مریم مجید ڈار کی نطمیں
مریم مجید ڈار کی نطمیں
Mar 29, 2020
بہت منفرد انداز کی نظمیں
مریم مجید ڈار کی نظمیں
مریخ زادوں کو خبر پہنچے!
زنان زہرہ کی خواب گاہوں میں کھلنے والے ضیا کے دفتر سمٹ رہے ہیں
کہ ان کے رحموں میں سبز رنگت کی زندگی کو جگانے والا کوئی نہیں ہے۔
وہ زہرہ زادی جو نوری سالوں کی اک صدی سے حمل کی چاہ میں پگھل رہی ہے، وہ منتظر ہے کہ کوئی آئے
اور اس کی سوکھے شکم میں اپنی بقا کے خلیوں کا سحر پھونکے
تو اس کے سینے سے روشنی کا وجود پھوٹے
اور اس سیارے پہ بسنے والوں کے بادشاہ کا جنم ہو ممکن
مگر پروہت یہ کہہ چکے ہیں
کہ زہرہ زادوں کی ناف نیچے جو زندگی کا ہرا شجر تھا وہ کٹ چکا ہے
وہ شب کا دریا نمو کے خلیوں کو لانے والا، پلٹ چکا ہے
کہ زنان زہرہ کی کھیتیوں میں اب اس سیارے کا کوئی باسی نہ پل سکے گا
تو مریخ زادوں کو خبر پہنچے کہ زہرہ زادے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے پیڑوں کو کاٹ بیٹھے
تو کوئی آئے مریخ زادہ
جو زندگی کے سنہرے چھلے اپنے نیلے بدن پہ ٹانکے
زہرہ زادی کے جوف سینہ سے بقا کی ٹھنڈی نہر نکالے
چاند جنمیں ، ستارے بکھریں ، کہکشائیں بھی حاملہ ہوں
کہ زندگی کو چلائے کوئی۔
زہرہ زادوں کا بادشاہ ہو، بھلے وہ اہل مریخ ہی ہو!
"بوجھ بجھاری"
لال گگن میں نیلا تارہ
اور گلابی کرنیں تھیں۔۔
اس تارے کے اک کونے پر
پیلے پھول کی بند پتیوں میں۔۔
خاک کا قالب سویا تھا
جانے کتنی صدیوں سے وہ
ایک امر کے نہ ہونے سے
قرنوں قرنوں رویا تھا۔۔
بند پتیوں کی قبر کے بھیتر۔۔۔
سات سروں نے شور مچا کر۔
اس قالب کو چیر دیا تھا
پھر کچھ اور زمانے بیتے ۔
اس قالب کے دو حصوں نے ۔۔۔
اک دن اپنی آنکھیں کھولیں۔۔
اک دوجے کو یوں دیکھا، حیران ہوئے، پھر جان گئے!
اور قرنوں کے اس سنگم پر۔۔
پیلے پھول کی بند پتیوں نے۔۔
ہاتھ اٹھا انگڑائی لی اور دھوپ کا اس پل جنم ہوا۔۔
ایک سویرا یوں نکلا کہ ایک اندھیرا ختم ہوا۔۔
دونوں قالب آگے پیچھے، روتے گاتے کھیل رہے تھے
نیلا تارہ ان قرنوں میں
سبز پھلوں سے بھر جاتا تھا۔۔۔
نارنجی دریا میں اترے اک دونوں بھول بھٹک کر۔
اور نہ جانے کیا بیتی کہ ۔۔
فلک کا پردہ چاک ہوا۔۔
ایک سیاہ سائے نے اپنے ۔۔
پر پھیلا کر ۔۔
سارے رنگ فنا کر ڈالے۔۔
قالب سہمے!!
روئے کانپے۔۔۔!!
بھاگے دوڑے!!
پر قید ہوئے!!
سائے نے ان کو اپنے کالے ہاتھ میں بھینچ لیا تھا
ان کے تن سے نور کا پردہ۔۔
ایک ہی پل میں کھینچ لیا تھا۔۔
دونوں خود سے شرماتے تھے
دونوں خود سے گھبراتے تھے۔۔۔
وہ قالب جو ایک تھے لیکن!!
اک دوجے سے کتراتے تھے۔
ان کو یوں لاچار جو دیکھا!!
سبز پھلوں کی ان بیلوں نے
اپنے پتے دان کئیے اور راحت کے سامان کئیے۔۔۔
لیکن سایہ قابض تھا اور اس کی سازش گہری تھی
ان دونوں کو وہاں لے آیا
جہاں پہ زردی ٹھہری تھی۔۔
اب کیا ہو گا؟؟کیا ہونا تھا؟؟
تارے کا آخری وہ کونا تھا
اس نے کونا توڑ دیا اور خلا میں ان کو چھوڑ دیا۔۔
دونوں روئے، سہمے قالب
اک دوجے سے لپٹ لپٹ کر۔۔
نیچے نیچے گرتے گئے۔۔۔۔
تارے گزرے، سورج گزرے،
اندھیرے اوقات گئے
گھاس پہ گر کے ٹوٹ گئے وہ۔۔
جانے کس کے ساتھ گئے؟
سورج جاگا، چڑیا چہکی!
پھول نے اک انگڑائی لی۔۔
کالی بلی گھر سے نکلی!!!
ان دونوں کو چاٹ گئی!!!
مریم مجید
۔۔۔۔
"تو اس نے کہا یہ جام دیکھ"
مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ
یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی
موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی
اور چاندنی بھی اس طرح گندھی ہوئی کہ بام پر ندی کوئی چڑھی ہوئی!
ندی بھی گویا حلب کی مٹھاس میں رچی ہوئی
کہ جیسے تیرے یونٹ کی کلی کلی عرق سے لدی ہوئی
تو دیکھ پھر یہ جام تیرے ہونٹ پر لدے ہوئے عرق کا رقیب ہے
تو دیکھ پھر یہ شام جس کی چاندنی میں تو میرے قریب ہے
اور دیکھ خیمہ گاہ میں چراغ ہے بجھا ہوا
بجھا ہوا کہ تیری روشنی کی تاب سے ڈرا ہوا
وہ دیکھ کمخواب کا بچھونا کچھ جلا ہوا
کہ تیری ساق عنبریں سے جھلس کے وہ پڑا ہوا۔۔۔
یہ دشت کی عروس گاہ جو تیرے واسطے ذمانے بھر کے آذروں نے مل کے ہے گھڑی ہوئی
اسی عروس گاہ میں پلنگ تلے سیاہ پوش نعش اک دھری ہوئی
کسی جری نے سیم کے پہاڑ سے پرے کہیں
تیرے نام سے جو ایک ندی بہائی تھی
اور اس ندی میں چوب صندلیں کے چوکھٹے میں قید ایک جل پری کی آنکھ سے بنے ہوئے نگینے میں جو شام بھجوائی تھی
وہ حبش کے سیاہ فام زنگیوں کے ہاتھ میں جو تھال تھے
ان میں زر کے ڈھیر سے وہ جام اٹھا
جو مئے ارغوان سے بھرا ہوا
بام پر چڑھی ہوئی ندی سے تو وہ شام اٹھا
پیرہن کی ڈوریوں سے ہجر کی وہ گرہ کھول
گرہ کھول اور جام میں بھری ہوئی
بام پر چڑھی ہوئی ندی میں میرے ساتھ آ!!
ساتھ آ کہ اس ندی کے دوسرے سرے پہ جو نشست ہے
ہمارا باب اولیں ہے، خلد ہے بہشت ہے۔۔۔۔
مریم مجید ڈار
۔۔۔۔۔
مریم مجید ڈار کی نظمیں
مریخ زادوں کو خبر پہنچے!
زنان زہرہ کی خواب گاہوں میں کھلنے والے ضیا کے دفتر سمٹ رہے ہیں
کہ ان کے رحموں میں سبز رنگت کی زندگی کو جگانے والا کوئی نہیں ہے۔
وہ زہرہ زادی جو نوری سالوں کی اک صدی سے حمل کی چاہ میں پگھل رہی ہے، وہ منتظر ہے کہ کوئی آئے
اور اس کی سوکھے شکم میں اپنی بقا کے خلیوں کا سحر پھونکے
تو اس کے سینے سے روشنی کا وجود پھوٹے
اور اس سیارے پہ بسنے والوں کے بادشاہ کا جنم ہو ممکن
مگر پروہت یہ کہہ چکے ہیں
کہ زہرہ زادوں کی ناف نیچے جو زندگی کا ہرا شجر تھا وہ کٹ چکا ہے
وہ شب کا دریا نمو کے خلیوں کو لانے والا، پلٹ چکا ہے
کہ زنان زہرہ کی کھیتیوں میں اب اس سیارے کا کوئی باسی نہ پل سکے گا
تو مریخ زادوں کو خبر پہنچے کہ زہرہ زادے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے پیڑوں کو کاٹ بیٹھے
تو کوئی آئے مریخ زادہ
جو زندگی کے سنہرے چھلے اپنے نیلے بدن پہ ٹانکے
زہرہ زادی کے جوف سینہ سے بقا کی ٹھنڈی نہر نکالے
چاند جنمیں ، ستارے بکھریں ، کہکشائیں بھی حاملہ ہوں
کہ زندگی کو چلائے کوئی۔
زہرہ زادوں کا بادشاہ ہو، بھلے وہ اہل مریخ ہی ہو!
"بوجھ بجھاری"
لال گگن میں نیلا تارہ
اور گلابی کرنیں تھیں۔۔
اس تارے کے اک کونے پر
پیلے پھول کی بند پتیوں میں۔۔
خاک کا قالب سویا تھا
جانے کتنی صدیوں سے وہ
ایک امر کے نہ ہونے سے
قرنوں قرنوں رویا تھا۔۔
بند پتیوں کی قبر کے بھیتر۔۔۔
سات سروں نے شور مچا کر۔
اس قالب کو چیر دیا تھا
پھر کچھ اور زمانے بیتے ۔
اس قالب کے دو حصوں نے ۔۔۔
اک دن اپنی آنکھیں کھولیں۔۔
اک دوجے کو یوں دیکھا، حیران ہوئے، پھر جان گئے!
اور قرنوں کے اس سنگم پر۔۔
پیلے پھول کی بند پتیوں نے۔۔
ہاتھ اٹھا انگڑائی لی اور دھوپ کا اس پل جنم ہوا۔۔
ایک سویرا یوں نکلا کہ ایک اندھیرا ختم ہوا۔۔
دونوں قالب آگے پیچھے، روتے گاتے کھیل رہے تھے
نیلا تارہ ان قرنوں میں
سبز پھلوں سے بھر جاتا تھا۔۔۔
نارنجی دریا میں اترے اک دونوں بھول بھٹک کر۔
اور نہ جانے کیا بیتی کہ ۔۔
فلک کا پردہ چاک ہوا۔۔
ایک سیاہ سائے نے اپنے ۔۔
پر پھیلا کر ۔۔
سارے رنگ فنا کر ڈالے۔۔
قالب سہمے!!
روئے کانپے۔۔۔!!
بھاگے دوڑے!!
پر قید ہوئے!!
سائے نے ان کو اپنے کالے ہاتھ میں بھینچ لیا تھا
ان کے تن سے نور کا پردہ۔۔
ایک ہی پل میں کھینچ لیا تھا۔۔
دونوں خود سے شرماتے تھے
دونوں خود سے گھبراتے تھے۔۔۔
وہ قالب جو ایک تھے لیکن!!
اک دوجے سے کتراتے تھے۔
ان کو یوں لاچار جو دیکھا!!
سبز پھلوں کی ان بیلوں نے
اپنے پتے دان کئیے اور راحت کے سامان کئیے۔۔۔
لیکن سایہ قابض تھا اور اس کی سازش گہری تھی
ان دونوں کو وہاں لے آیا
جہاں پہ زردی ٹھہری تھی۔۔
اب کیا ہو گا؟؟کیا ہونا تھا؟؟
تارے کا آخری وہ کونا تھا
اس نے کونا توڑ دیا اور خلا میں ان کو چھوڑ دیا۔۔
دونوں روئے، سہمے قالب
اک دوجے سے لپٹ لپٹ کر۔۔
نیچے نیچے گرتے گئے۔۔۔۔
تارے گزرے، سورج گزرے،
اندھیرے اوقات گئے
گھاس پہ گر کے ٹوٹ گئے وہ۔۔
جانے کس کے ساتھ گئے؟
سورج جاگا، چڑیا چہکی!
پھول نے اک انگڑائی لی۔۔
کالی بلی گھر سے نکلی!!!
ان دونوں کو چاٹ گئی!!!
مریم مجید
۔۔۔۔
"تو اس نے کہا یہ جام دیکھ"
مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ
یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی
موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی
اور چاندنی بھی اس طرح گندھی ہوئی کہ بام پر ندی کوئی چڑھی ہوئی!
ندی بھی گویا حلب کی مٹھاس میں رچی ہوئی
کہ جیسے تیرے یونٹ کی کلی کلی عرق سے لدی ہوئی
تو دیکھ پھر یہ جام تیرے ہونٹ پر لدے ہوئے عرق کا رقیب ہے
تو دیکھ پھر یہ شام جس کی چاندنی میں تو میرے قریب ہے
اور دیکھ خیمہ گاہ میں چراغ ہے بجھا ہوا
بجھا ہوا کہ تیری روشنی کی تاب سے ڈرا ہوا
وہ دیکھ کمخواب کا بچھونا کچھ جلا ہوا
کہ تیری ساق عنبریں سے جھلس کے وہ پڑا ہوا۔۔۔
یہ دشت کی عروس گاہ جو تیرے واسطے ذمانے بھر کے آذروں نے مل کے ہے گھڑی ہوئی
اسی عروس گاہ میں پلنگ تلے سیاہ پوش نعش اک دھری ہوئی
کسی جری نے سیم کے پہاڑ سے پرے کہیں
تیرے نام سے جو ایک ندی بہائی تھی
اور اس ندی میں چوب صندلیں کے چوکھٹے میں قید ایک جل پری کی آنکھ سے بنے ہوئے نگینے میں جو شام بھجوائی تھی
وہ حبش کے سیاہ فام زنگیوں کے ہاتھ میں جو تھال تھے
ان میں زر کے ڈھیر سے وہ جام اٹھا
جو مئے ارغوان سے بھرا ہوا
بام پر چڑھی ہوئی ندی سے تو وہ شام اٹھا
پیرہن کی ڈوریوں سے ہجر کی وہ گرہ کھول
گرہ کھول اور جام میں بھری ہوئی
بام پر چڑھی ہوئی ندی میں میرے ساتھ آ!!
ساتھ آ کہ اس ندی کے دوسرے سرے پہ جو نشست ہے
ہمارا باب اولیں ہے، خلد ہے بہشت ہے۔۔۔۔
مریم مجید ڈار
۔۔۔۔۔