوہر ہے۔"

گھر آکر انھوں نے کچھ اطمنان کے ساتھ مچھلی کو صاف کیا۔ اس کے لال گلپھڑوں کا بغور جائزہ لیا اور اسے انگلیوں سے ناپنے لگیں۔"آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟" "یہ دیکھنے کے لئے کہ اگر اسے سلیقے سے کاٹا جائے تو یہ کتنے دنوں تک تینوں وقت میرا ساتھ دے سکتی ہے۔"ایلیٹ کو یاد آیا کہ مسز سین زیادہ تر سبزیاں یا مرغ ہی کاٹتی اور پکاتی ہیں۔نومبر آتے ہی کئی دن روزانہ کئے جانے والے کاموں کے بغیر ہی گذارے گئے ۔ مسز سین جب رہتیں سبزیاں فرج میں ہی رکھی رہیں ۔ وہ کبھی موسیقی شروع کرتیں ۔”راگ“انھوں نے نام بتایا۔ ٹی وی چلتی رہتی مگر وہ دیکھتی نہیں۔ چائے پیالی میں ہی ٹھنڈی ہو جاتی وہ آنکھیں موندے کبھی کبھی ایک خاص کیسٹ کو بھی بجاتی تھیں جس میں کئی لوگ ایک دوسری زبان میں کچھ کہہ رہے تھے۔ یہ الوداعی تحفہ تھا ایلیٹ۔وہ بتا رہے ہیں کہ مجھے کیسے ہمیشہ خوش رہنا ہے اور مسٹر سین کو رضا مند رکھنا ہے ۔ان سارے لوگوں کو چھوڑ کر میں یہاں آئی ہوں ایلیٹ۔جب ان کے دادا حضور کیسٹ میں بولنے لگے تو انھوں نے بتایا کہ خط آیا ہے ۔ دادا کا پچھلے ہفتے انتقال ہو گیا۔ کچھ ایک ہفتے بعد گھر کے ماحول میں کچھ زندگی واپس آئی۔ایک دن مسٹر سین ان دونوں کو لے کر باہر گئے۔ انھوں نے باہر ہی کھانا کھایا، کچھ چیزیں خریدیں، مسز سین ہنستی کھلکھلاتی بہت مختلف لگ رہی تھیں۔ سمندر کے کنارے انھوں نے تصویریں بھی اتاریں جس میں ان کی لال ساڑی کوٹ کے نیچے دبی ہوئی تھی لیکن ایک حصہ ہوا میں آگ کے شعلوں کی مانند اڑ رہا تھا۔ دونوں کو خوش دیکھ ایلیٹ کو بھی اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ مسٹر سین نے اپنی بیگم کو ڈرائیونگ کے لئے آج رضا مند کر لیا ۔ بمشکل تھوڑا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ ان کی ہلکی رفتار سے متاثر دیگر گاڑی والے ہارن بجا بجا کر شور برپا کر رہے تھے۔ پھر آخر کار مسز سین نے اسٹیرنگ وہیل پر سرٹکا دیا۔ "اف! مجھے نفرت ہے نفرت ہے ، اس چیز سے ۔ یہ اب اور مجھے سے نہیں ہوگا۔“وہ تقریبا چیخ رہی تھیں۔اس حادثے کے بعد ڈرائیونگ کا قصہ بالکل ختم ۔ اب وہ مچھلی والے کو فون نہ کرتیں بلکہ بس سے خود وہاں جانے لگیں ۔ یونیورسٹی اور سمندر کے درمیان بہت سارے چھوٹے بڑے مکانات تھے دکانیں تھیں۔ بزرگوں کے لئے ایک نرسنگ ہوم تھا ۔لمبے لمبے کوٹ پہنے کئی بزرگ خواتین بیٹھی نظر آتیں ۔ وہ زیادہ تر منہ چلاتی ہوئی نظر آتیں جیسے ٹافی چوس رہی ہوں ، ایک دن مسز سین نے بس کی کھڑکی سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ "ایلیٹ ، جب تمہاری ماں بوڑھی ہو جائے گی تو کیا تم اسے بھی نرسنگ ہوم میں بھیجوا دوگے؟""شاید۔لیکن میں ہر روز ان سے ملنے آﺅں گا۔""ابھی تم ایسا سوچتے ہو لیکن ایسا کر نہیں پاﺅ گے زندگی مہلت نہیں دیتی۔"مچھلی کی دکان پر مسز سین کے نام کا ایک تھیلا معین تھا ان کی پسند کی مچھلیوں سے بھرا ۔ رقم اداکر وہ لو گ بس کے انتظار میں کھڑے رہے کچھ چالیس منٹ کے بعد انھیں ایک بس میں جگہ ملی راہ میں ایک ضعیف عورت مستقل ان دونوں کو دیکھتی رہی اور ان کے تھیلے کو بھی جس پر خون کے دھبے تھے۔ بس میں لوگ کم تھے۔ انھوں نے وقت گذارنے کے لئے پیکٹ سے نکال کر تھوڑا کیک کھا لیا۔ نیپکین نہ ہونے کی وجہ سے مسز سین کے منہ پر کیک کا مکھن لگا رہا۔ اس ضعیف عورت نے ڈرائیور کے پاس جا کرکچھ سرگوشی کی اور پھر اتر گئی۔ ڈرائیور نے سر گھما کر پوچھا۔”اس تھیلے میں کیا ہے؟"مسز سین گھبراگئیں۔ "انگلش بولتی ہیں؟""جی ہاں ۔ ""پھر بتائےے کیا ہے اس میں ؟""ایک مچھلی“ ۔۔ مسز سین نے جواب دیا۔"اس کی بدبو دوسرے مسافروں کو تکلیف دے رہی ہے ۔ اے بچے بہتر ہے اپنی کھڑکی کھول دو۔"پھر ایک دوپہر مچھلی والے کا فون آیا کہ آج بہت اچھی ہلسامچھلی آئی ہے۔ انھوں نے ایک خاص وقت پر انھیں پہنچنے کو کہا۔ مسز سین سرعت سے اٹھ کر کچھ بیگن اٹھا لائیں۔ اسے پہلے لمبائی میں کاٹا پھر اس کے کافی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ ڈالے تقریبا چینی کے سائزمیں۔”آج بہت مزے دار مچھلی بینگن پکانے والی ہوں۔ہاں صرف کچے کیلے کی کمی رہے گی۔""کیا ہم مچھلی بازار جا رہے ہیں؟"”ہاں بالکل۔“مسز سین نے اپنی کار کا دروازہ کھولا اور چلنا شروع کر دیا ۔ حادثہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ کسی کے جان کو نقصان نہ ہوا لیکن ان کے ہونٹ کٹ گئے اور ایلیٹ کو سینے میں کچھ درد کا احساس ہوا۔ پولیس فوراًوارد ہو گئی مسٹر سین بلائے گئے۔ لائسنس نہ ہونا کافی پریشانی کا باعث تھا ۔ خیر کئی کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد وہ سب گھر واپس آئے ۔ دونوں میاں بیوی میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسٹر سین نے گاڑی پارک کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس والے ایلیٹ کی تعریف کر رہے تھے۔ ”کافی خوش قسمت بچہ ہے بس بچ گیا۔”سینڈل اتارتے ہی مسز سین نے فرش پر رکھے بیگن کے ٹکڑوں کو اخبار سمیت اٹھایا اور کوڑے دان میں زور دار طور پر جھونک دیا۔ وہ خوابگاہ میں جا چکی تھیں ۔ ایلیٹ کے لئے ٹی وی چلا دی گئی۔ شام میں جب اس کی والدہ آئیں تو مسٹر سین نے انہیں سارا ماجرا سنایا۔ساتھ ہی ایک چیک بھی دیا جس میں نومبرکے لئے دئے گئے پیسے واپس کر دئے گئے ۔ ایلیٹ کو معلوم تھا کہ مسز سین رو رہی تھیں ۔ اس کی والدہ نے گھر کے راستے میں قبول کیا کہ یہ اچھا ہی ہوا۔وہ مطمئن نہ تھیں ۔وہ شام مسز سین کے ساتھ ایلیٹ کی آخری شام تھی اسے اب کسی بے بی سٹیر کی ضرورت نہ تھی اس کی ماں نے اعلان کیا۔ اسی دن اس کے گلے میں ایک موٹا دھاگہ بندھ گیا جس میں کمرے کی چابی لٹکتی رہتی ۔ ضرورت پڑنے پر اسے پڑوسیوں کو خبردار کر نا تھااور اکیلا گھر پر رہنا تھا۔ دوسرے دن ایلیٹ جب اسکول سے واپس آیا تو فون بج اٹھا۔اس کی والدہ کی آواز آئی۔”ایلیٹ اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ تم ٹھیک ہو نا؟"ایلیٹ نے باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ سمندر کی لہریں چپ تھیں اس نے کہا ۔ "ہاں وہ ٹھیک ہے۔

٭٭٭

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024