نظمیں: مریم مجید ڈار

نظمیں: مریم مجید ڈار

Mar 31, 2021

دو نظمیں

مصنف

مریم مجید ڈار

شمارہ

شمارہ - ١٣


مریم مجید ڈار کی نظمیں

"فن کا وسترہرن"

آئیے! صاحبان علم و ہنر

!فن کے بازار میں

!"بازار" میں فاحشاوں کی مانند بدہیتی سے غازہ ملے، سینہ تانے ہوئے نظم ایستادہ ہے

نظم جس کے گلے میں لٹکی ہوئی ایک تختی پہ لکھا ہوا ہے "برائے فروخت"

اور تختی کی رسی کو تھامے ہوئے آدمی سے بھلا کون واقف نہیں؟

!"آپ نظموں کے آقا، لفظوں کے ساحر، غزلوں کے وشنو وغیرہ وغیرہ

یہ کیٹس و شیلے ، یہ میر و اسد بھلا ان کے آگے کیا بیچتے ہیں؟

پوری کی پوری جواں ہوتی نظمیں و غزلیں

بستر فن پہ ان کی روپہلی سی نتھنی اتاری گئی تو "برائے فروخت" ہوئیں

!رونق بازار، برتی ہوئی، میلی کچیلی، پہنی اتاری ہوئی نظم جس کے دریدہ خدوخال سے صاحب فن کے "علم و ہنر" کی سڑانڈ اٹھتی ہے

! جیسے دانتوں کے ریخوں میں باسی مچھلی کے ریشے

!شراب کہن اور لعاب دہن کی غلاظت سے بدرو کے گارے میں ڈھل جاتے ہیں

اور اسی گار سے  جنم لیتی ہوئی فاحشہ نظم برتے ہوئے جسم پر  اپنے آقا کے وستر لپیٹے ہوئے رونق بازار علم و ہنر بنتی ہے

فن کے کوٹھے پہ واہ واہ کی تک دھن دھنادھن پہ گھنگھرو بجاتی ہوئی

ناچتی اور سب کو نچاتی ہوئی

سر پہ رکھے ہوئے جام سب اس کا ننگا بدن دیکھتے ہیں

!!! سخن آشنا فن کا وستر ہرن دیکھتے ہیں  

۔۔۔۔۔

کھڑکیوں پہ دستکیں

کھڑکیوں پہ دستکوں نے کتنے نام لکھ دئیے

ہاتھ کے نشان! جیسے دوغلی نسل کے پھول!

شاعروں کے، حاکموں کے، تاجروں کے، جابروں کے دستخط!

دستخط ! جو کھڑکیوں کی اوٹ میں حنوط مہ جبیں کے قلب میں چھپی ہوئی حیات ڈھونڈتے رہے۔

کھوجتے ، ٹٹولتے رہے مگر نہ پا سکے

کہ مہ جبیں کی دھڑکنیں تو   آہنی، سیاہ فام اک غلام کے تیشے کی ضرب ہی سے جاگتیں

سو کھڑکیوں پہ دستخط

دوغلی نسل کے پھول

شاعروں کے، حاکموں کے، تاجروں کے، جابروں کے

ہاتھ کے نشان

منجمد ہو گئے

وقت ریت ہو گیا، دھول سنگ بن گئی

کوچہ حبیب میں وہ کھڑکیاں نہیں کھلیں

سنگی زینے عاشقان مہ جبیں کی سسکیوں کی چاپ بھولتے گئے

زرد ریت رفتہ رفتہ چوکھٹوں سے بڑھتی بڑھتی کھڑکیوں تک آ گئی

اور ایک دن ڈبیہ میں قید وقت کی نیند پوری ہو گئی

غلام تک صدا گئی

ریت گنگنا اٹھی

دستخط، نشان پھول

ریت، سنگ، زرد دھول

کھڑکیاں، سسکیاں

وقت کے بہاو میں

عدم سے جانب وجود گھومنے لگے

بروج جھومنے لگے

مہ جبیں کے قلب میں جو تخم تھا حیات کا، وہ شجر میں ڈھل گیا

!آسماں بدل گیا

تیشہ عشق کی چوٹ کیا پڑی کہ کائنات ہل گئی

دستخط، نشان، پھول

ریت، سنگ، زرد دھول

مہ جبیں کی دھڑکنیں تھیں منتظر!!

اک صدی کے بعد کوچہ حبیب کی وہ بند کھڑکیاں کھلیں

!غلام نے حنوط مہ جبیں کو دوش پر اٹھا لیا

"عجائب خانہ مصر کی گمشدہ قدیم لاش مجھ کو مل گئی

والی شہر مجھے  اچھے دام دے دے تو

کچھ انعام دے دے تو

نیل کے عروج کی قسم مجھے

میں "را" کے آسماں میں لوٹنے سے قبل ہی نتیفرہ کا ہاتھ جیت لاوں گا"

غلام نے کوچہ حبیب کی کھڑکیاں پھلانگتے ہوئے کہا

مہ جبیں کے قلب میں حیات کا شجر خاک ہو گیا

شہر آرزو کا دیکھتے ہی دیکھتے راکھ ہو گیا

دستخط، نشان پھول

آہٹیں ، سسکیاں

پگھل گئیں

کھڑکیاں کھلی رہیں!

!!ہوا سر پٹخ پٹخ کے چیختی رہی مگر

کھڑکیاں کھلی رہیں۔

مریم مجید ڈار


مریم مجید ڈار کی نظمیں

"فن کا وسترہرن"

آئیے! صاحبان علم و ہنر

!فن کے بازار میں

!"بازار" میں فاحشاوں کی مانند بدہیتی سے غازہ ملے، سینہ تانے ہوئے نظم ایستادہ ہے

نظم جس کے گلے میں لٹکی ہوئی ایک تختی پہ لکھا ہوا ہے "برائے فروخت"

اور تختی کی رسی کو تھامے ہوئے آدمی سے بھلا کون واقف نہیں؟

!"آپ نظموں کے آقا، لفظوں کے ساحر، غزلوں کے وشنو وغیرہ وغیرہ

یہ کیٹس و شیلے ، یہ میر و اسد بھلا ان کے آگے کیا بیچتے ہیں؟

پوری کی پوری جواں ہوتی نظمیں و غزلیں

بستر فن پہ ان کی روپہلی سی نتھنی اتاری گئی تو "برائے فروخت" ہوئیں

!رونق بازار، برتی ہوئی، میلی کچیلی، پہنی اتاری ہوئی نظم جس کے دریدہ خدوخال سے صاحب فن کے "علم و ہنر" کی سڑانڈ اٹھتی ہے

! جیسے دانتوں کے ریخوں میں باسی مچھلی کے ریشے

!شراب کہن اور لعاب دہن کی غلاظت سے بدرو کے گارے میں ڈھل جاتے ہیں

اور اسی گار سے  جنم لیتی ہوئی فاحشہ نظم برتے ہوئے جسم پر  اپنے آقا کے وستر لپیٹے ہوئے رونق بازار علم و ہنر بنتی ہے

فن کے کوٹھے پہ واہ واہ کی تک دھن دھنادھن پہ گھنگھرو بجاتی ہوئی

ناچتی اور سب کو نچاتی ہوئی

سر پہ رکھے ہوئے جام سب اس کا ننگا بدن دیکھتے ہیں

!!! سخن آشنا فن کا وستر ہرن دیکھتے ہیں  

۔۔۔۔۔

کھڑکیوں پہ دستکیں

کھڑکیوں پہ دستکوں نے کتنے نام لکھ دئیے

ہاتھ کے نشان! جیسے دوغلی نسل کے پھول!

شاعروں کے، حاکموں کے، تاجروں کے، جابروں کے دستخط!

دستخط ! جو کھڑکیوں کی اوٹ میں حنوط مہ جبیں کے قلب میں چھپی ہوئی حیات ڈھونڈتے رہے۔

کھوجتے ، ٹٹولتے رہے مگر نہ پا سکے

کہ مہ جبیں کی دھڑکنیں تو   آہنی، سیاہ فام اک غلام کے تیشے کی ضرب ہی سے جاگتیں

سو کھڑکیوں پہ دستخط

دوغلی نسل کے پھول

شاعروں کے، حاکموں کے، تاجروں کے، جابروں کے

ہاتھ کے نشان

منجمد ہو گئے

وقت ریت ہو گیا، دھول سنگ بن گئی

کوچہ حبیب میں وہ کھڑکیاں نہیں کھلیں

سنگی زینے عاشقان مہ جبیں کی سسکیوں کی چاپ بھولتے گئے

زرد ریت رفتہ رفتہ چوکھٹوں سے بڑھتی بڑھتی کھڑکیوں تک آ گئی

اور ایک دن ڈبیہ میں قید وقت کی نیند پوری ہو گئی

غلام تک صدا گئی

ریت گنگنا اٹھی

دستخط، نشان پھول

ریت، سنگ، زرد دھول

کھڑکیاں، سسکیاں

وقت کے بہاو میں

عدم سے جانب وجود گھومنے لگے

بروج جھومنے لگے

مہ جبیں کے قلب میں جو تخم تھا حیات کا، وہ شجر میں ڈھل گیا

!آسماں بدل گیا

تیشہ عشق کی چوٹ کیا پڑی کہ کائنات ہل گئی

دستخط، نشان، پھول

ریت، سنگ، زرد دھول

مہ جبیں کی دھڑکنیں تھیں منتظر!!

اک صدی کے بعد کوچہ حبیب کی وہ بند کھڑکیاں کھلیں

!غلام نے حنوط مہ جبیں کو دوش پر اٹھا لیا

"عجائب خانہ مصر کی گمشدہ قدیم لاش مجھ کو مل گئی

والی شہر مجھے  اچھے دام دے دے تو

کچھ انعام دے دے تو

نیل کے عروج کی قسم مجھے

میں "را" کے آسماں میں لوٹنے سے قبل ہی نتیفرہ کا ہاتھ جیت لاوں گا"

غلام نے کوچہ حبیب کی کھڑکیاں پھلانگتے ہوئے کہا

مہ جبیں کے قلب میں حیات کا شجر خاک ہو گیا

شہر آرزو کا دیکھتے ہی دیکھتے راکھ ہو گیا

دستخط، نشان پھول

آہٹیں ، سسکیاں

پگھل گئیں

کھڑکیاں کھلی رہیں!

!!ہوا سر پٹخ پٹخ کے چیختی رہی مگر

کھڑکیاں کھلی رہیں۔

مریم مجید ڈار

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024

خریدیں

رابطہ

مدیران دیدبان

مندرجات

شمارہ جات

PRIVACY POLICY

Terms & Conditions

Cancellation and Refund

Shipping and exchange

All Rights Reserved © 2024