ساسا دو تہذیبوں کے اختلافات اور انسانی محبت کی داستان
ساسا دو تہذیبوں کے اختلافات اور انسانی محبت کی داستان
Feb 8, 2019
وہ ساسا کی موت پر نہیں رویا تھا
محمد تیمور
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
ساسا
ڈاکٹر محمد شیراز دستی صاحب کا ناول عکس پبلی کیشنز لاہور نے شاہع کیا ہے ساسا، ایک پرندے کے نام پر رکھا گیا ہے یہ ڈیرہ اسماعیل خان کے نوجوان سلیم اور منزہ کی کہانی ہے سلیم کی محبت کی تلاش ہے وہ محبت کا آغاز اپنے گاؤں سے کرتا ہے اور اس کا اختتام بھی گاوں میں ہی ہوتا ہے وہ محبت کی تلاش میں سات سمندر پار چلا جاتا ہے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اس کی ملاقات اینا اور جینی سے ہوتی ہے سلیم کو پہلے اینا سے اور بعد میں جینی سے پیار ہو جاتا ہے اینا اپنے دوست یش سے پیار کرتی ہے جو کہ ہندوستانی ہے اس بات پر سلیم کو بہت غصہ اتا ہے اور وہ یش سے نفرت کرتا ہے اور وہ اینا کو چھوڑ کر جینی سے محبت کرتا ہے جینی بھی سلیم سے محبت کرتی ہے جینی نے ایک پرندہ ساسا اپنے پاس رکھا ہوا ہے جس کی وہ انسانوں کی طرح دیکھ بھال کرتی ہے بیماری کی صورت میں ہسپتال میں اس کا علاج کرواتی ہے ایک دن بوسٹن کے میراتھن ریس میں دھماکے ہوتے ہیں. ان دھماکوں میں جینی کا بوائے فرینڈ ڈیو بھی وہاں موجود ہوتا ہے وہ ان دھماکوں سے گھبرا جاتا ہے جب جینی کو اس بات کا پتہ چلتاہے تو وہ فورا اس کے پاس جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے ان دھما۔
صفحہ نمبر165 اپنے ملک اور بم کا ذکر تو میں نے کوئی پہلی بار نہیں سنا تھا مگر بوسٹن کے میراتھن میں بم کا ہونا بہت مہلک تھا میرے ملک لاکھوں لوگ آج بھی یہ دعا کرتے ہیں کہ خدایا یہاں جتنے دھماکے بھی ہونے ہیں ہو جائیں امریکہ کے تمام ٹاوروں کو، چوکوں کو، سینما کو گھروں کو،اور گلیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ امریکہ میں دھماکے کا ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہو خراج ہماری دنیا کو ادا کرنا پڑتا ہے .
یہ ناول سیلم اور منزہ کے گرد گھومتا ہے ساسا میں مغرب کی مادہ پرستی جاگیردارنہ نطام کی خرابیاں مشرقی فرقہ واریت سرمایہ داری کا غلبہ، طاقتور اقوام کی کمزور ملکوں پر یلغار، نائن الیون کے بعد پاکستان پر اثرات جنگ کی ہولناکیوں ۔غربت ان مسائل کو بہت خوبصورت انداز سے پیان کیا ہے. دو تہذیبوں کے فرق سے مصنف شدید متاثر ہے جس کو مصنف کچھ اس طرح بیان کرتا ہے. صفہ نمبر 149 اس روز مجھے اس تفاوت نے رلایا ۔ساسا، کی موت والے دن میرے سامنے دو دنیاؤں کا بھیا نک فرق اس قدر کھل کر سامنے آیا کہ میں ایسے آنسوں سنھبال نہیں پایا یہ رونا جذبات کا نہیں رضیات کا تھا مجھے تقسیم کی تلوار کے گھائل کیا. جس لمحے تیسری دنیا کے ہزاروں بچے بے گور وکفن اپنے حشرات الارض کے انتظار میں گل رہے ہیں اس وقت میں آپ کی دنیا کے ایک پرندے کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تاکہ بعد از مرگ سردی سے محفوظ رہے. معاف کیجئے گا میں ساسا کی موت پر کبھی نہیں رویا نہ ہی اپنے ان بچوں کی موت پر جن کے جسم کے زیر اثر روئی کے ریشوں کی مانند ہوا میں بکھرے تو پھر کبھی نہ جڑ پائے میں تو نصیب پر رویا تھا۔
ناول کی منظر کشی بہت عمدہ ہے ہر کردار اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے زبان وبیان کے لحاظ سے بہت خوبصورت ناول ہے قدم قدم پر زبان و بیان میں ادیبانہ مہارت موجود ہے دلچسپ اتناہے کہ پڑھتے وقت قاری اکتاہٹ کا شکار بالکل نہیں ہوتا ناول قاری کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے یہ موجودہ صدی کے ناولوں میں عمدہ اضافہ ہے۔
محمد تیمور
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
ساسا
ڈاکٹر محمد شیراز دستی صاحب کا ناول عکس پبلی کیشنز لاہور نے شاہع کیا ہے ساسا، ایک پرندے کے نام پر رکھا گیا ہے یہ ڈیرہ اسماعیل خان کے نوجوان سلیم اور منزہ کی کہانی ہے سلیم کی محبت کی تلاش ہے وہ محبت کا آغاز اپنے گاؤں سے کرتا ہے اور اس کا اختتام بھی گاوں میں ہی ہوتا ہے وہ محبت کی تلاش میں سات سمندر پار چلا جاتا ہے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اس کی ملاقات اینا اور جینی سے ہوتی ہے سلیم کو پہلے اینا سے اور بعد میں جینی سے پیار ہو جاتا ہے اینا اپنے دوست یش سے پیار کرتی ہے جو کہ ہندوستانی ہے اس بات پر سلیم کو بہت غصہ اتا ہے اور وہ یش سے نفرت کرتا ہے اور وہ اینا کو چھوڑ کر جینی سے محبت کرتا ہے جینی بھی سلیم سے محبت کرتی ہے جینی نے ایک پرندہ ساسا اپنے پاس رکھا ہوا ہے جس کی وہ انسانوں کی طرح دیکھ بھال کرتی ہے بیماری کی صورت میں ہسپتال میں اس کا علاج کرواتی ہے ایک دن بوسٹن کے میراتھن ریس میں دھماکے ہوتے ہیں. ان دھماکوں میں جینی کا بوائے فرینڈ ڈیو بھی وہاں موجود ہوتا ہے وہ ان دھماکوں سے گھبرا جاتا ہے جب جینی کو اس بات کا پتہ چلتاہے تو وہ فورا اس کے پاس جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے ان دھما۔
صفحہ نمبر165 اپنے ملک اور بم کا ذکر تو میں نے کوئی پہلی بار نہیں سنا تھا مگر بوسٹن کے میراتھن میں بم کا ہونا بہت مہلک تھا میرے ملک لاکھوں لوگ آج بھی یہ دعا کرتے ہیں کہ خدایا یہاں جتنے دھماکے بھی ہونے ہیں ہو جائیں امریکہ کے تمام ٹاوروں کو، چوکوں کو، سینما کو گھروں کو،اور گلیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ امریکہ میں دھماکے کا ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہو خراج ہماری دنیا کو ادا کرنا پڑتا ہے .
یہ ناول سیلم اور منزہ کے گرد گھومتا ہے ساسا میں مغرب کی مادہ پرستی جاگیردارنہ نطام کی خرابیاں مشرقی فرقہ واریت سرمایہ داری کا غلبہ، طاقتور اقوام کی کمزور ملکوں پر یلغار، نائن الیون کے بعد پاکستان پر اثرات جنگ کی ہولناکیوں ۔غربت ان مسائل کو بہت خوبصورت انداز سے پیان کیا ہے. دو تہذیبوں کے فرق سے مصنف شدید متاثر ہے جس کو مصنف کچھ اس طرح بیان کرتا ہے. صفہ نمبر 149 اس روز مجھے اس تفاوت نے رلایا ۔ساسا، کی موت والے دن میرے سامنے دو دنیاؤں کا بھیا نک فرق اس قدر کھل کر سامنے آیا کہ میں ایسے آنسوں سنھبال نہیں پایا یہ رونا جذبات کا نہیں رضیات کا تھا مجھے تقسیم کی تلوار کے گھائل کیا. جس لمحے تیسری دنیا کے ہزاروں بچے بے گور وکفن اپنے حشرات الارض کے انتظار میں گل رہے ہیں اس وقت میں آپ کی دنیا کے ایک پرندے کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تاکہ بعد از مرگ سردی سے محفوظ رہے. معاف کیجئے گا میں ساسا کی موت پر کبھی نہیں رویا نہ ہی اپنے ان بچوں کی موت پر جن کے جسم کے زیر اثر روئی کے ریشوں کی مانند ہوا میں بکھرے تو پھر کبھی نہ جڑ پائے میں تو نصیب پر رویا تھا۔
ناول کی منظر کشی بہت عمدہ ہے ہر کردار اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے زبان وبیان کے لحاظ سے بہت خوبصورت ناول ہے قدم قدم پر زبان و بیان میں ادیبانہ مہارت موجود ہے دلچسپ اتناہے کہ پڑھتے وقت قاری اکتاہٹ کا شکار بالکل نہیں ہوتا ناول قاری کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے یہ موجودہ صدی کے ناولوں میں عمدہ اضافہ ہے۔