مسافر
مسافر
May 24, 2019
زبان تا بوَد در دہاں جایگیر ثناے محمد بوَد دل پذیر
مُسافِر
ڈاکٹرمحمد یحییٰ جمیل
زبان تا بوَد در دہاں جایگیر
ثناے محمد بوَد دل پذیر
(شیخ سعدی شیرازی)
میں اچانک جاگ گیا لیکن آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں اور سرگھوم رہا تھا۔باہر کتّوں کا زور زور سے بھونکنا جاری تھا۔ کچھ منٹوں بعد کسی طرح آنکھیں کھولیں اور ہاتھوں کے سہارے اٹھ کر جونہی کھڑکی کے پردے سرکائے، سورج کے تیر، آنکھوں میں دھنس گئے۔ میں آنکھیں بند کر کے تیزی سے پیچھے ہٹا اور نڈھال، دوبارہ پھٹے ہوئے صوفے پر جا پڑا۔ باہر چلچلاتی دھوپ تھی اور میرا قمیص گاڑھے پسینے سے چپچپارہا تھا۔ پتا نہیں،میں کتنے دنوں کا پیاساتھا اور بھوکا بھی۔ اب چاروں طرف سناٹا تھا۔ کتّے اپنا فرض ادا کرچکے تھے۔ لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد سر اٹھا نا چاہا تو پھر چکر آگیااور سر میں درد کی ایک تیزلہر دوڑ گئی۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ بال خشک اور بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ انگلیاں بمشکل گندے بالوں سے جدا ہوسکیں۔ پھر میں، بڑے بڑے مَیل بھرے ناخنوں سے پیٹھ کھجاکھجا کر ہانپنے لگا۔ سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیر کر سوچاکاش دو گھونٹ پانی مل جائے، مگر پانی نہیں تھا۔ سب کچھ برباد تھا۔پورا شہر، نہیں بلکہ پورا ملک، یا شاید پوری دنیا؛ پتا نہیں۔
میرے ذہن میں بچپن کی ہلکی ہلکی یادیں تھیں، ماں کی مسکراہٹ، اور اس کے ہونٹوں کا لمس۔ لیکن ماں کاچہرہ صاف نہیں ہورہا تھا۔ میں نے ذہن پر بہت زور ڈالا لیکن ہر بار دوسری ہی شکلیں بن جاتیں۔یہ کیا ماجرا تھا کہ میں اس کی ممتا تو محسوس کررہا تھا لیکن اس کے چہرے کو بھول چکا تھا۔ اپنی لاچاری پر میں رونے لگا، لیکن آنکھ سے آنسو نہیں نکل سکے۔ کچھ پتلا کیچ گوشہ ہاے چشم میں بڑھ گیا اور ناک گیلی ہوگئی۔ میں نے ناک کھینچی، آنکھیں صاف کیں اور گھر سے نکلنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اس سے پہلے کئی مرتبہ گھر سے نکل کر کوئی بہتر ٹھکانہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ہر بار قدم ڈھیلے پڑ جاتے اور ہمت جواب دے جاتی۔ لیکن اب بہت ہوا، مجھے یہاں سے بہر حال نکلنا تھا۔مجھے امید تھی کہ کہیں نہ کہیں چشمہئ آب ضرورہو گا۔ میں جھٹکے سے اٹھا اور سب سے پہلے جوتے پہن لیے۔ اس کے تسمے باندھتے ہوئے میں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی بیگ مل جائے۔ گھر کا پورا سامان گرد میں اٹا ہوا اور بکھرا ہوا تھا۔ دیواروں کا پلاسٹر جگہ جگہ سے ادھڑ چکا تھااور مکڑی کے بڑے بڑے جالے تنے ہوئے تھے۔ تسمے باندھ کر سیدھا کھڑا ہوتے ہی الماری کے اوپر ایک بیگ نظر آگیا۔ میں نے لپک کر بیگ کھینچاتو اس میں سے ایک ٹیڈی بیئر باہر گر پڑا۔ یہ کس کا تھا؟ میرا؟ یا میرے بچے کا؟ تو کیا میرا بچہ بھی تھا؟ اور بیوی؟ مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔ میں نے اسے اٹھایا اور سینے سے لگالیا۔ لمحہ بھر سکون محسوس ہوا جیسے کسی نے مدتوں بعد مجھے اپنے سینے سے لگا لیا ہولیکن پھر وہی بے کلی شروع ہوگئی۔ میں نے اسے الماری کے اندررکھ دیا۔ اور ایک جوڑی کپڑے، ایک پستول اور پانی کی خالی کین بیگ میں ڈال کر اسے پیٹھ پر لٹکالیا۔صوفے پر پڑی ایک چھوٹی سی چادرکھینچ کر سر پر اوڑھی اور باہر نکل گیا۔ آتش افگن خورشید، نصف النہار پر تھا۔
چاروں طرف کھنڈر تھے اور راستے پر دھول اڑرہی تھی۔ میرا شہر ایسا نہیں تھا۔ پھر کیسا تھا؟ پتا نہیں لیکن، شایداس سے بہتر ہوگا۔ میں نے دروازہ مقفل کیا، پھر سوچا کیا اس کی ضرورت ہے؟ اس گھر میں کیا ہے جسے محفوظ رکھنا ضروری ہے؟ اور کیا میں دوبارہ اس گھر میں واپس بھی آؤں گا؟ لیکن اگر گھر کھلا رہا تو اس میں جانور گھس جائیں گے اور خراب کردیں گے۔ مگر اس وقت بھی یہ کون سا اچھا ہے؟ اُس طرح کم از کم کسی کے لیے پناہ گاہ تو بن سکتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے دروازہ کھول دیا اور چل پڑا۔ حریمِ نگاہ تک ہر منظر اداس تھا۔اب کس سمت جانا چاہیے؟ راحتوں کے آبشارکس طرف ہیں؟ کن علاقوں میں شجر آباد ہیں؟ کون جانے؟
میں چلتا رہا، لگاتار، بغیر رکے۔ عمارتیں سیاہ پڑ چکی تھیں۔ دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ بیشتر کھڑکیاں شیشوں سے عاری دکھائی دیں۔ ایک عمارت کے پاس سے گذرتے ہوئے مجھے اس میں بھیڑیے کی شبیہ محسوس ہوئی مگر یہ کتابھی ہوسکتا تھا۔ اس بے کراں، مہیب شہر میں بے شمار کتّے گھومتے تھے۔ میں تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ راستے پر جگہ جگہ کاریں اور دوسری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں نے چلتے ہوئے چند کاروں کو کھولنے کی کوشش کی لیکن سب مقفل تھیں۔بنی آدم کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا۔ شاید خستہئ آزار اپنے اپنے گھروں میں دبکے پڑے ہوں یا مر چکے ہوں۔ کسے خبر؟ کچھ دیر چلتے رہنے کے بعد احساس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے ہے،پلٹ کردیکھا تو پایا کہ تقریباً پچاس فیٹ کے فاصلہ پرچند کتے مجھے گھور رہے تھے۔ ’بیٹا کتّوں کو دیکھ کر بھاگنا نہیں چاہیے۔‘ ذہن کے کسی گوشے سے پاپا کی آواز آئی۔ مگر یہ کتے نہیں تھے یہ تو بھیڑیے تھے۔ میں وہیں ٹھہر گیا۔ بھیڑیے آگے بڑھنے لگے۔ میں نے پستول نکال لی۔ جب وہ ذرا قریب ہوگئے تو میں نے فایر کردیا۔ ایک بھیڑیا اچھل کر گرپڑا، دوسرے بھیڑیے فوراً بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ بھیڑیے ہی تھے یا کتے، پتا نہیں میں تیزی سے مخالف سمت دوڑ گیا۔ جب سانس پھولنے لگی تو اپنی رفتار کم کرلی۔پیاس سے گلا سوکھ رہا تھا۔ اس وقت میں سبز پتے یا گھاس ہی چبالیتا لیکن ہر طرف بے برگ، جھلسے ہوئے درخت تھے۔ کیا کرتا؟ چلتے چلتے زور سے ٹھوکر لگی اور میں لمحہ بھر میں زمین پر آرہا۔ دھول کا ایک مرغولہ اٹھا اور منھ میں خاک بھر گئی۔ میں مٹی تھوکتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ کپڑے جھٹکتے ہوئے پایا کہ انھیں جگہ جگہ سے کھونچے لگ چکے ہیں۔ کہیں کہیں جلد پھٹنے سے خون بھی ابھر آیا تھا۔ اپنے اطراف مجھے اونچی اونچی جھاڑیاں دکھائی دیں جو سوکھ کر سیاہ اور پر آزار ہوچکی تھیں۔ پتا نہیں انھیں کتنے عرصے سے پانی نہیں ملا تھااور یہ انسانی خون سے پیاس بجھانا چاہتی تھیں۔ اس سوکھی اور قحط کی ماری زمین پرمجھے کراہنے کی آواز آئی۔ انسانی آواز!میں آواز کی سمت لپکا تو پایا کہ ایک قریب المرگ بوڑھا چت پڑا ہے میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔ وہ اب بالکل خاموش تھا۔ شاید میرے کانوں میں اس کی آخری آہ پہنچی تھی۔ میں اس کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ میرے اٹھتے ہی دو تین افراد دوڑتے ہوئے اس طرف آئے۔ ان کے جسم سے تعفن کے بھپکے اٹھ ہے تھے اور بدن پر چندیاں جھول رہی تھیں اور ہاتھوں میں چھریاں تھیں۔ایک بچہ بھی تھا جس کے ہاتھ میں برتن تھا۔ انھوں نے میرے پاس پہنچ کر پوچھا، مرگیا؟ میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ وہ گندے دانتوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس کا گوشت کاٹنے لگے۔ میں بندِ سکوت توڑ کر چیخا، یہ کیا کر رہے ہو؟ بولے یہ ہمارا باپ تھا تمھیں ایک بوٹی نہیں ملے گی۔ بھاگ جاؤ۔ انسانی جسم کی تکریم اب مفروضہ تھی۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ انھوں نے اس کے مرنے کا انتظار کیا تھا۔ تبھی وہاں گرد باداٹھا اور میں اس سے بچتا بچاتا آگے بڑھنے لگا۔
تپتے ہوئے ریگستان میں ایک مقام پر کچھ افراد آتش روشن کیے بارش کے لیے کچھ رسمیں ادا کررہے تھے۔ مجھ میں اس مضحکہ خیز نظارے پر مسکرانے کی بھی تاب نہیں تھی۔
لگاتارچلتے رہنے کے باعث اب میرے جوتے گھسنے لگے تھے، اورزمین کی تپش مجھے اپنے تلووں میں محسوس ہورہی تھی۔ سر کی چادر پتا نہیں کب اڑ چکی تھی۔ ایک ٹیلہ عبور کرتے ہی بڑا سا ٹرک دکھائی دیا۔اس کے ٹایر زمین میں آدھے دھنسے ہوئے تھے۔ میں اس کی طرف بڑھا کہ دو گھڑی اس کے سایے میں دم ہی لے لوں، مگر قریب پہنچتے ہی دم بخود رہ گیا۔ اس کے نیچے دو مرد اغلام بازی میں مصروف تھے اور تین چار مرد اکڑوں بیٹھے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ اس جہنم میں انھیں یہ فعل سوجھ رہا ہے میں ورطہئ حیرت میں غوطے کھانے لگا۔تبھی ایک شخص پیالہ لیے اٹھا اور میں نے کریہہ منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے ایک جرعہئ آب مانگ لیا۔ اس پر وہ مجھے گالی دے کر بولا یہ میرا پیشاب ہے۔ تو اپنا پی۔ مجھ آتش زیر پانے اسے سنگ ِملامت مارا اور وہاں سے نکل گیا۔
میں چلتا رہا۔ مجھے بہر حال اپنی منزل تک پہنچنا تھا جس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ میرے حلق میں ببول کے کانٹے بڑھتے چلے تھے۔ آنکھیں سوکھ رہی تھیں اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میں گر پڑا۔ اس حالت میں پتا نہیں کتنی دیر پڑا رہا۔ جب ایک شخص نے مجھے سیدھا کیا تومیں بری طرح ڈر گیا۔ میں زندہ ہوں مجھے مت کھاؤ۔ میں گڑگڑایا۔ وہ بولا، ہم مہذب قوم ہیں، صرف جانور کھاتے ہیں۔ اس نے مجھے سہارے سے اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹی سی بستی ہے اور جگہ جگہ کسمپرسی کے شکار لوگ بین کررہے ہیں۔ میں بڑھنے لگا تو وہ ہمدرد بولا، مسافر!آگے کچھ نہیں ہے، صرف بنجر زمین ہے۔ میں نے بمشکل کہا کہ میں اپنے گھر سے اسی لیے تو نکلا ہوں کہ زمین پر کوئی شاداب خطہ تلاش کروں۔ اس نے میری شوریدہ سری پر زہر خندگی کے ساتھ کہا، ندیاں سوکھ چکی ہیں، کنویں اندھے پڑے ہیں اور بادل کھو گئے ہیں۔ میں نے کہا نہیں، کہیں تو تسکینِ جاں کا سامان ہوگا۔وہ بولا، ناممکن، اب انسانوں کو بے آبی سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ہے۔ اس شخص کے چشمہئ آرزو سے گریزاں ہونے پر مجھے افسوس ہوا۔ میں اس سے ہاتھ چھڑاکر سموم و ریگ کے صحرا میں آگے بڑھ گیا۔
جوتوں کے اندر تلووں میں چھالے آگئے تھے۔ میں نے جوتے اتار دیے اور آبلہ پائی کے ساتھ چلتا رہا۔
آتشِ بے دوٗد کے سائے میں چلتے چلتے اب میں خود ریگ ِصحرا کی طرح جل رہا تھا۔
تپتی ہوئی چٹانوں کو پار کرتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں بے جان ہوکر گرا اور دور تک گھسٹتا چلا گیا۔ میری پیشانی اور ناک سے خون بہنے لگاتھا۔ کروٹ لینے پر آسمان کی طرف نظر اٹھی تو پایا کہ گِدھوں کا غول پر تول رہا ہے۔ میں زندگی سے قطعی طور پر مایوس ہوگیااور اپنی حرماں نصیبی پر سسکنے لگا۔
اور تبھی ایک معجزہ ہوا...!
سامنے ایک نخل سرسبزو شاداب تبسم کناں تھا۔
واقعی……!! یا موت سے پہلے دماغ، خوابوں کو مجسم کررہا تھا؟ میں نے آنکھ بھر کر اسے دیکھا۔
نہیں یہ کوئی خواب نہیں تھا۔ یہ واقعی ایک پرکشش سبز ہا لہئ نور تھا۔ تراوشِ شبنم سے میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور میں کہنیوں کے بل اس کی طرف سرکنے لگا۔
بادِ خوش خرام اُس نخلِ سبز کا طواف کررہی تھی۔
خوش رنگ پرندے چہک رہے تھے۔
بے شمار رسیلی کھجوروں سے ایک اشتہا انگیز، شیریں مہک، ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
پوری دنیا خشک تھی اور صرف اسی پر بہار تھی، نہیں نہیں …… صرف اِسی سے بہار تھی۔ اور یہیں سے پوری دنیا کی خشک سالی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔
تو کیا اسی سبز مقناطیسیت نے مجھے گھر سے نکالا تھا! میں لرزتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا کہ ایک گنج شائیگاں سے میرا رشتہ استوار ہورہا تھا۔
اُف اِس کا سایہ کس قدر شفیق تھا...! مجھے خنکی محسوس ہوئی۔
درخت کے قریب پہنچتے ہی میں اٹھا اور دیوانہ وار اس سے لپٹ گیا۔ آہ، یہ کیسا سکون تھا……!!
میں نے اوپر دیکھا اور مدتوں سے میرا سوکھا منھ غیر ارادی طور پر کھل گیا۔ خشک ہونٹوں کے پھیلنے سے خون نکلنے لگا۔تبھی شبنم کا ایک قطرہ ڈھلکا اورمیری زبان میں جذب ہوگیا۔
اس ایک قطرے کے لمس سے میرا رؤاں رؤاں کھل اٹھا۔
جسم کی خشکی، شادابی میں بدلنے لگی۔
بدبو دار سانسیں، پُر مشک، بادِنو بہار ہو گئیں۔
ہونٹ برگِ گل بن کر مسکرانے لگے۔
مرہونِ نوازش آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری تھے اور میں، اُس نخلِ سبز کے نرم سائے میں سجدہ ریزہوگیا۔
Dr. Mohammad Yahya Jamil
Baitul Jalil-9, Aseer Colony, Post: VMV
At: Amravati - 444604
Maharashtra
India
مُسافِر
ڈاکٹرمحمد یحییٰ جمیل
زبان تا بوَد در دہاں جایگیر
ثناے محمد بوَد دل پذیر
(شیخ سعدی شیرازی)
میں اچانک جاگ گیا لیکن آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں اور سرگھوم رہا تھا۔باہر کتّوں کا زور زور سے بھونکنا جاری تھا۔ کچھ منٹوں بعد کسی طرح آنکھیں کھولیں اور ہاتھوں کے سہارے اٹھ کر جونہی کھڑکی کے پردے سرکائے، سورج کے تیر، آنکھوں میں دھنس گئے۔ میں آنکھیں بند کر کے تیزی سے پیچھے ہٹا اور نڈھال، دوبارہ پھٹے ہوئے صوفے پر جا پڑا۔ باہر چلچلاتی دھوپ تھی اور میرا قمیص گاڑھے پسینے سے چپچپارہا تھا۔ پتا نہیں،میں کتنے دنوں کا پیاساتھا اور بھوکا بھی۔ اب چاروں طرف سناٹا تھا۔ کتّے اپنا فرض ادا کرچکے تھے۔ لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد سر اٹھا نا چاہا تو پھر چکر آگیااور سر میں درد کی ایک تیزلہر دوڑ گئی۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ بال خشک اور بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ انگلیاں بمشکل گندے بالوں سے جدا ہوسکیں۔ پھر میں، بڑے بڑے مَیل بھرے ناخنوں سے پیٹھ کھجاکھجا کر ہانپنے لگا۔ سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیر کر سوچاکاش دو گھونٹ پانی مل جائے، مگر پانی نہیں تھا۔ سب کچھ برباد تھا۔پورا شہر، نہیں بلکہ پورا ملک، یا شاید پوری دنیا؛ پتا نہیں۔
میرے ذہن میں بچپن کی ہلکی ہلکی یادیں تھیں، ماں کی مسکراہٹ، اور اس کے ہونٹوں کا لمس۔ لیکن ماں کاچہرہ صاف نہیں ہورہا تھا۔ میں نے ذہن پر بہت زور ڈالا لیکن ہر بار دوسری ہی شکلیں بن جاتیں۔یہ کیا ماجرا تھا کہ میں اس کی ممتا تو محسوس کررہا تھا لیکن اس کے چہرے کو بھول چکا تھا۔ اپنی لاچاری پر میں رونے لگا، لیکن آنکھ سے آنسو نہیں نکل سکے۔ کچھ پتلا کیچ گوشہ ہاے چشم میں بڑھ گیا اور ناک گیلی ہوگئی۔ میں نے ناک کھینچی، آنکھیں صاف کیں اور گھر سے نکلنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اس سے پہلے کئی مرتبہ گھر سے نکل کر کوئی بہتر ٹھکانہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ہر بار قدم ڈھیلے پڑ جاتے اور ہمت جواب دے جاتی۔ لیکن اب بہت ہوا، مجھے یہاں سے بہر حال نکلنا تھا۔مجھے امید تھی کہ کہیں نہ کہیں چشمہئ آب ضرورہو گا۔ میں جھٹکے سے اٹھا اور سب سے پہلے جوتے پہن لیے۔ اس کے تسمے باندھتے ہوئے میں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی بیگ مل جائے۔ گھر کا پورا سامان گرد میں اٹا ہوا اور بکھرا ہوا تھا۔ دیواروں کا پلاسٹر جگہ جگہ سے ادھڑ چکا تھااور مکڑی کے بڑے بڑے جالے تنے ہوئے تھے۔ تسمے باندھ کر سیدھا کھڑا ہوتے ہی الماری کے اوپر ایک بیگ نظر آگیا۔ میں نے لپک کر بیگ کھینچاتو اس میں سے ایک ٹیڈی بیئر باہر گر پڑا۔ یہ کس کا تھا؟ میرا؟ یا میرے بچے کا؟ تو کیا میرا بچہ بھی تھا؟ اور بیوی؟ مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔ میں نے اسے اٹھایا اور سینے سے لگالیا۔ لمحہ بھر سکون محسوس ہوا جیسے کسی نے مدتوں بعد مجھے اپنے سینے سے لگا لیا ہولیکن پھر وہی بے کلی شروع ہوگئی۔ میں نے اسے الماری کے اندررکھ دیا۔ اور ایک جوڑی کپڑے، ایک پستول اور پانی کی خالی کین بیگ میں ڈال کر اسے پیٹھ پر لٹکالیا۔صوفے پر پڑی ایک چھوٹی سی چادرکھینچ کر سر پر اوڑھی اور باہر نکل گیا۔ آتش افگن خورشید، نصف النہار پر تھا۔
چاروں طرف کھنڈر تھے اور راستے پر دھول اڑرہی تھی۔ میرا شہر ایسا نہیں تھا۔ پھر کیسا تھا؟ پتا نہیں لیکن، شایداس سے بہتر ہوگا۔ میں نے دروازہ مقفل کیا، پھر سوچا کیا اس کی ضرورت ہے؟ اس گھر میں کیا ہے جسے محفوظ رکھنا ضروری ہے؟ اور کیا میں دوبارہ اس گھر میں واپس بھی آؤں گا؟ لیکن اگر گھر کھلا رہا تو اس میں جانور گھس جائیں گے اور خراب کردیں گے۔ مگر اس وقت بھی یہ کون سا اچھا ہے؟ اُس طرح کم از کم کسی کے لیے پناہ گاہ تو بن سکتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے دروازہ کھول دیا اور چل پڑا۔ حریمِ نگاہ تک ہر منظر اداس تھا۔اب کس سمت جانا چاہیے؟ راحتوں کے آبشارکس طرف ہیں؟ کن علاقوں میں شجر آباد ہیں؟ کون جانے؟
میں چلتا رہا، لگاتار، بغیر رکے۔ عمارتیں سیاہ پڑ چکی تھیں۔ دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ بیشتر کھڑکیاں شیشوں سے عاری دکھائی دیں۔ ایک عمارت کے پاس سے گذرتے ہوئے مجھے اس میں بھیڑیے کی شبیہ محسوس ہوئی مگر یہ کتابھی ہوسکتا تھا۔ اس بے کراں، مہیب شہر میں بے شمار کتّے گھومتے تھے۔ میں تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ راستے پر جگہ جگہ کاریں اور دوسری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں نے چلتے ہوئے چند کاروں کو کھولنے کی کوشش کی لیکن سب مقفل تھیں۔بنی آدم کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا۔ شاید خستہئ آزار اپنے اپنے گھروں میں دبکے پڑے ہوں یا مر چکے ہوں۔ کسے خبر؟ کچھ دیر چلتے رہنے کے بعد احساس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے ہے،پلٹ کردیکھا تو پایا کہ تقریباً پچاس فیٹ کے فاصلہ پرچند کتے مجھے گھور رہے تھے۔ ’بیٹا کتّوں کو دیکھ کر بھاگنا نہیں چاہیے۔‘ ذہن کے کسی گوشے سے پاپا کی آواز آئی۔ مگر یہ کتے نہیں تھے یہ تو بھیڑیے تھے۔ میں وہیں ٹھہر گیا۔ بھیڑیے آگے بڑھنے لگے۔ میں نے پستول نکال لی۔ جب وہ ذرا قریب ہوگئے تو میں نے فایر کردیا۔ ایک بھیڑیا اچھل کر گرپڑا، دوسرے بھیڑیے فوراً بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ بھیڑیے ہی تھے یا کتے، پتا نہیں میں تیزی سے مخالف سمت دوڑ گیا۔ جب سانس پھولنے لگی تو اپنی رفتار کم کرلی۔پیاس سے گلا سوکھ رہا تھا۔ اس وقت میں سبز پتے یا گھاس ہی چبالیتا لیکن ہر طرف بے برگ، جھلسے ہوئے درخت تھے۔ کیا کرتا؟ چلتے چلتے زور سے ٹھوکر لگی اور میں لمحہ بھر میں زمین پر آرہا۔ دھول کا ایک مرغولہ اٹھا اور منھ میں خاک بھر گئی۔ میں مٹی تھوکتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ کپڑے جھٹکتے ہوئے پایا کہ انھیں جگہ جگہ سے کھونچے لگ چکے ہیں۔ کہیں کہیں جلد پھٹنے سے خون بھی ابھر آیا تھا۔ اپنے اطراف مجھے اونچی اونچی جھاڑیاں دکھائی دیں جو سوکھ کر سیاہ اور پر آزار ہوچکی تھیں۔ پتا نہیں انھیں کتنے عرصے سے پانی نہیں ملا تھااور یہ انسانی خون سے پیاس بجھانا چاہتی تھیں۔ اس سوکھی اور قحط کی ماری زمین پرمجھے کراہنے کی آواز آئی۔ انسانی آواز!میں آواز کی سمت لپکا تو پایا کہ ایک قریب المرگ بوڑھا چت پڑا ہے میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔ وہ اب بالکل خاموش تھا۔ شاید میرے کانوں میں اس کی آخری آہ پہنچی تھی۔ میں اس کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ میرے اٹھتے ہی دو تین افراد دوڑتے ہوئے اس طرف آئے۔ ان کے جسم سے تعفن کے بھپکے اٹھ ہے تھے اور بدن پر چندیاں جھول رہی تھیں اور ہاتھوں میں چھریاں تھیں۔ایک بچہ بھی تھا جس کے ہاتھ میں برتن تھا۔ انھوں نے میرے پاس پہنچ کر پوچھا، مرگیا؟ میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ وہ گندے دانتوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس کا گوشت کاٹنے لگے۔ میں بندِ سکوت توڑ کر چیخا، یہ کیا کر رہے ہو؟ بولے یہ ہمارا باپ تھا تمھیں ایک بوٹی نہیں ملے گی۔ بھاگ جاؤ۔ انسانی جسم کی تکریم اب مفروضہ تھی۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ انھوں نے اس کے مرنے کا انتظار کیا تھا۔ تبھی وہاں گرد باداٹھا اور میں اس سے بچتا بچاتا آگے بڑھنے لگا۔
تپتے ہوئے ریگستان میں ایک مقام پر کچھ افراد آتش روشن کیے بارش کے لیے کچھ رسمیں ادا کررہے تھے۔ مجھ میں اس مضحکہ خیز نظارے پر مسکرانے کی بھی تاب نہیں تھی۔
لگاتارچلتے رہنے کے باعث اب میرے جوتے گھسنے لگے تھے، اورزمین کی تپش مجھے اپنے تلووں میں محسوس ہورہی تھی۔ سر کی چادر پتا نہیں کب اڑ چکی تھی۔ ایک ٹیلہ عبور کرتے ہی بڑا سا ٹرک دکھائی دیا۔اس کے ٹایر زمین میں آدھے دھنسے ہوئے تھے۔ میں اس کی طرف بڑھا کہ دو گھڑی اس کے سایے میں دم ہی لے لوں، مگر قریب پہنچتے ہی دم بخود رہ گیا۔ اس کے نیچے دو مرد اغلام بازی میں مصروف تھے اور تین چار مرد اکڑوں بیٹھے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ اس جہنم میں انھیں یہ فعل سوجھ رہا ہے میں ورطہئ حیرت میں غوطے کھانے لگا۔تبھی ایک شخص پیالہ لیے اٹھا اور میں نے کریہہ منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے ایک جرعہئ آب مانگ لیا۔ اس پر وہ مجھے گالی دے کر بولا یہ میرا پیشاب ہے۔ تو اپنا پی۔ مجھ آتش زیر پانے اسے سنگ ِملامت مارا اور وہاں سے نکل گیا۔
میں چلتا رہا۔ مجھے بہر حال اپنی منزل تک پہنچنا تھا جس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ میرے حلق میں ببول کے کانٹے بڑھتے چلے تھے۔ آنکھیں سوکھ رہی تھیں اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میں گر پڑا۔ اس حالت میں پتا نہیں کتنی دیر پڑا رہا۔ جب ایک شخص نے مجھے سیدھا کیا تومیں بری طرح ڈر گیا۔ میں زندہ ہوں مجھے مت کھاؤ۔ میں گڑگڑایا۔ وہ بولا، ہم مہذب قوم ہیں، صرف جانور کھاتے ہیں۔ اس نے مجھے سہارے سے اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹی سی بستی ہے اور جگہ جگہ کسمپرسی کے شکار لوگ بین کررہے ہیں۔ میں بڑھنے لگا تو وہ ہمدرد بولا، مسافر!آگے کچھ نہیں ہے، صرف بنجر زمین ہے۔ میں نے بمشکل کہا کہ میں اپنے گھر سے اسی لیے تو نکلا ہوں کہ زمین پر کوئی شاداب خطہ تلاش کروں۔ اس نے میری شوریدہ سری پر زہر خندگی کے ساتھ کہا، ندیاں سوکھ چکی ہیں، کنویں اندھے پڑے ہیں اور بادل کھو گئے ہیں۔ میں نے کہا نہیں، کہیں تو تسکینِ جاں کا سامان ہوگا۔وہ بولا، ناممکن، اب انسانوں کو بے آبی سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ہے۔ اس شخص کے چشمہئ آرزو سے گریزاں ہونے پر مجھے افسوس ہوا۔ میں اس سے ہاتھ چھڑاکر سموم و ریگ کے صحرا میں آگے بڑھ گیا۔
جوتوں کے اندر تلووں میں چھالے آگئے تھے۔ میں نے جوتے اتار دیے اور آبلہ پائی کے ساتھ چلتا رہا۔
آتشِ بے دوٗد کے سائے میں چلتے چلتے اب میں خود ریگ ِصحرا کی طرح جل رہا تھا۔
تپتی ہوئی چٹانوں کو پار کرتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں بے جان ہوکر گرا اور دور تک گھسٹتا چلا گیا۔ میری پیشانی اور ناک سے خون بہنے لگاتھا۔ کروٹ لینے پر آسمان کی طرف نظر اٹھی تو پایا کہ گِدھوں کا غول پر تول رہا ہے۔ میں زندگی سے قطعی طور پر مایوس ہوگیااور اپنی حرماں نصیبی پر سسکنے لگا۔
اور تبھی ایک معجزہ ہوا...!
سامنے ایک نخل سرسبزو شاداب تبسم کناں تھا۔
واقعی……!! یا موت سے پہلے دماغ، خوابوں کو مجسم کررہا تھا؟ میں نے آنکھ بھر کر اسے دیکھا۔
نہیں یہ کوئی خواب نہیں تھا۔ یہ واقعی ایک پرکشش سبز ہا لہئ نور تھا۔ تراوشِ شبنم سے میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور میں کہنیوں کے بل اس کی طرف سرکنے لگا۔
بادِ خوش خرام اُس نخلِ سبز کا طواف کررہی تھی۔
خوش رنگ پرندے چہک رہے تھے۔
بے شمار رسیلی کھجوروں سے ایک اشتہا انگیز، شیریں مہک، ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
پوری دنیا خشک تھی اور صرف اسی پر بہار تھی، نہیں نہیں …… صرف اِسی سے بہار تھی۔ اور یہیں سے پوری دنیا کی خشک سالی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔
تو کیا اسی سبز مقناطیسیت نے مجھے گھر سے نکالا تھا! میں لرزتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا کہ ایک گنج شائیگاں سے میرا رشتہ استوار ہورہا تھا۔
اُف اِس کا سایہ کس قدر شفیق تھا...! مجھے خنکی محسوس ہوئی۔
درخت کے قریب پہنچتے ہی میں اٹھا اور دیوانہ وار اس سے لپٹ گیا۔ آہ، یہ کیسا سکون تھا……!!
میں نے اوپر دیکھا اور مدتوں سے میرا سوکھا منھ غیر ارادی طور پر کھل گیا۔ خشک ہونٹوں کے پھیلنے سے خون نکلنے لگا۔تبھی شبنم کا ایک قطرہ ڈھلکا اورمیری زبان میں جذب ہوگیا۔
اس ایک قطرے کے لمس سے میرا رؤاں رؤاں کھل اٹھا۔
جسم کی خشکی، شادابی میں بدلنے لگی۔
بدبو دار سانسیں، پُر مشک، بادِنو بہار ہو گئیں۔
ہونٹ برگِ گل بن کر مسکرانے لگے۔
مرہونِ نوازش آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری تھے اور میں، اُس نخلِ سبز کے نرم سائے میں سجدہ ریزہوگیا۔
Dr. Mohammad Yahya Jamil
Baitul Jalil-9, Aseer Colony, Post: VMV
At: Amravati - 444604
Maharashtra
India